ایسی دنیا اب تصوراتی بات نہیں رہی جہاں الگورتھم ہی فوجیوں اور شہریوں دونوں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ڈرون جنگ کی شکل تبدیل کر رہے ہیں جس سے کسی لڑائی میں خوداختیاری کے بارے میں کڑے اخلاقی سوالات جنم لے رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی پالیسی ساز جنگ کے اصول و قوانین طے کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں اور ایسے میں تیزی سے تبدیل ہوتی اور ترقی پاتی اس ٹیکنالوجی کو قابو میں رکھنے کی کوشش بھی جاری ہے۔

انسان روزانہ خود ہی مشینوں کو اپنے بارے میں اطلاعات مہیا کرتے ہیں۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم آن لائن کوکیز کو قبول کرتے یا کوئی سرچ انجن استعمال کرتے ہیں۔ اس وقت کم ہی لوگ یہ سوچتے ہوں گے کہ ان کے بارے میں معلومات کیسے فروخت ہوتی ہیں اور ہم جس آن لائن پیج کو کھولنا چاہتے ہیں اس پر ’رضامند‘ کے بٹن کو کلک کرنے کے بعد ان معلومات کو ہمیں بطور صارف ہدف بنانے اور کسی ایسی چیز کو خریدنے پر قائل کرنے کے لیے کیسے استعمال کیا جاتا ہے جسے کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ آیا ہمیں اس کی ضرورت ہے یا نہیں۔

یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ اگر مشینیں ہمارے بارے میں معلومات کو یہ فیصلہ کرنے کے لیے استعمال کریں کہ کسے دشمن کے طور پر نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کی ضرورت ہے تو پھر کیا ہو گا؟

اقوام متحدہ اور غیرسرکاری اداروں (این جی اوز) کے ایک گروپ کو یہ تشویش لاحق ہے کہ مستقبل قریب میں واقعتاً ایسا ہو سکتا ہے۔ اسی لیے وہ مہلک خودکار ہتھیاروں (ایل اے ڈبلیو ایس) کے حوالے سے بین الاقوامی ضابطے بنانے کے لیے کہہ رہے ہیں تاکہ مشینوں کو لوگوں کے لیے زندگی اور موت کے انتخاب سے روکا جائے۔

تباہ کن سستے ڈرون

کبھی صرف امیر ترین ممالک کے پاس ہی جدید اور مہنگے ڈرون استعمال کرنے کے لیے درکار وسائل اور ٹیکنالوجی ہوتی تھی لیکن ثابت ہو رہا ہے کہ سستے ڈرون میں بھی چند تبدیلیاں کر کے اسے مہلک ہتھیار میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اب دنیا کے ممالک یہی کچھ کر رہے ہیں اور اس طرح دور حاضر کی جنگیں تبدیل ہو رہی ہیں۔

قاتل روبوٹ

ڈرون اور دیگر خودکار ہتھیاروں سے بطور ’قاتل روبوٹ‘ لاحق خطرات نے دور حاضر کی تباہ کن جنگوں کے حوالے سے ہولناک خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے ہمیشہ کہا ہے کہ مشینوں کو انسانی زندگی لینے کا اختیار دینا اخلاقی اعتبار سے ناقابل قبول ہے۔

ادارے میں تخفیف اسلحہ سے متعلق شعبے کی سربراہ ازومی ناکامتسو کا کہنا ہے کہ مشینوں کو جنگی اہداف کا تعین کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جانی چاہیے بلکہ بین الاقوامی قانون کے تحت اس پر پابندی ہونی چاہیے۔ اقوام متحدہ کا یہی مؤقف ہے۔

مشینوں کی حکومت

بین الاقوامی غیرسرکاری ادارے ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ خودکار ہتھیاروں کا استعمال ’ڈیجیٹل سلبِ انسانیت‘ کی تازہ ترین اور انتہائی سنگین مثال ہو گی جبکہ مصنوعی ذہانت پہلے ہی جرائم کی بیخ کنی، نفاذ قانون اور سرحدی نگرانی و تحفظ کے شعبوں میں ایسے فیصلے کر رہی ہے جو انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔

