پوسٹل سروسز میں 9 ارب روپے کے بل، منی آرڈری کی رقم سرکاری اکاؤنٹ میں جمع نہ کرائے جانے کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
اسلام آ باد:
قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ منی آرڈر کی مد میں جمع ہونے والے 9 ارب روپے کے بل اور منی آرڈر کی رقم سرکاری اکاؤنٹ میں جمع نہ کروائے جانے کا انکشاف ہوا ہے اور کہا گیا کہ متعدد پوسٹ آفسز نے کسی اور مد میں استعمال کرلیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی اور چیئرمین پی اے سی جنید اکبر کی زیرصدارت اجلاس میں انکشاف ہوا کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں جمع کیے گئے 9 ارب روپے کے بل اور منی آرڈر کی رقم سرکاری اکاؤنٹ میں جمع نہیں کروایا گیا ہے۔
اجلاس میں آڈٹ حکام نے بتایا کہ عوام کے جمع کیے گئے پیسے 37 پوسٹ آفسز نے کسی اور مد میں استعمال کرلیے ہیں، عوام سے پیسے وصول ہوگئے لیکن ان کی ادائیگی ظاہر نہیں کی گئی ہے۔
جنید اکبر نے حکام کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ میرے پیسے کیسے اپنے لیے استعمال کرسکتے ہیں، جس پر پوسٹل سروسز کے عہدیداروں نے بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں وگرنہ یہ بڑا کیا ہوتا، یہ تمام معاملات درست ہو جائیں گے جب اعدادوشمار کا مکمل احاطہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ نیشنل بینک نے ہمیں 3 ماہ کا وقت دیا ہے اور اس دوران یہ مسئلہ حل ہو جائے گا، جس پر جنید اکبر خان نے کہا کہ یہ کون سا دعویٰ ہے کہ نیشنل بینک آپ کو بینک اسٹیٹمنٹ نہیں دے رہا ہے، 2024 میں آپ نے مانا کہ غلط کام ہوا ہے ذمہ داری کا تعین کرنا ہوگا اور اب آپ پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگلے اجلاس میں نیشنل بینک کو بلایا جائے تب اس آڈٹ پیرا کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے نیشنل بینک حکام کو آئندہ اجلاس میں طلب کرتے ہوئے آڈٹ اعتراض مؤخر کردیا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
کرپٹو کی تاحال کوئی قانونی حیثیت نہیں، اسٹیٹ بینک کی پابندی اس پر برقرار ہے، سیکریٹری خزانہ
اسلام آباد:سیکریٹری خزانہ نے کہا ہے کہ کرپٹو کی اب بھی کوئی قانونی حیثیت نہیں اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی کی جانب سے اس پر پابندی برقرار ہے، جب حکومت کوئی فیصلہ کرے گی تب ہی ریگولیٹری فریم ورک بنے گا۔
سیکریٹری خزانہ کے اس بیان پر کمیٹی نے کرپٹو کونسل کے چیئرمین اور ارکان کو طلب کرکے بریفنگ لینے کا فیصلہ کرلیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق نفیسہ شاہ کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس منعقد ہوا۔
سیکریٹری خزانہ نے کہا کہ اسٹیٹ بینک اور ایس ای سی پی کی جانب سے کرپٹو کرنسی پر پابندی برقرار ہے، جب حکومت کوئی فیصلہ کرے گی تب ہی ریگولیٹری فریم ورک بنے گا، قانونی حیثیت یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی پر ابھی بھی پابندی ہے، ابھی تک کرپٹو پاکستان میں لیگل ٹینڈر نہیں ہے، جب حکومت کوئی فیصلہ کرے گی تب ہی ریگولیٹری فریم ورک بنے گا۔
رکن کمیٹی مرزا اختیار بیگ نے سیکریٹری خزانہ سے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے کرپٹو پر پابندی ہے لیکن لوگ سرمایہ کاری کر رہے ہیں؟ آپ نے کرپٹو کی پروجیکشن ایسی کی ہے کہ لوگ اس طرف آرہے ہیں، اگر کل کرپٹو قبول نہیں کی جاتی تو لوگوں کا پیسہ تو ڈوب جائے گا، ایسا کوئی بیان جاری کریں کہ کرپٹو ابھی لیگل فریم ورک سے گزر رہی ہے۔
رکن کمیٹی محمد مبین نے کہا کہ ایک طرف آپ کہہ رہے ہیں کرپٹو کرنسی قانونی نہیں اور پھر بجلی بھی مختص کردی، کرپٹو کونسل کے سی ای او بلال بن ثاقب بہت اہم لوگوں سے ملاقات کررہے ہیں۔
یہ پڑھیں : پاکستان کا پہلے سرکاری اسٹریٹجک بٹ کوائن ریزرو کا اعلان
رکن کمیٹی شہرام ترکئی نے کہا کہ کرپٹو کے ذریعے کچھ عرصے بعد ڈالر ملک سے باہر چلے جائیں گے، کچھ عرصے بعد حکومت سر پکڑ کر بیٹھ جائے گی کہ یہ کیا ہو گیا۔
سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ پاکستان کرپٹو کونسل کے ابھی تک قوانین نہیں بنے، کرپٹو کونسل وزیراعظم کے ایگزیکٹو آرڈر پر قائم کی گئی ہے، کونسل صرف ریگولیٹری فریم ورک کے طریقہ کار کے تعین کیلئے بنائی، کرپٹو کے حوالے سے کوئی بھی ادارہ پارلیمنٹ کی منظوری سے قائم ہوگا۔
سیکریٹری خزانہ کے اس بیان پر کمیٹی نے کرپٹو کونسل کے چیئرمین اور ارکان کو طلب کرکے بریفنگ لینے کا فیصلہ کرلیا۔