ایلون مسک کی سوجی ہوئی آنکھ کیساتھ ٹرمپ حکومت سے علیحدگی؛ مکا کس نے مارا تھا؟
اشاعت کی تاریخ: 31st, May 2025 GMT
دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک، اور ٹرمپ حکومت سے حال ہی میں عیلحدہ ہونے والے ایلون مسک کی آنکھ سوجی ہوئی اور اس کے نیچے چوٹ کا نشان بھی ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایلون مسک نے 130 دن ٹرمپ حکومت کے ساتھ جڑے رہنے کے بعد عہدے کو خیر باد کہہ دیا تھا۔
ایلون مسک نے اوول آفس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ آخری پریس بریفنگ میں اس حالت میں شرکت کی کہ ان کی ایک آنکھ سوجی ہوئی تھی۔
جس پر صحافیوں نے سوال بھی اُٹھایا تو ایلون مسک مسکرا کر رہ گئے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ لقمہ دیئے بغیر رہ سکے۔
امریکی صدر کے توجہ دلانے پر ایلون مسک کو وجہ بتانا ہی پڑی، انھوں نے کہا کہ دراصل میں اپنے 5 سالہ بیٹے کے ساتھ کھیل رہا تھا اور اس کا مکا میری آنکھ پر لگ گیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہنستے ہوئے صحافیوں سے کہا کہ اگر آپ ایلون کے بیٹے کو جانتے ہیں تو یہ بات بآسانی مان لیں گے۔
یاد رہے کہ ایلون مسک اپنے محکمے کی پہلی پریس کانفرنس میں بچے کو ساتھ لائے تھے جس کی دلچسپ حرکتوں اور شرارتوں نے عالمی توجہ حاصل کرلی تھی۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ایلون مسک
پڑھیں:
علم ٹرمپ کے بوٹوں تلے
اسلام ٹائمز: فارن افیئرز میں شائع ہونے والے ایک تجزیے میں امریکی حکومت کی اس پالیسی کے خطرناک نتائج کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔ یہ معتبر امریکی مجلہ اس بارے میں لکھتا ہے: "ٹرمپ حکومت کی موجودہ پالیسی امریکہ کے خلاقانہ نظام، اقتصادی ترقی کے اصل سبب اور فوجی طاقت کو کمزور کر رہی ہے۔" فارن افیئرز کے مطابق مصنوعی ذہانت، روبوٹکس اور الیکٹرک گاڑیوں جیسے شعبوں کا بجٹ کم کرنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ 1 ہزار سے زیادہ تحقیقاتی منصوبے منسوخ ہو گئے ہیں اور افرادی قوت کی تجربہ گاہیں بھی بند ہو گئی ہیں اور حتی تجربہ گاہوں کے حیوانات بھی ختم ہو گئے ہیں۔ مزید برآں، ٹرمپ حکومت کی مہاجرین مخالف پالیسیاں، خاص طور پر چینی طلبہ کو نشانہ بنانے والی پالیسیوں نے امریکہ کی علمی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تحریر: رسول قبادی
آج کے ایسے دور میں جب دنیا بھر میں خلاقیت اور علم کے میدان میں برتری حاصل کرنے کے لیے دوڑ لگی ہوئی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں امریکی حکومت نے اپنے ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹیوں کو کمزور کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس دشمنی پر مبنی پالیسی کا سب سے بڑا نشانہ ہارورڈ یونیورسٹی بن رہی ہے جو دنیا بھر میں علم کا گہوارہ اور امریکہ کا سب سے اعلی تعلیمی مرکز جانا جاتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی گذشتہ چند عشروں سے دنیا بھر میں امریکہ میں علم اور تحقیق کی علامت بنی ہوئی ہے۔ اب ٹرمپ حکومت نے نہ صرف اس یونیورسٹی کا بجٹ بند کر دیا ہے بلکہ اس کے خلاف مختلف قسم کی پابندیاں بھی عائد کر دی گئی ہیں جن میں سے ایک غیر ملکی طلبہ کو داخلہ دینے پر پابندی ہے۔ امریکی حکام نے ہارورڈ کے خلاف حقارت آمیز رویہ اختیار کر رکھا ہے۔
جب علم نقصان دہ قرار پاتا ہے
