مرد اساتذہ ہوجائیں ہوشیار، جنسی ہراسگی کی شکایت پرثبوت فراہم کرنا اسٹوڈنٹس نہیں بلکہ ملزم ٹیچر کی ذمہ داری ہے ، وفاقی محتسب انسدادِ ہراسگی کا اہم فیصلہ WhatsAppFacebookTwitter 0 1 June, 2025 سب نیوز

اسلام آباد : وفاقی محتسب برائے انسدادِ ہراسگی نے اپنے حکم نامہ میں قرار دیاہے کہ ایسے معاملات میں جہاں ایک طالب علم جنسی طور پر ہراساں کرنے کی شکایت درج کرواتا ہےتو ثبوت فراہم کرنے کی قانونی ذمہ داری استاد پرہے کہ وہ اپنی پوزیشن واضح کرے اور اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کرے ۔

وفاقی محتسب محترمہ فوزیہ وقار نے اسلام آباد کی ایک وفاقی چارٹرڈ پبلک سیکٹر یونیورسٹی کے لیکچرر کی اپیل نمبر 143 مسترد کرتے ہوئے تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے کہ انسدادِ ہراسگی ایکٹ 2010کا سیکشن پانچ محکمانہ کاروائی کیلئے انکوائری کمیٹی کو دستاویزی، آڈیو، یا ویڈیو شواہد کی دریافت اور تیاری کا اختیار دیتا ہے، ہر ادارے کو جنسی ہراسگی معاملات کی محکمانہ سطح پر تحقیقات کے مقصد کیلئے متعلقہ مواد تک رسائی کا مکمل اختیار حاصل ہے، وفاقی محتسب نے اپنے تحریری فیصلے میں واضح کیا کہ انسدادِ ہراسگی ایکٹ میں یہ کہیں بھی نہیں ہے کہ شکایت کنندہ کو اپنا بیان ریکارڈ کرنے یا جرح کیلئے ذاتی طور پر حاضر ہونا ہوگا, وفاقی یونیورسٹی کے لیکچرر نےدورانِ تحقیقات انکوائری کمیٹی کو اپنا موبائل فون حوالے نہیں کیا اور ثبوت کا ایک اہم حصہ روک لیا،اس بناء پر یونیورسٹی کی قائم کردہ انکوائری کمیٹی کی سفارشات کی روُ سے لیکچرر کوملازمت سے برطرف کرنے کا فیصلہ جائز اور برحق ہے،

وفاقی محتسب فوزیہ وقار نے اپیل کا فیصلہ سناتے ہوئے تحریر کیا کہ ایک ایسا استاد جو متعدد طالبات کو ہراساں کرنے میں ملوث ہے، اسکی تعلیمی ادارے میں کوئی جگہ نہیں ہے، مذکورہ بالا بحث کے پیش نظر انکوائری کمیٹی کے نتائج کو برقرار رکھا جاتا ہے اور یونیورسٹی لیکچرر کی اپیل کو خارج کیا جاتا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرکیرالہ کمیونٹی کے ایونٹ میں شاہد آفریدی اور عمر گل مدعو، بھارتیوں کو آگ لگ گئی طلبا پاکستان کے روشن مستقبل کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کریں: کور کمانڈرز احمد پور شرقیہ: پاکستان ایکسپریس ٹرین کی 2 بوگیاں ٹریک سے اتر گئیں والدین کی بے لوث محبت میری زندگی کا انمول اثاثہ ہے: مریم نواز مقبوضہ کشمیر سے آنے والے دریاؤں پر قائم منصوبوں سے پاکستان کتنی بجلی پیدا کرتا ہے؟ بنوں میں ریسکیو 1122 کے زیر تعمیر دفتر میں دھماکا حکومت کا غیرقانونی مقیم غیرملکیوں کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کرنے کا فیصلہ TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: وفاقی محتسب

پڑھیں:

عمران خان شیخ مجیب کے آزار سے ہوشیار رہیں

عمران خان کے حکم کی تعمیل میں علی امین گنڈا پور بضد ہیں کہ وہ افغانستان ضرور جائیں گے اور افغان قیادت سے بات کریں گے۔ سوال مگر یہ ہے کہ برادر ہمسایہ ملک سے خالص دفاعی اور تزویراتی امور پر بات کرنے کے لیے وہ کس حیثیت سے تشریف لے جائیں گے؟ کیا آئین پاکستان کسی صوبے کے وزیر اعلیٰ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ دفاع اور امور خارجہ پر دیگر ریاستوں کے ساتھ معاملہ کرتا پھرے؟

