(گزشتہ سے پیوستہ)
بھارتی وزیرخارجہ کابیان پاکستان کی بقاء اور آزادی کاچیلنج ہے۔بھارت کاجارحانہ رویہ پاکستان کونئے محاذوں پرالجھانے کی کوشش ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت اوراس کی جغرافیائی حیثیت امریکا،انڈیا اوراسرائیل تینوں کی آنکھ کاکانٹاہے۔
نیتن یاہوکابیان امریکا کے دہرے میعارکا عندیہ ہے۔نیتن یاہوکابیان کہ’’ایران کے بعدپاکستان کاایٹمی پروگرام ہماراہدف‘‘ یہ سب اس بات کااعلان ہے کہ پاکستان اب براہِ راست ہدف پرہے۔جنرل عاصم منیرکی پذیرائی اورمودی کاٹرمپ کوملنے سے انکار اس بات کی دلیل ہے کہ امریکابھارت اوراسرائیل کی پشت پرکھڑاہے۔ابھی حال ہی میں جنرل عاصم منیرکا دورہ امریکامحض روایتی عسکری سفارت کاری نہیں تھابلکہ اس کامقصداس بات کااندازہ لگاناتھاکہ امریکا پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کوکس نظرسے دیکھتاہے۔
’’غزوہ ہند‘‘کا تذکرہ کئی احادیث میں ملتاہے۔یہ محض ماضی کاقصہ نہیں،بلکہ حال اورمستقبل کاحصہ ہے۔امتِ مسلمہ کی روایات اور احادیث میں غزوہ ہندکاتذکرہ ہے۔احادیث میں ہے کہ امام مہدی کاخروج اورحضرت عیسی کانزول اس دورکاحصہ ہوں گے۔یہ وہ معرکہ ہے جومشرق کی سرزمین سے شروع ہوگااوراسلام کاعلم دوبارہ بلندکرے گا۔روایات میں ہے کہ اس دورمیں اسرائیل کاخاتمہ اوربیت المقدس کی آزادی کاباب رقم ہوگا۔اس معرکے میں کامیابی پانے والالشکرجنت کاحق دارہوگا۔امام مہدی کی آمداور حضرت عیسٰی ابن مریم کانزول،اسرائیل کی تباہی اوربیت المقدس کی آزادی کاپیش خیمہ ہے۔یقینا آخری معرکہ،حق وباطل کاہوگااوراس میں اللہ کاوعدہ سچاہے۔
حضرت ثوبان سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺکی پیشین گوئی ہے کہ دوگروہ ایسے ہیں جن کو اللہ دوزخ کی آگ سے نجات دے گاایک گروہ ہندپرچڑھائی کرے گااوردوسراگروہ عیسٰی بن مریم کے ہمراہ ہوگا۔امام مہدی اورحضرت عیسیٰ کی آمدکا مقصد، اسلام کاعلم بلندکرنا،اسرائیل کاخاتمہ اوربالآخراسرائیل کے ظلم کامٹ جانا،تہذیبِ مغرب کاجنازہ، حضرت عیسٰی کاشام میں نزول،دجال کاقتل اوراس کی تکمیل،اسلامی خلافت کااحیااوریاجوج ماجوج کاخروج،یہ سب کچھ احادیث کی کتب میں موجودہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم کسی نئے دورکی طرف نہیں جارہے،بلکہ اس عہدکی طرف جارہے ہیں جہاں عدل اورظلم،نوراورتاریکی کامعرکہ برپاہے۔یہاں اللہ کا فرمان حرفِ آخرہے پس ہماری مددکر،اس کافرقوم پر(البقرہ:۲۸۶)۔آج ہم ایسے دورِتاریخ میں جی رہے ہیں جہاں محض تہذیبوں کاتصادم نہیں،حق وباطل،عدل وظلم،نوروظلمت کامعرکہ ہے۔یہ محض اقوام کی محاذآرائی نہیں،بلکہ نوراورظلمت،عدل اورجورکا معرکہ ہے۔تہذیبوں کاتصادم محض علمی بحث یاتاریخی پیش گوئی نہیں۔یہ عہدِحاضرکی اٹل حقیقت ہے۔اس میں امریکااوراس کے اتحادی اس محاذآرائی کواپنے تسلط اوروسائل کی حفاظت کاحصہ بنائے ہوئے ہیں۔مسلم امہ کی بقا،اس محاذآرائی کاادراک کرنے اوراس کاتوحید،عدل اورعزم کی طاقت سے سامناکرنے میں مضمرہے۔ پاکستان، افغانستان، ایران،ترکی اوردیگراسلامی مملکتوں کواس میدانِ کارزار میں ہمہ جہت تیاری کامظاہرہ کرناہوگا۔یہ دورمحض بے خبری کانہیں، بلکہ جاگنے اورجگانے کاہے۔
