مصنوعی ذہانت ڈرون اور روبوٹس کو کیسے زیادہ مہلک بنا دے گی؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
ایسی دنیا اب تصوراتی بات نہیں رہی جہاں الگورتھم ہی فوجیوں اور شہریوں دونوں کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ڈرون جنگ کی شکل تبدیل کر رہے ہیں جس سے کسی لڑائی میں خوداختیاری کے بارے میں کڑے اخلاقی سوالات جنم لے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی پالیسی ساز جنگ کے اصول و قوانین طے کرنے کی کوششوں میں لگے ہیں اور ایسے میں تیزی سے تبدیل ہوتی اور ترقی پاتی اس ٹیکنالوجی کو قابو میں رکھنے کی کوشش بھی جاری ہے۔
انسان روزانہ خود ہی مشینوں کو اپنے بارے میں اطلاعات مہیا کرتے ہیں۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب ہم آن لائن کوکیز کو قبول کرتے یا کوئی سرچ انجن استعمال کرتے ہیں۔ اس وقت کم ہی لوگ یہ سوچتے ہوں گے کہ ان کے بارے میں معلومات کیسے فروخت ہوتی ہیں اور ہم جس آن لائن پیج کو کھولنا چاہتے ہیں اس پر ’رضامند‘ کے بٹن کو کلک کرنے کے بعد ان معلومات کو ہمیں بطور صارف ہدف بنانے اور کسی ایسی چیز کو خریدنے پر قائل کرنے کے لیے کیسے استعمال کیا جاتا ہے جسے کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ آیا ہمیں اس کی ضرورت ہے یا نہیں۔
یہاں یہ سوال ابھرتا ہے کہ اگر مشینیں ہمارے بارے میں معلومات کو یہ فیصلہ کرنے کے لیے استعمال کریں کہ کسے دشمن کے طور پر نشانہ بنا کر ہلاک کرنے کی ضرورت ہے تو پھر کیا ہو گا؟
اقوام متحدہ اور غیرسرکاری اداروں (این جی اوز) کے ایک گروپ کو یہ تشویش لاحق ہے کہ مستقبل قریب میں واقعتاً ایسا ہو سکتا ہے۔ اسی لیے وہ مہلک خودکار ہتھیاروں (ایل اے ڈبلیو ایس) کے حوالے سے بین الاقوامی ضابطے بنانے کے لیے کہہ رہے ہیں تاکہ مشینوں کو لوگوں کے لیے زندگی اور موت کے انتخاب سے روکا جائے۔
تباہ کن سستے ڈرونکبھی صرف امیر ترین ممالک کے پاس ہی جدید اور مہنگے ڈرون استعمال کرنے کے لیے درکار وسائل اور ٹیکنالوجی ہوتی تھی لیکن ثابت ہو رہا ہے کہ سستے ڈرون میں بھی چند تبدیلیاں کر کے اسے مہلک ہتھیار میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اب دنیا کے ممالک یہی کچھ کر رہے ہیں اور اس طرح دور حاضر کی جنگیں تبدیل ہو رہی ہیں۔
قاتل روبوٹڈرون اور دیگر خودکار ہتھیاروں سے بطور ’قاتل روبوٹ‘ لاحق خطرات نے دور حاضر کی تباہ کن جنگوں کے حوالے سے ہولناک خدشات میں اضافہ کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے ہمیشہ کہا ہے کہ مشینوں کو انسانی زندگی لینے کا اختیار دینا اخلاقی اعتبار سے ناقابل قبول ہے۔
ادارے میں تخفیف اسلحہ سے متعلق شعبے کی سربراہ ازومی ناکامتسو کا کہنا ہے کہ مشینوں کو جنگی اہداف کا تعین کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جانی چاہیے بلکہ بین الاقوامی قانون کے تحت اس پر پابندی ہونی چاہیے۔ اقوام متحدہ کا یہی مؤقف ہے۔
