معاشی بحالی اجتماعی ذمہ داری، صرف تنخواہ دار طبقہ پر بوجھ نہیں ڈال سکتے: وزیر خزانہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وفاقی وزیرِ خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان کی معاشی بحالی میں ہر شعبے کو کردار ادا کرنا ہوگا، پاکستان کی معاشی بحالی اجتماعی ذمہ داری کا تقاضا کرتی ہے ہم یہ بوجھ صرف رسمی شعبے اور تنخواہ دار طبقے پر نہیں ڈال سکتے۔ وزارت خزانہ کے مطابق انہوں نے ان خیالات کا اظہار پاکستان ایسوسی ایشن آف لارج سٹیل پروڈیوسر(پی اے ایل ایس پی) کے پیٹرن ان چیف عباس اکبر علی کی قیادت میں ملاقات کیلئے آئے ہوئے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ملاقات میں وفد نے سٹیل انڈسٹری کو درپیش توانائی کی بلند لاگت، ریگولیٹری تضادات، اور دیرپا سرمایہ کاری کے لیے مستحکم پالیسی ماحول جیسے اہم مسائل کے بارے میں آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہاسٹیل سیکٹر ملک میں بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور روزگار کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور یقین دلایا کہ ان کے نکات کو بجٹ سے متعلقہ اجلاسوں اور پالیسی مشاورت میں شامل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ معیشت کے استحکام اور ترقی کے لیے ہر شعبے کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ حکومت ایک جامع حکمتِ عملی کے تحت ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے، زیادہ ٹیکس شدہ طبقات پر انحصار کم کرنے، اور غیر دستاویزی معیشت کو رسمی دائرے میں لانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ وزیر خزانہ سے عبدالرحمٰن طلعت کی سربراہی میں آل پاکستان سیرامک ٹائلز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے وفد نے ملاقات کی۔ اس موقع پر محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ حکومت توانائی کی قیمتوں کو قابل اعتماد اور قابل استاطعت ( affordability، reliability) اور موثر قیمتوں کے تعین کے لیے اصلاحاتی اقدامات کر رہی ہے جبکہ حکومت ریگولیٹری طریقہ کار کو سادہ بنانے، تعمیل کی لاگت کم کرنے، اور پالیسی میں استحکام لانے کے لیے سٹیک ہولڈرز سے مسلسل مشاورت کر رہی ہے۔ وزیرِ خزانہ نے یقین دہانی کرائی کہ توانائی کے شعبے میںاصلاحات حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہیں اور حکومت affordability، reliability، اور موثر قیمتوں کے تعین کے لیے اصلاحاتی اقدامات کر رہی ہے۔ ease of doing business کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حکومت ریگولیٹری طریقہ کار کو سادہ بنانے، تعمیل کی لاگت کم کرنے اور پالیسی میں استحکام لانے کے لیے سٹیک ہولڈرز سے مسلسل مشاورت کر رہی ہے۔ وزیرِ خزانہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مالی توازن اور معیشت میں انصاف کو فروغ دینے کے لیے ٹیکس نیٹ کا دائرہ بڑھانا ناگزیر ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق اجلاس میں چھوٹے کسانوں کو بغیر ضمانت رسمی قرض کی فراہمی سے متعلق ٹاسک فورس کی پیش رفت اور سفارشات پر بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں پاکستان کے مالیاتی شعبے کے سینئر نمائندگان، کمرشل بنکوں، ترقیاتی مالیاتی اداروں (ڈی ایف آئیز)، ریگولیٹرز اور ترقیاتی شعبے کے ماہرین نے شرکت کی، جو ٹاسک فورس کا مرکزی حصہ ہیں۔ ٹاسک فورس نے اجلاس میں ایک نیا سکور کارڈ پیش کیا، جس میں زرعی عوامل کا تناسب 40 فیصد سے بڑھا کر 60 فیصد کیا گیا ہے، جبکہ مالیاتی اشاریوں کا تناسب 40 فیصد برقرار رکھا گیا ہے تاکہ اس ماڈل کو چھوٹے کسانوں کی حقیقی ضروریات کے مطابق ڈھالا جا سکے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مویشی اور ڈیری کے شعبے کے لیے ایک الگ، ٹیکنالوجی سے معاون ماڈل بھی فوری طور پر تیار کیا جائے، ہمیں ایک ایسا ڈیجیٹل ماڈل تشکیل دینا ہو گا جو سہولت، شمولیت اور آسانی کو ترجیح دے اور پاکستان کے زرعی منظرنامے میں حقیقی بہتری لائے۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی زیرصدارت اجلاس ہوا۔ پاکستان کو ’’ڈیجیٹل کم نقدی‘‘ پر مبنی معیشت میں منتقل کرنے کے اقدامات پر غور کیا۔ ریٹیل‘ سروسز‘ سرکاری لین دین میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کی آسان سہولت پر زور دیا۔ اعلامیہ کے مطابق شرکاء نے ڈیجیٹل مالیاتی خدمات تک رسائی بڑھانے پر اتفاق ہوا۔ ڈیجیٹل لین دین کو فروغ دینے‘ معاشی سرگرمیوں میں نقدی پر انحصار کم کرنے پر زور دیا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: کر رہی ہے کے مطابق انہوں نے کہ حکومت زور دیا کے لیے