یہ تصادم محض تہذیبوں کانہیں بلکہ ایمان والحاد، عدل وجور،نوروظلمت کاتصادم ہے۔ پاکستان اورعالم اسلام کافرض ہے کہ فکری وحدت، عسکری تیاری،سفارتی حکمت اوراقتصادی خودانحصاری کے ساتھ اس تصادم میں اپنی حیثیت منوائیں۔اس لئے میری آپ سے گزارش ہے کہ اے اہل ایمان!تم وہ امت ہوجس کی پشت پرتاریخ کاقافلہ ہے اورسامنے مستقبل کے معرکے۔تم پرلازم ہے کہ اپنے وجودکوشعلہ یقین سے روشن کروکہ اب دنیافیصلے کی دہلیزپرہے۔
یہ وہ دورہے جب امتِ مسلمہ کوبیدارہو کر ایمانی،علمی،سیاسی اورعسکری محاذوں پرمضبوطی کامظاہرہ کرناہوگا،توحیدکی رسی مضبوطی سے تھام کر،اپنے کردار اور اسلحے کوہمہ وقت تیار رکھنا ہوگا۔یہ دوریہ فیصلہ کرے گاکہ ہم غلامی کی زنجیروں میں رہیں گے یاآزادی کاسورج طلوع کرنے والوں میں شامل ہوں گے۔یاد رکھیے،تہذیبوں کایہ تصادم محض مادی محاذپرفتح یا شکست کاباب نہیں،بلکہ اللہ کی تقدیرکاحصہ ہے۔جوملت اس محاذمیں ایمانی حمیت اورتاریخی بصیرت سے ہمکنار ہوگی، وہی عروج پائے گی۔
آج کاعہدمحض تماشہ بینی کاعہدنہیں۔یہ دورمصلحت کانہیں،مقابلے اورمزاحمت کادورہے۔ عزم،بصیرت اورایمانی جدوجہدکادامن تھام کراپنے فیصلے کرناہوں گے کہ:
تمہاراماضی صلاح الدین ایوبی اورٹیپو سلطان کی جرأت کاگواہ ہے،تمہاراحال اقبالؒ کی بیداری،محمدعلی جناح ؒکی مستقل مزاجی اور مودودی کی فکروجرت کاوارث ہے،تمہارامستقبل امام مہدی اورحضرت عیسٰی کی بشارت کامنتظرہے۔ایمانی وحدت، تہذیبی بیداری، تزویراتی استقلال اورسیاسی جرات،آج کا تقاضہ ہے۔
یادرکھیے:یہ اس لیے کہ ایمان لانے والوں کاحامی وناصراللہ ہے اورکافروں کاحامی وناصرکوئی نہیں،یعنی اللہ اہلِ ایمان کاکارسازہے(محمد:۱۱)۔
جہاں عزم ہو،جہاں توکل ہو،وہاں فتح ہے۔ جہاں فتح ہو،وہاں ایمانی تہذیب کی سربلندی ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نہیں بلکہ
پڑھیں:
پاکستان۔ بنگلا دیش تعلقات میں نئی روح
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251102-09-4
محمد مطاہر خان
پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات کی تاریخ پیچیدہ مگر امکانات سے بھرپور ہے۔ 1971ء کے بعد دونوں ممالک کے مابین کئی ادوار میں سرد مہری دیکھی گئی، تاہم گزشتہ دو دہائیوں کے دوران رفتہ رفتہ رابطوں کی بحالی اور اقتصادی تعاون کے امکانات نے ایک نئی راہ ہموار کی۔ اب، اکتوبر 2025ء میں ڈھاکا میں منعقد ہونے والا نواں جوائنٹ اکنامک کمیشن (JEC) اجلاس دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک فیصلہ کن موڑ کی حیثیت رکھتا ہے ایک ایسا موقع جب ماضی کی تلخ یادوں کے باوجود مستقبل کی سمت تعاون، ترقی اور باہمی اعتماد پر مبنی ایک نئے باب کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