مشینوں کی حکومتبین الاقوامی غیرسرکاری ادارے ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ خودکار ہتھیاروں کا استعمال ’ڈیجیٹل سلبِ انسانیت‘ کی تازہ ترین اور انتہائی سنگین مثال ہو گی جبکہ مصنوعی ذہانت پہلے ہی جرائم کی بیخ کنی، نفاذ قانون اور سرحدی نگرانی و تحفظ کے شعبوں میں ایسے فیصلے کر رہی ہے جو انسانی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ میں اسلحے کی روک تھام سے متعلق شعبے کی ڈائریکٹر میری وارہیم نے خبردار کیا ہے کہ بہت سے با وسائل ممالک خشکی اور سمندر سے چلائے جانے والے خودکار ہتھیاروں کے نظام تیار کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت اور متعلقہ ٹیکنالوجی پر بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ کام امریکا نے شروع کیا ہے لیکن روس، چین، اسرائیل اور جنوبی کوریا بھی خودکار ہتھیاروں کے نظام پر بھاری وسائل خرچ کرنے میں مصروف ہیں۔
مصنوعی ذہانت کے ذریعے جنگ کے حامی ٹیکنالوجی کے اس خطرناک استعمال کے جواز میں اکثر یہ دلیل دیتے ہیں کہ فوجی دوران جنگ جذبات اور تھکن کے زیراثر ہدف کے چناؤ اور طاقت کے متناسب استعمال کے حوالے سے غلط کر سکتے ہیں جبکہ انہیں اجرت بھی دینی پڑتی ہے۔ اس کے برعکس رویوں اور نقل و حرکت کو پہچاننے کے حوالے سے مشینوں کی صلاحیت روزبروز بہتر ہو رہی ہے۔ ایسے بعض لوگوں کا یہاں تک کہنا ہے کہ فائر کرنے کا فیصلہ بھی مشین کو ہی کرنا چاہیے۔
تاہم مشینوں کو میدان جنگ میں مکمل اختیار دینے میں 2 قباحتیں ہیں۔ پہلی یہ کہ ٹیکنالوجی بھی غلطیاں کر سکتی ہے اور دوسری یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور متعدد دیگر ادارے مہلک خودکار ہتھیاروں کے استعمال کو غیراخلاقی سمجھتے ہیں۔
جنگی جرائم کی ذمے داریمیری وارہیم کہتی ہیں، یہ کہنا درست نہیں کہ مشینیں جنگی اہداف کو پہچاننے میں غلطی نہیں کر سکتیں۔ جسمانی معذور افراد کو ان سے خاص طور پر خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ وہ بآسانی حرکت نہیں کر سکتے اور مشین انہیں جنگی ہدف سمجھ سکتی ہے۔ ممکن ہے مصنوعی ذہانت کسی کی وہیل چیئر کو جنگی ہتھیار سمجھ لے۔ چہرہ پہچاننے کی ٹیکنالوجی اور دیگر بائیومیٹرک طریقہ کار بھی مختلف لوگوں کو پہچاننے میں غلط کر سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت میں ابھی بہت سی خامیاں ہیں جن کے پیچھے اسے ترقی دینے والوں کے تعصبات بھی ہوتے ہیں۔
جنگی نظام میں خودکاری کے حوالے سے نیا قانون بنوانے کے لیے مہم چلانے والے اداروں کے اتحاد ’اسٹاپ کلرز روبوٹس‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نکول وان روجین کا کہنا ہے کہ مشینوں پر جنگی جرائم اور دیگر مظالم کی ذمہ داری بھی عائد نہیں کی جا سکتی۔
جب مصنوعی ذہانت کے ذریعے خودکار طریقے سے ہدف کا تعین کرنے والی کوئی مشین بے گناہ لوگوں کو ہلاک کرے گی تو اس کا ذمے دار کون ہو گا؟ کیا انہیں تیار کرنے والے کو اس کا ذمے دار قرار دیا جائے گا یا ان کے الگورتھم بنانے والے پر یہ ذمہ داری آئے گی؟ اس طرح اخلاقی حوالے سے کئی سوالات ابھرتے ہیں اور ان مشینوں کا بڑے پیمانے پر استعمال اخلاقی ناکامی ہو گا۔
