کامل تندرستی کے لیے آرام کرناضروری!
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
پاکستان میں بہت سے نوجوان اور بوڑھے سمجھتے ہیں کہ بہترین جسمانی فٹنس پانے کے لیے باقاعدگی سے ورزشیں کرنا چاہیے۔ لوگ آرام کرنے یا ’ریسٹ ‘ کو ایک غیر ضروری بلکہ نقصان دہ چیز سمجھتے ہیں اور عموماً اس کو ترجیع نہیں دیتے۔ جب کوئی بیماری ہو یا چوٹ لگ جائے تبھی مجبوراً آرام کیا جاتا ہے۔ لیکن جدید طبی سائنس کا کہنا ہے ، ورزش کے فوائد سے بھرپور انداز میں لطف انداز ہونا ہے توآرام کرنا اہم ہی نہیں،بلکہ لازم ہے۔گویا آرام کرنا کوئی بے معنی عمل نہیں بلکہ اسی کے ذریعے انسان بہترین تندرستی حاصل کر پاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ ورزش کرنے اور بہترین غذا کھانے کے باوجود جسمانی اور ذہنی طور پر مسلسل تھکن ، جسم میں اکڑاؤ،درد اور پژمردگی محسوس کر رہے ہیں تو ایک بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آپ آرام کی مطلوبہ مقدار حاصل نہیں کر رہے۔اس حالت میں اگر انسان کچھ دیر آرام کر لے تو وہ بہت افاقہ محسوس کرے گا۔ماہرین کہتے ہیں، فٹنس کلچر کے دلداہ مردو خواتین کو اس ذہنیت سے چھٹکارا پانا چاہیے کہ "کسی دن چھٹی نہیں کرنی۔"یہ مائنڈسیٹ جسمانی و ذہنی صحت کے لیے سود مند نہیں۔
طبی سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ، ورزش کے بعد جسم وذہن کی زیادہ تر مثبت بحالی و نشوونما درحقیقت آرام کے دوران ہوتی ہے۔ یہ بحالی تب ہوتی ہے جب ہمارا جسم ٹشوز کی مرمت کرتا ہے، توانائی کے ذخیروں کو بھرتا اور اعصابی نظام کی سرگرمیوں کو متوازن کرتا ہے۔ یہ اہم عمل چھوڑ دینے سے انسان جسمانی و ذہنی طور پر مضبوط نہیں ہوتا۔بلکہ اس کے جسم و دماغ متواتر کام کرنے سے شدید تھکن یا ’’برن آوٹ‘‘کا شکار ہو جاتے ہیں۔
ایک امریکی ماہر طب،جو پچھلی دو دہائیاں سے کھلاڑیوں کی جسمانی تربیت اور آرام کرنے کے پروگرام بنانے میں معاونت کر رہے ہیں۔وہ کہتے ہیں’’ایک بات میں نے ہمیشہ نوٹ کی ہے اور وہ یہ کہ ورزش کے بعد کوئی کھلاڑی موزوں آرام کرلے تواسے جسمانی و ذہنی طور پر سب سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے‘‘۔
سچ یہ ہے کہ مناسب آرام انسان کو جسمانی و ذہنی لحاظ سے تندرست رکھتا ہے۔ یہ سبق صرف کھلاڑیوں تک محدود نہیں بلکہ ہر اس مرد وزن پر لاگو ہوتا ہے جو باقاعدگی سے ورزش کے ذریعے صحت اور تندرست رہنا چاہتے ہیں۔سوال یہ ہے، جب آپ آرام کرتے ہیں تو کیا ہوتا ہے ؟ اوراس کو چھوڑنے سے منفی عوامل کیوں ظہور پذیر ہوتے ہیں؟
آرام محض جسمانی سرگرمی کی عدم موجودگی کا نام نہیں۔ یہ ایک اہم جسمانی عمل ہے جو پٹھوں کی مرمت کرتا، اعصابی نظام بحال کر دیتا، مدافعتی افعال طاقتور بناتا اور ہارمونل توازن میں سہولت فراہم کرتا ہے۔ زیادہ شدت سے ورزش کرنے یاجم میں مشغول ہونے سے جسمانی پٹھوں کے ریشوں میں ننھے منے چھید پیدا ہوتے ہیں اور جسم کے اہم نظاموں پر بوجھ پڑ جاتا ہے۔ایسی حالت میں انسان اچھی طرح آرام کر لے تو مناسب صحت یابی پا کر جسم مثبت طور پر اس تناؤ کا جواب دیتا ہے۔یوں نہ صرف جسمانی و ذہنی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ مستقبل کے جسمانی تقاضوں سے عہدہ براں ہونے کی صلاحیت بھی بڑھ جاتی ہے۔
