پاکستان کے قیام، اس کی ضرورت اور اہمیّت کا ادراک رکھنے والے ایک طالب علم کی حیثیّت سے میرے لیے یہ بات باعثِ مسرّت ہے کہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر بانیانِ پاکستان کے افکار ونظریات پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ اور دو قومی نظریّہ، جو مسلم ملّت کی سات سو سالہ تاریخ کے سب سے بڑے شاعر اور فلسفی ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے پیش کیا اور جو تحریکِ پاکستان کی اساس قرار پایا اور جس کی بنیاد پر قائداعظمؒ نے ایک تاریخی تحریک چلا کر مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ وطن حاصل کیا، وہ اُس سے نہ صرف غیر متزلزل وابستگی رکھتے ہیں بلکہ بڑے جرات مندانہ انداز میں اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ یہ بات بھی باعثِ اطمینان ہے کہ وہ دلی طور پر سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے علیحدہ ملک حاصل کرنے کی سب سے بڑی وجہ ان کے مذہبی اور ثقافتی تشخّص کا تحفّظ تھا جس سے بھارت میں رہ جانے والے کروڑوں مسلمان اب محروم ہوچکے ہیں۔
اگر ہم نے اسلام کی بنیاد پر علیحدہ ملک حاصل کیا تھا (اور یہ بات سو فیصد درست ہے) تو پاکستان میں اُس نظریّۂ حیات کی چھاپ یاجھلک نظر بھی آنی چاہیے جو اس کے قیام کی وجہ ہے۔ اگر میڈیا سے شروع کریں تو تلخ حقیقت یہ ہے کہ پرائیویٹ چینل مغربی اور بھارتی کلچر کے فروغ کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ انٹرٹینمنٹ کے پروگراموں کو پست سطح کے اداکاروں اور بھانڈوں کے سپرد کردیا گیا ہے جو شدید ترین احساسِ کمتری کا شکار ہیں اور اپنے آپ کو بھارت کی فلمی دنیا کا غلام سمجھتے ہیں۔ ان کی باتیں سن کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی پاکستان کا نہیں بھارت کا چینل ہے، ان کی مرعوبانہ اور فدویانہ باتیں سن کر سر شرم سے جھک جاتا ہے اور ٹی وی بند کرنا پڑتا ہے۔
پاک بھارت جنگ کے دوران جب تینوں افواج کے سینئر افسران، میڈیا کو بریفنگ دینے آئے تو ان میں پاک فضائیہ کے ائیر وائس مارشل اورنگزیب بھی تھے۔ انھوں نے بڑے موثر انداز میں پاک فضائیہ کی کارکردگی شیئر کی۔ ان کی معلومات، موضوع پر گرفت اور بیان کرنے کا موثّر انداز قابلِ تحسین تھا مگر اُن کی بریفنگ کے اگلے ہی روز پہلے ایک اینکر نے فرمایا، ’’اورنگزیب صاحب تو پاکستان ہی نہیں بھارت کی عورتوں کے بھی ’’کرش‘‘ بن گئے ہیں‘‘۔ پھر دوسرے اینکرز نے بھی اسی طرح کی سطحی باتیں شروع کردیں۔ اس طرح کے عامیانہ تبصرے سن کر مجھے اعلیٰ خاندانی اور انتہائی پڑھی لکھی خواتین کے فون اور میسج آنا شروع ہوگئے کہ ’’ہماری مسلّح افواج کے تمام افسر اور جوان مصروفِ جہاد ہیں۔
یہ پست اور عامیانہ سوچ کے لوگ مجاہدوں کو فلمی اداکاروں کے ساتھ ملانے کی گھٹیا حرکت کیوں کررہے ہیں۔ اس کا نوٹس لیا جانا چاہیے‘‘۔ ایک ویمن کالج کی پرنسپل صاحبہ کا میسج آیا کہ مسلمان گھرانوں نے ایسی عامیانہ باتوں کو سخت ناپسند کیا ہے۔ ان چیزوں کا ہمارے نظریّۂ حیات اور ہماری تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہمارے کلچر میں ایسی عامیانہ باتوں کو ناپسند کیا جاتا ہے۔ مگرجو گند بھارتی فلموں اور ڈراموں میں دکھایا جاتا ہے‘ اسے بلا سوچے سمجھے ہمارے چینلوں پر چلانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ ایسی چیزوں کو ہنس کر ٹال نہیں دینا چاہیے بلکہ سرزنش کی جانی چاہیے ، میڈیا پرسنز کو پتہ ہونا چاہیے کہ ایسی چیزیں ہماری تہذیب اور کلچر میں غلط اور نامناسب سمجھی جاتی ہیں۔
