انجلین ملک کی 6 کیمو تھراپیز مکمل؛ مداحوں کے نام خصوصی ویڈیو پیغام
اشاعت کی تاریخ: 30th, May 2025 GMT
کینسر کا بہادری سے مقابلہ کرنے والی اداکارہ انجلین ملک کی 6 کیموتھراپیز مکمل ہوگئیں جس پر انھوں نے ایک خصوصی پیغام جاری کیا ہے۔
شوبز کی دنیا کے تقریباً تمام ہی شعبوں اپنا نام بنانے والی ماڈل، اداکارہ، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر انجلین ملک اسپتال میں داخل ہیں۔
انھیں کینسر ہے جس کا وہ بہت دلیری سے مقابلہ کر رہی ہیں اور اپنی بیماری کی پیشرفت سے متعلق مداحوں کو آگاہ بھی کرتی رہتی ہیں۔
انجلین ملک کی کیمو تھراپیز کے 6 سیشن مکمل ہوگئے جس پر انھوں سے ایک ویڈیو پیغام بھیجا ہے۔
انھوں نے انسٹاگرام پر لکھا کہ کیموتھراپی مذاق نہیں، یہ بہت تکلیف دہ ہے لیکن میں بیماری کو شکست دینے کے لیے اس کا سامنا کررہی ہوں۔
View this post on InstagramA post shared by Angeline Malik (@angelinemalikofficial)
اداکارہ انجلین ملک نے مزید لکھا کہ ’ایک دن، ایک سانس اور ایک دل کی دھڑکن‘۔ یہ ایک طاقت ہے، مضبوطی ہے۔ بالکل میری طرح۔
انجلین ملک کی اس ویڈیو پر ان کے مداحوں اور ساتھی فنکاروں نے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے ان کی بہادری اور عزم کو سراہا۔
نور بخاری نے کمنٹ میں مشورہ دیا کہ علاج کے دوران روانہ تین بار سورہ رحمٰن کو سات دن تک سنیں۔ یہ ایک معجزاتی تھراپی ہے۔
سوشل میڈیا صارفین، ساتھی فنکاروں اور مداحوں نے ان کی پوسٹ پر دعائیہ کلمات لکھے اور جلد صحت یابی کی دعا بھی کی۔
واضح رہے کہ فروری کے پہلے ہفتے میں انجلین ملک نے بتایا تھا کہ انھیں کینسر ہے اور وہ اس مرض کو شکست دینے کے لیے بہادری کے ساتھ مقابلہ کریں گی۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: انجلین ملک کی
پڑھیں:
کتاب "غدیر کا قرآنی تصور" کی تاریخی تقریبِ رونمائی
اسلام ٹائمز: محفل کے اختتام پر شرکائے تقریب کے تاثرات ایک جیسے تھے۔ یہ صرف ایک کتاب کی رونمائی نہیں بلکہ پیغامِ غدیر کی نئی بیداری تھی۔ علمائے کرام، ادبا، دانشور، صحافی، سماجی و تعلیمی شخصیات اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد نے اس تقریب کو نہایت کامیاب، فکرساز، تعمیری اور منفرد قرار دیا۔ آخر میں مقررین نے جامعۃ النجف کی انتظامیہ کو اس عظیم علمی اجتماع کے انعقاد پر زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ محفل ختم ہوئی مگر اس کی روحانی بازگشت ابھی تک حاضرین کے دلوں میں تھی۔ جیسے غدیر کا پیغام ایک بار پھر ایمان کی سرزمین پر اتر آیا ہو۔ واقعہ نگار: آغا زمانی
