Express News:
2025-11-04@04:43:07 GMT

بانی پی ٹی آئی کو عہدے کی کوئی ضرورت نہیں، اسد عمر

اشاعت کی تاریخ: 4th, June 2025 GMT

لاہور:

سابق وفاقی وزیر اسد عمر کا کہنا ہے کہ لیڈر شپ کا شاید اس لیے لگتا ہے کہ تھوڑا سا وہ آگے پیچھے ہو گیا تھا ، پہلے جنید اکبر کے پاس ذمے داری تھی، پھر ذمے داری علی امین گنڈاپورکے پاس چلی گئی، اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ذمے داری عمر ایوب اور سلمان اکرم راجہ جائنٹلی شیئر کریں گے تو اس کیلیے سمبولکلی یہ کہتے ہیں کہ عمران خان خود ہی لیڈ کریں، عہدے کی سچی بات ہے کہ میری تو سمجھ میں نہیں آئی ہے، عمران خان کو کوئی عہدے کی ضرورت نہیں، سب کوپتہ ہے کہ پارٹی کے لیڈر وہ ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام اسٹیٹ کرافٹ میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ( ن) لیگ میں بہت بڑا ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ وہاں پہ دونوں جو کیمپس تھے ان دونوں کو لیڈ کرنے والا خاندان ہی تھا، مزاحمتی گروپ کو نواز شریف اور مریم لیڈ کر رہے تھے اور مفاہمتی گروپ کو شہباز شریف لیڈ کر رہے تھے،آپس میں ٹرسٹ کا کوئی فقدان نہیں تھا۔

ماہر معیشت خرم حسین نے کہا کہ حکومت کو ریلیف تو دینا پڑے گا جس حد تک ٹیکس کا بوجھ صرف سیلیرڈ کلاس نہیں بلکہ فارمل سیکٹر کی بزنسز ہیں ان کے اوپر جس حد تک بڑھ چکا ہے یہ اسسٹین ایبل نہیں ہے تو ایک سال کے لیے تو انہوں نے لگادیا تھا یہ ٹیکس، کوائٹلی ہم لوگوں کو یہ بتایا کرتے تھے گورنمنٹ والے کہ ایک سال کی بات ہے، معیشت ایک بار سٹیبلائز ہو جائے تو اس کے بعد ان چیزوں کوہم ریشنلائز کر دیں گے آگے جا کہ، اب وہ وقت آ گیا ہے، ایک منہ سے ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ سٹیبلائزیشن ہو چکی ہے، اب ان کو کرنا تو پڑے گا، اگر ریلیف سیلیرڈ کلاس کو دیا جائے گا تو اس کے لیے ریسورسس کہیں نہ کہیں سے اور ان کو لانا پڑیں گی، اب یہ ان کا کام ہے کہ کوئی تگڑاقسم کا ریوینو پلان لیکر آئیں۔ 

ماہر معیشت عزیر یونس نے کہا کہ ٹیکس کلیکشن میں جو مین ایشوہسٹوریکلی رہا ہے وہ ویسٹڈ انٹرسٹ گروپس ہیں بلخصوص ریٹیل، ایگریکلچراور ریئل اسٹیٹ سائڈ پہ جو کہ اپنا حصہ نہیں ڈالنا چاہتے اس ملک کی ترقی میں اس ملک کی خوشحالی میں، اب سوال جو ہے وہ یہ ہونا چاہیے پاکستان میں کہ اگر بھارت کی جنگ کے اندر، پاکستان کے دفاع کیلیے جو دفاع کیا گیا اس کا دفاع فارمل بزنس، سیلیرڈ کلاس ، ریئل اسٹیٹ اور ریٹیلر کا برابر دفاع ہوتا ہے، تو اگر دفاع برابر ہوتا ہے تو دفاع کی ریسورسس جو ہیں وہ صرف ایک یا دو طبقات دیں تو یہ نامناسب بات ہے، میں خرم سے اتفاق کرتا ہوں کہ سیلرڈ کلاس اور فارمل بزنس کو ریلیف دیا جائے اور وہ طبقات جو ہسٹوریکلی ریزسٹ کرتے آئے ہیں انھیں کہا جائے کہ اگر آپ کا بھی دفاع برابری کے طور پر ہونا ہے توآپ کو بھی پیسے دینے پڑیں گے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

پاکستان کرکٹ زندہ باد

کراچی:

’’ ہیلو، میچ دیکھ رہے ہو ٹی وی پر، اگر نہیں تو دیکھو کتنا کراؤڈ ہے،ٹکٹ تو مل ہی نہیں رہے تھے ، بچے، جوان، بوڑھے سب ہی قذافی اسٹیڈیم میں کھیل سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، مگر تم لوگ تو کہتے ہو پاکستان میں کرکٹ ختم ہو گئی، اس کا حال بھی ہاکی والا ہو جائے گا،لوگ اب کرکٹ میں دلچسپی ہی نہیں لیتے۔ 

اگر ایسا ہے تو لاہور کا اسٹیڈیم کیوں بھرا ہوا ہے؟ راولپنڈی میں ہاؤس فل کیوں تھا؟ میری بات یاد رکھنا کرکٹ پاکستانیوں کے ڈی این اے میں شامل ہے، اسے کوئی نہیں نکال سکتا۔ 