میڈیا کی ترجیحات کا اس سے اندازہ لگالیں کہ ملک کے یومِ آزادی کے خصوصی پروگراموں میں بھی رائے دینے کے لیے یا ڈانسرز کو بلایا جاتا ہے یا اداکاروں اور کھلاڑیوںکو۔ کیا ہماری نئی نسل کے لیے یہی رول ماڈل ہیں؟ کیا ہم نے اپنی نئی نسل کوصرف ڈانسر اور اداکار ہی بنانا ہے؟ ایسے موقعوں پر کسی اعلیٰ پائے کے استاد کو، کسی باضمیر سول سرونٹ کو، کسی دیانتدار انجینئر کوکسی انسان دوست ڈاکٹر کو یا رزقِ حلال کھانے والے سرکاری افسر کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے تاکہ لوگ ان کی باتیں سنیں اور نوجوان ان سے inspire ہو کر ان جیسے اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اِس وقت ہمارے میڈیا کا یہ حال ہے کہ کسی بھارتی ایکٹریس کی منگنی ٹوٹ جائے تو یہ کئی کئی دن پروگرام کرتے رہیں گے، مگر ہمیں آزادی سے ہمکنار کرنے والے محسنوں پر انتہائی بددلی کے ساتھ، فٹیگ سمجھ کر چند منٹوں کے لیے بے اثر سے پروگرام تشکیل دیں گے۔ آپ ریکارڈ نکلوا کر دیکھیں کہ انھوں نے مفکّرِ پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ کی شخصیّت اور پیغام پر کیا کبھی کوئی ڈھنگ کا پروگرام کیا ہے؟ ہر گز نہیں۔
ہمارا کئی بین الاقوامی مشنز میں انڈین پولیس سروس کے افسروں سے پالا پڑتا ہے وہاں بھی پاکستانی پولیس افسروں کی کارکردگی ان سے بہتر ہوتی ہے امریکا اور یورپ میں ہمارے ڈاکٹر قابلیّت کے لحاظ سے بھارتی ڈاکٹروں سے بہتر سمجھے جاتے ہیں۔ ہماری مسلّح افواج تو یقیناً ان سے بہت بہتر ہیں جسے اب دنیا نے تسلیم کرلیا ہے۔ صرف اوسط سطح کے اینکروں اور بھانڈوں نے پاکستانی میڈیا کو بھارتی میڈیا کا غلام بنایا ہوا ہے۔ لہٰذا اِس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے میڈیا میں واضح فرق نظر آنا چاہیے۔ اور ناظرین کو پتہ چلنا چاہیے کہ یہ بھارتی کلچر کی نقالی کرنے والوں کا میڈیا نہیں ہے، یہ ایک خاص نظریّئے کے تحت حاصل کیے گئے ملک پاکستان کا میڈیا ہے۔
آج صورتحال یہ ہے کہ بڑی شخصیات پر تنقید ہوتو پوری ریاستی مشینری حرکت میں آجاتی ہے مگر دینِ اسلام اور پاکستان کے بارے میں کچھ بھی کہنے کی کھلی چھٹی ہے۔ یہ رویّہ درست نہیں۔ ہماری ریڈ لائن دین اور وطنِ عزیز ہونی چاہیے۔ پاکستان کی عزّت اور حُرمت ہر فرد اور ہر ادارے سے زیادہ مقدّم اور مقدّس ہے۔
حالیہ جنگ میں حاصل ہونے والی فتحِ مبین نے پاکستان میں ایک نئی قوم کو جنم دیا ہے، ایک پراعتماد، بہادر، خوددار اور مستقبل کے بارے میں پُرامّید قوم۔ اس تاریخی موقع کو بروئے کار لاکر قوم کے جذبۂ حُبّ الوطنی کو قومی یکجہتی میں بدلا جا سکتا ہے اور یہ ہدف ہماری ترجیحِ اوّل ہونا چاہیے۔ قومی یکجہتی کے حصول کے لیے قوم کے ناراض اور aggrieved افراد کے ساتھ نرمی اور عفوودرگذر کا طرزِ عمل اختیار کیا جانا چاہیے۔ جو لوگ 9مئی کے حملوں میں ملّوث ہیں یا جو بدبخت جنگ کے دوران وطن کے محافظوں پر تنقید کرتے رہے اور دشمن کے ہمنوا بنے رہے وہ تو سخت سزا کے حقدار ہیں۔ مگر جو ایسے جرائم میں ملّوث نہیں ہیں، ان کے ساتھ نرمی کی جائے۔
