انٹر نیشنل بکرا بچھڑا و اونٹ میلہ، لاہور کے 257کلوگرام وزنی بکرے کی پہلی پوزیشن
اشاعت کی تاریخ: 29th, May 2025 GMT
مکوآنہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 29 مئی2025ء)27 ویں انٹر نیشنل بکرا 'بچھڑا 'اونٹ میلہ میں لاہور کے 257کلوبکرے قلندر نے پہلی پوزیشن کیساتھ سات لاکھ روپے کا انعام جیت لیا، سب سے زیادہ وزنی بچھڑے کا مقابلہ بھی احسن ہاشمی آ ف لاہورکے 1430کلو وزنی باس نامی نے جیت کر 3لاکھ روپے کاپہلاا نعام اپنے نام کیا۔انٹرنیشنل بکرا بچھڑا ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام صحت مند خوبصورت اور وزنی بکروں 'بچھڑوں اونٹوں بھینسوں کے مقا بلے زر عی یونیورسٹی کے نیزہ بازی سٹیڈیم میں منعقد ہوئے بانی چیئرمین آ رگنائز نگ کمیٹی چوہدری عطامحمدگجر کی سربراہی میں 27 ویں سالانہ 2025 کے اس تین روزہ میلے میں دور دراز سے لوگوں کی بڑی تعداد نے اپنے پالتو مویشیوں کیساتھ شرکت کی وزنی بکروں کے مقابلہ میں گوجرانوالہ سے فرخ اعجاز کے 256 کلو بکرے مرشد نے دوسری پوزیشن کا تین لاکھ روپے جبکہ لاہور سے احسن ہاشمی کی247کلو بکرے سلطان نے تیسرا انعام ایک لاکھ روپئے جیتا۔
(جاری ہے)
وزنی بچھڑے کا دوسرا انعام فرخ اعجاز کی1428کلوبچھڑے نے جبکہ لاہور سے زاہد جٹ کی1365کلو بچھڑے نے میڈل جیتا۔زیادہ دودھ دینے والی بکریوں کے مقابلے میں کامونکی سے آ ئیبابابلو کی بکری مستانی نی9کلو 500گرام دودھ دیکر نہ صرف پہلا انعام 2لاکھ روپے جیت لیا بلکہ ورلڈ ریکارڈ بھی قائم کیا۔ملک عمران فیصل آباد کی بکری بلی ڈاچی نی8کلو 7گرام اوراللہ دتہ کی بکری سوہنی نی7کلو 455گرام دودھ دیکر دوسرا اور تیسرا انعام اپنے نام کیا۔وزنی چھتروں کے مقابلہ میں فرخ اعجازکے 190 کلو شہزادہ پہلے نمبر پر آ یا اور 3لاکھ کاانعام جیتا۔لاہور کے عمربٹ کا177کلوچھترانے دوسری پوزیشن پر ایک لاکھ اور فرخ اعجازگوجرانوالہ کی173کلوچھترے نے تیسرا انعام50ہزار رو پے جیت لیا۔ وزنی اونٹ مقابلہ میں عادل چٹھہ گوجرانوالہ کی1415کلو فخر پاکستان پہلے نمبرپر3 لاکھ، فرخ اعجازکی1410کلوکملانامی اونٹ کو دوسرا انعام ایک لاکھ جبکہ لیہ بھکر سے حاجی اللہ بخش کے 1335کلواونٹ کو تیسرا انعام50ہزار دیاگیا۔وزنی بھینسے کٹے کامقابلہ میں علی عطاکی1026کلو نے پہلا انعام جیتا۔تین روزہ خوبصورت صحت مند وزنی بکرے بچھڑے چھترے اونٹ بھیسے مقابلوں میں کل 21 مختلف کیٹگری کے مقابلے ہوئے۔ ان میں ٹیڈی کراس اور پیور بکرے بکریاں سینگ اور بغیر سینگ والے بکرے زیادہ دودھ دینے والی مختلف نسلوں کی بکریوں کے مقابلے شامل تھے۔ فیصل آباد انٹرنیشنل بکرا بچھڑا ایسوسی ایشن کے بانی چیئرمین چوہدری عطا محمدگجر کی زیر قیادت عید قرباں کے موقعے پر عید سے کچھ دن پہلے یہ مقابلے منعقد کئے جارہے ہیں ان کا مقصد قربانی کے جانوروں کی بہتر پرورش یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ خوراک کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے سلسلہ میں دودھ اور گوشت کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیلئے کاوش کو آ گے بڑھانا ہے اس لئے یہ مقا بلے گزشتہ 27سال سے پورے اہتمام کیساتھ منعقد ہورہے ہیں۔