مناسب آرام کا عرصہ نظر انداز کرنے کے نتیجے میں جسمانی و ذہنی تناؤ جمع ہو سکتا ہے جو جسم و دماغ کی دوبارہ تعمیرومرمت میں رکاوٹ بنتا ہے۔ یہ مجموعی تناو پھر انسان کو تھکاوٹ، بدن میں مسلسل درد، کم کارکردگی، موڈ میں خلل اور نیند کی کمی جیسے خطرناک مسائل سے دوچار کر دیتا ہے۔ اگر اسے کوئی چوٹ لگی ہے تو وہ ٹھیک نہیں ہوتی بلکہ بحالی کا عرصہ طویل ہو جاتا ہے۔
امریکی طبی رسالے، جرنل فزیولوجیکل کی رپورٹس میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق صحت مند نوجوان بالغوں میں ایک رات نیند کی کمی بھی کورٹیسول ہارمون کی سطح بلند کرتی اور پٹھوں میں پروٹین کی مقدار کم کردیتی ہے۔وہ ٹشووں کی مرمت کو روکتی اور پٹھوں کی نشوونما میں تاخیر کرتی ہے۔ کورٹیسول اور تناؤ پیدا کرتے دیگر ہارمونز کی سطح مسلسل بلند رہنے سے مدافعتی افعال بھی اپنا کام صحیح طرح نہیں کر پاتے ۔نیند کی کمی جسمانی سوزش کو جنم دیتی اور کوئی بیماری لگنے کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔
انسان اگر ورزش ہی نہیں کوئی بھی جسمانی یا ذہنی مشقت والا کام کر کے مناسب آرام نہ کرے تو جسم کو تربیت کے تقاضوں کے تحت ڈھالنے، دوبارہ تعمیر کرنے اور پھلنے پھولنے کا موقع نہیں ملتا۔ آرام کو چھوڑنا صرف جسمانی و ذہنی ترقی کو ہی نہیں روکتا ، یہ عمل فعال طور پر ترقی کو ریورس لگا دیتا یہاں تک کہ نقصان کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
آرام دماغی و جسمانی تعلق کو کس طرح مضبوط کرتا ہے؟
ہمارے جسم کی طرح انسان کے دماغ کو بھی اپنے کام بہترین طریقے سے انجام دینے کی خاطر آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذہنی تھکاوٹ جسمانی تھکن کی طرح دباو پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ آرام نہ ملنے سے دماغ جذبات کنٹرول کرنے، توجہ مرکوز کرنے اور انسان کی حوصلہ افزائی کرنے کے لیے جدوجہد کرتا ہے۔اس طرح انسان کی روزمرہ زندگی متاثر ہو جاتی ہے اور وہ اپنے سبھی کام اچھے طریقے سے نہیں کر پاتا۔
اس لیے بہتر ہے، مزید ورزش یا مزید کام کرنے کے بجائے مناسب وقت کے لئے آرام کریں اور اپنی جسمانی و ذہنی صحت یابی کو یقینی بنائیے۔خاص طور پر مطلوبہ نیند لینے کا عمل انسان کے اعصابی نظام کو متوازن رکھنے، تناؤ کے ہارمونز کم کرنے اور جذباتی توازن بحال کرنے میں مدد کرتا ہے۔ تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ موزوں نیند آپ کے دماغ اور جسم کے تعلق کو مضبوط بناتی ہے۔ یوں انسان جسمانی و دماغی طور پر اس قابل ہو جاتا ہے کہ اپنے روزمرہ سارے کام عمدہ طریقے سے انجام دے سکے۔
یہی وجہ ہے کہ ہر اچھے دماغی جسمانی فٹنس پروگرام میں تربیت کے دوران ذہنی جانچ پڑتال شامل ہوتی ہے اور آرام کرنے پر زوردیا جاتا ہے۔ماہرین کہتے ہیں کہ اگر آپ کا دل نہیں چاہ رہا تب بھی آرام کریں ۔وجہ یہی کہ یہ عمل انسان کو جسمانی وذہنی لحاظ سے چاق وچوبند کر دیتا ہے۔ تب اس کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ یوں جسمانی و ذہنی تندرستی پانے میں آسانی رہتی ہے۔
آرام کی اقسام