سکردو کی روح پرور فضا میں اس دن ایک علمی و روحانی کہکشاں سجی ہوئی تھی۔ جامعۃ النجف کے وسیع و پرنور ہال میں اہلِ علم و دانش، طلاب، اساتذہ، ادبا اور محققین کا ایک خوبصورت اجتماع برپا تھا۔ ہر چہرے پر تجسس اور خوشی کی جھلک تھی، کیونکہ آج یہاں اس کتاب کی رونمائی ہونی تھی، جس نے دنیا کی تیس سے زائد زبانوں میں اپنا پیغام پھیلایا۔ اس کتاب کا نام ہے ''غدیر کا قرآنی تصور، تفاسیر اہلسنت کی روشنی میں۔'' یہ کتاب جو حجۃ الاسلام علامہ ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی کی فکری و قرآنی جستجو کا نچوڑ ہے، اپنی معنویت اور عالمگیر پیغام کی بدولت ایک تاریخی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ اس کا سلیس اردو ترجمہ حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ محمد علی توحیدی نے انجام دیا ہے، جس نے اسے اردو داں طبقے کے لیے ایک فکری ضیافت بنا دیا ہے۔
تقریب کا آغاز جامعۃ النجف کے گروہِ تلاوت نے نہایت خوش الحانی سے کلامِ ربانی کی تلاوت سے کیا۔ تلاوت کے بعد مشہور نعت خواں، فرزندِ قائد بلتستان (علامہ شیخ غلام محمد غروی رح) مولوی غلام رضا نے اپنی پراثر آواز میں بارگاہِ رسالت میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے تو فضا درود و صلوات سے گونج اٹھی۔ پھر بلتستان یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر صابر نے کتاب پر اپنے گہرے تاثرات کا اظہار کیا۔ ان کے لہجے میں ایک محقق کا شعور اور مومن کا یقین جھلک رہا تھا۔ کہنے لگے: یہ کتاب محض ایک علمی تصنیف نہیں بلکہ انسانِ مومن کے لیے روشنی کا مینار ہے۔ غدیر سے دوری دراصل نظامِ حیات سے دوری ہے اور پاکیزہ زندگی کا راز غدیر سے تمسک میں پوشیدہ ہے۔
اس کے بعد حجۃ الاسلام سید سجاد اطہر موسوی نے نہایت خوبصورت منظوم کلام کے ذریعے کتاب کے موضوع پر اپنے احساسات کا اظہار کیا۔ ان کے اشعار نے فضا کو وجد و کیف سے بھر دیا۔ سابق سینیئر وزیر حاجی محمد اکبر تابان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علامہ ڈاکٹر یعقوب بشوی کی علمی کاوش قوم کے فکری سرمایہ میں گراں قدر اضافہ ہے۔ ان کے بعد معروف ادیب اور تاریخ دان محمد حسن حسرت نے کتاب کے فکری پہلوؤں پر مدلل تبصرہ کیا اور اس کی تحقیقی گہرائی کو سراہا۔
اسی سلسلے میں معروف محقق محمد یوسف حسین آبادی نے واقعۂ غدیر پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: غدیر کسی مخصوص دور کا پیغام نہیں بلکہ ہر زمانے کے انسان کے لیے ہدایت کا منشور ہے۔ تقریب کے روحانی اوج پر حجۃ الاسلام و المسلمین آغا سید محمد علی شاہ الموسوی فلسفی نے کتاب پر عالمانہ اور فلسفیانہ نقد پیش کیا۔ ان کی گفتگو علم و عرفان کی گہرائیوں میں اترتی محسوس ہوئی۔
جامعۃ النجف کے استاد، برجستہ محقق اور معروف عالم دین شیخ سجاد حسین مفتی نے کتاب پر نہایت دقیق، عمیق اور فکری تجزیہ پیش کیا۔ ان کی گفتگو نے سامعین کو مسحور کر دیا اور ہال درود سے گونج اٹھا۔ یہ تقریب نہ صرف ایک کتاب کی رونمائی تھی بلکہ غدیر کے ابدی پیغام کی تجدیدِ عہد بھی تھی۔ علم و عشق کے سنگم پر سجی یہ محفل اس بات کا اعلان تھی کہ غدیر کی روشنی آج بھی انسانیت کو راستہ دکھا رہی ہے۔
جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ کے نمائندے محمد کاظم سلیم نے نہایت جامع اور مدلل انداز میں مختصر مگر پراثر خطاب کیا۔ ان کے چند الفاظ نے گویا محفل کے فکری رنگ کو اور بھی گہرا کر دیا۔ اس کے بعد محفل کے صدر، نائب امام جمعہ مرکزی جامع مسجد سکردو اور صدر انجمنِ امامیہ بلتستان، حجۃ الاسلام و المسلمین آغا سید باقر الحسینی نے خطبۂ صدارت پیش کیا۔ ان کا لہجہ محبت، علم اور تقدیس سے لبریز تھا۔ انہوں نے فرمایا: علامہ ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی کی یہ تصنیف ایک علمی معجزہ ہے، جو قرآن اور ولایت کے رشتے کو واضح کرتی ہے۔ مترجم علامہ شیخ محمد علی توحیدی نے اسے جس فصاحت اور وضاحت سے پیش کیا، وہ قابلِ تحسین ہے۔ آغا باقر الحسینی نے مؤلف، مترجم، تمام مبصرین اور شرکائے محفل کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔ ان کی دعا کے ساتھ فضا میں سکون اور نورانیت کی کیفیت پیدا ہوگئی۔
پھر اس علمی جشن کے مرکزی کردار، کتاب کے مصنف علامہ ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی ڈائس پر آئے۔ ان کے چہرے پر عاجزی اور شکر گزاری کی جھلک نمایاں تھی۔ مدبرانہ اور پرعزم لہجے میں فرمایا: اس کتاب کا مقصد صرف ایک علمی خدمت نہیں، بلکہ یہ ایک عالمی ذمہ داری کا اعلان ہے۔ آٹھ ارب انسانوں تک پیغامِ غدیر پہنچانا ہم سب کا فریضہ ہے۔ یہ کتاب اسی مشن کا ایک چھوٹا سا قدم ہے۔ انہوں نے تمام حاضرینِ محفل، علماء، دانشوروں اور منتظمین کا خصوصی شکریہ ادا کیا اور امید ظاہر کی کہ یہ پیغام جلد پوری دنیا میں عام ہوگا۔
اس کے بعد مترجمِ کتاب حجۃ الاسلام و المسلمین شیخ محمد علی توحیدی نے اپنے پرشوق اور بصیرت افروز انداز میں اظہارِ خیال کیا۔ ان کی گفتگو میں علم کا وقار اور ایمان کا جوش ایک ساتھ جھلک رہا تھا۔ انہوں نے فرمایا: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غدیر کے دن اعلانِ ولایت کے فوراً بعد فرمایا کہ جو یہاں موجود ہیں، وہ یہ پیغام دوسروں تک پہنچائیں۔ افسوس کہ ہم اس ذمہ داری میں کوتاہی کرتے آئے ہیں۔ اگر ہر غدیری فرد صرف تین افراد تک یہ پیغام پہنچاتا تو آج پوری دنیا غدیری ہوتی۔ ان کا یہ جملہ ہال میں گونجتا رہا۔ حاضرین نے تائید میں سر ہلائے۔ انہوں نے مزید کہا: آج میڈیا کے دور میں پیغامِ غدیر کی ترویج نہ صرف ممکن بلکہ آسان ہے۔ اس کتاب کو کروڑوں کی تعداد میں شائع ہونا چاہیئے، تاکہ دنیا کے ہر کونے تک یہ نور پہنچے۔
تقریب کی نظامت کے فرائض نہایت خوش اسلوبی سے شیخ محمد اشرف مظہر نے انجام دیئے۔ ان کی سنجیدہ آواز اور متوازن گفتگو نے پورے پروگرام کو حسنِ ترتیب بخشا۔ محفل کے اختتام پر شرکائے تقریب کے تاثرات ایک جیسے تھے۔ یہ صرف ایک کتاب کی رونمائی نہیں بلکہ پیغامِ غدیر کی نئی بیداری تھی۔ علمائے کرام، ادبا، دانشور، صحافی، سماجی و تعلیمی شخصیات اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد نے اس تقریب کو نہایت کامیاب، فکرساز، تعمیری اور منفرد قرار دیا۔ آخر میں مقررین نے جامعۃ النجف کی انتظامیہ کو اس عظیم علمی اجتماع کے انعقاد پر زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ محفل ختم ہوئی مگر اس کی روحانی بازگشت ابھی تک حاضرین کے دلوں میں تھی۔ جیسے غدیر کا پیغام ایک بار پھر ایمان کی سرزمین پر اتر آیا ہو۔