Daily Ausaf:
2025-09-18@17:48:52 GMT

یوم تکبیر:غیرت،قوت اور قوم پرستی کا دن

اشاعت کی تاریخ: 2nd, June 2025 GMT

28 مئی 1998ء کا دن محض کیلنڈر کی ایک تاریخ نہیں، بلکہ پاکستان کے تابناک عزم،قومی غیرت اور ناقابل تسخیر حوصلے کی ایک گونجتی ہوئی صدا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ایک طرف دشمن کے عزائم خاک میں ملائے گئے تو دوسری طرف پوری دنیا کو یہ باور کرایا گیاکہ پاکستان ایک زندہ قوم ہے۔جس کے نظریے، سلامتی اور خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔یوم تکبیر، اس دن کی علامت ہے جب چاغی کی سنگلاخ پہاڑیوں نے ”اللہ اکبر” کی صداؤں کو اپنے دامن میں سمیٹ کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب پوری قوم نے یکجہتی، اعتماداور حب الوطنی کےجذبےمیں ڈوب کراپنےسرفروش سائنسدانوں، عسکری قیادت اور سیاسی حوصلے کو سلام پیش کیا۔ یہ صرف ایٹمی دھماکے نہیں تھے، یہ ایک غیر معمولی پیغام تھا کہ ہم نہ صرف اپنے دفاع کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں بلکہ اپنی خودمختاری پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے۔پاکستان نے ایٹمی طاقت بن کر جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بحال کیا۔ بھارت نے 1974ء میں پہلا ایٹمی تجربہ کیا اور پھر 1998ء میں پانچ ایٹمی دھماکوں کے ذریعے خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی مگر پاکستان نے صرف 17دن کے اندراندرجواب دےکر دشمن کو اس کےخوابوں سے بیدار کر دیا۔ ان دھماکوں کے ساتھ ہی پاکستان دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی قوت بن گیا۔ یہ محض ایک سائنسی کارنامہ نہیں تھا بلکہ یہ ہمارے قومی وجود، نظریاتی اساس اور دفاعی وقار کی مکمل تصویر تھی۔یوم تکبیر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کسی قوم کی عظمت اس کے وسائل یا ساز و سامان میں نہیں بلکہ اس کے نظریے، عزم اور حوصلے میں پنہاں ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیرخان اور ان کی ٹیم نے جو کارنامہ سرانجام دیاوہ صدیوں تک یاد رکھا جائے گا۔ انہوں نے نہ صرف ایک ناممکن کو ممکن بنایابلکہ پوری دنیا کو حیران کر دیا کہ محدود وسائل اور پابندیوں کے باوجود، اگر نیت صاف ہو اور منزل کا تعین ہو، تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔ایٹمی طاقت حاصل کرنے کا عمل راتوں رات مکمل نہیں ہوا۔ یہ برسوں پر محیط ایک مسلسل جدوجہد، تحقیق، ایثار، اور قربانیوں کا ثمر تھا۔ ان سا ئنسدانوں نے اپنے دن رات ایک کر کے اس منصوبے کو کامیاب بنایا اور وہ بھی اس وقت جب عالمی پابندیاں، سفارتی دباؤ اور اندرونی مسائل پاکستان کے گرد شکنجہ کس چکے تھے۔ مگر قیادت کی بصیرت، عوام کا اعتماداور افواجِ پاکستان کی پشت پناہی نے اس قومی خواب کو حقیقت کا روپ دے دیا۔یوم تکبیر اس عہد کی تجدید کا دن ہے کہ ہم اپنی آزادی، خودمختاری اور قومی وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ آج جب ہم اس دن کو مناتے ہیں تو ہمیں اس کے پس پردہ چھپی قربانیوں کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ وہ سائنسدان جو گمنامی میں رہ کر ملک کے لیے خدمات انجام دیتے رہے، وہ فوجی جو اس اثاثے کی حفاظت میں سرد و گرم جھیلتے رہے وہ حکمران جنہوں نے عالمی دباؤ کے باوجود قومی مفاد کو ترجیح دی، سب کے سب ہمارے محسن ہیں۔