٭اس ضمن میں پی ٹی آئی کی تمام اسیر خواتین کو رہا کردیا جائے تو یہ بہت خوش آیند ہوگا۔ انتظامیہ اور تمام فورسز کو بھی سختی سے ہدایات دی جائیں کہ کسی بھی صورت میں سیکیوریٹی اہلکار اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے لیڈروں یا ورکروں کے گھروں میں نہ گھسیں اور نہ ہی خواتین کی بے حرمتی کریں۔ آیندہ خواتین کی بے حرمتی کرنے والے اہلکاروں کو سخت سزا دی جائے۔
٭ہر سطح پر انصاف کو یقینی بنائیں، انصاف ملنے کی امید ختم ہوجائے تو شہریوں کا ریاست سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔
٭بلوچستان کے بارے میں کوئی ایک دن مخصوص کرکے مولانا ہدایت الرحمن، ڈاکٹر مالک اور ثناء اللہ زہری کو بلائیں اور پریذیڈنٹ، پرائم منسٹر اور فیلڈ مارشل صاحب تینوں مل کر ان کا موقف سنیں اور قومی یکجہتی کو پیشِ نظر رکھ کر فوری اور longterm اقدامات کا فیصلہ کریں۔
٭اردو ہماری قومی زبان ہی نہیں یہ ہمارے دینی، ثقافتی اور تہذیبی ورثے کی حامل اور وارث ہے۔ نئی نسل جو نہ اردو پڑھ سکتی ہے اور نہ لکھ سکتی ہے، اس کا نہ اپنے دین کے ساتھ رشتہ قائم رہے گا اور نہ ملک کے ساتھ۔ خدارا! سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے قومی زبان کو دفتری، عدالتی اور روزگار کی زبان بنا دیا جائے۔
٭ اعلیٰ معیار کی قوم بننا ہے تو سادگی کو اپنانا ہوگا۔ مہنگے ملبوسات، مہنگی گاڑیوں اور مہنگے بنگلوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ اس کے لیے سول اور عسکری حکمرانوں کو خود سادگی کی مثال قائم کرنا ہوگی۔
اور آخری مگر سب سے اہم گذارش یہ ہے کہ قرآن میں خالقِ کائنات نے مظلوم مسلمانوں کی مدد کا واضح حکم دیا ہے۔ جو ظلم غَزہ میں ڈھائے جارہے ہیں اور جس درندگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، انسانی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان سے دنیا بھر کے مسلمانوں کو بڑی امیدیں ہیں۔ خدارا اس شیطانیت کے خاتمے کے لیے بھرپور کردار ادا کیجیے۔ چین، ترکی، ملیشیا، ایران اور (جو بھی مسلم ممالک ساتھ دیں) دیگر ممالک کو ساتھ لے کر صدر ٹرمپ پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ نیتن یاہو کو لگام ڈالے اور جنگ بندی کروائے تاکہ مظلوم فلسطینیوں کی جانیں بچ سکیںاور انھیں عزّت و آبرو سے زندہ رہنے کا حق مل جائے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کے ساتھ جاتا ہے ہے اور
پڑھیں:
کون ہارا کون جیتا
انسانی تاریخ میں محکمہ پولیس پہلی بار حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں شروع کیا تھا۔ اس وقت پولیس کی ذمے داری اپنے علاقے میں امن و امان برقرار رکھنا، راتوں کو گشت کرنا، جرائم روکنا اور شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا تھا۔ کتابی طور پر آج بھی پوری دنیا میں پولیس اس ذمے داری کو نبھاتی ہے۔ ہماری پولیس کا سلوگن "پولیس کا ہے فرض مدد آپ کی" بھی اس ذمے داری کی عکاسی کرتی ہے۔