چوہدری عطا محمد نے بتایا کہ ان مقابلوں میں کئی عالمی ریکارڈ قائم ہو چکے ہیں۔ 2021 میں وزنی بکرے،2024 میں دنیاکے سب سے وزنی اونٹ اوراس سال سب سے زیادہ دودھ دینے والی بکری نے ورلڈ ریکارڈ قائم کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس سالانہ فیسٹول پر تقریبا 20 ملین رو پے لاگت آ ئی جبکہ صدر فرخ اعجاز نائب صدور شیخ عبد الوہاب،اسد بٹ جنرل سیکرٹری چوہدری عاطف، سرپرست اعلیٰ احسن ہاشمی،آرگنائزنگ کمیٹی چوہدری محمد اشرف سمیت دیگر ممبران نے شب وروز بھاگ دوڑ اور بھر پور کاوشوں کیساتھ سالانہ مقابلوں کے اہتمام اور انتظامات کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے تیسرا انعام مقابلہ میں لاکھ روپے کی بکری
پڑھیں:
پیپلز پارٹی کی سب سے بہتر سیاسی پوزیشن
پیپلز پارٹی ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں اس لیے سب سے بہتر پوزیشن میں ہے کہ اقتدار پر اقتدار اسے حاصل ہو رہا ہے مگر اس کے مطابق وہ وفاقی حکومت میں شامل نہیں، مگر ملک کے دو بڑے اور دو چھوٹے وفاقی عہدے اور دو صوبوں کی حکومتیں اس کے پاس تو تھیں ہی مگر اس نے حصول اقتدار میں اضافے کے لیے 8 ماہ کی بچی ہوئی آزاد کشمیرکی حکومت بھی حاصل کر لی مگر پھر بھی مطمئن نہیں، کیونکہ اسے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے اقتدار میں حصہ نہیں مل رہا۔
صوبہ سندھ میں اس کی واضح اکثریت ہے کہ جہاں اس نے اپنے تمام بڑے لیڈروں کو وزارتوں سے نواز رکھا ہے اور تھوک کے حساب سے سندھ حکومت کے ترجمان مقرر کر رکھے ہیں بلکہ بعض کو کئی کئی عہدوں اور محکموں سے نواز رکھا ہے جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اس نے سکھر کے میئر کو سندھ حکومت کا ترجمان بھی بنا رکھا ہے۔ سندھ حکومت نے پی پی سے باہر صرف ایک عہدہ مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور کراچی کے سابق ڈپٹی ناظم کو دیا ہے۔ سندھ کی تمام میونسپل کارپوریشنوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ سندھ حکومت نے ان شہروں میں بھی اپنے میئر منتخب کرا رکھے ہیں، جہاں پہلے ایم کیو ایم کے میئر منتخب ہوا کرتے تھے۔
پہلی بار سندھ کابینہ کی تشکیل میں بلاول بھٹو ہی کا اہم کردار ہے مگر نہ جانے کیوں انھوں نے لاڑکانہ ڈویژن کو نظرانداز کیا اور وہاں سے سندھ کابینہ میں کوئی وزیر شامل نہیں کیا۔ مرحوم آغا سراج درانی پیپلز پارٹی کی سندھ کی پانچ حکومتوں میں اہم وزارتوں اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر رہے مگر پہلی بار انھیں موجودہ سندھ حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دیا گیا تھا جن کا تعلق شکارپور ضلع سے تھا اور اس بار آغا سراج پہلی بار کسی عہدے سے محروم رہے اور بلاول بھٹو ان کی وفات پر تعزیت کے لیے ان کے آبائی گھر گڑھی یاسین ضرور گئے ہیں۔