آرام کی متفرق اقسام ہیں اور سبھی ایک دوسرے سے مختلف۔ صحیح قسم کا آرام اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کیسا محسوس کرتے ہیں، آپ کیا کر رہے ہیں، اور آپ کے جسم اور دماغ کو کس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
٭ غیر فعال(Passive) آرام کا مطلب ہے ورزش یا کاموں سے مکمل چھٹی۔ہر قسم کی مشقت سے گریز کرناَ۔حتی کہ سکرین دیکھنے کا وقت بھی مختصر کر دینا اور زیادہ سے زیادہ جسمانی و ذہنی آرام کرنا۔ مثال کے طور پر باغ میں جا کر بیٹھنا، ٹب میں لیٹ کر طویل عرصے کے لیے بھیگنا، دوپہر کی جھپکی لینا یا کسی اچھی کتاب کے ساتھ صوفے پر آرام کرنا۔ اگر آپ خود کو شدید طور پر تھکا ہوا محسوس کر رہے ہیں اور بدن میں درد ہے تو یقیناً آپ کے جسم و دماغ کو ایک دن کے مکمل آرام کی ضرورت ہے۔
٭ فعال (Active) آرام میں کم اثر والی حرکت شامل ہے جو جسم پر اضافی دباؤ ڈالے بغیر جسمانی و دماغی تھکن ختم کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ چہل قدمی کرنا، یوگا کی آسان مشقیں اور سادہ نقل و حرکت جیسی سرگرمیاں اس زمرے میں آتی ہیں۔
٭ قوت بخش(Restorative) آرام انسان کے اعصابی نظام کو براہ راست نشانہ بناتا ہے۔اس مقصد کے لیے ڈایافرامیٹک (diaphragmatic) سانس لینے، مراقبہ یا مساج یا اسسٹڈ اسٹریچنگ کو اپنایا جاتا ہے جو نرم بافتوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ یہ عمل اعصاب کو پُرسکون کر دیتے ہیں۔اس قسم کا آرام اور جسمانی قوت کی بازیابی خاص طور پر شدید تربیت کے بعد یا زیادہ تناؤ کے ادوار کے دوران قیمتی ہوتی ہے۔
آرام منصوبہ بندی کے ساتھ کیجیے تو زیادہ فائدہ ہو گا
یہ یاد رکھیے، آرام کرنے کے عمل کو پیچیدہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس لیے دوران ورزش یا کوئی سخت کام کرتے ہوئے آرام کے وقفے ضرور نکالیے۔ کسی خاموش جگہ بیٹھ کر اعصاب پُرسکون کیجیے۔ ایسی جگہ جائیے جہاں آکسیجن وافر ہو اور وہاں گہرے سانس لیجیے۔خاص طور پر اگر آپ باقاعدگی سے جم جاتے ہیں تو اپنے ہفتہ واری فٹنس پروگرامز میں آرام کو بھی وقت دیں تاکہ جسمانی و ذہنی لحاظ سے چست وتندرست رہ سکیں۔
ایک ہفتے کے دوران آپ ورزش اور آرام کے مابین کچھ یوں توازن رکھ سکتے ہیں:
} 2 سے 3 دن زیادہ شدت و طاقت والی ورزشیں یا کارڈیو ٹریننگ کرنا۔
} 2 سے 3 دن چلنے یا ہلکی حرکات کے ذریعے آرام کرنا۔
} 1 دن مکمل طور پر آرام کرنا۔کوئی بھی جسمانی و ذہنی طور پر سخت کام نہ کرنا۔ سکرین ٹائم بھی محدود کر دینا۔
انسان عموما سمجھتا ہے کہ وہ سخت تربیت کر کے، اچھا کھا پی کر اور متحرک رہ کر بہترین جسمانی و ذہنی صحت پا سکتا ہے ۔ اس کو سمجھنا چاہیے، مناسب آرام اور صحت یابی کے بعد ہی کامل تندرستی حاصل ہو پاتی ہے ۔ آرام کے دن اختیاری نہیں وہ ضروری ہیں۔ورزش اور سخت کام آپ کے جسم کو توڑ دیتے ہیں۔ مناسب وقت آرام کر لینے سے جسم اپنی مرمت کر کے مزید کام کرنے کے قابل ہوتا ہے۔جب آپ ورزش یا سخت کام اور آرام کے مابین توازن کر لیں گے تو جسمانی و ذہنی طور پر خود کو بہتر محسوس کرینگے،روزمرہ زندگی میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں گے اور بوڑھے ہوتے ہوئے بھی اپنی جسمانی صحت برقرار رکھ سکیں گے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کر رہے ہیں اور ا رام کے دوران کرنے اور ا رام کے ا رام کی سخت کام کرنے کے نہیں کر ہوتی ہے ہیں اور کرتا ہے جاتا ہے ورزش کے ہوتا ہے اگر ا پ ہے کہ ا کے بعد کے لیے کام کر کے جسم
