لاہور (سپیشل کارسپانڈنٹ) پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں نوائے وقت کا بھرپور کردار ہے جو آبروئے صحافت مجید نظامی کے صورت میں پوری قوم نے دیکھ رکھا ہے۔ 28 مئی1998ء اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لئے تاریخی دن ہے، جس دن پاکستان سائوتھ ایشیا میں طاقت کا توازن قائم رکھتے ہوئے ایٹمی دھماکے کئے۔ ادارہ نوائے وقت پوری قوم کو مبارکباد دیتا ہے۔ نوائے وقت گروپ کے چیف آپریٹنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل (ر) سید احمد ندیم قادری، تمغہ امتیاز نے ان خیالات کا اظہار مجید نظامی ہال میں 28 مئی یوم تکبیر کی مناسبت سے کیک کاٹنے کی تقریب سے کیا۔ سینئر ساتھیوں ڈائریکٹر مارکیٹنگ بلال محمود، ہیڈ آف ہیومین ریسورسز چودھری شفیق سلطان، آئی ٹی ہیڈ قیصر ندیم، سپیشل کارسپانڈنٹس فیصل ادریس بٹ و خاور عباس سندھو، ہیڈ آف اکائونٹس شاہد انجم تارڑ، ایڈیٹر پھول شعیب مرزا، منیجرز سرکولیشن عابد نذیر سندھو و صغیر امجد، خواجہ ریاض اویس ، فہمید ولسن جانسن ، حاجی محمد امین ، محمد عباس سمیت سٹاف کی بڑی تعداد تقریب میں شریک ہوئی۔ لیفٹیننٹ کرنل (ر) ندیم قادری نے کہا پاکستان ایٹمی صلاحیت سے لیس نہ ہوتا تو بھارت ہمیں سکون سے جینے نہ دیتا۔انہوںنے کہا کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے پیچھے ہزاروں کردار ہیں ، لیکن سب کو اس بات پر فخر ہے کہ پاکستان آج ایٹمی صلاحیت کا حامل واحد اسلامی ملک ہے ۔ بھارت نے جب 1974ء میں ایٹمی دھماکہ کیا تو ذوالفقار علی بھٹو کی دوراندیشی نے یہ دیکھ لیا تھا کہ اگر پاکستان نے یہ صلاحیت حاصل نہ کی تو بھارت پاکستان کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا ، بھٹو نے کہا تھا کہ ہم گھاس کھالیں گے لیکن ایٹم بن ضرور بنائیں گے ۔ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر کا بیان موجود ہے کہ پاکستان نے 1984 ء میں ایٹمی صلاحیت حاصل کرلی تھی لیکن اس کا اظہار بڑا ضروری تھا ، جس کا پاکستان کو 1998ء  میں موقع ملا۔ جب نواز شریف نے بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کئے ۔ بھارتی دھماکوں کے بعد پاکستان پر امریکہ کا بہت دبائو تھا کہ پاکستان دھماکے نہ کرے ، اس کے بدلے پہلے اربوں ڈالر کی پیشکش کی پھر پابندیوں کی دھمکی لگائی ۔ ایسے وقت میں معمارنوائے وقت مجید نظامی کا کردار تاریخ کا سنہر ا باب ہے جب انہوں نے مدیران کے اجلاس میں کہا کہ اگر نواز شریف نے ایٹمی دھماکے نہ کئے تو وہ اور قوم ان کا دھماکہ کردے گی جس کے بعد نواز شریف نے کہا کہ اب ہم دھماکے کرنے جارہے ہیں۔ نوائے وقت کا پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نکالنے میں کردار قابل فخر ہے ۔ پاکستان کا قیام ہو ، ایٹمی دھماکے کرنے ہوں یا آپریشن بنیان مرصوص ہو ، نوائے وقت نے ہمیشہ فرنٹ لائن کا کردار ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ مجید نظامی کی اکلوتی صاحبزادی رمیزہ مجید نظامی ، منیجنگ ڈائریکٹر نوائے وقت گروپ نے معرکہ حق میں ملک و قوم اور پاک افواج کے شانہ بشانہ نوائے کے شاندار کردار کو اسی انداز میں نبھایا جو ادارے کے شان شایان ہے۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاک افواج نے نوائے وقت کی شہ سرخی کو اپنے ہورڈنگ بورڈز کی زینت بنایا ۔ 

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: ایٹمی دھماکے پاکستان کو کہ پاکستان نوائے وقت نے کہا کہا کہ

پڑھیں:

