یوم تکبیر:غیرت،قوت اور قوم پرستی کا دن
اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT
28 مئی 1998ء کا دن محض کیلنڈر کی ایک تاریخ نہیں، بلکہ پاکستان کے تابناک عزم،قومی غیرت اور ناقابل تسخیر حوصلے کی ایک گونجتی ہوئی صدا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ایک طرف دشمن کے عزائم خاک میں ملائے گئے تو دوسری طرف پوری دنیا کو یہ باور کرایا گیاکہ پاکستان ایک زندہ قوم ہے۔جس کے نظریے، سلامتی اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔یوم تکبیر، اس دن کی علامت ہے جب چاغی کی سنگلاخ پہاڑیوں نے ”اللہ اکبر” کی صداؤں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پوری قوم نے یکجہتی، اعتماداور حب الوطنی کےجذبےمیں ڈوب کراپنےسرفروش سائنسدانوں، عسکری قیادت اور سیاسی حوصلے کو سلام پیش کیا۔ یہ صرف ایٹمی دھماکے نہیں تھے، یہ ایک غیر معمولی پیغام تھا کہ ہم نہ صرف اپنے دفاع کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں بلکہ اپنی خودمختاری پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔پاکستان نے ایٹمی طاقت بن کر جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بحال کیا۔ بھارت نے 1974ء میں پہلا ایٹمی تجربہ کیا اور پھر 1998ء میں پانچ ایٹمی دھماکوں کے ذریعے خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی مگر پاکستان نے صرف 17دن کے اندراندرجواب دےکر دشمن کو اس کےخوابوں سے بیدار کر دیا۔ ان دھماکوں کے ساتھ ہی پاکستان دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بن گیا۔ یہ محض ایک سائنسی کارنامہ نہیں تھا بلکہ یہ ہمارے قومی وجود، نظریاتی اساس اور دفاعی وقار کی مکمل تصویر تھی۔یوم تکبیر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کسی قوم کی عظمت اس کے وسائل یا ساز و سامان میں نہیں بلکہ اس کے نظریے، عزم اور حوصلے میں پنہاں ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیرخان اور ان کی ٹیم نے جو کارنامہ سرانجام دیاوہ صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے نہ صرف ایک ناممکن کو ممکن بنایابلکہ پوری دنیا کو حیران کر دیا کہ محدود وسائل اور پابندیوں کے باوجود، اگر نیت صاف ہو اور منزل کا تعین ہو، تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔ایٹمی طاقت حاصل کرنے کا عمل راتوں رات مکمل نہیں ہوا۔ یہ برسوں پر محیط ایک مسلسل جدوجہد، تحقیق، ایثار، اور قربانیوں کا ثمر تھا۔ ان سا ئنسدانوں نے اپنے دن رات ایک کر کے اس منصوبے کو کامیاب بنایا اور وہ بھی اس وقت جب عالمی پابندیاں، سفارتی دباؤ اور اندرونی مسائل پاکستان کے گرد شکنجہ کس چکے تھے۔ مگر قیادت کی بصیرت، عوام کا اعتماداور افواجِ پاکستان کی پشت پناہی نے اس قومی خواب کو حقیقت کا روپ دے دیا۔یوم تکبیر اس عہد کی تجدید کا دن ہے کہ ہم اپنی آزادی، خودمختاری اور قومی وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ آج جب ہم اس دن کو مناتے ہیں تو ہمیں اس کے پس پردہ چھپی قربانیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ وہ سائنسدان جو گمنامی میں رہ کر ملک کے لیے خدمات انجام دیتے رہے، وہ فوجی جو اس اثاثے کی حفاظت میں سرد و گرم جھیلتے رہے وہ حکمران جنہوں نے عالمی دباؤ کے باوجود قومی مفاد کو ترجیح دی، سب کے سب ہمارے محسن ہیں۔یوم تکبیر نہ صرف پاکستان کی دفاعی طاقت کی علامت ہے بلکہ یہ پوری ملت اسلامیہ کے لیے فخر کا مقام ہے۔ جب چاغی کی پہاڑیاں گونجیں تو عالم اسلام کا سر فخر سے بلند ہوا۔ دشمنانِ اسلام کے لیے یہ ایک واضح پیغام تھا کہ مسلم دنیا کمزور نہیں اوراگر متحد ہوجائے تودنیاکی کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام مسلم امہ کی اجتماعی سوچ، نظریاتی بنیاد اور قومی حمیت کا آئینہ دار ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس طاقت کو نہ صرف برقرار رکھیں بلکہ اس کی افادیت کو مزید مؤثر بنائیں۔ صرف اسلحے سے قومیں محفوظ نہیں ہوتیں، بلکہ علمی، سائنسی، اقتصادی اور اخلاقی میدانوں میں ترقی ہی حقیقی خودمختاری کی ضامن ہوتی ہے۔ ہمیں یوم تکبیر کے جذبے کو ہر شعبہ زندگی میں منتقل کرنا ہوگا۔ ہم نے جس عزم سے چاغی کے پہاڑوں کو لرزایا تھا اسی حوصلے سے ہمیں جہالت، غربت، بے روزگاری اور کرپشن جیسے دشمنوں کے خلاف بھی لڑنا ہوگا۔یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارا وطن کسی مصلحت یامروّت کے تحت حاصل نہیں ہوابلکہ لاکھوں قربانیوں، خون کی دھاراؤں اور جذبہ ایثار سے حاصل کیا گیا۔ ہمیں اس دن کو صرف جلسوں، تقاریر، یا ٹی وی پر مباحثوں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ہر پاکستانی کو اپنی سطح پر یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ ملک کے دفاع، ترقی اور استحکام میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرے گا۔ یہ وہ دن ہے جب ہم نے دنیا کو دکھایا کہ پاکستانی قوم صرف نعرے لگانے والی نہیں بلکہ عمل کا ہنر بھی جانتی ہے۔ آج وقت ہے کہ ہم اپنی خودی کو پھر سے بیدار کریں، تعلیم، صحت، معیشت، سائنس اور اخلاقی اقدار کے میدانوں میں بھی ایٹمی دھماکےکریں، تاکہ دنیا دیکھ لے کہ یہ قوم صرف دفاعی لحاظ سے ہی نہیں بلکہ ہر میدان میں ناقابل تسخیر ہے۔یاد رکھیں، ایٹمی طاقت ہونا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اپنے اس اسٹریٹجک پروگرام کی حفاظت کرنی ہے اسے سیاسی یا ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بجائے قومی سلامتی کے دائرے میں رکھنا ہے۔ دشمن ہماری صلاحیتوں سے خوفزدہ ہے اور وہ ہمیشہ سازش کرے گا۔ ہمیں اس سازش کا جواب بھی ویسے ہی دینا ہے جیسے 1998ء میں دیا تھا: اتحاد، یگانگت، اور قربانی سے۔یوم تکبیر صرف ماضی کی فتح کا جشن نہیں، بلکہ ایک مسلسل عزم اور استقامت کا دن ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر قوم متحد ہوجائے، تو دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو اس دن کی اہمیت سے روشناس کرانا ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ ان کے بزرگوں نے کس حوصلے سے یہ دن ممکن بنایا اور اب ان کی باری ہے کہ وہ اس ورثے کو سنبھالیں، سنواریں اور آگے بڑھائیں۔یوم تکبیر ایک نظریہ، ایک پیغام اور ایک مشن ہے۔ یہ پیغام ہے غیرت کا، یہ مشن ہے وقار کا، یہ نظریہ ہے بقا کا۔ آج جب دنیا بدل رہی ہے۔ طاقت کے پیمانے تبدیل ہو رہے ہیں اورچیلنجز نئی شکلوں میں سامنے آ رہے ہیں تو ہمیں بھی اپنے عزم، اپنی سمت اور اپنی حکمت عملی کو ازسرنو استوار کرنا ہوگا۔ ہمیں ہر دن کو یوم تکبیر کے جذبے کے ساتھ جینا ہوگا تاکہ ہم ایک باوقار، خوشحال اور مضبوط پاکستان کی طرف بڑھ سکیں۔
نہ جھکے، نہ رکے، نہ کبھی ہم تھکے
یہ وطن ہے ہمارا ہم محافظ بنے اسکے
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: یوم تکبیر ہیں بلکہ ہے کہ ہم کے لیے
پڑھیں:
پاکستان اور افغانستان، امن ہی بقا کی ضمانت ہے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251103-03-3
پاکستان اور افغانستان، تاریخ، ثقافت، مذہب اور جغرافیہ کے ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں کہ ایک کا استحکام دوسرے کے بغیر ممکن نہیں۔ دونوں ممالک کی سرحدیں نہ صرف زمین کے ٹکڑوں کو جوڑتی ہیں بلکہ صدیوں پر محیط مشترکہ تہذیبی اور دینی رشتے کو بھی، اس پس منظر میں دفتر ِ خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی کا یہ بیان کہ ’’پاکستان کو امید ہے کہ 6 نومبر کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کا نتیجہ مثبت نکلے گا‘‘، ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔ تاہم یہ امید اسی وقت نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے جب دونوں ممالک باہمی احترام، ذمے داری اور تحمل کے ساتھ آگے بڑھیں۔ ترجمان دفتر ِ خارجہ کے مطابق پاکستان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور استنبول میں ہوا، جو چار دن جاری رہا۔ پاکستان نے مثبت نیت کے ساتھ مذاکرات میں حصہ لیا اور اپنی اس واضح پوزیشن پر قائم رہا کہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ پاکستان کی جانب سے ’’فتنہ الخوارج‘‘’’ اور ’’فتنہ الہندوستان‘‘ جیسی دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی پر جو تشویش ظاہر کی گئی، وہ قومی سلامتی سے جڑی ہوئی ہے۔ افغانستان کی موجودہ حکومت اگر واقعی خطے میں امن چاہتی ہے تو اسے ان گروہوں کے خلاف عملی، شفاف اور قابل ِ تصدیق کارروائی کرنا ہوگی۔ لیکن دوسری طرف افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ جماعت ِ اسلامی پاکستان کے نائب امیر پروفیسر محمد ابراہیم خان نے بجا طور پر تنبیہ کی ہے کہ ’’پاکستانی وزراء کے غیر ذمے دارانہ بیانات صورتحال کو مزید بگاڑ رہے ہیں‘‘۔ انہوں نے وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ کے اشتعال انگیز جملوں کو غیر سنجیدہ اور قومی مفاد کے منافی قرار دیا۔ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ ’’وزیر ِ دفاع کا یہ کہنا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو جنگ ہوگی، بے وقوفی کی انتہا ہے‘‘۔ ایسے بیانات نہ صرف امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہیں بلکہ دشمن عناصر کو تقویت دیتے ہیں۔ پروفیسر ابراہیم نے اس نکتہ پر بھی زور دیا کہ اگر پاکستان واقعی امن چاہتا ہے تو اسے پشتون نمائندوں کو مذاکراتی ٹیم میں شامل کرنا چاہیے، جو افغان سماج اور ان کی روایات کو بہتر سمجھتے ہیں۔ یہ ایک نہایت اہم تجویز ہے، کیونکہ افغانستان کے ساتھ مکالمے میں لسانی و ثقافتی حساسیت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ طالبان حکومت کے رویے میں ماضی کے مقابلے میں تبدیلی آئی ہے، اور اب وہ اصلاح کی سمت بڑھ رہے ہیں، یہی وہ لمحہ ہے جسے پاکستان کو مثبت مکالمے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ یہ ادراک بھی ضروری ہے کہ طالبان حکومت نے اپنی سرزمین پر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو تسلیم کیا ہے، لیکن عملی اقدامات کے بجائے مختلف جواز پیش کیے جا رہے ہیں۔ اس طرزِ عمل سے نہ صرف پاکستان کے سلامتی خدشات بڑھتے ہیں بلکہ افغانستان کے عالمی تشخص کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ اگر طالبان قیادت خطے میں پائیدار امن کی خواہاں ہے تو اسے اب بین الاقوامی وعدوں کی پاسداری اور دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لیے واضح روڈ میپ دینا ہوگا۔ پاکستان کی جانب سے قطر اور ترکیہ کے تعمیری کردار کو سراہنا قابل ِ تحسین ہے، تاہم اس کے ساتھ ساتھ ہمیں داخلی سطح پر بھی سنجیدگی، تدبر اور وحدت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ وزارتِ دفاع اور وزارتِ اطلاعات کے ذمے داران کو سمجھنا چاہیے کہ ان کے الفاظ صرف ذاتی رائے نہیں بلکہ ریاستی مؤقف کا عکس سمجھے جاتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کشیدگی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ دونوں ممالک کی سلامتی، معیشت اور سیاسی استحکام ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کابل اور اسلام آباد نے مکالمے، تعاون اور بھائی چارے کا راستہ اپنایا، پورا خطہ مستحکم ہوا۔ اسی لیے اب وقت آگیا ہے کہ جنگ کی زبان نہیں بلکہ اعتماد، احترام اور شراکت داری کی زبان بولی جائے۔ آخرکار، حقیقت یہی ہے کہ پاکستان اور افغانستان میں امن ہی دونوں ممالک کی بقا کا راز ہے۔ یہی امن اس خطے کے عوام کے لیے ترقی، تعلیم، روزگار اور امید کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ اب فیصلہ دونوں حکومتوں کے ہاتھ میں ہے، وہ چاہیں تو دشمنی کی دیوار اونچی کر لیں، یا پھر اعتماد کی ایک ایسی مضبوط بنیاد رکھ دیں جس پر آنے والی نسلیں فخر کر سکیں۔