پڑھیں:
حکمران سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھیں!
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250918-03-5
مجاہد چنا
جب آپ فطرتی ماحول ، قدرت کے فیصلوں اور پانی کے قدرتی راستوں میں رکاوٹیں کھڑی کریں گے تو اس کا خمیازہ بھی آپ کو بھگتنا پڑے گا۔ موجودہ دریائی سیلاب جو کے پی اور پنجاب میں تباہی مچا رہے ہیں وہ بھی اسی کا نتیجہ ہیں۔ بادل پھٹنے کے نتیجے میں پہاڑوں سے آنے والے پنجاب میں راوی سمیت دریا ئی پانی کی گذرگاہوں پر زبردستی قبضے اور سوسائٹیز، مکانات، بنگلے، فارم ہاؤسز وغیرہ سمیت بڑی بڑی آبادیاں قائم کردینے کے باعث بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ لاکھوں خاندان بے گھر ہو چکے ہیں اور جان و مال کے لحاظ سے بڑے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کے پی میں پیر بابا بونیر میں تباہی کی وجہ پانی کو روکنے والے درختوں کی کٹائی اور دوسری وجہ اس پانی کے راستے پر بستیوں کا قیام بھی بتایا جاتا ہے۔ یہی صورتحال ملک کے سب سے بڑے شہر اور سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بھی ہوئی ہے۔ شاہراہ فیصل سے سعدی ٹاؤن تک پانی میں ڈوبنے اور شاہراہ بھٹو کے کچھ حصوں کے کٹاؤ کی بھی یہی وجہ بتائی جا رہی ہے۔ ملیر ندی کے پیٹ میں شاہراہ بھٹو بنانے اور پھر دھیرے دھیرے پوری زمین پر قبضہ کرنے کی سازش کئی دہائیوں کے بعد تیز بہنے والے پانی نے بالآخر ناکام بنا دی۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ سانپ گذرنے کے بعد لکیر پیٹے رہتے ہیں۔ چند سالوں کے وقفے کے بعد ہمارے ملک میں سیلاب، زلزلے اور قدرتی آفات آتی ہیں، لیکن ہر بار یہ صرف وقتی طور پر متحرک ہوتی ہیں اور حکومت اور ادارے سو جاتے ہیں۔ پنجاب میں آنے والے سیلاب کی وجہ بھارت کی آبی دہشت گردی کہی جا سکتی ہے لیکن یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ پوری دنیا، میڈیا اور ہمارا محکمہ موسمیات دریائی اور شہری سیلابوں کی پیش گوئیاں کرتے رہے لیکن جو تباہی اور افراتفری ہوئی ہے اس سے لگتا ہے کہ ہماری حکومت صرف اشتہارات اور کرپشن کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف تھی۔ جب سرسے پانی چڑھا تو ہنگامی سرگرمیاں شروع کیں ، وہ بھی محض نمائشی! پنجاب حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب لوگ ڈوب رہے تھے تو وزیراعلیٰ محترمہ مریم بی بی سرکاری خرچ پر بڑی وفدکے ساتھ چین کے دورے پر گئی تھیں۔ پنجاب میں حکومتی امدادی سرگرمیوں کی متعدد ویڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہیں جس سے اس کی اصلیت کھل کر سامنے آئی ہے۔ ایک ویڈیو میں پولیس اہلکار صرف تھیلے پر ہاتھ رکھ کر متاثرین کو خالی ہاتھ بھیج رہے ہیں، دوسری میں ایک خاندان کو راشن کا تھیلا دیا جا رہا ہے جس میں آٹے میں نمک کے برابر سامان ہے، جب کہ متاثرین نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے والے معروف ٹی وی اینکر حامد میر کو بتایا کہ سرکاری ادارے 1122 کی امدادی کشتیاں لوگوں کو محفوظ مقام پر لے جانے کے لیے تیس سے پینتیس ہزار روپے فی شخص کرایہ وصول کر رہی ہیں۔ یہ افسوسناک مناظر میڈیا میں آئے اور حامد میر نے بھی اپنے پروگرام کیپٹل ٹاک میں دکھائے، کہاں ہے حکومت اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے؟