پولیس اہلکاروں کو اپنے فرائض منصبی بجا لانے کے لیے بے پناہ اختیارات حاصل ہیں تاکہ معاشرے کو جرائم سے پاک، دنگا فساد اور لڑائی جھگڑوں سے محفوظ رکھ کر شہریوں کے لیے پر امن ماحول کو یقینی بنائیں۔ پولیس جرائم کی روک تھام کے لیے تمام ممکنہ مختلف اقدامات کرتی ہے، شہریوں کو قانون کی پاسداری کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ترغیب دینا، ان کی جان و مال کا تحفظ اور ہر قسم کی ہنگامی صورتحال میں ان کی مدد کرنا، سرزد جرائم کے واقعات کی تحقیقات اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانا، سرکاری اور نجی املاک کی حفاظت اور اسے نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کرنا ان کے فرائض منصبی میں شامل ہیں۔
پولیس افسران اور جوان اگر اپنی ڈیوٹی ایمانداری سے ادا کریں تو معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں پولیس عام شہری کی نظر میں خوف کی علامت بن چکی ہے، سیاسی مداخلت اور رشوت کے ناسور نے قومی سلامتی کے ادارے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے اور جو کسر رہ گئی تھی اسے اقربا پروری اور ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھانے کے علاوہ نہ تو آج تک مناسب وسائل کی فراہمی ممکن ہو سکی اور نہ ہی میرٹ کی بالا دستی، قوانین کی تبدیلی، تربیت کی مناسب سہولتیں اور نہ ہی ٹرانسفر، پوسٹنگ میں اشرافیہ سمیت حکومتی و سیاسی طبقے کے شکنجے سے نجات مل سکی۔ جس کی وجہ سے پولیس عوام کی مدد گار نہیں اشرافیہ، جرائم پیشہ عناصر کی مدد گار بن کر رہ گئی ہے۔
بغیر پولیس ٹاؤٹ کے کوئی شریف آدمی رپورٹ درج کرانے تھانے نہیں جاسکتا۔ اس محکمے سے جڑی کرپشن، رشوت ستانی، تشدد کی بریکنگ نیوز روز ہم اخبارات اور ٹی وی اسکرین پر دیکھتے ہیں۔ پولیس کی اس بگڑی چال نے پورے معاشرے کے سسٹم کو ہلا کے رکھ دیا ہے، سزا کے خوف سے آزاد ظالم دندناتے پھرتے ہیں اور مظلوم انصاف کے حصول کے لیے مارے مارے پھرتے ہیں۔ پولیس درحقیقت معاشرے کی عکاس ہوتی ہے آپ پنجاب، سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا پولیس کا موازنہ کریں تو میری یہ بات سمجھ میں آجائے گی۔
بحیثیت مجموعی خیبرپختونخوا پولیس دوسرے صوبوں کی پولیس سے بہتر ہے اگر چہ تبدیلی سرکار کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے خیبرپختونخوا پولیس وہ پولیس نہیں رہی جن پر پختون معاشرے اور اقدار کی چھاپ نمایاں نظر آتی تھی مگر دہشتگردی کے خلاف فرنٹ فٹ پر لڑنے اور لازوال قربانیوں کی وجہ سے ملکی سطح پر خیبرپختونخوا پولیس کا امیج کافی بہتر ہوا۔ اگرچہ سیاسی مداخلت نے محکمہ پولیس کا بیڑا دوبارہ غرق کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ مگر اس کے باوجود کچھ دبنگ اور ایماندار پولیس آفیسر ایسے ہوتے ہیں جو اپنے علاقے میں سیاسی مداخلت، مجرموں اور منشیات فروشوں کی سرپرستی برداشت نہیں کرتے، اس قبیل کے ایک نامور پولیس آفیسر عبدالعلی خان ہیں جو کچھ عرصہ قبل ہمارے علاقے کے تھانہ کالوخان میں ایس ایچ او تعینات تھے تو بلامبالغہ منشیات فروشوں، چوروں اور بدمعاشوں نے علاقہ چھوڑا تھا، میری پہلی ملاقات ان سے رات کے وقت گشت کے دوران ہوئی۔
