پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ ’’مذاکرات‘‘ میں ڈیڈ لاک
اشاعت کی تاریخ: 1st, June 2025 GMT
پاکستان تحریکِ انصاف اور عسکری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جاری کشیدگی کسی ایک دن کی پیداوار نہیں، مگر حالیہ دنوں میں امریکہ سے آئے ایک مخصوص وفد کی ناکام ثالثی کی کوشش نے اس ڈیڈ لاک کی گہرائی اور پیچیدگی کو پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ رمضان المبارک کے دوران بھی ایک بار یہی وفد پاکستان آیا تھا۔ اس وفد نے آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک سے طویل ملاقات کی تھی، جس کے بعد پی ٹی آئی کے اندر ہی اس اقدام پر شدید تنقید سامنے آئی۔ کئی پارٹی رہنمائوں نے اسے بغیر مینڈیٹ والی ثالثی قرار دے کر مسترد کیا، جس کے بعد ثالثی کی یہ پہلی کوشش ہی ڈیڈ لاک میں بدل گئی۔
اس وفد کی آمد کے پیچھے وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کا کردار بھی نمایاں سمجھا جاتا ہے۔ پچھلے دورے کےوقت اگرچہ وفد نے بعض مقتدر حلقوں سے روابط قائم کیے تھے، مگر اس کی کوششیں پی ٹی آئی قیادت کے اعتماد سے محروم رہیں۔ اب ایک بار پھر وہی وفدخاموش سفارتکاری کی امید لےکراسلام آبادآیا،مگرچاردن اسلام آباد میں موجودگی کے بعد کوئی بریک تھرو حاصل کیے بغیر لاہور روانہ ہو گیا۔ وفد کی خواہش تھی کہ عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات ہو، تاکہ بات چیت کی بنیاد رکھی جا سکے، لیکن نہ ملاقات ہوئی، نہ پیغام رسانی کی راہ ہموار ہو سکی۔
وفد کے قریبی ذرائع کے مطابق، وہ ہفتے کے روز واپس امریکہ روانہ ہونے کا ارادہ رکھتے تھے، مگر اب قیام میں توسیع پر غور کر رہے ہیں۔ انہیں یقین ہے کہ عمران خان کو ان کی آمد کا علم ہے اور ممکن ہے کہ بانی پی ٹی آئی جلد ان سے ملاقات پر آمادہ ہو جائیں لیکن عملا وفد کو نہ صرف پی ٹی آئی قیادت سے سرد مہری ملی، بلکہ اسلام آباد میں کسی مقتدر شخصیت تک رسائی بھی ممکن نہ ہو سکی۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ اس وفد کا ایک رکن چند ماہ قبل بھی پاکستان آیا تھا اور اس وقت عمران خان سے اس کی پرسکون ملاقات ہوئی تھی۔ مگر اب منظرنامہ یکسر بدل چکا ہے۔ اس وقت نہ صرف پی ٹی آئی کی اندرونی صفوں میں عدم اعتماد کی فضا ہے، بلکہ پارٹی کی مجموعی حکمتِ عملی بھی شدید مزاحمت پر مبنی ہے۔ پارٹی کے بعض عناصر کی نظر میں یہ وفد کسی ڈیل” کا قاصد ہے، جسے وہ عمران خان کے بیانیے سے متصادم سمجھتے ہیں۔
ذرائع بتاتے ہیں کہ وفد علی امین گنڈاپور اور عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان سے رابطے میں ہے۔ یہ رابطے ظاہر کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے اندر ایک طبقہ مصالحت کا حامی ہے، مگر ان کی آواز دب کر رہ گئی ہے۔ پارٹی کی قیادت اب ایک ایسی پوزیشن پر کھڑی ہے جہاں ہر مفاہمتی کوشش کو سازش سمجھا جاتا ہے۔ نتیجتا وفد کی موجودگی نہ صرف بے اثر رہی بلکہ ایک بار پھر اس بات کا ثبوت بنی کہ پی ٹی آئی کی داخلی کشمکش اسے کسی بھی تعمیری کوشش کے لیے ناموزوں بنا چکی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کی جانب سےحالیہ مہینوں میں بارہا واضح کیا گیا ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں سے براہِ راست کوئی تعلق نہیں رکھے گی۔ اس پالیسی کے تناظر میں دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کی طرف سے جاری جارحانہ بیانیہ، بین الاقوامی سطح پر لابنگ، اور سوشل میڈیا پر فوجی قیادت کے خلاف مہمات حالات کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف ثالثی کی گنجائش کو ختم کر رہا ہے، بلکہ عسکری قیادت کی غیرمداخلت کی پالیسی کو بھی ایک نئے امتحان میں ڈال رہا ہے۔