وائٹ ہاوس کی ترجمان کیرولن لیویت نے فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے یونیورسٹیوں کی توہین کرتے ہوئے کہا: "ہمارے ملک میں ٹیکنیکل کورسز، بجلی کا کام کرنے والوں اور پلمبرز کی زیادہ ضرورت ہے اور ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کرنے والوں کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں ہے اور یہ ہماری حکومت کا موقف ہے۔" اس نے مزید وضاحت دیتے ہوئے کہا: "ہمارے صدر مملکت کی زیادہ خواہش یہ ہے کہ ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کا پیسہ ٹیکنیکل سنٹرز، تعلیمی منصوبہ بندی اور صوبائی یونیورسٹیوں پر خرچ ہو جو امریکی اقدار کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ کہ اگلی نسل کو ملک کی اقتصادی اور سماجی ضروریات کی روشنی میں تعلیم فراہم کی جائے۔" یوں ٹرمپ حکومت نے واضح طور پر آزاد تعلیمی اداروں کو اپنی پالیسیوں میں رکاوٹ قرار دے دیا ہے۔
3 ارب ڈالر کا سیاسی انتقام
ٹرمپ حکومت نے ہارورڈ یونیورسٹی کے لیے مخصوص 3 ارب ڈالر کا بجٹ روک دیا ہے۔ لیکن اس اقدام کا بہانہ کیا تھا؟ امریکی حکومت نے اس اقدام کو "یہود دشمنی کا ردعمل" قرار دیا ہے جبکہ فلسطین کے حق میں ہارورڈ یونیورسٹی کی طلبہ احتجاجی تحریک کو یہود دشمنی پر مبنی تحریک ظاہر کیا ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے ہارورڈ کے خلاف اقدامات یہیں تک ختم نہیں ہوتے بلکہ موصولہ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وائٹ ہاوس اس یونیورسٹی کے ساتھ تمام مالی معاہدے منسوخ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ہارورڈ یونیورسٹی نے ان حکومتی اقدامات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے حکومت کے خلاف قانونی کاروائی شروع کرنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ ہارورڈ نے حکومت کے خلاف قانونی شکایت میں مختلف نکات پر زور دیا ہے۔
ہارورڈ یونیورسٹی نے حکومت کی جانب سے 7 ہزار غیر ملکی طلبہ کا ویزا منسوخ کیے جانے کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا اور اس بات پر زور دیا کہ یہ تعداد اس یونیورسٹی میں زیر تعلیم کل طلبہ کا ایک چوتھائی حصہ ہے اور اس حکومتی اقدام سے تمام تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوں گی۔ ہارورڈ نے امریکی حکومت کے اس اقدام کو "آئین کی پہلی ترمیم کی واضح خلاف ورزی" قرار دیا ہے۔ دوسری طرف عدالت نے بھی اس شکایت کے پیش نظر امریکی حکومت کے اس اقدام پر عملدرآمد عارضی طور پر روک دیا ہے۔ امریکہ کی قومی سلامتی کی وزارت نے ہارورڈ سے تمام غیر ملکی طلبہ کی سیاسی اور احتجاجی سرگرمیوں کی تفصیلات مانگ لی ہیں۔ ان معلومات میں گذشتہ پانچ سال کے دوران طلبہ کی جانب سے احتجاج پر مبنی ویڈیوز نشر کرنا اور ان کی دیگر سرگرمیاں شامل ہیں۔ یونیورسٹی نے اس مطالبے پر مزاحمت کا مظاہرہ کیا ہے۔
محققین اور ماہرین کی وارننگ
فارن افیئرز میں شائع ہونے والے ایک تجزیے میں امریکی حکومت کی اس پالیسی کے خطرناک نتائج کے بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔ یہ معتبر امریکی مجلہ اس بارے میں لکھتا ہے: "ٹرمپ حکومت کی موجودہ پالیسی امریکہ کے خلاقانہ نظام، اقتصادی ترقی کے اصل سبب اور فوجی طاقت کو کمزور کر رہی ہے۔" فارن افیئرز کے مطابق مصنوعی ذہانت، روبوٹکس اور الیکٹرک گاڑیوں جیسے شعبوں کا بجٹ کم کرنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ 1 ہزار سے زیادہ تحقیقاتی منصوبے منسوخ ہو گئے ہیں اور افرادی قوت کی تجربہ گاہیں بھی بند ہو گئی ہیں اور حتی تجربہ گاہوں کے حیوانات بھی ختم ہو گئے ہیں۔ مزید برآں، ٹرمپ حکومت کی مہاجرین مخالف پالیسیاں، خاص طور پر چینی طلبہ کو نشانہ بنانے والی پالیسیوں نے امریکہ کی علمی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