1974ء میں دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی کے بعد کئی ادوار میں تجارتی روابط کو وسعت دینے کی کوششیں ہوئیں، مگر سیاسی اختلافات، علاقائی ترجیحات اور عالمی طاقتوں کے اثرات نے اکثر ان کوششوں کو محدود کر دیا۔ تاہم گزشتہ چند برسوں میں جنوبی ایشیا میں اقتصادی انضمام کی بڑھتی ہوئی ضرورت اور خطے میں چین و بھارت کے اثر رسوخ کے تناظر میں پاکستان اور بنگلا دیش نے اپنے مفادات کو ازسرِ نو متعین کرنا شروع کیا۔ اسی تاریخی تسلسل میں حالیہ JEC اجلاس غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ اجلاس کی مشترکہ صدارت پاکستان کے وفاقی وزیرِ پٹرولیم علی پرویز ملک اور بنگلا دیش کے مشیرِ خزانہ ڈاکٹر صالح الدین احمد نے کی، جو کہ نہ صرف دونوں ممالک کے اقتصادی وژن کی ہم آہنگی کی علامت ہے بلکہ دو دہائیوں کی سفارتی خاموشی کے بعد ایک مضبوط عملی پیش رفت بھی۔
اجلاس کے اعلامیہ کے مطابق، پاکستان نے بنگلا دیش کو کراچی پورٹ ٹرسٹ (KPT) کے استعمال کی پیشکش کی ہے۔ یہ پیشکش محض تجارتی سہولت نہیں بلکہ ایک علاقائی اسٹرٹیجک اقدام ہے۔ کراچی پورٹ، جو بحرِ عرب کے ذریعے دنیا کے بڑے تجارتی راستوں سے منسلک ہے، بنگلا دیش کو چین، وسطی ایشیا، اور مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ اپنی برآمدات و درآمدات کے نئے دروازے کھولنے میں مدد دے گا۔ اس پیشکش سے جنوبی ایشیا کے خطے میں ’’ریجنل کوآپریشن فار اکنامک ڈویلپمنٹ‘‘ کے تصور کو نئی زندگی مل سکتی ہے۔ ماضی میں SAARC جیسے فورمز کے غیر فعال ہونے کے باوجود، اگر پاکستان اور بنگلا دیش کے درمیان یہ تجارتی راہداری فعال ہو جائے تو یہ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔ اجلاس میں دونوں ممالک کی قومی شپنگ کارپوریشنز کے درمیان تعاون بڑھانے پر بھی زور دیا گیا۔ سمندری تجارت کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے، اور اس شعبے میں تعاون سے نہ صرف لاجسٹکس کے اخراجات کم ہوں گے بلکہ باہمی سرمایہ کاری اور بندرگاہی انفرا اسٹرکچر کی ترقی کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔
پاکستان کی شپنگ انڈسٹری کے پاس طویل ساحلی پٹی اور جدید بندرگاہوں کا تجربہ ہے، جبکہ بنگلا دیش کی شپنگ انڈسٹری نے گزشتہ چند برسوں میں تیز رفتار ترقی کی ہے۔ اس شراکت داری سے دونوں ممالک اپنی مرچنٹ نیوی، شپ یارڈز، اور میری ٹائم ٹریننگ انسٹیٹیوٹس کو بین الاقوامی معیار پر لا سکتے ہیں۔ پاکستان کی پاکستان حلال اتھارٹی اور بنگلا دیش کی اسٹینڈرڈز اینڈ ٹیسٹنگ انسٹی ٹیوٹ (BSTI) کے درمیان حلال تجارت کے فروغ سے متعلق ایک مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط کیے گئے۔ یہ قدم عالمِ اسلام میں بڑھتی ہوئی حلال اکنامی کا عملی اظہار ہے، جس کی عالمی مالیت 3 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستان کی حلال مصنوعات کی صنعت پہلے ہی مشرقِ وسطیٰ اور جنوب مشرقی ایشیا میں مقام بنا چکی ہے، اور بنگلا دیش کے ساتھ اشتراک سے یہ منڈی مزید وسعت اختیار کرے گی۔ اجلاس کا سب سے اہم پہلو ’’پاکستان۔ بنگلا دیش نالج کوریڈور‘‘ کا قیام ہے۔ اس منصوبے کے تحت پاکستان نے بنگلا دیشی طلبہ کے لیے 500 مکمل فنڈڈ اسکالرشپس دینے کی پیشکش کی ہے۔ یہ اقدام دونوں ممالک کے درمیان علمی، تحقیقی اور سائنسی تعاون کے ایک نئے باب کا آغاز کرے گا۔ پاکستان کی جامعات خصوصاً قائداعظم یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (NUST) تحقیق و سائنس میں ممتاز مقام رکھتی ہیں، جبکہ بنگلا دیش نے حالیہ برسوں میں آئی ٹی، بایو ٹیکنالوجی اور رینیوایبل انرجی کے شعبوں میں نمایاں ترقی کی ہے۔ نالج کوریڈور کے ذریعے دونوں ممالک کے طلبہ اور محققین ایک دوسرے کے علمی وسائل سے استفادہ کر سکیں گے، جو خطے میں ’’علمی سفارت کاری‘‘ (Academic Diplomacy) کی بنیاد رکھے گا۔
وفاقی وزیر علی پرویز ملک نے اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا کہ ’’پاکستان اور بنگلا دیش کے تعلقات باہمی احترام اور دوستی پر مبنی ہیں، اور وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے عوام کے لیے ترقی و خوشحالی کے نئے دروازے کھولیں‘‘۔ یہ بیان نہ صرف سفارتی آداب کا مظہر ہے بلکہ پاکستان کے ’’اقتصادی سفارت کاری‘‘ کے نئے وژن کی عکاسی بھی کرتا ہے۔ بنکاک سے استنبول تک، اور وسطی ایشیا سے مشرقی افریقا تک دنیا تیزی سے علاقائی بلاکس کی طرف جا رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان اور بنگلا دیش کا تعاون نہ صرف جنوبی ایشیائی معیشت کو مستحکم کر سکتا ہے۔
بلکہ اسلامی دنیا کے لیے ایک مثبت مثال بھی قائم کر سکتا ہے کہ کس طرح تاریخی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر باہمی مفاد کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ ڈھاکا میں منعقدہ JEC اجلاس محض ایک رسمی ملاقات نہیں بلکہ دو دہائیوں کے تعطل کے بعد ایک نئی اقتصادی شروعات ہے۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ، حلال ٹریڈ، شپنگ اشتراک اور نالج کوریڈور جیسے منصوبے صرف کاغذی وعدے نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی و اقتصادی منظرنامے کی پیش گوئی کرتے ہیں۔
اگر دونوں ممالک اس تعاون کو سنجیدگی اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھائیں تو آنے والے برسوں میں پاکستان اور بنگلا دیش نہ صرف اقتصادی بلکہ علمی و ثقافتی شراکت دار بن سکتے ہیں۔ یہ وہ موقع ہے جب اسلام آباد اور ڈھاکا دونوں کو ماضی کے سائے سے نکل کر ایک روشن اور باہمی ترقی پر مبنی مستقبل کی طرف قدم بڑھانا چاہیے۔ عالمی برادری، بالخصوص او آئی سی، کو بنگلا دیش اور پاکستان کے اس مثبت رجحان کو سراہنا چاہیے کیونکہ یہ نہ صرف جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے فروغ کا باعث بنے گا بلکہ اسلامی ممالک کے مابین عملی اتحاد کے خواب کو بھی حقیقت کا روپ دے سکتا ہے۔