فرانسیسی صدر نے انڈونیشیا کے صدر کو اعلیٰ ترین فرانسیسی ایوارڈ سے نوازا
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 29 مئی 2025ء) فرانس کے صدر ایمانوئیل ماکروں ان دنوں جنوب ایشیائی ممالک کے دورے پر ہیں۔ ماکروں منگل کی شب ویتنام سے جکارتہ پہنچے، جو ان کے جنوب مشرقی ایشیا کے دورے کی دوسری منزل ہے۔ انڈونیشیا کے بعد وہ جمعرات کو سنگاپور کے دورے پر روانہ ہو چکے ہیں۔ اس طرح ان کے مشرقی ایشیا کے تین ممالک کا دورہ ویتنام سے شروع ہو کر سنگاپور پر اختتام پذیر ہوگا۔
’’لیجن آف آنر کا گرینڈ کراس‘‘
جمعرات کو فرانسیسی صدر نے جکارتا میں قائم بدھ مت کے دنیا کے سب سے بڑے 'ٹیمپل‘ کا دورہ کیا۔ ماکروں نے دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی پر مشتمل ملک انڈونیشیا کے ساتھ ایک نئی ''کلچرل پارٹنر شپ‘‘ یا ثقافتی شراکت داری کا اعلان کرنے سے قبل صدر پرابوو سُبیانتو کو فرانس کے اعلیٰ ترین ایوارڈ سے نوازا۔
(جاری ہے)
دارالحکومت جکارتا میں بات چیت کے بعد، ماکروں اور ان کے ہم منصب پرابوو سوبیانتو جمعرات کو جاوا کے شہر یوگیکارتا سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے وسطی جاوا کے پہاڑوں میں گھرے شہر میگیلانگ میں ملٹری اکیڈمی کے لیے روانہ ہوئے۔ وہاں دونوں صدور نے فوجی پریڈ میں شرکت کی اور بعد ازاں ماکروں نے پرابوو کو فرانس کا اعلیٰ ترین اعزاز ''لیجن آف آنر کا گرینڈ کراس‘‘ دیا۔
نئی کلچرل پارٹنرشپ
بعدازاں ماکروں نے نویں صدی میں تعمیر ہونے والے ''بدھسٹ ٹیمپل‘‘ بوروبدور کا دورہ کیا۔ وہیں دونوں صدور نے فرانس اور انڈونیشیا کے مابین ایک نئی ثقافتی پارٹنر شپ کو فروغ دینے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر ماکروں نے کہا،''اس مندر کے سامنے، ہم ایک نئی ثقافتی شراکت کا آغاز کرکے ایک اہم قدم اٹھا رہے ہیں۔
‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،''پارٹنر شپ کا پہلا ستون ورثہ اور میوزیم کا تعاون اور دوسرا ستون ثقافتی اور تخلیقی صنعتیں ہیں۔‘‘ماکرون نے کہا کہ نئی شراکت داری کی بنیاد سنیما اور فیشن کے ساتھ ساتھ ویڈیو گیمز، ڈیزائن اور فن غذائیت ہوں گے۔
فلسطینی ریاست سے متعلق باہمی پیشکش
بُدھ کو فرانس اور انڈونیشیا کے صدور نے آئندہ ماہ ہونے والی ایک اہم میٹنگ میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان ''باہمی طور پر تسلیم کرنے‘‘ کی پیش رفت پر زور دیا، ایک ایسے وقت میں جب فرانسیسی صدر دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والے مسلم اکثریتی ملک کو اپنی سفارتی کوششوں میں شامل کرنے کا عملی مظاہرہ کر رہے ہیں۔
اس موقع پر انڈونیشی صدر پرابوو نے کہا،''انڈونیشیا کہہ چُکا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے اور سفارتی تعلقات کھولنے کے لیے تیار ہے بشرطیکہ اسرائیل ایک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے۔‘‘