ہیومن رائٹس واچ میں اسلحے کی روک تھام سے متعلق شعبے کی ڈائریکٹر میری وارہیم نے خبردار کیا ہے کہ بہت سے با وسائل ممالک خشکی اور سمندر سے چلائے جانے والے خودکار ہتھیاروں کے نظام تیار کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت اور متعلقہ ٹیکنالوجی پر بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ کام امریکا نے شروع کیا ہے لیکن روس، چین، اسرائیل اور جنوبی کوریا بھی خودکار ہتھیاروں کے نظام پر بھاری وسائل خرچ کرنے میں مصروف ہیں۔

مصنوعی ذہانت کے ذریعے جنگ کے حامی ٹیکنالوجی کے اس خطرناک استعمال کے جواز میں اکثر یہ دلیل دیتے ہیں کہ فوجی دوران جنگ جذبات اور تھکن کے زیراثر ہدف کے چناؤ اور طاقت کے متناسب استعمال کے حوالے سے غلط کر سکتے ہیں جبکہ انہیں اجرت بھی دینی پڑتی ہے۔ اس کے برعکس رویوں اور نقل و حرکت کو پہچاننے کے حوالے سے مشینوں کی صلاحیت روزبروز بہتر ہو رہی ہے۔ ایسے بعض لوگوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ فائر کرنے کا فیصلہ بھی مشین کو ہی کرنا چاہیے۔

تاہم مشینوں کو میدان جنگ میں مکمل اختیار دینے میں 2 قباحتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ ٹیکنالوجی بھی غلطیاں کر سکتی ہے اور دوسری یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور متعدد دیگر ادارے مہلک خودکار ہتھیاروں کے استعمال کو غیراخلاقی سمجھتے ہیں۔

جنگی جرائم کی ذمے داری

میری وارہیم کہتی ہیں، یہ کہنا درست نہیں کہ مشینیں جنگی اہداف کو پہچاننے میں غلطی نہیں کر سکتیں۔ جسمانی معذور افراد کو ان سے خاص طور پر خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ وہ بآسانی حرکت نہیں کر سکتے اور مشین انہیں جنگی ہدف سمجھ سکتی ہے۔ ممکن ہے مصنوعی ذہانت کسی کی وہیل چیئر کو جنگی ہتھیار سمجھ لے۔ چہرہ پہچاننے کی ٹیکنالوجی اور دیگر بائیومیٹرک طریقہ کار بھی مختلف لوگوں کو پہچاننے میں غلط کر سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت میں ابھی بہت سی خامیاں ہیں جن کے پیچھے اسے ترقی دینے والوں کے تعصبات بھی ہوتے ہیں۔

جنگی نظام میں خودکاری کے حوالے سے نیا قانون بنوانے کے لیے مہم چلانے والے اداروں کے اتحاد ’اسٹاپ کلرز روبوٹس‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نکول وان روجین کا کہنا ہے کہ مشینوں پر جنگی جرائم اور دیگر مظالم کی ذمہ داری بھی عائد نہیں کی جا سکتی۔

جب مصنوعی ذہانت کے ذریعے خودکار طریقے سے ہدف کا تعین کرنے والی کوئی مشین بے گناہ لوگوں کو ہلاک کرے گی تو اس کا ذمے دار کون ہو گا؟ کیا انہیں تیار کرنے والے کو اس کا ذمے دار قرار دیا جائے گا یا ان کے الگورتھم بنانے والے پر یہ ذمہ داری آئے گی؟ اس طرح اخلاقی حوالے سے کئی سوالات ابھرتے ہیں اور ان مشینوں کا بڑے پیمانے پر استعمال اخلاقی ناکامی ہو گا۔

رواں مہینے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں اس مسئلے پر ہونے والی غیررسمی بات چیت میں سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے رکن ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ ایسے خودکار ہتھیاروں کا استعمال ممنوع قرار دینے کے لیے آئندہ برس تک ایک معاہدہ طے کریں جس کی پابندی قانوناً لازم ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اے آئی قاتل ڈرون قاتل روبوٹ مصنوعی ذہانت.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اے ا ئی قاتل ڈرون قاتل روبوٹ مصنوعی ذہانت خودکار ہتھیاروں مصنوعی ذہانت اقوام متحدہ کے حوالے سے کرنے کے لیے مشینوں کو کہ مشینوں ہیں اور رہے ہیں

