Express News:
2025-09-17@22:47:04 GMT

اساتذہ کا وقار

اشاعت کی تاریخ: 23rd, July 2025 GMT

کراچی یونیورسٹی کے سینئر استاد پروفیسر ڈاکٹر آفاق احمد صدیقی کے ساتھ ایک جونیئر سرکاری اہلکار کی بدسلوکی کا واقعہ اساتذہ کے وقار کی پامالی کی مثال ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر آفاق صدیقی کراچی یونیورسٹی کے اسٹاف ٹاؤن میں مقیم ہیں، ان کے گھر کے سامنے ایک اور افسر بھی رہتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے ڈاکٹر آفاق مغرب کی نماز کے بعد گھر واپس آئے تو کچرا جلتے دیکھا،جس پر انھوں نے وہاں پر موجود افسر کے سیکیورٹی گارڈ سے درخواست کی کہ وہ لکڑیوں کا کچرا نہ جلائے کیونکہ دھواں ان کے گھر میں آتا ہے اور سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے،جس پر تلخ کلامی کے بعد گارڈ نے نہ صرف بدتمیزی کی بلکہ انھیں تھپڑ بھی مارا جس سے ان کا چشمہ ٹوٹ گیا اور آنکھ میں خون جمع ہوگیا۔ بعدازاں پروفیسر صاحب سے بدتمیزی کرنے والے سرکاری اہلکار کو معطل کرکے اس کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی ہے۔ 

کراچی یونیورسٹی کے اسٹاف ٹاؤن میں  کئی دفعہ اس قسم کے واقعات ہوئے ہیں۔ سینئر استاد و معروف ادیب ڈاکٹر طاہر مسعود جب اسٹاف ٹاؤن میں رہتے تھے تو ان کے بقول وہ علی الصبح اپنے گھر کے سامنے اس وجہ سے ورزش نہیں کرسکتے تھے کہ ان کے گھر کے سامنے ایک بڑے صاحب رہتے تھے۔

ان بڑے صاحب کے سیکیورٹی گارڈز کا موقف تھا کہ گھر کی سیکیورٹی متاثر ہوتی تھی۔ یہ تمام مکانات کراچی یونیورسٹی کی ملکیت ہیں۔ کراچی یونیورسٹی ٹیچرز سوسائٹی نے ایک سینئر استاد کے ساتھ بدسلوکی پر سخت ردعمل میں کہا ہے کہ ایک معزز استاد جنھوں نے اپنی زندگی تعلیم و تحقیق کے لیے وقف کی ہے، انھیں ایسے رویے کا سامنا کرنا پڑا جو کسی مہذب ادارے یا معاشرے میں ناقابل قبول ہے۔ جامعہ کے اساتذہ علم ، تحقیق اور تہذیب کے نمایندے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ عزت و احترام کا رویہ نہ صرف اخلاقی ضرورت ہے بلکہ ادارہ جاتی روایت کا تقاضہ بھی ہے۔

 80 کی دہائی میں کراچی بھر میں تشدد کے واقعات عام ہوگئے تھے، بوری بند لاشیں ملنے لگیں اور سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کی لہر آئی تو اس کے اثرات کراچی یونیورسٹی پر بھی پڑے۔ 1980کے آغاز کے ساتھ ہی کراچی یونیورسٹی اور اس سے متصل این ای ڈی یونیورسٹی میں طلبہ تنظیموں کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں ہونا شروع ہوگئیں۔ ان جھڑپوں میں کئی طالب علم جاں بحق بھی ہوئے اور دونوں یونیورسٹیوں میں 6 ماہ سے زیادہ عرصے تک تدریس کا سلسلہ معطل رہا ۔ جنرل ضیاء الحق کی حکومت کو طلبہ گروہوں میں تصادم کے فوری فائدے نظر آئے۔ اسی بناء پر اس وقت کی حکومت نے صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے سنجیدگی سے کوئی اقدام نہیں کیا۔

 1988میں وفاق اور سندھ میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ بھی وفاق اور سندھ میں حکومتوں میں شامل ہوئی۔ پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو شہید نے سینئر بیوروکریٹ غلام اسحاق خان کو صدارت کا عہدہ سونپا اور جنرل مرزا اسلم بیگ سپہ سالار بن گئے۔

تاریخی حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ غلام اسحاق خان اور اسلم بیگ کے کچھ اور مقاصد تھے اور ان مقاصد کے حصول کے لیے کراچی میدانِ جنگ بن گیا۔ اگرچہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اتحادی تھے مگر عملی طور پر ایک دوسرے کے حریف تھے۔ اس زمانے میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی طلبہ تنظیموں کے کارکنوں میں مسلسل مسلح جھڑپیں ہوتی تھیں۔ کراچی یونیورسٹی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے تین کارکن ایک تصادم میں جاں بحق ہوئے۔ اس وقت سندھ کے گورنر جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم تھے، وہ پہلے گورنر تھے جو سندھ کی یونیورسٹیوں کے معاملات کو براہِ راست دیکھتے تھے۔

