فنانس ایکٹ اور لیبر پالیسی کے خلاف چیمبرز سراپا احتجاج، 19 جولائی کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) ملک کی کاروباری برادری نے فنانس ایکٹ 2026 اور مجوزہ صوبائی لیبر پالیسی میں شامل کاروبار مخالف اقدامات پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے 19 جولائی کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کر دیا ہے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر کے مطابق، پاکستان کے بڑے تجارتی چیمبرز نے جمعرات کے روز اعلان کیا ہے کہ وہ 19 جولائی کو ملک گیر ہڑتال کریں گے تاکہ فنانس ایکٹ 2026 اور مجوزہ صوبائی لیبر پالیسیوں میں شامل کاروبار دشمن اقدامات کے خلاف احتجاج کیا جا سکے۔
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) نے بتایا کہ یہ ہڑتال ملک بھر کی نمایاں تجارتی تنظیموں اور چیمبرز کے تعاون سے کی جا رہی ہے۔
کے سی سی آئی کے صدر محمد جاوید بلوانی نے کہا کہ یہ فیصلہ چیمبرز، ایسوسی ایشنز اور کاروباری برادری سے وسیع مشاورت کے بعد کیا گیا، جنہوں نے بڑھتی ہوئی ہراسانی اور من مانی کارروائیوں پر تشویش ظاہر کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف کے سی سی آئی کا احتجاج نہیں بلکہ پوری کاروباری برادری کا مشترکہ قومی مؤقف ہے۔
بلوانی نے بجٹ میں شامل چند متنازع اقدامات کی نشاندہی کی، جن میں نقد لین دین پر 2 لاکھ روپے کی حد، سیلز ٹیکس ایکٹ کی شق 37A کے تحت گرفتاری کے اختیارات اور ڈیجیٹل انوائسنگ و ای بلنگ کا لازمی نفاذ شامل ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ یہ اقدامات غیر عملی، غیر منصفانہ ہیں اور کاروبار کو مزید غیر رسمی معیشت کی طرف دھکیل دیں گے۔
بلوانی کا کہنا تھا کہ یہ اقدامات مشاورت کے بغیر نافذ کیے گئے، جس سے تاجروں، چھوٹے کاروباروں اور صنعتکاروں میں خوف پھیل گیا ہے۔
کے سی سی آئی کے زیادہ تر ارکان نے ہڑتال کی حمایت کی ہے، جب کہ ملک بھر کی بڑی مارکیٹ ایسوسی ایشنز نے بھی مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ احتجاج پرامن اور قانونی ہوگا، لیکن حکومت کے ٹیکس رویے پر بڑھتی ہوئی ناراضی کا ایک واضح پیغام ہوگا۔
بلوانی نے ان اقدامات کی فوری واپسی اور کاروباری برادری کے ساتھ بامعنی مشاورت کے ذریعے قابلِ عمل اصلاحات کا مطالبہ کیا۔
لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایل سی سی آئی) نے بھی 19 جولائی کی ہڑتال میں شرکت کا اعلان کیا۔
چیمبر نے خاص طور پر شق 37A، بینک ٹرانزیکشنز پر اضافی ٹیکس اور پنجاب کی مجوزہ لیبر پالیسی کو کاروبار دشمن قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔
ایل سی سی آئی کے صدر میاں ابوذَر شاد، سینئر نائب صدر انجینئر خالد عثمان اور دیگر عہدیداروں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ نئے اقدامات کاروبار کو تباہ، بیروزگاری میں اضافہ اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو ختم کر دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہ صرف ایک چیمبر یا شہر کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ 25 کروڑ عوام کی روزی روٹی کا مسئلہ ہے۔
میاں ابوذَر شاد نے 2 لاکھ روپے کی ٹرانزیکشن حد کو غیر منطقی قرار دیا اور انکشاف کیا کہ 21 ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان چھوڑ چکی ہیں کیونکہ کاروباری ماحول مسلسل خراب ہو رہا ہے۔
انہوں نے حکومت کی مالی ترجیحات پر بھی سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ آزاد بجلی پیدا کرنے والوں کو 1 کھرب روپے سے زائد کی ادائیگی کی گئی، جب کہ بجلی پیدا نہیں کی گئی۔