پڑھیں:

کیا زیادہ مرچیں کھانے سے واقعی موٹاپے سے نجات مل جاتی ہے؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

زیادہ تر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مرچوں والا کھانا وزن کم کرنے، بھوک کم کرنے اور موٹاپے سے نجات دلانے میں مددگار ہوتا ہے، اسی لیے وہ طرح طرح کے ٹوٹکے آزماتے ہیں اور خاص طور پر دوپہر اور رات کے کھانوں میں مرچوں کی مقدار بڑھا دیتے ہیں۔ مگر ایک نئی تحقیق کے مطابق یہ بات پوری طرح درست نہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ مرچوں کا زیادہ استعمال کئی صحت کے مسائل بھی پیدا کرسکتا ہے۔ اس میں موجود کیمیائی مادہ کیپساسین بیجوں اور رگوں میں زیادہ ہوتا ہے اور اتنا تیز ہے کہ بعض اوقات مریض کو اسپتال پہنچا دیتا ہے۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال جنوبی کوریا کی کمپنی “سامیانگ” کے چند نوڈلز ڈنمارک میں صحت عامہ کے لیے خطرناک قرار دے کر ہٹا دیے گئے تھے۔

تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ کیپساسین کے کچھ حیرت انگیز فوائد ہیں۔ یہ زبان پر موجود TRPV1 ریسیپٹرز کو متحرک کرتا ہے جو نہ صرف گرمی کا احساس پیدا کرتے ہیں بلکہ دماغ کو ایک کیمیکل نورایپی نیفرین خارج کرنے پر بھی آمادہ کرتے ہیں۔ یہ کیمیکل جسم میں موجود براؤن فیٹ کو فعال کرتا ہے۔

براؤن فیٹ وہ صحت مند چربی ہے جو کندھوں کے درمیان، گردن کے گرد، پسلیوں کے پیچھے اور پیٹ پر پائی جاتی ہے۔ اس کا کام جسم کا درجہ حرارت قابو میں رکھنا ہے۔ جب یہ فعال ہوتی ہے تو توانائی کے ذخائر استعمال کر کے گرمی پیدا کرتی ہے، جسے تھرمو جینیسِس کہا جاتا ہے۔ اس عمل کے دوران براؤن فیٹ جسم کی سفید چربی (وہ نقصان دہ چربی جو اعضاء کے گرد جمع ہو کر مسائل پیدا کرتی ہے) کو جلانے لگتی ہے۔

یعنی مرچوں والا کھانا کسی حد تک وزن برقرار رکھنے میں مدد دے سکتا ہے، لیکن صرف مرچیں زیادہ کھا لینا وزن کم کرنے یا ڈاکٹر سے بچنے کا حل نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ڈرون کا مقابلہ کرنے کیلیے ناٹو کا مزید اقدامات پر غور
  • ڈیجیٹل یوتھ ہب نوجوانوں کومصنوعی ذہانت پر مبنی وسائل تک ذاتی رسائی فراہم کرے گا، چیئرمین وزیراعظم یوتھ پروگرام سے یونیسف کی نمائندہ کی ملاقات
  • کیا زیادہ مرچیں کھانے سے واقعی موٹاپے سے نجات مل جاتی ہے؟
  • لوگوں چیٹ جی پی ٹی پر کیاکیا سرچ کرتے ہیں؟ کمپنی نے تفصیلات جاری کر دیں
  • عالیہ بھٹ نے بیٹی کی پیدائش کے بعد تیزی سے وزن کیسے کم کیا؟
  • کسی ملزم کو عدالتی پراسیس کا غلط استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، چیف جسٹس
  • قطر اور یہودو نصاریٰ کی دوستی کی دنیا
  • ہم ہرگز یورپ کو اسنیپ بیک کا استعمال نہیں کرنے دینگے، محمد اسلامی
  • جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، جج سپریم کورٹ
  • مالی مشکلات سے تنگ ہیں؟ جانیے چیٹ جی پی ٹی کیسے آپ کی مدد کرسکتا ہے