دلچسپ بات یہ ہے دفاع اور امور خارجہ وہ شعبے ہیں جن پر شیخ مجیب جیسے آدمی نے بھی صرف اور صرف وفاق کا اختیار تسلیم کیا تھا۔ اپنے 6 نکات میں شیخ مجیب کا کہنا تھا کہ وفاق کی عملداری صرف دفاع اور امور خارجہ تک ہو اور باقی چیزیں صوبے خود دیکھیں۔ حیرت ہے کہ عمران خان ان دو شعبوں میں بھی وفاق نام کے کسی تکلف کے قائل نہیں۔ سارے احترام اور تمام تر حسن ظن کے باوجود اس سوال سے اجتناب ممکن نہیں کہ کیا اس رویے کو شیخ مجیب پلس کا نام دیا جائے؟

عمران خان تو درویش کا تصرف ہیں، کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، پریشانی یہ ہے کہ صوبائی حکومت کی دانشِ اجتماعی کیا ہوئی؟ کیا اس کی صفوں میں کوئی معاملہ فہم انسان بھی موجود ہے یا قافلہ انقلاب میں صاحب کمال اب وہی ہے جو ہجرِ مجنوں میں ’یا محبت‘ کہہ کر ہر وقت آبلے تھوکتا پھرے؟

ایک سیاسی جماعت کے طور پر تحریک انصاف کا حق ہے وہ اہم قومی امور پر اپنی رائے دے۔ دہشتگردی سے خیبر پختونخوا کا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور وہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ یہ اس کا استحقاق ہے کہ اصلاح احوال کے لیے وہ کچھ تجویز کرے تو وفاق اسے پوری سمنجیدگی سے سنے۔ اسے وفاق کی کسی پالیسی سے اختلاف ہے تو اسے یہ اختلاف بھی بیان کر دینا چاہیے اور اس کام کے لیے سب سے اچھا فورم پارلیمان ہے۔

تحریک انصاف سینیٹ میں بھی موجود ہےاور قومی اسمبلی میں بھی۔ متعلقہ فورمز پر اسے ہر پالیسی پر اپنے تحفظات اور خدشات پیش کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ کیسا رویہ ہے کہ اسمبلیوں میں تو بیٹھنا گوارا نہیں، قائمہ کمیٹیوں سے استعفے دیے جا رہے ہیں، سیاسی قیادت سے مکالمہ گوارا نہیں کہ وہ تو ’سب چور ہیں‘ اور انوکھے لاڈلے کی طرح چلے ہیں سیدھے افغانستان سے بات کرنے، جیسے یہ وفاق کے اندر ایک صوبے کے حاکم نہ ہوں، کسی الگ ریاست کے خود مختار حکمران ہوں۔

امور ریاست 92 کا ورلڈ کپ نہیں ہوتے کہ کھیل ہی بنا دیے جائیں، یہ ایک سنجیدہ چیز ہے۔ ایک فیڈریشن کے اندر وفاق اور صوبوں کا دائرہ اختیار کیا ہے؟ یہ بات آئین میں طے کی جا چکی ہے۔ دفاع اور امور خارجہ وفاق کا معاملہ ہے۔ کس ریاست سے کب اور کیا بات کرنی ہے، یہ وفاق کا استحقاق ہے۔ وفاق کے پاس وزارت دفاع بھی ہے اور وزارت خارجہ بھی۔ ان اداروں کی ایک اجتماعی یادداشت ہوتی ہے جو بہت سارے فیصلوں کی شان نزول ہوتی ہے۔ وفاق یہ فیصلہ کرتا ہے کہ دفاعی معاملات میں کب اور کیا فیصلہ کرنا ہے۔ صوبے وفاق کو تجاویز تو دے سکتے ہیں، اختلاف رائے کا اظہار بھی کر سکتے ہیں لیکن کسی صوبے کو یہ حق نہیں کہ وہ دفاع اور امور خارجہ جیسے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر انہیں بازیچہِ اطفال بنا دے۔