میں حیران تھا لوگ ان کے ساتھ سلفیاں بنا رہے تھے، ان کے چاہنے والے ان کو پیار سے "گبر" کے نام سے پکارتے ہیں۔کیونکہ وہ اپنے علاقے میں مظلوموں اور علاقے کے حقیقی سفید پوشوں (شریف) کے محافظ و مدد گار رہتے ہیں جب کہ منشیات فروشوں، اجرتی قاتلوں اور چوروں ڈکیتوں کے ساتھ ان کے سرپرستوں کی بھی شامت آجاتی ہے، چاہے سرپرست سیاسی ہو یا غیرسیاسی گبر ان کو خاطر میں نہیں لاتا اور یہی وجہ ہے کہ عوام گبر کے سحر میں ایسے گرفتار ہوتے ہیں کہ جب ضرورت پڑے ان کے حق میں سڑکوں پر آجاتے ہیں۔
آج کل عبدالعلی خان "گبر" تھانہ بڈھ بیر کے ایس ایچ او تعینات ہیں۔ جہاں سابقہ علاقوں کی طرح ان کے چرچے زبان زد عام ہیں۔
پی ٹی آئی کی رکن قومی اسمبلی شاندانہ گلزار صاحبہ کو اپنے علاقے کے مذکورہ ایس ایچ او کے حوالے سے شدید تحفظات ہیں، جس بنا پر انھوں نے صرف احتجاج ہی نہیں کیا بلکہ پریس کانفرنس بھی کی ہے۔اس پریس کانفرنس میں انھوں نے مذکورہ پولیس افسر پر سنگین نوعیت کے الزامات لگائے ہیں اورایس ایچ او کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ بھی کیا ہے تاہم ان کا یہ مطالبہ تا حال پورا نہیں ہوا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ جب بھی کوئی باضابطہ شکایت آئی تو اس پر کارروائی کے لیے طریقہ کار موجود ہے، مگر کسی افسر کو زبانی شکایت پر معطل یا تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ادھر پولیس افسر بھی خاصا با اثر لگتا ہے کیونکہ اس کے حق میں مقامی افراد نے کوہاٹ روڈ پر مظاہرہ کیاہے‘مظاہرین پولیس افسر کو ایک فرض شناس شخص قرار دے رہے ہیں‘یوں یہ معاملہ برابر کی چوٹ پر نظرآ رہا ہے۔یہ تنازعہ جتنا میدان پر گرم ہے اس سے زیادہ سوشل میڈیا پر گرم ہے۔ پولیس افسر صاحب ہمیشہ سوشل میڈیا پر اپنے دبنگ اسٹائل، بزرگوں کے ساتھ زمین پر بیٹھنے کی وجہ سے مکمل طور پر چھائے رہتے ہیں۔
آج کل سوشل میڈیا (فیس بک، ایکس اور واٹس ایپس گروپس)میں یہ ڈیجیٹل جنگ جاری ہے۔ سوشل میڈیا رپورٹس کے مطابق تاحال پولیس افسر پولیس ڈیپارٹمنٹ اور سوشل میڈیا یوزرکی نظروں میں کسی ہیرو سے کم نہیں، سوشل میڈیا پر پولیس افسر اور ایک سیاستدان کے مابین ووٹنگ کی گئی تو بہت بڑی اکثریت پولیس افسر کے حق میں ہے۔سوشل میڈیاپر کمنٹس دیکھ کر ہر پولیس آفیسر کو ایس ایچ او موصوف کی مقبولیت پر رشک آتا ہوگا۔ الزامات درست ثابت ہونے پر کارروائی کے کمنٹس بھی دیکھنے میں آئے۔سوشل میڈیا کے علاوہ گراؤنڈ پر یہ صورتحال ہے کہ کوہاٹ روڈ پر دو مظاہرے کیے گئے ایک مظاہرہ رکن پارلیمنٹ کی جانب سے جب کہ دوسرا ایس ایچ او کے حق میں کیا گیا ۔
ایم این اے شاندانہ گلزار کی پریس کانفرنس کے بعد پختونخوا پولیس چیف نے سی سی پی او کو انکوائری کی ہدایت کی، جس میں قانون کے مطابق الزامات کا جائزہ لینے کے لیے پشاور کے ایس ایس پی ٹریفک ہارون الرشید کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی بنائی گئی جو کہ دو دنوں میں انکوائری مکمل کرکے بھیجے گی۔ گو کہ انکوائری کا وقت پورا ہوگیا۔تاہم عقلمند اور ہوشیار لوگ سمجھ چکے ہیں کہ اس لڑائی میں کون جیتا کون ہارا۔