انہوں نے اسے صنعتکاروں کے ساتھ ناانصافی قرار دیا۔
میاں شاد نے کہا کہ شق 37A ایف بی آر حکام کو تاجروں کی گرفتاری کا اختیار دیتی ہے، جو کہ دنیا بھر میں نایاب ہے۔
سینئر نائب صدر خالد عثمان نے کہا کہ حکومت نے کاروباری برادری کی ریڈ لائنز کراس کر لی ہیں اور خبردار کیا کہ اگر ان غیر منصفانہ پالیسیوں سے کاروبار بند ہوئے تو معاشی بدحالی بڑھے گی۔
ایگزیکٹو کمیٹی کے رکن خرم لودھی نے سرکاری افسران کے آڈٹ اور ان کی مراعات و غیر واضح اثاثوں پر سوال اٹھائے۔
آمنہ رندھاوا نے کہا کہ ان پالیسیوں نے خواتین کاروباری افراد کی حوصلہ شکنی کی ہے اور یہ ایک منظم ہراسانی کے مترادف ہیں۔
ایل سی سی آئی نے پنجاب کی مجوزہ لیبر پالیسی پر بھی شدید تحفظات کا اظہار کیا، جو کہ 300 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے، اس میں شامل شقوں میں گریجویٹی کے لیے ملازمین کی حد کو 50 سے گھٹا کر 20 کرنا اور زبانی شکایت پر گرفتاری کی اجازت دینا شامل ہے۔
شاد نے خبردار کیا کہ اگر یہ پالیسی موجودہ شکل میں منظور ہو گئی تو بڑے پیمانے پر صنعتی بندش ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ فنانس ایکٹ 2026 سمیت حالیہ پالیسی فیصلے ایسے لگتے ہیں جیسے جان بوجھ کر سرمایہ کاروں کے اعتماد کو تباہ اور معاشی سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لیے کیے گئے ہوں۔
انہوں نے متعدد کرپشن کیسز کی طرف بھی اشارہ کیا، جن میں 80 ارب روپے کا سولر پینل اوور انوائسنگ اسکینڈل، 565 ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈ اسکینڈلز اور روزانہ 4 ارب روپے کی کرپشن کے تخمینے شامل ہیں۔
کے سی سی آئی اور ایل سی سی آئی دونوں نے متنبہ کیا ہے کہ اگر حکومت نے کاروباری برادری کے تحفظات کو دور نہ کیا تو ہڑتال کا دائرہ مزید وسیع ہو سکتا ہے۔
اداکارہ حمیرااصغر کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آ گئی
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
پڑھیں:
کویت؛ اقامہ اور لیبر قوانین کی خلاف ورزی پر 6300 غیرملکیوں کو ملک بدر کردیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کویت نے دوماہ کے دوران اقامہ اور لیبر قوانین کی خلاف ورزیوں پر 6300 غیرملکیوں کو ملک بدر کردیا۔
عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق کویت کی وزارت داخلہ نے مئی اور جون 2025 کے دوران تقریباً 6300 تارکین وطن کو ملک بدر کیا ہے، ملک بدری رہائش اور لیبر کے ضوابط کو نافذ کرنے کے لیے جاری مہم کا حصہ بتائی گئی ہے۔
ملک بدر کیے گئے بہت سے افراد کو مختلف داخلی شعبوں نے محکمہ کے حوالے کیا تھا اور بعض صورتوں میں وہ عدالتی فیصلوں کے تابع تھے۔
رپورٹ کے مطابق محکمہ جلاوطنی کے طریقہ کار کو تیز کرنے کے لیے پرعزم ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ قیدیوں کو ان کی عارضی حراست کے دوران انسانی دیکھ بھال اور ضروری خدمات حاصل ہوں۔
ملک بھر میں فیلڈ یونٹس غیر قانونی طور پر ملک میں مقیم یا کام کرنے والے تارکین وطن کو نشانہ بنانے کے لیے حفاظتی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گرفتار افراد کے خلاف کارروائی کر کے مزید کارروائی کے لیے متعلقہ حکام کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ نے لیبر مارکیٹ کو منظم کرنے اور امیگریشن قوانین کو برقرار رکھنے کی وسیع تر کوششوں کے ساتھ حالیہ مہینوں میں نفاذ کو تیز کیا ہے۔