واضح رہے کہ انڈونیشیا کے اسرائیل کے ساتھ کوئی باضابطہ تعلقات نہیں ہیں اور انڈونیشیا میں ''فلسطینی کاز‘‘ کی بہت زیادہ حمایت پائی جاتی ہے۔
دفاعی سمیت متعدد شعبوں میں تعاون کے معاہدے
فرانس اور انڈونیشیا کے درمیان ایک ابتدائی دفاعی معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں، جو رافیل لڑاکا طیاروں اور اسکورپین آبدوزوں سمیت فرانسیسی دفاعی ساز و سامان کے نئے آرڈرز کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں دونوں ممالک نے تجارت، زراعت، ڈیزاسٹر مینجمنٹ، ثقافت اور ٹرانسپورٹ سمیت متعدد شعبوں میں تعاون کے سلسلے میں کئی معاہدوں پر بھی دستخط کیے ہیں۔
فرانسیسی رہنما ایمانوئل ماکروں انڈونیشیا کے بعد سنگاپور کے دورے پر ہوں گے جہاں وہ جمعہ کو ایشیا کے سب سے بڑے سکیورٹی فورم ''شنگریلا ڈائیلاگ‘‘ میں افتتاحی خطاب کریں گے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اور انڈونیشیا انڈونیشیا کے ماکروں نے کو فرانس کے دورے اور ان
پڑھیں:
جامعات میںداخلوں کی کمی ‘ایک چیلنج
پاکستان میں ہائر ایجوکیشن یا اعلی تعلیم سے جڑے معاملات میں کئی طرح کے چیلنجز ہیں ۔ اسی وجہ سے ہم اپنی اعلی تعلیم کے اہداف یا معیارات کو قائم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔
اس کی ایک بڑی وجہ جہاں حکومت سمیت اعلی تعلیم سے جڑے پالیسی ساز ہیں وہیں جامعات کی سطح پر بھی جو علمی اور فکری کام ہونا چاہیے تھا اس کا بڑا فقدان دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بنیادی تعلیم سے لے کر اعلی تعلیم کے معاملات حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں ہیں۔
اس کی ایک جھلک ہمیں ہائر ایجوکیشن سے جڑے فیصلوں ، بجٹ کو مختص کرنے اورنئی جدت کی بنیاد پر تبدیلیوں کے مطابق خود کو نہ ڈھالنے سے، دیکھنے کو ملتی ہے۔اس لیے ساری ذمے داری جامعات اور ان کی قیادت پر نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ حکومت کی فیصلہ سازی اور کمزور پالیسیاں بھی اس ناکامی کے زمرے میں آتی ہیں۔
آج سرکاری یا نجی جامعات کی سطح پر ایک بڑا چیلنج طلبہ و طالبات کی جانب سے داخلوں کی کمی کے طور پر دیکھنے کو مل رہا ہے ۔پچھلے چند برسوں سے داخلوں کی کمی نے جامعات کو مختلف نوعیت کے چیلنجز میں ڈال دیا ہے اور یہ سوال اپنی جگہ اہمیت رکھتا اور غوروفکر کی دعوت بھی دیتا ہے کہ اعلی تعلیم میں داخلوں کی کمی کے پیچھے اصل وجوہات اور محرکات کیا ہیں ۔بالخصوص ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ سماجی علوم میں داخلوں کی کمی کا بحران شدید ہے اور اگر ان داخلوں میں اضافہ نہیں ہوتا تو اس ملک میں سماجی علوم کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ سکتے ہیں۔
بنیادی طور پر آج دنیا میں اعلی تعلیم اور صنعت کے درمیان گہرا تعلق ہے اور ان دونوں اداروں کے درمیان ہم مضبوط رابطہ کاری اور ایک دوسرے کے معاملات کو سمجھ کر کچھ ایسا نیا کرسکتے ہیں کہ دونوں ادارے ایک دوسرے کی ضروریات کو بھی پوراکرنے سمیت ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔لیکن بدقسمتی سے ہم جامعات یا اعلی تعلیم اور انڈسٹری کے درمیان تعلقات میں وہ کچھ نہیںدیکھ رہے جو آج کی جدید دنیا اور جامعات کے تقاضے ہیں۔
