ہارورڈ یونیورسٹی نے 175 سال پرانی تاریخی تصاویر کی ملکیت جنوبی کیرولائنا کے انٹرنیشنل افریقی امریکن میوزیم کو منتقل کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ہارورڈ یونیورسٹی اب غیر ملکی طلبا کو داخلہ نہیں دے سکے گی، ٹرمپ انتظامیہ کا نیا فیصلہ

یہ فیصلہ ٹیمارا لانیئر کی جانب سے دائر کردہ مقدمے کے تصفیے کے نتیجے میں سامنے آیا ہے، جو ان تصاویر میں موجود افراد کی نسل سے تعلق رکھتی ہیں۔

یہ تصاویر، جنہیں ’ڈاگوریوٹائپس‘ کہا جاتا ہے، 1850 میں ہارورڈ کے حیاتیات دان لوئس آگاسی نے نسل پرستانہ نظریات کو فروغ دینے کے لیے بنوائی تھیں۔ ان میں ایک افریقی نژاد غلام، رینٹی، اور اس کی بیٹی ڈیلیا کی تصاویر شامل ہیں، جو امریکا میں غلامی کے دور کی ابتدائی تصویریں سمجھی جاتی ہیں۔

لانیئر نے 2019 میں ہارورڈ کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا، جس میں انہوں نے یونیورسٹی پر ان تصاویر کی ’غلط قبضہ، ملکیت اور استعمال‘ کا الزام عائد کیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ہارورڈ ان تصاویر سے مالی فائدہ اٹھا رہا ہے، جبکہ ان کے آبا و اجداد کی اجازت کے بغیر یہ تصاویر لی گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں:یہود مخالف جذبات کنٹرول نہ کرنیکا الزام، ٹرمپ حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی کا ریسرچ فنڈ روک دیا

ہارورڈ نے لانیئر کے دعوؤں کو تسلیم نہیں کیا، تاہم ایک مالیاتی تصفیے پر رضامندی ظاہر کی ہے، جس کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔ اس تصفیے کے تحت، تصاویر کو جنوبی کیرولائنا کے انٹرنیشنل افریقی امریکن میوزیم کو منتقل کیا جائے گا، جو چارلسٹن میں واقع ہے اور غلامی کی تاریخ سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔

میوزیم کی سی ای او، ٹونیا ایم میتھیوز نے لانیئر کی ثابت قدمی اور عزم کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام غلامی کے اثرات سے نمٹنے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔

میوزیم نے لانیئر کے ساتھ مل کر تصاویر کی نمائش کے طریقے پر کام کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

یہ فیصلہ امریکا میں تاریخی ناانصافیوں کے ازالے اور ثقافتی ورثے کی حفاظت کے حوالے سے جاری کوششوں کا حصہ ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انٹرنیشنل افریقی امریکن میوزیم جنوبی کیرولائنا غلامی کی تصاویر ہارورڈ یونیورسٹی\.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انٹرنیشنل افریقی امریکن میوزیم جنوبی کیرولائنا غلامی کی تصاویر ہارورڈ یونیورسٹی ہارورڈ یونیورسٹی

پڑھیں:

تاریخی سرخ لاری: سعودی عرب اور خلیج کی ثقافتی پہچان

سرخ رنگ کی مشہور لاری، جسے مقامی طور پر ’لاری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، خلیجی ممالک اور خصوصاً سعودی عرب کی ایک اہم ثقافتی علامت بن چکی ہے۔ 1940 سے 1970 کی دہائی کے درمیان، جب سفر کے ذرائع محدود تھے اور حالات مشکل، تو اسی سرخ لاری نے نقل و حمل میں بنیادی کردار ادا کیا، ان لاریوں نے دور دراز دیہاتوں کو شہروں سے جوڑنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

سعودی پریس ایجنسی کی ایک رپورٹ کے مطابق مورخ عبداللہ الزہرانی کا کہنا ہے کہ اس دور میں مقامی باشندے اور حجاج کرام لمبے سفر کے لیے انہی لاریوں پر انحصار کرتے تھے، جو کئی دنوں پر محیط ہوتے تھے۔ ’ سرخ لاری نقل و حمل میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتی تھی، خاص طور پر خاندانوں اور بچوں کے لیے آرام دہ ذریعہ سفر کے طور پر۔‘

یہ بھی پڑھیں:

صرف مسافروں کی آمد و رفت ہی نہیں بلکہ ان لاریوں کی اقتصادی اہمیت بھی غیر معمولی تھی۔ ’یہ گاڑیاں کھانے پینے کی اشیاء کو بازاروں اور تجارتی مراکز تک پہنچاتیں، جبکہ تاجر کھجوریں، مصالحے، مویشی اور کپڑے جیسا سامان بھی ان کے ذریعے منتقل کرتے، جس سے دیہی تجارت کو فروغ اور خطے کی باہمی وابستگی کو تقویت ملی۔‘

طائف کے جنوبی دیہاتوں سے تعلق رکھنے والے مقامی شہری سالم الابدالی نے بتایا کہ ان کے والد ایک سرخ لاری چلاتے تھے، انہوں نے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ان لاریوں کا سرخ رنگ، ہاتھ سے بنایا گیا سن روف، دیودار کی لکڑی کے فرش اور ہاتھ سے سلی ہوئی کپڑے کی چھت، جو مسافروں کو موسم کی شدت سے بچاتی تھی، سب کچھ منفرد تھا۔

مزید پڑھیں:

سالم الابدالی کے مطابق، سرخ لاری اونٹوں کے بعد مقامی آبادی کے لیے سب سے اہم سفری ذریعہ تھی اور اس سے کئی داستانیں، تجربات اور سفر کے دوران گائے جانے والے لوک نغمے جُڑے ہوئے ہیں۔ بعض ڈرائیور تو دیہاتیوں کو مفت میں بھی سفری سہولت دیتے تھے، جو اس دور کی باہمی مدد اور سماجی یکجہتی کی اعلیٰ مثال تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

خلیج سرخ سعودی عرب لاری

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور سعودی عرب کے برادرانہ تعلقات مزید مضبوط بنانے پر اتفاق
  • تاریخی سرخ لاری: سعودی عرب اور خلیج کی ثقافتی پہچان
  • مکہ مکرمہ کا ’العمودی میوزیم‘ سیاحوں کے لیے کیوں پُرکشش مقام ثابت ہو رہا ہے؟
  • ایشین کرکٹ کونسل کے صدر محسن نقوی ڈھاکا پہنچ گئے، بھارت نے میٹنگ سے پھر کنارہ کرلیا
  • اساتذہ کا وقار
  •   بھارت نے فائٹر طیاروں سے جان چھڑانے کا فیصلہ کرلیا 
  • پنجاب یونیورسٹی نے فیسوں میں 59 فیصد تک اضافہ کر دیا
  •  امید ہے کہ امریکہ چین  کے ساتھ  بات چیت اور مواصلات کے ذریعے اتفاق رائے بڑھائے گا،  چینی وزارت خارجہ
  • پنجاب یونیورسٹی کی فیسوں میں 59 فیصد تک اضافہ
  • پاک فوج کا ریسکیو آپریشن ، بابوسر اور شاہراہ قراقرم پر پھنسے سیاحوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا