ترکیہ اور آذربائیجان کے صدور کا ایک بار پھر پاکستان کی حمایت کا اعادہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, May 2025 GMT
آذر بائیجان کے صدر الہام علیوف نے کہا کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں آذربائیجان نے پاکستان سے مکمل اظہارِ یکجہتی کیا ہے— فوٹو بشکریہ پی آئی ڈی
بھارت سے حالیہ کشیدگی میں پاکستان کی مکمل کا حمایت کرنے والے ترکیہ اور آذربائیجان کے صدور کی جانب سے ایک بار پھر پاکستان کی حمایت کا اعادہ کیا گیا ہے۔
لاچین میں 3 ملکی اجلاس سے خطاب میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگی بندی ہوجانا ترکیہ کے لیے باعثِ اطمینان ہے، امید ہے کہ اعلان کردہ سیز فائر کو مستقل امن میں تبدیل کیا جائے گا۔
وزیراعظم نے کہا کہ بھارت نے پہلگام واقعے کا جھوٹا الزام پاکستان پر لگایا، پاکستان نے پہلگام واقعے کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا، بھارت نے رات کے اندھیرے میں پاکستان کی شہری آبادی کو نشانہ بنایا
اس موقع پر آذر بائیجان کے صدر الہام علیوف نے کہا کہ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں آذربائیجان نے پاکستان سے مکمل اظہارِ یکجہتی کیا ہے، پاک بھارت کشیدگی ہمارے لیے انتہائی پریشان کُن تھی، تنازعات کو پُرامن طریقے سے حل کرنا چاہیے۔
آذر بائیجان کے صدر نے پاکستان میں 2 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کرنے کا بھی اعلان کیا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: پاکستان کی
پڑھیں:
اسرائیل کی حمایت میں امریکا کا ایک بار پھر یونیسکو چھوڑنے کا اعلان
امریکا نے اقوام متحدہ کے تعلیمی، سائنسی اور ثقافتی ادارے یونیسکو (UNESCO) سے دوبارہ علیحدگی کا اعلان کر دیا ہے۔
امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ یونیسکو اسرائیل کے خلاف تعصب رکھتا ہے اور عالمی سطح پر ’’تقسیم پیدا کرنے والے‘‘ سماجی و ثقافتی ایجنڈے کو فروغ دیتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان ٹیمی بروس نے کہا کہ یونیسکو میں رہنا "امریکی قومی مفاد میں نہیں" ہے۔ یہ فیصلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2017 میں بھی کیا تھا، لیکن جو بائیڈن کے دور میں امریکا دوبارہ یونیسکو کا رکن بن گیا تھا۔
اب ٹرمپ کی واپسی کے بعد ایک بار پھر امریکا کا ادارے سے نکلنے کا اعلان سامنے آیا ہے، جو دسمبر 2026 میں مؤثر ہو گا۔
یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈری آذولے نے اس فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ملٹی لیٹرلزم (کثیر الجہتی تعاون) کے اصولوں کی نفی کرتا ہے۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ یہ فیصلہ متوقع تھا اور ادارہ اس کے لیے تیار ہے۔
یونیسکو نے کہا کہ امریکی انخلا کے باوجود ادارے کو مالی طور پر بہت زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ گزشتہ دہائی میں امریکا کی بجٹ میں شراکت 20 فیصد سے کم ہو کر اب 8 فیصد رہ گئی ہے۔
امریکا نے یونیسکو پر الزام لگایا ہے کہ اس نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرکے اسرائیل مخالف بیانیہ بڑھایا ہے اور مقبوضہ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں فلسطینی ثقافتی مقامات کو عالمی ورثہ قرار دینا بھی امریکی پالیسی کے خلاف ہے۔
اسرائیل نے امریکی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے، جب کہ فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون نے یونیسکو کی مکمل حمایت جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکا اس سے پہلے بھی 1980 کی دہائی میں ریگن حکومت کے تحت یونیسکو سے نکل چکا ہے، اور 2000 کی دہائی میں صدر بش کے دور میں دوبارہ شامل ہوا تھا۔