پاکستانی سعودی دفاعی معاہدہ: کس کا کردار کیا؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 ستمبر 2025ء) دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے اس معاہدے کے بعد یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا واقعی ایک ملک پر حملہ دوسرے پر حملہ تصور کیا جائے گا اور اگر ایسا ہوا، تو دونوں ممالک ایک دوسرے کی کس کس طرح مدد کر سکیں گے؟ مثلاﹰ پاکستان کی بھارت کے ساتھ پرانی رقابت ہے، تو کیا بھارت کی طرف سے کسی ممکنہ حملے کی صورت میں سعودی عرب بھی اپنی افواج کو پاکستان بھیجے گا؟ اس کے علاوہ، کیا یہ معاہدہ خلیج کے خطے میں موجودہ کشیدگی کے تناطر میں کیا گیا ہے؟

پس منظر سے متعلق بڑھتی غیر یقینی صورتحال

خلیج کا خطہ اس وقت کئی محاذوں پر کشیدگی کا شکار ہے۔

ایک جانب غزہ پٹی میں اسرائیلی فوجی کارروائیاں مسلسل جاری ہیں تو دوسری طرف اسرائیل نے دیگر ممالک کو بھی نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔

(جاری ہے)

ماہرین کے مطابق قطر پر اسرائیل کے حالیہ فضائی حملے کے بعد صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔ کئی خلیجی ممالک، جن میں سعودی عرب بھی شامل ہے، نے ماضی میں اپنی سکیورٹی کے لیے زیادہ تر امریکہ پر انحصار کیا ہے۔

لیکن حالیہ واقعات نے اس اعتماد کو کمزور کر دیا ہے۔

بین الاقوامی امور کے ماہر ڈاکٹر قندیل عباس کہتے ہیں، ''امریکہ کی سکیورٹی گارنٹی اب وہ حیثیت نہیں رکھتی جو ماضی میں تھی، قطر پر اسرائیلی حملے اس بات کی علامت ہیں کہ امریکی موجودگی کے باوجود خطہ مکمل طور پر محفوظ نہیں۔ ایسے میں سعودی عرب کو خطے کے اندر نئے اتحادی تلاش کرنا پڑ رہے ہیں، اور پاکستان اس عمل میں سب سے نمایاں ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔

‘‘

ان کے مطابق اس کی ایک وجہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ بھی ہے، جس میں پاکستان کی کارکردگی نے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔

ڈاکٹر قندیل عباس کا مزید کہنا تھا کہ خلیجی ممالک نے آپس میں گلف کوآپریشن کونسل کے تحت بھی ایک دوسرے کی حفاظت کے معاہدے کر رکھے ہیں، لیکن قطر پر حملے کے بعد سبھی ممالک اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئے۔

ڈاکٹر قندیل عباس کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حملہ خلیجی ریاستوں کی نظر میں امریکی رضامندی کے بغیر ممکن نہیں تھا اور یہ بھی ایک وجہ ہے کہ یہ عرب ریاستیں اس کا کوئی جواب دینے سے قاصر نظر آئیں۔ معاہدے میں پاکستان کا کردار اور افادیت

تجزیہ کاروں کے مطابق کسی بھی جنگ کی صورت میں اس معاہدے کے تحت زیادہ نمایاں کردار پاکستان ہی کو ادا کرنا پڑے گا کیونکہ سعودی عرب جنگ لڑنے کی ویسی صلاحیت نہیں رکھتا جیسی پاکستان کے پاس ہے۔

جیو پولیٹیکل تجزیہ کار کاشف مرزا کہتے ہیں کہ ایک طرح سے اگر کوئی جنگ لڑنا پڑے، تو وہ پاکستان کو ہی لڑنا پڑے گی کیونکہ حالیہ واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ خلیجی ممالک تمام تر وسائل ہونے کے باوجود کوئی جنگ لڑنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

کاشف مرزا کے بقول، ''پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے کو ایک طرح سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب نے اپنی حفاظت کے لیے پاکستان کی خدمات لی ہیں۔

‘‘ لیکن ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو بھی بہرحال اس سے کافی فائدہ ہو سکتا ہے کیونکہ کوئی بھی ایسا معاہدہ مالی تعاون کے بغیر کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور یقیناﹰ سعودی عرب پاکستان میں دفاع اور دیگر مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرے گا۔ ''اب ان امکانات سے کیسے مستفید ہونا ہے، اس کا انحصار پاکستان پر ہو گا۔‘‘ ماضی میں بھی پاکستان نے سعودی عرب کا دفاع کیا؟

دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان اور سعودی عرب کی باہمی شراکت داری کوئی نئی بات نہیں۔

سعودی افواج کے سینکڑوں افسران نے پاکستان میں تربیت حاصل کی ہے۔ میجر جنرل ریٹائرڈ انعام الحق کے مطابق ماضی میں پاکستانی بریگیڈز سعودی عرب میں تعینات رہی ہیں۔ لیکن اس معاہدے نے اس تعلق کو ایک نئی جہت دے دی ہے، جس میں نہ صرف خطرات کے خلاف ردعمل بلکہ ایک مشترکہ حکمت عملی اور اس کا طریقہ کار بھی شامل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے معاملے میں بھارت اور اسرائیل کو مشترکہ خطرہ سمجھا جائے گا۔

لیکن بالخصوص اس وقت تو کوئی بھی ''خود کو اسرائیل سے محفوظ‘‘ نہیں سمجھ رہا۔ ان کا کہنا تھا، ''اس معاہدے کا تناظر صرف اسی حد تک محدود نہیں بلکہ امریکہ اور اسرائیل کے ایران پر حملوں اور اس کے بعد اسرائیل کے قطر پر حالیہ حملے کو بھی اس معاہدے کے پس منظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ فوجی طاقت اور دفاعی ساز و سامان رکھنے کے باوجود قطر اسرائیل کو خود پر حملہ کرنے سے نہ روک سکا۔

‘‘

میجر جنرل ریٹائرڈ انعام الحق کہتے ہیں، ''یہ معاہدہ پاکستان کے لیے معاشی فوائد بھی لا سکتا ہے۔ سعودی عرب دفاعی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرے گا، جس سے پاکستان کو نہ صرف جدید ٹیکنالوجی ملے گی بلکہ اپنی دفاعی صنعت کو بہتر بنانے کا بھی موقع ملے گا۔‘‘

پاکستان کے لیے ممکنہ مشکلات

عالمی امور کے ماہر سمجھتے ہیں کہ یہ معاہدہ خطے میں طاقت کے توازن پر گہرے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔

بھارت اور اسرائیل تو سعودی عرب اور پاکستان کے اس باہمی تعاون کو تشویش کی نظر سے دیکھیں گے ہی، لیکن اس پر امریکہ اور ایران کا ردعمل بھی سامنے آ سکتا ہے۔

کاشف مرزا کہتے ہیں کہ پاکستان گو کہ اس معاہدے کو سعودی عرب کے ساتھ کثیر الجہتی دفاعی تعاون کو مستحکم کرنے، مشترکہ تربیت اور دفاعی پیداوار کے ذریعے ممکنہ طور پر تعاون کو وسعت دینے کے طور پر دیکھتا ہے، لیکن یہ مختلف ممالک کے بدلے ہوئے اتحاد کی عکاسی بھی کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا، ''معاہدے کی زبان امریکہ میں تفکر کی وجہ بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پاکستان کے لیے سعودی عرب کی علاقائی دشمنیوں کا حصہ بننے کا خطرہ بھی موجود ہے۔ ممکنہ اسرائیلی کارروائیوں کی روک تھام اس معاہدے کے تحت غیر واضح ہے۔ اس لیے کہ جب ہم اسرائیل کی بات کرتے ہیں، تو اس میں امریکہ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

ادارت: مقبول ملک

متعلقہ مضامین

  • پاکستانی سعودی دفاعی معاہدہ: کس کا کردار کیا؟
  • ایشیا کپ 2025: پاکستان اور بھارت کا بڑا ٹاکرا 21 ستمبر کو دبئی میں ہوگا
  • پاکستان اور عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے درمیان کنٹری پروگرام فریم ورک پر دستخط
  • پاکستان اور عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے درمیان معاہدہ طے
  • ویانا: پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن اور آئی اے ای اے کے درمیان معاہدہ
  • پاکستان ٹی وی کی لانچنگ، وزیراعظم شہباز شریف نے افتتاح کردیا
  • فشریز ڈیپارٹمنٹ کی پہلی خاتون چیئرپرسن فاطمہ مجید
  • گوجرانوالہ: نوائے وقت کے نیوز ایجنٹ اقبال پرویز وفات پا گئے‘ ختم قل کل ہو گا
  • بطور ایٹمی طاقت پاکستان مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے، اسحاق ڈار کا الجزیرہ کو انٹرویو
  • آفات کو اصلاح احوال کا موقع جانیں، پروفیسر ڈاکٹر حسن قادری