اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 جون 2025ء) جبکہ تاجر طبقہ قوموں کے درمیان خوشگوار تعلقات کو قائم رکھتا تھا۔ لوگوں کی معیشت کو مستحکم کرتا تھا۔ اس کی تجارت کے لیے امن کا ہونا ضروری تھا۔
قدیم اور عہد وسطیٰ کے ادوار میں تاجروں کا سماجی رقبہ کم تھا۔ کیونکہ زراعتی معاشرے میں زمین، عزت اور وقار کا باعث تھی۔ تاجروں کے پاس زمین بطور جائیداد نہیں ہوتی تھی۔
اس لیے وہ جاگیرداروں کی نظروں میں قابل عزت نہیں تھے۔ دوسری وجہ جو ان کے سماجی درجے کو کم تر کرتی تھی۔ وہ یہ تھی کہ وہ خود سے کسی پیداواری عمل کا حصہ نہیں ہوتے تھے۔ کاریگر اور ہنر مند جو اپنی محنت و مشقت سے مال تیار کرتے تھے یہ اُسے خرید کر دوسرے ملکوں میں منافع پر فروخت کرتے تھے۔ اس لیے ارسطو کا کہنا تھا کہ تاجر طبقہ بغیر کسی محنت کے دولت مند بن جاتا ہے۔(جاری ہے)
اس کے پیشے میں منافع کی لالچ ہوتی ہے جو اسے انسانی احساسات سے عاری رکھتی ہے۔لیکن دوسری جانب تاجروں کے مثبت کردار کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ اس کا تجزیہ نہیں کیا جاتا کہ وہ سامان تجارت سے لے کر خطرناک راستوں سے گزرتا ہوا ڈاکوؤں اور وحشی قبائل سے لڑتا ہوا اور سامان تجارت کو بچاتا ہوا منزل مقصود تک جاتا تھا۔ اس کی کامیابی اس میں پوشیدہ تھی کہ وہ جن ملکوں میں جاتا تھا ان ملکوں کے لوگوں کی ضروریات کو جانتا تھا اور وہ اشیاء لے کر جاتا تھا جو ان کی منڈیوں میں نہیں ہوتیں۔
واپسی پر وہ اپنے ملک کی منڈیوں کی طلب کے مطابق تجارتی سامان لے کر آتا تھا۔ کیونکہ اس وقت کوئی کرنسی نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے یا تو اشیاء کے بدلے اشیاء کا تبادلہ کیا جاتا تھا یا سونے کے ذریعے کسی شئے کی قیمت ادا کی جاتی تھی۔ چاندی کا استعمال اس وقت شروع ہوا جب لاطینی امریکہ میں چاندی کی کانیں دریافت ہوئیں۔ لہٰذا سونے اور چاندی کے سکے ڈھالے جانے لگے۔ جن کی وجہ سے تجارت میں ترقی ہوئی۔تاجروں کا یہ کارنامہ بھی ہے کہ انہوں نے کاریگروں اور صنعت کاروں کی سرپرستی کی اور ان سے وہ اشیاء بنوائیں جن کی دوسرے ملکوں میں ضرورت تھی۔ تاجروں نے نہ صرف ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ دیا بلکہ ایک دوسرے کے کلچر، زبان، ادب، آرٹ اور موسیقی کو بھی ایک دوسرے سے روشناس کرایا۔
میسوپوٹامیہ میں اسیرین کی سلطنت سیکنڈ میلینیم بی سی میں قائم ہوئی تو اس کے تاجر خچروں اور گدھوں پر سامان تجارت لاد کر اناطولیہ تک جاتے تھے۔
اس کا اندازہ ایک تاجر کا خط جو اس نے مٹی کی تختی پر لکھا تھا جو اس کی بیوی کے نام تھا اور لکھا تھا کہ اس کا سامان تجارت ختم ہو گیا ہے اور وہ اسے مال مزید بھجوائے۔ بیوی کا جواب تھا کہ گھریلو اخراجات بڑھ گئے ہیں اس لیے اسے مزید رقم درکار ہے۔ تجارت کے سلسلے میں خچروں اور گدھوں کے علاوہ دو کوہانوں والے اونٹ بھی مال برداری کا کام کرتے تھے اور تجارت کا سامان لے کر شاہراہ ریشم سے چین تک جاتے تھے۔ہندوستان میں بنجارے گائؤں اور دیہاتوں سے گندم اور مصالحہ جات، گدھوں اور خچروں پر لاد کر شہروں میں بھیجتے تھے۔ ان کا کاروبار اس وقت ختم ہوا جب برطانوی عہد میں ریلوے لائنیں بچھیں اور مال بردار گاڑیاں تجارتی سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جانے لگیں۔
ہندوستان کے عہد وسطیٰ میں ملتانی تاجر بڑے مشہور تھے۔ جب علاؤالدین خلجی نے ہر شئے کی قیمت مقرر کر دی تو ملتانی تاجروں کو دہلی میں یہ دقت پیش آئی کہ وہ اپنا مال حکومت کی مقرر کردہ قیمت پر فروخت نہیں کر سکتے۔
اس پر علائو الدین خلجی نے ان کو حکم دیا کہ سامان تجارت تو اسی قیمت پر فروخت کریں اور جو انہیں اس طرح نقصان ہو گا اس کی ادائیگی شاہی خزانے سے کی جائے گی۔ہندوستانی تاجر وادی سندھ کے عہد میں کاٹھیاواڑ کی بندرگاہ سے سامان تجارت لے کر میسوپوٹامیہ تک جاتے تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ وادی سندھ کے کاریگر ایسی اشیاء تیار کرتے تھے کہ جن کی مانگ میسوپوٹامیہ میں تھی۔