یوم تکبیر نہ صرف پاکستان کی دفاعی طاقت کی علامت ہے بلکہ یہ پوری ملت اسلامیہ کے لیے فخر کا مقام ہے۔ جب چاغی کی پہاڑیاں گونجیں تو عالم اسلام کا سر فخر سے بلند ہوا۔ دشمنانِ اسلام کے لیے یہ ایک واضح پیغام تھا کہ مسلم دنیا کمزور نہیں اوراگر متحد ہوجائے تودنیاکی کوئی طاقت اس کا راستہ نہیں روک سکتی۔ پاکستان کا ایٹمی پروگرام مسلم امہ کی اجتماعی سوچ، نظریاتی بنیاد اور قومی حمیت کا آئینہ دار ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس طاقت کو نہ صرف برقرار رکھیں بلکہ اس کی افادیت کو مزید مؤثر بنائیں۔ صرف اسلحے سے قومیں محفوظ نہیں ہوتیں، بلکہ علمی، سائنسی، اقتصادی اور اخلاقی میدانوں میں ترقی ہی حقیقی خودمختاری کی ضامن ہوتی ہے۔ ہمیں یوم تکبیر کے جذبے کو ہر شعبہ زندگی میں منتقل کرنا ہوگا۔ ہم نے جس عزم سے چاغی کے پہاڑوں کو لرزایا تھا اسی حوصلے سے ہمیں جہالت، غربت، بے روزگاری اور کرپشن جیسے دشمنوں کے خلاف بھی لڑنا ہوگا۔یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارا وطن کسی مصلحت یامروّت کے تحت حاصل نہیں ہوابلکہ لاکھوں قربانیوں، خون کی دھاراؤں اور جذبہ ایثار سے حاصل کیا گیا۔ ہمیں اس دن کو صرف جلسوں، تقاریر، یا ٹی وی پر مباحثوں تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ہر پاکستانی کو اپنی سطح پر یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ ملک کے دفاع، ترقی اور استحکام میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرے گا۔ یہ وہ دن ہے جب ہم نے دنیا کو دکھایا کہ پاکستانی قوم صرف نعرے لگانے والی نہیں بلکہ عمل کا ہنر بھی جانتی ہے۔ آج وقت ہے کہ ہم اپنی خودی کو پھر سے بیدار کریں، تعلیم، صحت، معیشت، سائنس اور اخلاقی اقدار کے میدانوں میں بھی ایٹمی دھماکےکریں، تاکہ دنیا دیکھ لے کہ یہ قوم صرف دفاعی لحاظ سے ہی نہیں بلکہ ہر میدان میں ناقابل تسخیر ہے۔یاد رکھیں، ایٹمی طاقت ہونا ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ہمیں اپنے اس اسٹریٹجک پروگرام کی حفاظت کرنی ہے اسے سیاسی یا ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بجائے قومی سلامتی کے دائرے میں رکھنا ہے۔ دشمن ہماری صلاحیتوں سے خوفزدہ ہے اور وہ ہمیشہ سازش کرے گا۔ ہمیں اس سازش کا جواب بھی ویسے ہی دینا ہے جیسے 1998ء میں دیا تھا: اتحاد، یگانگت، اور قربانی سے۔یوم تکبیر صرف ماضی کی فتح کا جشن نہیں، بلکہ ایک مسلسل عزم اور استقامت کا دن ہے۔ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اگر قوم متحد ہوجائے، تو دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو اس دن کی اہمیت سے روشناس کرانا ہے تاکہ وہ جان سکیں کہ ان کے بزرگوں نے کس حوصلے سے یہ دن ممکن بنایا اور اب ان کی باری ہے کہ وہ اس ورثے کو سنبھالیں، سنواریں اور آگے بڑھائیں۔یوم تکبیر ایک نظریہ، ایک پیغام اور ایک مشن ہے۔ یہ پیغام ہے غیرت کا، یہ مشن ہے وقار کا، یہ نظریہ ہے بقا کا۔ آج جب دنیا بدل رہی ہے۔ طاقت کے پیمانے تبدیل ہو رہے ہیں اورچیلنجز نئی شکلوں میں سامنے آ رہے ہیں تو ہمیں بھی اپنے عزم، اپنی سمت اور اپنی حکمت عملی کو ازسرنو استوار کرنا ہوگا۔ ہمیں ہر دن کو یوم تکبیر کے جذبے کے ساتھ جینا ہوگا تاکہ ہم ایک باوقار، خوشحال اور مضبوط پاکستان کی طرف بڑھ سکیں۔
نہ جھکے، نہ رکے، نہ کبھی ہم تھکے
یہ وطن ہے ہمارا ہم محافظ بنے اسکے

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: یوم تکبیر ہیں بلکہ ہے کہ ہم کے لیے

پڑھیں:

گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250918-03-7
محسن باقری
۲۰۲۵ کا یوم آزادی بہت منفرد انداز میں آیا، ۱۴ اگست کی شب اسلام آباد سمیت ہر چھوٹا بڑا شہر سبز قمقموں سے مینارہ نور بنا رہا، سبز لباس سے مزین بچے بڑے ہوں، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر ہوا کی دوش پر اُڑنے والے پرچموں کی بہار ہو یا چوکوں چوراہوں اور عمارتوں پر سبز ہلالی پرچموں کی سجاوٹ سے بے تابانہ ساحرانہ مناظر، اس جشن میں سب ہی کا جذبہ دیدنی تھا، بھلا ان جذبوں کو کون شکست دے سکتا ہے۔ یوم آزادی پاکستان اور معرکہ حق و بنیان مرصوص کے پس منظر میں بالخصوص مرکزی تقریب بشمول سربراہان افوج پاکستان اسلام آباد ہو یا گورنر ہاؤس سندھ، فتح کا جشن مناتے ہوئے ہم ’’ٹریک‘‘ سے اترتے ہی رہے۔ بقول علامہ اقبال ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی‘‘ ذرا فتح مکہ کے موقع پر نبی کریمؐ کا انداز دیکھیے کہ ربّ کا شکر ادا کرنے کے لیے اونٹنی کے کجاوے پر آپؐ جھکے جارہے تھے، نبی کریمؐ نے فتح کے جشن کا طریقہ ہمیں اللہ سے دعا کرنے اور بذریعہ نماز (شکرانہ) بتایا، لیکن افسوس کہ ہماری یہ تقاریب ملی نغموں اور ثقافتی رنگوں کی آڑ میں مرد وخواتین کے بے حجابانہ رقص و موسیقی سے بچی نہ رہ سکیں، اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو ہم نے ہزیمت والی شکست سے دو چار ضرور کیا لیکن انجانے میں ہم دشمن ہی کی ناچ اور گانے کی ہندو ثقافت کو زندہ کرنے کے امین بھی بنے۔ تقریبات میں ’’فائر ورکس‘‘ کے نام پر کروڑوں روپے پھونک دیے گئے، گلی محلوں میں بے ہنگم باجے، ملی نغموں کی آڑ میں کان پھاڑتی موسیقی، آتش بازی، دھماکے اور ہوائی فائرنگ علٰیحدہ۔ کہیں کہیں باوقار تقاریب کا بھی اہتمام ہوا لیکن کیا کوئی کہہ سکتا ہے، بَھلا یہ اْس قوم کے جشن کا انداز ہے کہ جہاں ہر بچہ مقروض پیدا ہوتا ہے، کوئی کہہ سکتا ہے کہ اِس قوم کے ڈھائی کروڑ سے زاید بچے اسکول جانے سے معذور ہیں، غور کریں کہ جس قوم کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہو، قرض دینے والے دی ہوئی رقم کا تقریباً نصف حصہ قرض کی ادائیگی کی مد میں ہی وصول لیتے ہوں، پہلی نظر میں تو ایسی صورتحال میں اسے فضول خرچی سے ہی تعبیر کیا جائے گا جب کہ کئی اور پہلو بھی قابل غور ہیں۔

