غزہ میں اسرائیلی کارروائیاں، 20 قیدی ہلاک؛ 54 کی زندگی خطرے میں ہے: اسرائیلی اخبار
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
اسرائیلی اخبار "ہارٹز" نے ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے دوران کم از کم 20 اسرائیلی قیدی ہلاک ہو چکے ہیں۔خبار نے ایک فوجی ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ "اگرچہ فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ مغویوں کی حفاظت کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے، تاہم زمینی حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ ان آپریشنز نے 54 قیدیوں کی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا، جن میں سے کم از کم 20 قیدی ہلاک ہو چکے ہیں۔"ذرائع کے مطابق کئی مواقع پر غزہ میں ان اہداف کو نشانہ بنایا گیا جہاں قیدیوں کی موجودگی کی تصدیق نہیں کی گئی تھی۔رپورٹ میں اپریل میں پیش آنے والے ایک واقعے کا بھی ذکر کیا گیا ہے، جب اسرائیلی فوج نے ایک ایسی عمارت پر بمباری کی جس کے نیچے موجود ایک سرنگ میں دو قیدی، عیدان الیگزینڈر (جو مئی میں رہا ہو گیا تھا) اور میتان تسنجاؤکر موجود تھے۔ بمباری سے سرنگ کا ایک حصہ منہدم ہو گیا، جو ان کی ہلاکت کا سبب بن سکتا تھا، مگر دونوں بال بال بچ گئے۔تحقیقی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج خود تسلیم کرتی ہے کہ قیدیوں کا درست سراغ لگانا انتہائی مشکل ہے، کیونکہ وہ مسلسل مقام تبدیل کرتے رہتے ہیں اور جو انٹیلی جنس معلومات دستیاب ہوتی ہیں وہ محض وصولی کے وقت تک ہی قابل بھروسا ہوتی ہیں۔اگرچہ ایک خصوصی آپریشن روم چوبیس گھنٹے ان علاقوں کی نگرانی پر مامور ہے جہاں قیدیوں کی موجودگی کا شبہ ہو، لیکن رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ "جب بھی حملوں کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے، قیدیوں کو لاحق خطرات بھی بڑھ جاتے ہیں۔تحقیق میں انکشاف کیا گیا کہ ہلاک ہونے والے بعض قیدی براہ راست بمباری کا نشانہ بنے، جبکہ دیگر کو ان کے اغوا کاروں نے اس وقت مار دیا جب انہیں خدشہ ہوا کہ اسرائیلی فوج ان کے قریب پہنچ گئی ہے۔قیدیوں کے اہل خانہ نے فوج پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ حملے کرنے سے قبل یہ یقینی نہیں بناتی کہ متعلقہ مقامات پر ان کے پیارے موجود نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فوجی حکمت عملی میں قیدیوں کی حفاظت کو ترجیح نہیں دی جاتی۔تل ابیب کے اندازوں کے مطابق اس وقت بھی تقریباً 58 اسرائیلی قیدی غزہ میں موجود ہیں، جن میں سے صرف 20 کے زندہ ہونے کا امکان ہے۔اسرائیلی اپوزیشن اور قیدیوں کے اہل خانہ وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو پر تنقید کر رہے ہیں کہ وہ حکومت میں دائیں بازو کی جماعتوں کے دباؤ اور اپنے سیاسی مفادات کی خاطر جنگ کو طول دے رہے ہیں۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج قیدیوں کی
پڑھیں:
جرگے کی بنیاد پر فیصلے اور قتل جیسے اقدامات کسی صورت قبول نہیں، وزیر صحت بلوچستان بخت کاکڑ
بلوچستان میں غیرت کے نام پر قتل کے حالیہ واقعات کے حوالے سے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صوبائی وزیر صحت بخت کاکڑ نے کہا کہ جرگے کی بنیاد پر فیصلے اور قتل جیسے اقدامات کسی صورت قابلِ قبول نہیں، موجودہ دور میں کہ جب قانون موجود ہے، 2 متوازی نظام نہیں چل سکتے۔
صوبائی وزیر کے مطابق ماضی میں جب ریاستی ادارے یا عدالتی نظام موجود نہیں تھے تو جرگہ ایک مقامی سطح پر انصاف فراہم کرنے والا نظام تھا، جو مخصوص قبائلی حالات میں اپنی افادیت رکھتا تھا۔ ’تاہم اب، چونکہ ملک میں باقاعدہ عدالتی نظام اور قانون موجود ہے، لہٰذا کسی کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ بغیر تفتیش یا عدالتی کارروائی کے کسی فرد کو موت کی سزا دے۔‘
صوبائی وزیرصحت بخت کاکڑ کا کہنا تھا کہ اگر کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس کے لیے قانونی دائرہ کار موجود ہے، تفتیش ہونی چاہیے اور عدالتی کارروائی کے بعد ہی فیصلہ کیا جانا چاہیے، کیونکہ جرگہ بٹھا کر محض الزام کی بنیاد پر کسی کو قتل کر دینا معاشرے کے لیے ایک خطرناک رجحان ہے۔
ایک سوال کے جواب میں بخت کاکڑ نے کہا کہ قانون تو موجود ہے، لیکن مسئلہ اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب مقدمات کی پیروی اور تفتیش اس معیار پر نہیں ہوتی جیسا کہ ہونی چاہیے۔ ’اکثر اوقات مقتول کے قریبی رشتہ دار، خاص طور پر اہم خاندانی گواہ، عدالت میں پیش نہیں ہوتے، جس سے کیس کمزور ہو جاتا ہے اور ملزمان قانونی سقم کا فائدہ اٹھا کر بچ نکلتے ہیں۔‘
صوبائی وزیرصحت کا کہنا تھا کہ ڈگاری واقعے کے بعد حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے مؤثر کارروائیاں کیں، اور وزیراعلیٰ بلوچستان، سرفراز بگٹی، نے کھلے الفاظ میں سرداری نظام اور جرگوں پر سوال اٹھائے جو کہ ایک خوش آئند اقدام ہے۔
’جب تک ہم معاشرتی سطح پر ان معاملات پر کھل کر بحث و مباحثہ نہیں کریں گے، اس وقت تک مؤثر قانون سازی اور اصلاحات بھی ممکن نہیں ہو سکیں گی۔
‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بخت کاکڑ جرگہ غیرت قتل وزیر صحت