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال نے نارووال میں متاثرہ علاقوں کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس سیلاب نے ہمیں 30 سال پیچھے کر دیا ہے اور 500 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ سیلاب نے ہماری تیس سال کی محنت برباد کر دی ہے۔ سیلاب نے سڑکیں، پل اور گاؤں تباہ کر دیے ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ 2010 اور 2022 کے سیلاب میں سندھ کے عوام کس تکلیف دہ صورتحال سے گزرے ہوں گے۔ اور ان دو سیلابوں نے سندھ کی ترقی کو کتنے سال پیچھے کر دیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ سیلاب نے پنجاب میں خریف کی فصل کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب کے 24 اضلاع میں ہزاروں مربع کلومیٹر اراضی زیر آب آچکی ہے اور یہ سلسلہ اب بھی بڑھ رہا ہے۔ بالخصوص جنوبی پنجاب میں دہان کی 60 فیصد اورکپاس کی 35 فیصد فصل تباہ ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ اس میں باسمتی چاول کی فصل کا 20 فیصد بھی شامل ہے۔کسان بورڈ پاکستان کے اختر فاروق میو نے دعویٰ کیا ہے کہ کسانوں کو کپاس، چاول، تل، مکئی اور چارہ جات کی تباہی کی وجہ سے 536 ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کئی شہروں میں سبزیوں اور دیگر جلد خراب ہونے والی اجناس کی قلت پیدا ہوگئی ہے جو آئندہ خوراک کے بحران میں بدل سکتی ہے۔
پنجاب کے بعد سندھ میں آنے والے سیلابی پانی نے سکھر، کشمور، خیرپور، دادو اور دیگر اضلاع میں تباہی مچانا شروع کر دی ہے۔ کچی آبادیوں کے سینکڑوں دیہات زیر آب آگئے ہیں اور لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اس بات پرگہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وفاقی حکومت نے اب تک بین الاقوامی امداد کی اپیل کیوں نہیں کی! اگر سندھ حکومت بندوں کی مرمت سمیت بروقت حفاظتی اقدامات کرتی تو یہ صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ پیپلز پارٹی کا سیلاب متاثرین کے لیے 21 لاکھ گھر بنانے کے دعوے کو بھی تسلی بخش نہیں کہا جا سکتا۔ کراچی سے کشمور تک سندھ کا حال بھی آپ کے سامنے ہے۔ جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن پہلے قومی رہنما ہیں جنہوں نے سیالکوٹ، گجرات، لاہور اور دیگر سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے الخدمت فاؤنڈیشن کی امدادی سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور متاثرین کی تسلی کی۔ میڈیا اورمتاثرین سے بات چیت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت سیلاب کی تباہ کاریوں کو قدرتی آفت قرار دے کر اپنی ذمہ داری سے نہیں بچ سکتی۔ یہ تباہی ظالموں کے ظلم کا نتیجہ ہے۔ سیلاب کی تباہی ہمارے حکمرانوں کی بے حسی اور نااہلی کے ساتھ ساتھ بھارت کی آبی دہشت گردی کا نتیجہ ہے۔ 