کراچی یونیورسٹی کے استاد کے ساتھ ناروا سلوک کے واقعے پر سوشل میڈیا پر خوب بحث ہوئی ہے۔ فی الحال یہ معاملہ داخلِ دفتر ہوا مگر مسئلے کا دائمی حل نہیں نکل سکا۔ دنیا بھرکی یونیورسٹیوں کی طرح کراچی کی یونیورسٹیوں میں بھی اپنی سیکیورٹی فورس ہونی چاہیے۔ اس فورس میں ایسے افراد کو بھرتی کیا جانا چاہیے جو اساتذہ اور طلبہ کے وقار کو ملحوظ رکھیں اور یونیورسٹی کی اہمیت کو سمجھتے ہوں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کراچی یونیورسٹی کے پیپلز پارٹی کے ساتھ

پڑھیں:

کراچی: بچے بچیوں کے ساتھ بدفعلی کرنے والے ملزم کے بارے میں علاقہ مکین کیا کہتے ہیں؟

کراچی میں بچے اور بچیوں سے زیادتی کرنے اور ان کی نازیبا ویڈیوز بنانے کے الزام میں قیوم آباد کے علاقے سے ایک شبیر احمد نامی شخص گرفتار کرلیا گیا جس کے بارے میں متاثرہ محلے کے مکینوں نے تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔

پولیس کے مطابق ملزم پر الزام ہے کہ اس نے گزشتہ تقریباً 10 سالوں سے کم عمر بچیوں اور لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی اور اس عمل کی ویڈیوز بنائیں۔ پولیس نے ملزم کے قبضے سے موبائل فون اور یو ایس بیز برآمد کیں جن میں یہ غیر اخلاقی ویڈیوز موجود تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: 100 سے زائد بچوں سے زیادتی کا مرتکب شخص گرفتار، ویڈیوز برآمد، این سی آر سی کا شدید ردعمل

ابتدائی طبی معائنے میں 4 میں سے 3 کم عمر لڑکیوں کے ساتھ جنسی تشدد کے شواہد ملے ہیں۔

پولیس نے ملزم سے مزید تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈ حاصل کیا ہوا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ جرم کی نوعیت سنگین ہے اور قانونی دفعات جنسی زیادتی (خاص طور پر نابالغ بچوں کے خلاف) سے متعلقہ ہیں۔

علاقہ مکین کہتے ہیں کہ یہ افسوسناک واقعہ ہے اور ایسے شخص کو سرعام پھانسی دے دینی چاہیے۔

ایک مکین کا کہنا تھا کہ وہ گزشتہ 10 برس سے ملزم کو جانتا ہے اور اس نے لانڈھی کے علاقے میں ہر طرح کی مزدوری کی ہے۔ مکین نے بتایا کہ ملزم رہائش بھی بدلتا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کرائے پر مکان دینے والوں کو بھی پہلے تحقیقات کرنی چاہییں اور پولیس کے پاس اندراج بھی کرنا چاہیے تاکہ کسی بھی شخص کا کریمنل ریکارڈ پتا لگایا جا سکے۔

قانونی ماہر خیر محمد خٹک کے مطابق چائلڈ ریپ کے لیے سخت سزائیں عمر قید یا سزائے موت جیسے قوانین موجود ہیں جن پر سختی سے عملدرآمد ہونے کے بعد ایسے واقعات کو روکا جا سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پشاور: 8 سالہ بچی مبینہ زیادتی کے بعد قتل، لاش ہمسائے کے صندوق سے برآمد

ان کا کہنا ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن یونٹ کا قیام ہر ضلع میں کیا جائے جو فوری مدد فراہم کرنے کا پابند ہو۔ ویڈیو اور ڈیجیٹل شواہد سے متعلق سائبر کرائم قوانین کو مزید مضبوط کیا جائے کیوں کہ ان شواہد کو مضبوط نہیں سمجھا جاتا۔

خیبر محمد خٹک کا مزید کہنا تھا کہ بچوں سے زیادتی کے کیسز کے لیے فوری سماعت اور فیصلہ کرنے والی عدالتیں بنائی جائیں۔ مزید جانیے اس ویڈیو رپورٹ میں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بچوں سے زیادتی بچوں کی نازیبا ویڈیوز چائلڈ ریپ قیوم آباد کراچی

متعلقہ مضامین

  • پیپلز پارٹی کی 17سالہ حکمرانی، اہل کراچی بدترین اذیت کا شکار ہیں،حافظ نعیم الرحمن
  • منعم ظفر خان نے ٹائون چیئرمینوں کے ساتھ اسپرے مہم کا افتتاح کردیا،مہم شہر بھر میں چلائی جائیگی
  • کراچی میں ٹریفک پولیس کی آگاہی مہم، یکم اکتوبر سے ای چالان کیے جائینگے
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کی آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں کے طلبہ اور اساتذہ کیساتھ خصوصی نشست
  • کراچی: بچے بچیوں کے ساتھ بدفعلی کرنے والے ملزم کے بارے میں علاقہ مکین کیا کہتے ہیں؟
  • اساتذہ کو روشنی کے نگہبان بنا کر مؤثر تدریس کی حیات نو
  • کراچی؛ پانی کی لائن ٹوٹنے سے یونیورسٹی روڈ دریا کا منظر پیش کرنے لگی
  • کراچی، وفاقی اردو یونیورسٹی کی سینیٹ کا اجلاس انعقاد سے پہلے ہی متنازعہ ہوگیا
  • کراچی چیمبر کے غیر معمولی اجلاس عام کا انعقاد
  • گلبرگ ٹائون :اساتذہ کی ٹریننگ اور طلبہ کیلیے پی بی ایل پروگرام کا آغاز