بلا شک وشبہ معرکہ حق کی دھاک ایک زمانے پر بیٹھ گئی، دنیا اب ہمارے بارے میں ایک اور زاویہ سے سوچنے پر مجبور ہوئی، لیکن کیا اب ہمارا سفر ختم ہوگیا، ۱۴ اگست تو دراصل تجدید عہد کا دن ہے، پاکستان کو نہ صرف ترقی کی راہ پر گامزن کرنے بلکہ اقوام عالم میں ہر شعبہ زندگی میں سبقت حاصل کرنے کا ایک عزم ہونا چاہیے، ۱۴ اگست کو اگر ہمارے جذبے جنوں بنے ہیں تو ان جذبوں کو ہمیں سلامت بھی رکھنا ہے اور ترقی کی شاہراہ پر دوڑنا بھی ہے، لیکن ایک لمحے ٹھیر کر دیکھیں کیا ہمیں وہ ساز و سامان میسر ہے کہ جس کے بل پر ہمیں ترقی یافتہ اقوام کا صرف مسابقہ ہی نہیں کرنا ہے بلکہ اپنا کھویا ہوا علمی اور سماجی مقام بھی واپس لینا ہے۔ آج ہم اس تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں جو کردار بناتی ہے، ہماری اخلاقی حالت ایسی ہے کہ کئی مرتبہ حکمران رہنے والی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنما ایک سوال کے جواب میں کہہ چکے ہیں کہ ’’وعدے قرآن و حدیث تو نہیں ہوتے‘‘۔ اسی پیرائے میں ملک کے مقبول ترین سیاسی رہنماؤں کی باتوں اور وعدوں کو بے لاگ صداقت کی کسوٹی پر جانچ لیجیے، اسی کا پرتو ہمیں عوامی سطح پر نظر آتا ہے، ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں اسی طرح تول میں ہمارے دینے کے پیمانے اور ہیں اور لینے کے اور۔

یہی معیار دیانت ہے تو کل کا تاجر
برف کے بانٹ لیے دھوپ میں بیٹھا ہوگا

گرین پاسپورٹ کے حوالے سے ہی اقوام عالم میں اپنی ساکھ کا اندازہ کر لیں جو ’کمزور ترین‘ پاسپورٹوں میں شامل ہے، صرف 32 ممالک میں ویزا فری داخلے کی سہولت حاصل ہے۔ معاصر جریدہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق ہینلے پاسپورٹ انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان اس وقت صرف جنگ زدہ ممالک صومالیہ، یمن، عراق، شام اور افغانستان سے بہتر پوزیشن پر فہرست میں 96 ویں نمبر پر ہے۔

کرپشن کا معاملہ بھلا کس کی نظروں سے پوشیدہ ہو سکتا ہے، چند دن پیش تر ہی وزیر دفاع خواجہ آصف کا یہ بیان کس طرح میڈیا میں چرچے کا باعث رہا جب انہوں بیوروکریٹس پر پرتگال میں جائدادیں بنانے کا انکشاف کیا، اس پر ایک بڑا رد عمل سامنے آیا اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ اب ان بیوروکریٹس کی نشاندہی بھی کی جائے گی۔ اس ملک پر تین بار نواز شریف حکمران رہے اور اب شہباز شریف کا دور حکمرانی ہے، خواجہ آصف کا یہ بیان کیا اچھنبے کی بات نہیں، کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ گئے عشروں اور حالیہ دور حکمرانی میں کرپشن کے خلاف (ن) لیگ کی حکومت کی کیا کار کردگی رہی، کیا وزیروں کا کام عوامی سطح پر کرپشن کا اعتراف اور اعلان ہی رہ گیا ہے، کیبنٹ میٹنگ، پارٹی کی حکومت کیا صرف اپنوں کو نوازنے کا نام ہے جس کی جھلک ہم نے ۱۴ اگست کے قومی اعزازات کی بندر بانٹ میں دیکھی۔ تعلیمی لحاظ سے عالمی درجہ بندی میں ہماری یونیورسٹیاں کتنی اور کس درجہ بندی میں آتی ہیں؟، یہ تو چند پیرائے ہیں، اگر ان کو ہی تھوڑا سا وسیع کر کے دیکھ لیں تو ہمیں از خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ اقوام عالم کی صف میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HDI) جو کسی ملک کے لوگوں کی فلاح و بہبود کی پیمائش کرنے کے لیے بنایا گیا ہے جس میں صحت، تعلیم اور معیار زندگی شامل ہیں، پاکستان درجہ بندی کی آخری درجے ’’لو ہیومن ڈیولپمنٹ‘‘ میں 193 ممالک میں سے 168 ویں نمبر پر فائز ہے۔