عہد وسطیٰ میں ہندوستان کے تاجر سورت کی بندرگاہ سے بحری جہازوں کے ذریعے کوریا، تھائی لینڈ، ویت نام اور انڈونیشیا تک جاتے تھے۔خلیج فارس کے عرب تاجر اپنی کشتیوں کی ذریعے جنوبی ہندوستان میں سامان تجارت لاتے تھے۔ جنوبی ہند کی ریاستوں نے عرب تاجروں کی سرپرستی کی کیونکہ ان کی بحری تجارت کی وجہ سے ریاستوں کو بڑا فائدہ ہوا۔ انہیں پوری آزادی دی گئی۔
یہ عرب تاجر جنوبی ہند میں مستقل آباد ہو کر وہاں کا کلچر بھی اختیار کر لیا۔ یہ موپلے کہلاتے ہیں اور آج بھی جنوبی ہندوستان میں ان کی بڑی تعداد ہے۔ہندوستان کے تاجر جب دوسرے ملکوں سے قیمتی اشیاء لاتے تھے تو ان کے خریدار امراء اور ان کی خواتین ہوتی تھیں۔ وہ اپنا سامان لے کر محلوں میں جاتے تھے اور وہیں امراء اور ان کی خواتین اپنی پسند کے سامان خریدتی تھیں اور عام لوگوں کے لیے بہت کم سامان لاتے تھے۔
تجارت میں انقلابی تبدیلی اس وقت آئی جب 1498 میں واسکوڈے گاما نے راس امیہ کو دریافت کرکے ایشیا کا بحری راستہ تلاش کر لیا۔ پرتگالیوں نے گجرات کے ساحلوں پر اپنی آبادیاں قائم کیں۔ گوا اور ملاکر پر قبضہ کیا اور مصالحوں کی تجارت شروع کی۔ اب تجارت تاجروں کی بجائے ریاست کی اجارہ داری میں آ گئی۔ پرتگال کے بحری جہازوں پر تجارتی مال ہوتا تھا بلکہ ان جہازوں پر توپیں بھی نصب ہوتی تھیں۔
انہوں نے کالی کٹ پر بمباری کی۔ گوا اور ملاکر میں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔بحرہند پر قبضہ کر کے عرب تاجروں کے جہازوں کو اپنی بندرگاہ پر بند کر دیا۔ یہاں تک کہ پرتگالیوں سے حج پر جانے کے لیے ان سے اجازت (ویزا) لینا پڑتا تھا۔اس کے بعد انگلستان، فرانس اور ہالینڈ نے ایشیائی ملکوں سے تجارت کے لیے کمپنیاں قائم کیں اور یورپی ملکوں کے درمیان تجارت کے سلسلے میں جنگوں کی ابتداء ہوئی۔ تجارت پرامن نہیں رہی بلکہ اس کے لیے جنگ کا ہونا بھی لازمی قرار پایا۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ہوتی تھی جاتا تھا تجارت کے کرتے تھے عرب تاجر اور ان تھا کہ اس لیے کے لیے
پڑھیں:
امریکا اور ایران جوہری پروگرام معاہدے کے قریب ہیں، ہم نے پاکستان اور بھارت کو جنگ سے روکا، ڈونلڈ ٹرمپ
اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کیساتھ تجارت نہیں کرسکتے، جو ایک دوسرے پر گولیاں برسا رہے ہیں۔ امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ امریکا کسی سے بھی بہتر لڑ سکتا ہے، ہمارے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر کہا ہے کہ ہم نے پاکستان اور بھارت کو جنگ سے روکا ہے۔ اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پاک بھارت کشیدگی جوہری تباہی کا باعث بن سکتی تھی، جنگ بندی پر پاک بھارت رہنماؤں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کے ساتھ تجارت نہیں کرسکتے، جو ایک دوسرے پر گولیاں برسا رہے ہیں۔ امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ امریکا کسی سے بھی بہتر لڑ سکتا ہے، ہمارے پاس دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی معاہدہ جلد ہوسکتا ہے، امریکا اور ایران جوہری پروگرام معاہدے کے قریب ہیں۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ چینی صدر شی جن پنگ سے تجارت اور ٹیرف پر بات کروں گا، امید ہے کہ تجارت اور ٹیرف پر امریکا چین اختلافات دور ہو جائیں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے مزید کہا کہ غیر ملکی طالب علموں کو فی الحال امریکا سے نہیں نکال رہے، ہارورڈ یونیورسٹی کے ساتھ لڑائی کے باوجود چاہتا ہوں کہ غیر ملکی طلباء یہاں تعلیم حاصل کریں۔