امریکہ سے آئے اس وفد کا تاثر یہی ہے کہ پی ٹی آئی کا سخت موقف اب تعمیری بات چیت کے لیے فضا باقی نہیں رہنے دیتا۔ وفد کے ارکان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ مسلسل تنقید، موقف کی سختی، اور کسی بریک تھرو کی عدم موجودگی پارٹی کو ایک ایسی بند گلی میں لے جا رہی ہے جہاں سے واپسی کا راستہ خود عمران خان کے لیے بھی مشکل ہو سکتا ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ڈیڈ لاک کا نقصان کس کو ہو رہا ہے؟ ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ نقصان خود پاکستان تحریکِ انصاف کو پہنچ رہا ہے۔ وہ پارٹی جو ایک وقت میں ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت بن چکی تھی، آج اندرونی خلفشار، قیادت کی تنہائی، اور ایک غیرلچکدار پالیسی کی بدولت غیر متعلق ہوتی جا رہی ہے۔ اگر یہی روش برقرار رہی تو نہ صرف پارٹی اپنی قانونی اور سیاسی بقا کی جنگ ہار جائے گی، بلکہ عمران خان کی قیادت پر سوالات بھی بڑھتے جائیں گے۔
دوسری طرف، اسٹیبلشمنٹ کو بظاہر اس ڈیڈ لاک سے فوری طور پر کوئی نقصان نہیں، مگر طویل المدتی تناظر میں عوامی تاثر، ادارے کی ساکھ اور سیاسی منظرنامے میں کردار کی نوعیت ضرور متاثر ہو سکتی ہے۔ اگر ایک بڑی سیاسی جماعت کو مکمل طور پر دیوار سے لگا دیاجائے یا رنگ سے باہر دھکیل دیا جائے تو یہ جمہوری ڈھانچے کے لیے بھی خطرناک پیغام ہوگا۔
اس سارے معاملے میں اصل نقصان ریاست پاکستان اور اس کے 25 کروڑ عوام کا ہے۔ جب سیاسی قوتیں آپس میں مکالمے کے بجائے محاذ آرائی کو ترجیح دیتی ہیں، تو ریاستی ادارے، معیشت، اور سفارتی تعلقات سب کچھ دائو پر لگ جاتا ہے۔ سرمایہ کاری کا ماحول غیر یقینی کا شکار ہو جاتا ہے، عالمی سطح پر پاکستان کی پوزیشن کمزور پڑتی ہے، اور عام شہری کا اعتماد سیاسی نظام سے اٹھ جاتا ہے۔
یہ ڈیڈ لاک محض ایک سیاسی جماعت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تنازعہ نہیں، بلکہ یہ اس اجتماعی سیاسی ناکامی کی علامت ہے جو اس وقت پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیئے ہوئے ہے۔ جب تک داخلی کشمکش کا خاتمہ نہیں ہوتا، کوئی بھی ثالثی، خواہ وہ امریکہ سے ہو یا اندرونِ ملک، کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اور یہ حقیقت اب ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید تلخ کو انتہائی ہوتی جا رہی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پی ٹی آئی ڈیڈ لاک جاتا ہے رہا ہے وفد کی کے لیے اس وفد
پڑھیں:
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہیرو نہیں کہا جا سکتا، رانا ثناء
اسلام آباد(آئی این پی) وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ہیرو نہیں کہا جا سکتا،فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے کہا کہ انہیں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی مذاکرات پر خوشی ہوگی۔