جامعات سے جڑے فیصلہ ساز افراد اور اداروں کو اب نئے حالات میں یہ سمجھنا ہوگا کہ پرانی روایات، خیالات اور پرانی حکمت عملی سے اعلی تعلیم کے معاملات کو نہیں چلایا جاسکتا۔آج کی جدید اور کاروباری دنیا ہو یا پروفیشنل ازم سے جڑے معاملات یا مارکیٹ میں آنے والے روزگار کے نئے ٹرینڈز، ان کو نظر انداز کرکے اور پرانی سوچ کے ساتھ کھڑے رہنے سے معاملات حل نہیں ہوسکیں گے ۔مسئلہ محض ڈگری کے حصول کا نہیں بلکہ اس کی اہمیت، معیار یا جدید تقاضوں اور مارکیٹ کی ضرورت کے ساتھ جڑنے سے بھی ہے ۔
ایسے لگتا ہے کہ ہماری نوجوان نسل ڈگری کو بنیاد بنا کر ایک ہی مقام پر کھڑی ہے تو دوسری طرف روزگار کے عدم مواقع، معاشی بدحالی، تربیت کا فقدان ، صنعت کا بحران نے نئی نسل کو ڈگری کی موجودگی کے باوجود نچلے مقام پر کھڑا کیا ہوا ہے۔ ایک بحران ڈگری کی مدت کا ہے اور یہ جو چار سالہ بی ایس پروگرام ہے جس میں تقریباً پانچ برس لگ جاتے ہیں وہ بھی اپنی اہمیت کھو رہا ہے۔
چارسالہ ڈگری پروگرام کی مدت بہت زیادہ ہے اور لوگ اب اتنی مدت کے لیے جامعات کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں اور ان پر جو معاشی بوجھ بڑھ رہا ہے یا جو فیسوں میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے اس میں ان کے لیے خود کو اس مدت اور فیس کے لیے جوڑنا سود مند نہیں لگتا۔نوجوان کم مدت میں ایسی ڈگری چاہتے ہیں جو ان کو روزگار کے ساتھ جوڑے اور یہ ڈگری پروفیشنل بھی ہو اور اس کی مدد سے روزگار کا حصول بھی ممکن ہو۔لوگ نوکریوں کے ساتھ پڑھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی تعلیم اور روزگار دونوں کو بہتر طور مکمل کرسکیں ۔
اس لیے آج کل لمبی مدت کے ڈگری پروگراموں کے مقابلے میں کم مدت کے ڈپلومہ کی اہمیت بڑھتی جارہی ہے اور اس پر جامعات سے جڑے فیصلہ سازوں کو غوروفکر کرکے متبادل راستہ اختیار کرنا چاہیے۔بھاری بھرکم فیسوں کے ساتھ ڈگری کا حصول اور روزگار کے مواقعوں کا نہ ہونا لوگوں کو اعلی تعلیم سے دور کررہا ہے یا ان کو آن لائن پروگراموں کی طرف راغب کررہا ہے۔لیکن ایسے لگتا ہے کہ ہمارے اعلی تعلیم کے ماہرین اور فیصلہ ساز غیر معمولی تبدیلیوں کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔
اسی طرح جب ایک پالیسی کے تحت ہم نے ضلعی سطح پر جامعات کے دائرہ کار کو پھیلایا ہے تو اس سے بڑے شہروں میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان،فیسوں میںکمی یا معیار پر سمجھوتہ کیا یا ہم نے جو کالجوںکی سطح پر بی ایس پروگرام شروع کیے ہیں اس سے بھی بڑے شہروں کی جامعات کو داخلوں کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے جو ان کی اپنی بقا کا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔
یہ نہیں کہ نوجوان اعلی تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہتے بلکہ وہ جدید تقاضوں کے مطابق آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور ہمیں ان نوجوانوںکے علمی اور معاشی مسائل کو سمجھ کر اپنی پالیسیوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کو لانے کی ضرورت ہے۔یہ عمل مختلف فیصلہ ساز اور تعلیمی ماہرین کے درمیان ایک بڑی سنجیدہ مشاورت کا تقاضا کرتا ہے کہ ہمیں اپنے موجودہ نصاب میں ایسی کیا بنیادی نوعیت کی تبدیلیاںلانی ہیں جو ہماری ضرورت کو پورا کرسکے۔یہ جو ہم نے 18ویں ترمیم کے بعد وفاق اور صوبوں کی سطح پر ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیے ہوئے ہیں یہ کس مرض کی دواہیں اور یہاں بیٹھے ہوئے لوگ کیونکر متبادل پالیسی دینے میں ناکام ہیں۔
ایسے لگتا ہے کہ یا تو ان کے پاس اختیارات نہیں ہیں یا ان کو اعلی تعلیم سے جڑے آج کے مسائل کا ادراک نہیں ہے۔صنعت سے جڑے افراد ہمیشہ یہ گلہ کرتے ہیں کہ ہمارے پاس جو نوجوانوں کی نسل اعلی تعلیم کے بعد آرہی ہے اس کے علم اور صلاحیتوں میں وہ کچھ نہیںہے جو ہماری ضرورت ہے۔اس لیے ان کے لیے روزگار کے مواقع بڑھنے کے بجائے کم ہورہے ہیں اور اعلی ڈگری کے مقابلے میںکم پڑھے لکھے نوجوان جو مختلف شارٹ کورسز کی مدد سے ہمارے پاس آرہے ہیں وہ ہماری ضرورت کو پورا کرتے ہیں،یعنی ہماری جامعات میں دی جانے والی تعلیم اعلی صلاحیتوں کو پیدا کرنے سے جڑی ہوئی نہیں ہے۔
جامعات کی سطح پر وہ شعبہ جات جہاں داخلوں کی کمی کا بحران ہے وہاںہمیں ان کے ڈسپلن کے اندر رہتے ہوئے نئے ماڈرن پروگراموں کو جاری کرنا ہوگا جو نئے تقاضوں کے مطابق ہو۔اسی طرح بدقسمتی سے ہم نے اعلی تعلیم سے جڑے معاملات اور فیصلوں کابڑا اختیار ماہرین تعلیم یا جامعات کو دینے کے بجائے بیوروکریسی کے ہاتھوں میںدے دیا ہے اور بیورورکریسی نے مسائل کو اور زیادہ بگاڑ دیا ہے۔جب تک تعلیم کے معاملات ماہرین تعلیم کے پاس نہیں ہونگے اصلاح کے امکانات محدود رہیں گے جو مزید مسائل کو پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔
اس وقت بھی حکومت کو چاہیے کہ وہ اعلی تعلیم سے جڑے مسائل کو سنجیدگی سے لے اور اس پر غوروفکر کرکے تمام متعلقہ فریقین کی مشاورت سے بہتری کا راستہ تلاش کرے ۔کیونکہ موجودہ ہائر ایجوکیشن کا نظام نہ صرف اعلی تعلیم بلکہ معیشت کی ترقی سے جڑے معاملات میں بھی خرابی پیدا کررہا ہے۔کیونکہ جب تک ہم اپنے اعلی تعلیم کے معیارات میںبہتری نہیں پیدا کریں گے یا اس کے تعلق کو مارکیٹ کی ضرورت کے ساتھ نہیں جوڑیں گے بہتری کا راستہ ممکن نہیں۔ خود جامعات کے سربراہان کو اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر ایک ایسا اعلی تعلیم کی ترقی کا روڈ میپ سامنے لانا چاہیے اور اس کو بحث کا حصہ بنا کر حکومت یا اعلی تعلیم کے بارے میں فیصلہ کرنے والوں کے سامنے رکھا جائے تاکہ ہم سب مل کر اعلی تعلیم کے بحران کو حل کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کرسکیں ۔