بھٹو صاحب سے بے نظیر بھٹو تک سندھ میں پیپلز پارٹی کی مختلف سالوں میں تین حکومتیں رہیں مگر پی پی کی سربراہی آصف زرداری کو ملنے کے بعد 2008 سے 2024 تک سندھ میں مسلسل پیپلز پارٹی کو اقتدار ملتا رہا اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو اتنی بڑی کامیابی بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کے دور میں نہیں ملی، جتنی آصف زرداری نے دلوائی اور انھوں نے سندھ کے تمام بڑے سرداروں، پیروں اور وڈیروں کو پیپلز پارٹی میں شامل کرا رکھا ہے۔ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا صفایا ہی ہو چکا ہے اور پیپلز پارٹی اپنے ارکان اسمبلی ان علاقوں سے بھی پہلی بار منتخب کرانے میں کامیاب رہی جہاں سے پہلے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل کامیاب ہوا کرتی تھی۔ اس وقت سندھ کے اقتدار پر پیپلز پارٹی کا مکمل کنٹرول ہے اور اندرون سندھ تو پی پی کا مکمل گڑھ ہے۔
سندھ کے قریب بلوچستان کا صوبہ ہے جہاں کئی بار پیپلز پارٹی کا وزیر اعلیٰ رہا۔ بلوچستان سے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کو ایک جیسی نشستیں ملی تھیں مگر 2024کے (ن) لیگ سے انتخابی معاہدے میں آصف زرداری نے بلوچستان کا وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا بنوایا اور پنجاب و کے پی کے گورنروں، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر، قومی اسمبلی کے عہدے جو آئینی ہیں پیپلز پارٹی نے حاصل کر رکھے ہیں۔پیپلز پارٹی کی طرف سے حکومت کی حمایت ترک کرنے اور اپوزیشن میں بیٹھنے کے بیانات اس لیے آئے دن آتے ہیں کہ پی پی چاہے تو حکومت کی حمایت ترک کر کے (ن) لیگی حکومت ختم کرا سکتی ہے مگر (ن) لیگ پیپلز پارٹی کو کوئی نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی کوئی آئینی عہدہ مسلم لیگ (ن) پی پی سے لے سکتی ہے اور پی پی رہنماؤں کے مطابق دونوں پارٹیوں کا اتحاد مجبوری کا اتحاد ہے جو کسی وجہ سے اب تک قائم ہے مگر مسلم لیگ پر پیپلز پارٹی کو سبقت حاصل ہے۔
اس لیے پی پی دھمکیاں بھی دیتی رہتی ہے مگر (ن) لیگ پی پی کو دھمکی دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے اس لیے پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) سے زیادہ بہتر سیاسی پوزیشن میں ہے۔ پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کو دھمکیاں دے کر اپنے کئی مطالبے منوائے ہیں جن میں دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کا اہم مسئلہ بھی شامل تھا جو تسلیم نہ کیے جانے سے سندھ میں پی پی کو سیاسی نقصانات پہنچا سکتا تھا۔
پیپلز پارٹی اپنی سیاسی برتری کے باعث اب تک پنجاب میں ہوئے پاور شیئرنگ معاہدے پر (ن) لیگ سے عمل نہیں کرا سکی، کیونکہ (ن) لیگ کو پنجاب اسمبلی میں برتری حاصل ہے اور وہ پی پی کی محتاج تو نہیں مگر دونوں پارٹیوں کے درمیان معاہدے میں پنجاب حکومت میں پی پی رہنماؤں کو شامل کرنے کا معاہدہ موجود ہے جس پر عمل نہیں ہو رہا جس پر پی پی رہنما کہتے ہیں کہ اس سے وفاقی حکومت خطرے میں ڈالی جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق وفاق میں مسلم لیگ (ن) کے پاس اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے واضح اکثریت موجود ہے اور وہ اب پیپلز پارٹی کی محتاج نہیں ہے اور بلوچستان حکومت سے الگ ہو کر وہاں پی پی کی حکومت ضرور ختم کرا سکتی ہے مگر 27 ویں ترمیم منظور کرانے کے لیے اسے پی پی کی ضرورت ہے اس لیے بلاول بھٹو مولانا سے ملنے گئے تھے۔