داخلی محاذ پر ہماری سیاسی چپقلش ذاتی دشمنیوں میں ڈھل چکی ہے، ہم آپس میں باہم دست و گریبان ہیں اور باہمی عناد پھوٹ پھوٹ کر ہمارے داخلی انتشار کی گواہیاں دے رہا ہے، ایک فریق اگر مشق ستم ہے تو دوسرا فریق اِن کی گرفتاریوں اور سزاؤں پر شاداں اور فرحاں ہے، کہیں کھل کر دلی بغض کا اظہار ہو رہا ہے تو کہیں قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف کھلا اور چھپا عِناد جس کی زد میں کوئی آئے یا نہ آئے لیکن نادانی میں اغیار کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں نتیجہ میں قومی اتحاد پارہ پارہ ہے۔ دوسری جانب ایسے لگتا ہے کہ اسی طرح اس نظام کو ان ہی گھسے پٹے بکاؤ عناصر کے ساتھ دھکا لگایا جاتا رہے گا جو کبھی ایک سیاسی پارٹی کبھی دوسری سیاسی پارٹی کے ساتھ، کبھی دبکا دیے جائیں تو چپ کر کے بیٹھ جاتے ہیں، کبھی چمکارے جائیں تو تھوڑا سا حوصلہ پکڑ لیتے ہیں اور ایک دوسرے کو ’’بْوٹ‘‘ کا طعنہ بھی دیتے ہیں، ایسے بے ضمیر سیاسی عناصر کے ساتھ ایک نا ختم ہونے والے مقتدر دورانیے کو منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملک کو ترقی کی سمت گامزن کرنا تو بہت دور کی بات ہے دور رس نتائج کی حامل ترقی کی منصوبہ بندی بھی نہیں کی جا سکے گی۔ ہم تعلیم اور تحقیق میں کسی گنتی میں نہیں، کچھ کردار کے حوالے سے کچھ ہماری کرپشن کا اگر شْہرہ ہے تو کچھ زبردستی کا ہم پر دہشت گردی کا ٹھپا ہے، بد ترین معاشی صورتحال ایسی کہ ہم آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں، وہ باقاعدگی سے ہمیں ٹیکس اور دیگر معاملات میں ہدایات جاری کرتے ہیں اور ہم باقاعدہ مِن و عَن اْن کی ہدایات پر عمل پیرا ہوتے ہیں یا صفائیاں پیش کرتے اور اْن کے کہے کی مہلت عمل لیتے ہیں۔

جہاں گزشتہ مہینوں ملک کے طول و عرض بشمول راولپنڈی اور کراچی میں زلزلے کے متعدد جھٹکے آئے، کے پی اور پنجاب میں بارش اور سیلاب سے بڑی جاں لیوا ہولناک بربادی آئی، سندھ میں بارشوں سے تباہی ہوئی، سوچنے کا مقام ہے کہ کہیں یہ ربّ کائنات کی ناراضی کا مظہر تو نہیں اور ہمیں جھنجھوڑا جا رہا ہو، بہرحال کسی کو مورد الزام ٹھیرائے بغیر مقاصد قیامِ پاکستان سے تجدید عہد، انفرادی و اجتماعی توبہ، اپنے کیے پر پشیمانی، مہلت عمل اور ربّ کی رضا کے حصول کی تمنا اور توفیق کے ساتھ ضرورت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں سے منافقت اور تناقص کو خارج کریں۔

اگر مسلمان ہیں تو مخلص مسلمان اور پاکستانی بنیں، اسلام کے رنگ میں رنگ کر ظاہراً نہیں حقیقتاً یک رنگ ہو جائیں۔

اپنی مِلت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
اْن کی جمعیت کا ہے ملک و نسَب پر اِنحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں
اور جمعیت ہوئی رخصت تو مِلت بھی گئی

متعلقہ مضامین

  • اسٹریٹیجک دفاعی معاہدہ: پاک سعودی رفاقت کا اگلا اور نیا باب
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • پی ٹی آئی قیادت جانتی ہے کہ عمران خان کے بیان عاصم منیر کے نہیں بلکہ ریاست کے کیخلاف ہیں: کوثر کاظمی 
  • سوست پورٹ ہڑتال، شرپسند عناصر کی ذاتی مفاد پرستی، اصل حقائق بے نقاب
  • کراچی میں خاتون کو بھائی اور شوہر نے غیرت کے نام پر  قتل کردیا
  • انقلاب – مشن نور
  • پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
  • اسرائیلی حملوں کی محض مذمت کافی نہیں، اب ہمیں واضح لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا: اسحاق ڈار
  • بطور ایٹمی طاقت پاکستان مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے، اسحاق ڈار کا الجزیرہ کو انٹرویو
  • بطور ایٹمی طاقت پاکستا ن مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے ،کسی کو بھی پاکستان کی خود مختاری چیلنج نہیں کرنے دیں گے،اسحاق ڈار