اسرائیل نے جنگ بندی کے باوجود غزہ کے بڑے حصے پر قبضے کے لیے بے رحمانہ فوجی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس پر نیتن یاہو کے حامی بھی بول پڑے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یورپی یونین نے غزہ پر جاری اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ تازہ فوجی کارروائیوں نے تمام حدیں پار کرلی ہیں۔

یورپی یونین کے ایک اعلیٰ سفارتکار کایا کالاس نے مزید کہا کہ حماس سے لڑنے کے لیے جتنی فوجی طاقت اور کارروائیاں درکار ہیں۔ اسرائیل اس سے تجاوز کر رہا ہے۔

یورپی یونین کے سفارتکار کایا کالاس نے امریکا اور اسرائیل کے حمایت یافتہ نئے امدادی نظام پر بھی تنقید کی جو اقوام متحدہ اور دیگر انسانی امدادی تنظیموں کو نظرانداز کرکے امداد تقسیم کرتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ہم انسانی امداد کی نجکاری کی حمایت نہیں کرتے۔ انسانی امداد کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ غزہ میں لوگوں کی تکلیف ناقابل برداشت ہو چکی ہے۔

کایا کالاس نے اس بات کا بھی عندیہ دیا کہ وہ 23 جون کو برسلز میں ہونے والے یورپی وزرائے خارجہ کے اجلاس میں "متبادل آپشنز" پیش کریں گی۔

یورپی یونین کے سفارت کار کایا کالاس نے مزید کہا کہ یورپی یونین غزہ کو سب سے زیادہ امداد فراہم کرنے والوں میں شامل ہے لیکن اسرائیلی ناکہ بندی کے باعث یہ امداد فلسطینی عوام تک نہیں پہنچ رہی۔

اسی طرح یورپی کمیشن کی صدر اورسولا وان ڈیر لیئن نے بھی غزہ کے رہائشی عمارتوں اور اسپتالوں پر اسرائیلی حملوں کو قابل نفرت اور غیر متناسب قرار دیا ہے۔

یاد رہے کہ یورپی یونین کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب صیہونی ریاست کے زبردست حامی ملک جرمنی نے بھی اسرائیل کو پہلی بار کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

جرمنی کے نئے چانسلر فریڈرک مرز نے کہا تھا کہ مجھے اب اسرائیل کے جنگی مقاصد سمجھ نہیں آ رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر شہری آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جسے کسی طرح جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔

اس سے قبل برطانیہ بھی غزہ پر اسرائیل کے تازہ حملوں کی مذمت کرتے ہوئے صیہونی ریاست کے ساتھ اپنے تجارتی مذاکرات کو معطل کرچکا ہے۔

برطانیہ کے ساتھ ہی فرانس اور کینیڈا نے بھی اسرائیل کی غزہ پر بلاجواز وحشیانہ بمباری کو حد سے تجاوز قرار دیا تھا۔

جنگ بندی کے باوجود وحشیانہ بمباری میں اتنے بڑے پیمانے پر معصوم شہریوں کی جانی اور مالی نقصان پر اسرائیل کے حامی ممالک بھی مذمت پر مجبور ہوگئے ہیں۔

خیال رہے کہ غزہ میں مارچ میں جنگ کے دوبارہ آغاز کے بعد سے اب تک اسرائیلی حملوں میں 3 ہزار 924 فلسطینی شہید ہوگئے جن میں اکثریت معصوم شہریوں کی ہے۔

واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا جس میں 1500 اسرائیلی ہلاک ہوگئے تھے جب کہ 251 کو یرغمال بناکر غزہ لایا گیا تھا۔

جس کے بعد سے غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری جاری ہیں جن میں 55 ہزار سے زائد بچے، خواتین، بزرگ اور جوان شہید ہوچکے ہیں جب کہ ڈیڑھ لاکھ کے قریب زخمی ہیں۔

غزہ میں حماس کی قیادت کو بھی ختم کردیا گیا جب کہ لبنان اور شام سے مدد کرنے والی حزب اللہ کے رہنماؤں کو بھی قتل کیا گیا۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: یورپی یونین اسرائیل کے پر اسرائیل

پڑھیں:

فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی ویڈیو کیوں لیک کی؟ اسرائیل نے فوجی افسر کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا

اسرائیلی فوج کی چیف لیگل افسر میجر جنرل یفات تومر یروشلمی نے اس وقت استعفیٰ دے دیا جب ان کے خلاف ایک ویڈیو لیک کی تحقیقات شروع ہوئیں جس میں اسرائیلی فوجیوں کو ایک فلسطینی قیدی پر بدترین تشدد کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

تومر یروشلمی نے اپنے استعفے میں کہا کہ انہوں نے اگست 2024 میں اس ویڈیو کے افشا کی اجازت دی تھی۔ اس ویڈیو سے متعلق تحقیقات کے نتیجے میں 5 فوجیوں پر مجرمانہ الزامات عائد کیے گئے، جس پر ملک بھر میں شدید ردِعمل دیکھنے میں آیا۔ دائیں بازو کے سیاست دانوں نے تحقیقات کی مذمت کی اور مظاہرین نے دو فوجی اڈوں پر دھاوا بول دیا۔

یہ بھی پڑھیے: اسرائیل نے 30 فلسطینی قیدیوں کی لاشیں واپس کردیں، بعض پر تشدد کے واضح آثار

واقعے کے ایک ہفتے بعد، ایک سیکیورٹی کیمرے کی ویڈیو اسرائیلی چینل این12 نیوز پر لیک ہوئی جس میں فوجیوں کو ایک قیدی کو الگ لے جا کر اس کے اردگرد جمع ہوتے دکھایا گیا، جبکہ وہ ایک کتے کو قابو میں رکھے ہوئے اور اپنی ڈھالوں سے منظر کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے۔

وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے بدھ کو تصدیق کی کہ ویڈیو لیک سے متعلق فوجداری تحقیقات جاری ہیں اور تومر یروشلمی کو جبری رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔

تومر یروشلمی نے اپنے دفاع میں کہا کہ انہوں نے یہ اقدام فوج کے قانونی محکمے کے خلاف پھیلنے والے پراپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا، جو قانون کی بالادستی کے تحفظ کی ذمہ داری ادا کر رہا تھا مگر جنگ کے دوران شدید تنقید کی زد میں تھا۔

یہ بھی پڑھیے: امریکا میں فلسطینیوں کی حمایت میں احتجاج کرنے والی خاتون پر پولیس کا تشدد

ویڈیو سدے تیمن حراستی کیمپ کی تھی، جہاں 7 اکتوبر 2023 کے حملے میں شریک حماس کے جنگجوؤں سمیت بعد میں گرفتار کیے گئے فلسطینی قیدی رکھے گئے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس دوران فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی سنگین رپورٹس دی ہیں۔

ان کے استعفے پر سیاسی ردِعمل فوری آیا۔ وزیر دفاع کاٹز نے کہا کہ جو لوگ اسرائیلی فوجیوں کے خلاف جھوٹے الزامات گھڑتے ہیں وہ وردی کے اہل نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسرائیل تشدد غزہ فلسطین قیدی

متعلقہ مضامین

  • اقوام متحدہ، یورپی یونین، اوآئی سی سے کشمیری حریت رہنمائوں کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ
  • اسرائیل کی غزہ اور لبنان میں سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں، تازہ حملوں میں 7 افراد شہید
  • اسرائیل کی غزہ اور لبنان میں سیز فائر معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں، تازہ حملوں میں 7 فلسطینی شہید
  • فاسٹ فیشن کے ماحولیاتی اثرات
  • حماس کا اسرائیل پر اسیر کی ہلاکت کا الزام، غزہ میں امداد کی لوٹ مار کا دعویٰ بھی مسترد
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • غزہ کی امداد روکنے کیلئے "بنی اسرائیل" والے بہانے
  • فلسطینی قیدیوں پر تشدد کی ویڈیو کیوں لیک کی؟ اسرائیل نے فوجی افسر کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا
  • اسرائیلی پابندیوں سے فلسطینیوں کو خوراک و پانی کی شدید کمی کا سامنا ہے، انروا
  • اسرائیلی حملوں میں مزید 3 فلسطینی شہید، جنگ بندی خطرے میں