رواں مہینے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں اس مسئلے پر ہونے والی غیررسمی بات چیت میں سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے رکن ممالک پر زور دیا تھا کہ وہ ایسے خودکار ہتھیاروں کا استعمال ممنوع قرار دینے کے لیے آئندہ برس تک ایک معاہدہ طے کریں جس کی پابندی قانوناً لازم ہو۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اے آئی قاتل ڈرون قاتل روبوٹ مصنوعی ذہانت.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اے ا ئی قاتل ڈرون قاتل روبوٹ مصنوعی ذہانت خودکار ہتھیاروں مصنوعی ذہانت اقوام متحدہ کے حوالے سے کرنے کے لیے مشینوں کو کہ مشینوں ہیں اور رہے ہیں
پڑھیں:
متوقع بدترین تباہ کن اور مہلک ترین جنگ عظیم
گرد و پیش کے حالات واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ دنیا تباہی کےدہانے پر ہے۔ تقسیم شدہ دنیا جو آنکھوں کے سامنے بکھرنے کا عندیہ دے رہی ہے، ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں۔ جہاں آج کی دنیا خطرناک حد تک تقسیم ہو چکی ہے۔ معیشت، سیاست، عسکریت، اور روحانیت ہر سطح پر۔ عظیم عالمی طاقتیں امریکہ، برطانیہ، اور یورپ اندرونی طور پر متزلزل ہو چکی ہیں۔دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم ہونے والا عالمی نظام بکھر رہا ہے۔ہربراعظم میں بے یقینی، خوف، اور عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے۔یہ اشارے اب چھپے ہوئے نہیں، بلکہ کھلے، خوفناک اور عالمگیر ہو چکے ہیں۔ مغرب میں اقتصادی زوال اور سیاسی مایوسی نمایاں ہور ہی ہے،برطانیہ مییں مہنگائی بلند ترین سطح پر۔ عوامی سہولیات زوال پذیر، NHS کی سروس تاخیر اور مالی بدنظمی ، بے گھر افراد میں اضافہ۔ نوجوان طبقے میں بے روزگاری اور مایوسی۔ امير افراد كا برطانیہ سے اپنی دولت سمیت دوسرے ممالک خاص كدوبئ ميں منتقل ہونا، فوج خفیہ طور پر بڑی جنگ کی تیاری میں مصروف اور اب پریس نے بھی بڑی جنگ کے آغاز كے تبصرے لکھنے شروع کردیئے ہیں اور برطانوی وزیر اعظم نے اپنے بیان میں واضح طور پر کہا کہ ہم جنگی تیاری کررہے ہیں امریکہ شدید سیاسی تقسیم ،قوم اندرونی خلفشار میں مبتلا۔ ٹرمپ کی واپسی کے ساتھ تجارتی جنگیں، تنہا پسندی، اور تعصب کاظہور۔ یورپ و برطانیہ سے تعلقات میں تناؤ۔ اخلاقی اقدار، خاندانی نظام اور سماجی اعتماد کا زوال۔یورپ میںکورونا و یوکرین جنگ کے بعد جمود، توانائی بحران، عوامی احتجاج اور اقتصادی دباو ميں، قوم پرستی اور پاپولزم میں اضافہ۔ نیٹو میں اندرونی اختلافات، فوجی اخراجات معیشت پر بوجھ۔جنگ و خونریزی۔ یوکرین، غزہ اور مشرقِ وسطیٰ، یوکرین-روس طویل جنگ ، امن کا کوئی امکان نہیں، لاکھوں اموات۔ حاليہ یو کرین حملہ نے روس کو اشتعال دے کر جوابی بڑے حملے پر مجبور کیا تاکہ برطانیہ اور یورپ کو روس کے خلاف کھلے اعلان جنگ کا جواز مل جائے۔ غزہ میں اسرائیلی نسل کشی 55000 شہادتیں،بستیاں راکھ کا ڈھیر بنا دیں ، ہسپتالوں مسجدوں گرجا گھروں سکولوں تک کو صہيونی افواج نے تباہ برباد کردیا، مگرعالمی ضمیر خاموش اور مغربى ممالک خاص كر امریکہ ، برطانیہ اور یورپ نے اسلحہ اور اپنی شرمناک حمايت اسرائیل کے وحشيانہ اور غير قانونی و غير انسانی اقدامات كکے ساتھ رکھی۔ اب چند دن سے اسرائیل سے جنگ روکنے کو کہنا شروع کیا حالانکہ بین الاقوامی اداروں اور اعلیٰ قانونی عدالت کے اسرائیلی حکومت کے خلاف فیصلوں کو بھی نظر انداز كرديا۔ ایران پر حملے کی اسرائیلی دھمکیوں سے پورے خطے کو آگ میں جھونکنے کا خطرہ جس سے شام، عراق، حتیٰ کہ كپاکستان متاثر ہو سکتے ہیں۔ایشیاء میں کشیدگی بھارت-پاکستان، کشمیر بدستور ایٹمی فلیش پوائنٹ پر، بھارتی حکومتی مذہبی انتہا پسندی، کسی بھی غلطی سے جنگ کا اندیشہ ہے۔ چین، عالمی برتری کی جانب گامزن، تائیوان پر کشیدگی، انڈو پیسفک میں عسکری سرگرمیاں۔ اخلاقی بحران۔ دنیا اپنی روح کھو چکی ہے۔ دینی ادارے کمزور یا کرپشن کا شکار۔ مادّہ پرستی، شہوت پرستی، اسکرین کی دنیا میں گمشدگی۔ سچائی بے قیمت، جھوٹ، پروپیگنڈا، اور طاقت کا راج۔ فطرت کا انتقام ، آفات، ماحولیاتی تبدیلیاں، انسانی ظلم کا نتیجہ۔یہ صرف سیاسی بحران نہیں بلکہ روح کا زوال ہے۔مثبت مثال صرف ترکیہ کا مصالحتی عالمی کردار قابل تحسین ہے کہ اس عالمی افراتفری کے دوران، ترکیہ نے ایک روشن، مثبت غير جانب دارانہ اور مصالحتی کردار روس و یوکرین میں ادا کیا ہے۔ ترکیہ نے روس-یوکرین تنازع میں ثالثی، ایران اور مغرب کے درمیان نرمی پیدا کرنے، اور مسلم دنیا و مغربی طاقتوں کے درمیان پل بننے کی بھرپور کوشش کی۔یہ تمام مثبت کوششیں صدر رجب طیب اردوان کی قیادت، حکمت اور عالمی سطح پر امن کی خواہش کا مظہر ہیں جنہیں عالمی سطح پر سراہا جانا چاہیے۔کیا ہم آرمگیڈن کے دہانے پر ہیں؟ ابھرتی طاقتیں، مغرب کی زوال پذیر بالادستی،مذہبی جنگیں،جدید مہلک ہتھیاروں کی دوڑ، عالمی مدبرانہ قیادت، وحدت، اور حکمت کا فقدان یہ سب کچھ اس ممکنہ انجام کی طرف اشارہ کرتا ہے جسے دنیا ’’آرمگیڈن‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔الہامی کتب اور احادیث ایک فیصلہ کن جنگ کی پیشگوئی کرتی ہیں جو دنیا کو جلا کر راکھ کر دے گی اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری ہوگی۔ کچھ نشانیاں سامنے آ چکی ہیں، اور باقی تیزی سے نمودار ہو رہی ہیں۔پھر بھی۔۔۔ اُمید باقی ہے’’اور تیرا رب کسی بستی کو ناحق ہلاک نہیں کرتا جب تک کہ اس کے رہنے والے اصلاح کرنے والے ہوں‘‘ (سورۃ ہود، 11:117)اگر دل جاگ جائیں، اگر قیادت مدبرانہ مل جائےجوانصاف کو چنے،اگر انسانیت خدا کی طرف پلٹے —تو تباہی کو روکا جا سکتا ہے۔جو ایک عالمی روحانی اور انسانی بیداری کی صدا هہے یہ وقت ہے اجتماعی توبہ کا، اخلاص کا، حکمت کااور ظلم و ناانصافی اور جھوٹ کے خلاف سچ کی صدا بلند کرنے کا، ظلم کے مقابلے میں مظلوم کا ساتھ دینے کا، نفرت کے بجائے محبت کے پل بنانے کاآئیے ہتھیار نہیں — دعا کے لئے ھاتھ اٹھائیں جنگی اسلحہ کی فیکٹریاں نہیں بلکہ امن کے ستون کھڑے کریں اللہ ہمیں بیداری، ہدایت، اور امن و حفاظت عطا فرمائے،آرمگیڈن کا دروازہ کھٹک رہا ہے کیا ہم جاگ سکیںگے اور اس فتنہ کبریٰ سے نمٹنے کی تدبیر کرسکیں گے ؟ عامتہ المسلمین كکےلئے استغفار کا ربانی حفاظتی قلعہ موجود ہے۔ جسکی ضمانت الله تعالیٰ خود سورۃ انفال ميں اعلان فرمائی ہے۔ سورۃ ؟ ’’ اور اللہ ان کو عذاب نہیں دے گا جب تک کہ وہ استغفار کرتے ہوں‘‘۔ آئیے استغفار كو اپنا مستقل معمول بنا لیں۔دعاوُں سے محفوظ هو جائیں۔