جب کوئی صوبہ ہمسایہ ریاست کے ساتھ ایسے معاملات خود طے کرنا چاہے تو یہ وفاق کی نفی ہے۔ یہ رویہ ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کے مترادف ہے۔ یہ آئین کی سکیم سے انحراف ہے۔ یہ تخریب اور انارکی کا نقش اول ہے۔ یہ سلسلہ چل نکلے تو ریاست کا وجود باقی رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔

کل کو بھارت کے ساتھ معاملہ ہو تو کیا پنجاب کا وزیر اعلیٰ وفاق کو نظر انداز کرتے ہوئے دلی پہنچ جائے کہ وفاقی حکومت کو چھوڑیے مہاشہ جی، آئیے ہم آپس میں مل بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔

کیا بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کل ایران پہنچ جائیں کہ وفاق پاکستان کو بھول جائیے، آئیے آپ بلوچستان کے ساتھ براہِ راست معاملہ فرما لیجیے۔

کیا کل کو گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ چین جا پہنچیں کہ پاکستان کی وفاقی حکومت کیا بیچتی ہے صاحب، آئیے سی پیک کے معاملات سیدھے میرے ساتھ ہی نمٹا لیں۔

کیا کل کو سندھ کی حکومت سمندری حدود کے سلسلے میں دنیا کو خط لکھتی پھرے گی کہ وفاق کے تکلف میں کیا پڑنا، آئیے سمندری معاملات ہم آپ میں بیٹھ کر طے کر لیتے ہیں۔

ذرا تصور کیجیے کیا اس سب کے بعد فیڈریشن کے لیے اپنا وجود باقی رکھنا ممکن ہوگا؟

تحریک انصاف ایک قومی جماعت ہے۔ اس کی مقبولیت میں بھی کوئی شک نہیں، اس کے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ سیاست میں دھوپ چھاؤں آتی رہتی ہے۔ اس کا حل مگر سیاسی بصیرت سے ہی تلاش کیا جاتا ہے نہ کہ ہیجان کے عالم میں بند گلی میں داخل ہو کر۔

قومی سیاسی جماعت ہی اگر وفاق کی نفی کرنے لگے تو یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک بڑھیا، جس نے ساری عمر سوت کاٹا اور آخر میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آصف محمود

آصف محمود انگریزی ادب اور قانون کے طالب علم ہیں۔ پیشے سے وکیل ہیں اور قانون پڑھاتے بھی ہیں۔ انٹر نیشنل لا، بین الاقوامی امور، سیاست اور سماج پر ان کی متعدد کتب شائع ہوچکی ہیں۔

wenews افغانستان برادر ہمسایہ ملک پی ٹی آئی دہشتگردی شیخ مجیب الرحمان علی امین گنڈاپور عمران خان وفاق وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • عمران خان شیخ مجیب کے آزار سے ہوشیار رہیں
  • سیلاب سے نقصانات کا تخمینہ لگانے کیلئے عالمی اداروں کو شامل کرنے کا فیصلہ
  • سامعہ حجاب نے ملزم زاہد کو معاف کرنے کیلئے کی جانے والی ڈیل پر خاموشی توڑ دی
  • لاہور: سوتیلی بیٹی سے جنسی زیادتی کرنے والا ملزم گرفتار
  • کراچی، وفاقی اردو یونیورسٹی کی سینیٹ کا اجلاس انعقاد سے پہلے ہی متنازعہ ہوگیا
  • اردو یونیورسٹی سینٹ اجلاس موخر کرنے کیلئے خالد مقبول کا ایوان صدر کو خط
  • اسرائیلی جارحیت کو کسی بھی بہانے جواز فراہم کرنا ناقابل قبول ہے؛ اعلامیہ قطر اجلاس
  • اسرائیلی جارحیت کو کسی بھی بہانے جواز فراہم کرنا ناقابل قبول ہے، اعلامیہ قطر اجلاس
  • سرکاری ملازمین کے لیے اچھی خبر;تعلیم کیلیے خصوصی فنڈ فراہم کرنے کا فیصلہ
  • کراچی؛ گینگ وار سربراہ عزیر بلوچ کے خلاف 2 مقدمات کا فیصلہ مؤخر