پڑھیں:
سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
سیلاب اور شدید بارشوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کو کیا ہم محض قدرت کی آفات کے طور پر قبول کرلیں یا ہمیں ان تباہ کاریوں پر حکمران طبقات کی صلاحیتوں کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ ان معاملات میں ان کا کتنا قصور ہے۔
حکمران اور طاقت ور طبقات ہمیشہ سے ہی ان تباہ کاریوں کو قدرت کے نام پر ڈال کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کرکے اپنی نااہلی اور بدعنوانی سمیت صلاحیتوں کی کمی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔شدید بارشیں اور سیلاب کا آنا فطری امر ہوتا ہے اور اس کو روکنا ممکن نہیں ہوتا مگر ان معاملات میں پیدا ہونے والے بگاڑ سے نمٹنا اور نمٹنے کی صلاحیت کو پیدا کرنا ہی حکومتی نظام کا اصل چیلنج ہوتا ہے۔
ہر دفعہ حکومت کی سطح پر یہ ہی جواب ہوتا ہے کہ ہم نے اس بار سیلاب کی تباہ کاریوں سے بہت سبق حاصل کیا ہے اور ان غلطیوں کو اگلی بار نہیں دہرایا جائے گا۔لیکن ہر بار پہلے والی غلطیوں کو نہ صرف دہرایا جاتا ہے بلکہ پہلے سے موجود غلطیوں کو اور زیادہ بدنما انداز سے دہرایا جاتا ہے ۔
یعنی سبق یہ ہے کہ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا اور ان معاملات سے نمٹنے میں ہماری پالیسی ایک ردعمل کی پالیسی ہے۔ اس عمل میں ہمیں ان حالات سے نمٹنے کا کوئی مستقل خاکہ نظر نہیں آتا اور ایسے لگتا ہے کہ ہمارے پاس کوئی لانگ ٹرم ،مڈٹرم اور شارٹ ٹرم خاکہ یا منصوبہ موجود نہیں ہے۔
ماضی میں 2022کے سیلاب کے نتیجے میں حکمران طبقات نے بہت سے منصوبوں کی کہانی پیش کی تھی اور اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ عالمی امداد یا مالیاتی اداروں کی معاونت سے بہت سے ایسے منصوبے شروع کریں گے جو مستقبل میں ان آفات سے نمٹنے میں بڑی مدد دے سکیں گے۔
لیکن حکمرانوں کے منصوبے ،دعوے اور خوش نما خواب محض سیاسی نعرے ہی ثابت ہوئے اور عملی طور پر ہم کسی قسم کے ایسے منصوبے تیار نہیں کرسکے جو ہمیں ان حالات سے نمٹنے میں مدد دے سکتے تھے ۔
وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب نے برملا اعتراف کیا کہ ہم مجموعی طور پر 2022 کے سیلاب کے بعد کوئی ایسے منصوبے نہیں تیار کرسکے جو ہماری ضرورت بنتے تھے۔2025میں جو شدید بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریاں ہمیں دیکھنے کو مل رہی ہیں اور یہ تباہ کاریاں آج بھی بدستور جاری ہیں وہ حکومت کی نااہلیوں کو نمایاں کرتی ہے۔
اب تک 60لاکھ سے زیادہ افراد حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہوئے ہیں اور یہ تعداد مزید بڑھ بھی سکتی ہے۔ ایک طرف سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں متاثرین کے لیے فوری ریلیف ہوتا ہے جو ان کی بنیادی ضرورت اور جان ومال کو بچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے ۔
کیونکہ پاکستان میں شفافیت پر مبنی گورننس کا نظام ہمیشہ سے خرابیوں کی مختلف نشاندہی کرتا ہے جس کی وجہ سے سیاسی ،انتظامی اور مالی سطح پر ہمیں شفافیت اور اعلیٰ اور بروقت صلاحیتوں کا فقدان دیکھنے کو ملتا ہے ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ مجموعی طور پر جو بھی سیلاب کے متاثرین ہیں وہ حکومت اور انتظامیہ کی کارکردگی سے نالاں ہوتے ہیں اور ان کے بقول ہمارا زیادہ نقصان قدرت کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمرانوں کی غلط حکمت عملیوں اور عدم شفافیت کے نظام کی وجہ سے ہوتا ہے۔
لوگوں کے گھر ہی نہیں بلکہ ان کی زمینیں اور عملی طور پر زراعت سے جڑا ان کا کاروبار بھی شدید متاثر ہوتا ہے ۔ان کی جمع شدہ پونجی بھی برباد ہوجاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو دوبارہ کھڑے ہونے کے لیے ریاست ،حکومت اور نجی شعبے کے محتاج ہوجاتے ہیں ۔
سیلاب کی تباہ کاریوں کی یہ کہانی نئی نہیں ہے بلکہ یہ وہی پرانی کہانی ہے جو کئی صدیوں سے ہمارے نظام کے ساتھ چل رہی ہیں اور جو لوگ بھی حکومتی یا انتظامی سطح پر ذمے داران ہوتے ہیں وہی گھوم پھر کر ہر حکومت یا انتظامی ڈھانچوں کا حصہ ہوتے ہیں اور ان سے کوئی پوچھنے کے لیے تیار نہیں کہ آپ کی نااہلی سے جو مسائل پیدا ہوئے اس کا حساب کون دے گا ۔
کیونکہ حکومتی نظام میں ایک ایسا مضبوط گٹھ جوڑ ہے جو ہماری بڑی ناکامیوں کی بنیاد ہے۔عالمی مالیاتی اداروں میں بھی یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ یہاں پر کرپشن اور نااہلی کا کھیل نمایاں ہے اور اسی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے بھی ہماری مدد سے پیچھے ہٹ رہے ہیں ۔