40 سال تک پنجاب پر حکومت کرنے کے بعد مریم بی بی حیران ہیں کہ گجرات میں سیوریج کا نظام نہیں ہے۔ اسی طرح 40 سال سے سندھ پر حکومت کرنے والی پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ پانی میرے گھر تک ٹینکرز کے ذریعے آتا ہے! یہ لوگ عوام کے مسائل کیسے حل کر یں گے؟؟ انہوںنے سیلاب کی صورتحال کے پیش نظر شدید مہنگائی، غذائی قلت اور زرعی بحران پیدا ہونے کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ اشیائے خورونوش ، کھاد، بیج اور زرعی ادویات پر سبسڈی کا اعلان کیا جائے۔
گزشتہ 78 سالوں سے ملک میں اقتدار کے مزے لینے والا حکمران ٹولہ چاہے وہ سول ہو یا فوجی یا بیوروکریسی، اپنے کاروبار یا اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے توطویل المدتی منصوبے بناتا ہے، لیکن جس ملک نے انھیں عزت، شہرت اور دولت دی، اس ملک اور قوم کی بہتری کے لیے سوچنے اور منصوبہ بندی کرنے کی کوئی پرواہ نہیں۔ اگر حکومت کرپشن سے پاک منصوبہ بندی پر عمل درآمد کرتے ہوئے سیلاب سے پہلے چوکس رہتی، بندوں کی صحیح مرمت اور تجاوزات کا خاتمہ ہوتا تو عوام کو یہ مشکل دن نہ دیکھنا پڑتے۔حقیقت یہ ہے کہ ملک اس وقت بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمران طبقے کی نااہلی اور نااہلی کی وجہ سے ڈوبا ہوا ہے جس سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے حکمرانوں کو سیلاب وبارش سے ہونے والی جانی ومالی تباہی سے کوئی سبق حاصل کرنا چاہیئے۔ متاثرین کی دوبارہ آبادکاری ، زرعی اور ماحولیاتی ہنگامی حالات کے کھوکھلے اعلانات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا، اس کے لیے روڈ میپ اور فریم ورک کا اعلان کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ کے 2010-2022 کے سیلاب متاثرین اب بھی پریشانی کا شکار ہیں۔ سندھ میں تعلیمی ایمرجنسی کے اعلان کے باوجود 80 لاکھ بچے اسکول نہیں جاتے۔ کچھ سکول عمارتوں سے محروم ہیں جبکہ کچھ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ اس لیے بار بار کے اعلانات سے ہٹ کر متاثرین کی امداد وبحالی اور سندھ کی تعمیر وترقی کے لیے کچھ عملی کام کرنا ہوں گے۔
ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔ سب سے پہلے تو اس مشکل وقت میں تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر کے مسائل کے حل کے بارے میں مشترکہ حکمت عملی بنانی چاہیے۔ سیاسی اور جماعتی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر شہروں میں سیوریج کے نالوں پر تجاوزات، دریا کے قدرتی راستوں پر بنائے گئے طاقتور لوگوں کے بنگلوں، فارم ہاؤسز اور سوسائٹیز کو ختم کیا جائے۔ جہاں یہ ممکن نہ ہو وہاں فوری طور پر متبادل حل تیار کیا جائے۔ دریائی پشتوں کی مرمت اور سیم نالوں کی صفائی کے لیے جاری کی گئی رقم اور کام کا جائزہ لیا جائے۔ دریا اور بارشوں کے سیلاب سمیت قدرتی آفات کی صورت میں خدمات فراہم کرنے والے اداروں کو فعال اور مضبوط کیا جائے۔ حکومت الخدمت فاؤنڈیشن سمیت فلاحی خدمات کے اداروں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرے اور انہیں متاثرہ علاقوں میں تقسیم کرے تاکہ تمام متاثرین کو ریلیف اور بحالی کی سہولت فراہم کی جاسکے۔