اگر کسی بچے کا امتحان میں رزلٹ اچھا نہ آئے تو گھر والے ناراض تو ہوتے ہیں مگر اسے ڈس اون نہیں کر دیتے، اگر اس وقت برا بھلا ہی کہتے رہیں تو وہ آئندہ بھی ڈفر ہی رہے گا لیکن حوصلہ افزائی کریں تو بہتری کے بہت زیادہ چانسز ہوتے ہیں، اس لیے اپنی ٹیم کو سپورٹ کیا کرو۔ 

تم میڈیا والوں اور سابق کرکٹرز کا بس چلے تو ملکی کرکٹ بند ہی کرا دو لیکن یہ یاد رکھنا کہ اسپورٹس میڈیا ،چینلز اور سابق کرکٹرز کی بھی اب تک روزی روٹی اسی کھیل کی وجہ سے ہے، اگر یہ بند تو یہ سب کیا کریں گے؟

بات سمجھے یا نہیں، اگر نہیں تو میں واٹس ایپ پر اس میچ میں موجود کراؤڈ کی ویڈیو بھیجوں گا وہ دیکھ لینا،پاکستان میں کرکٹ کبھی ختم نہیں ہو سکتی، پاکستان کرکٹ زندہ باد ‘‘ ۔

اکثر اسٹیڈیم میں موجود دوست کالز کر کے میچ پر ہی تبصرہ کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان واقف کار بزرگ کا فون الگ ہی بات کیلیے آیا، وہ میرے کالمز پڑھتے ہیں، چند ماہ قبل کسی سے نمبر لے کر فون کرنے لگے تو رابطہ قائم ہو گیا، میں نے ان کی باتیں سنیں تو کافی حد تک درست لگیں۔ 

ہم نے جنوبی افریقہ کو ٹی ٹوئنٹی سیریز میں ہرا دیا، واقعی خوشی کی بات ہے لیکن اگر گزشتہ چند برسوں کا جائزہ لیں تو ٹیم کی کارکردگی خاصی مایوس کن رہی ہے،خاص طور پر بڑے ایونٹس میں تو ہم بہت پیچھے رہے، شاید یہی وجہ ہے کہ ہمیں ایسا لگنے لگا کہ خدانخواستہ اب ملکی کرکٹ اختتام کے قریب ہے، کوئی بہتری نہیں آ سکتی،لوگوں نے کرکٹ میں دلچسپی لینا ختم کر دی ہے۔ 

البتہ ٹھنڈے دل سے سوچیں تو یہ سوچ ٹھیک نہیں لگتی، اب بھی یہ پاکستان کا سب سے مقبول کھیل ہے، اربوں روپے اسپانسر شپ سے مل جاتے ہیں، کرکٹرز بھی کروڑپتی بن چکے، اگر ملک میں کرکٹ کا شوق نہیں ہوتا تو کوئی اسپانسر کیوں سامنے آتا؟

ٹیم کے کھیل میں بہتری لانے کیلیے کوششیں لازمی ہیں لیکن ساتھ ہمیں بھی اپنے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر ہمیں نجم سیٹھی یا ذکا اشرف پسند نہیں تھے تو ان کے دور میں کرکٹ تباہ ہوتی نظر آتی تھی، آج محسن نقوی کو جو لوگ پسند نہیں کرتے وہ انھیں قصور وار قرار دیتے ہیں۔ 

اگر حقیقت دیکھیں تو ہماری کرکٹ ان کے چیئرمین بننے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی، پہلے ہم کون سے ورلڈکپ جیت رہے تھے، ہم کو کپتان پسند نہیں ہے تو اس کے پیچھے پڑ جاتے ہیں، سب کو اپنا چیئرمین بورڈ، کپتان اور کھلاڑی چاہیئں، ایسا نہ ہو تو انھیں کچھ اچھا نہیں لگتا۔

یقینی طور پر سلمان علی آغا کو بطور کھلاڑی اور کپتان بہتری لانے کی ضرورت ہے لیکن جب وہ نہیں تھے تو کیا ایک، دو مواقع کے سوا ہم بھارت کو ہمیشہ ہرا دیتے تھے؟

مسئلہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے دور میں لوگوں کی ذہن سازی آسان ہو چکی، پہلے روایتی میڈیا پھر بھی تھوڑا بہت خیال کرتا تھااب تو چند ہزار یا لاکھ روپے دو اور اپنے بندے کی کیمپئن چلوا لو، پہلے پوری ٹیم پر ایک ’’ سایا ‘‘ چھایا ہوا تھا، اس کی مرضی کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا تھا، نئے کھلاڑیوں کی انٹری بند تھی۔ 

پھر برطانیہ سے آنے والی ایک کہانی نے ’’ سائے ‘‘ کو دھندلا کر دیا لیکن سوشل میڈیا تو برقرار ہے ناں وہاں کام جاری ہے، آپ یہ دیکھیں کہ علی ترین سالانہ ایک ارب 8 کروڑ روپے کی پی ایس ایل فرنچائز فیس سے تنگ آکر ری بڈنگ میں جانا چاہتے ہیں۔

لیکن سوشل میڈیا پر سادہ لوح افراد کو یہ بیانیہ سنایا گیا کہ وہ تو ہیرو ہے، ملتان سلطانز کا اونر ہونے کے باوجود لیگ کی خامیوں کو اجاگر کیا اس لیے زیرعتاب آ گیا۔ 

یہ کوئی نہیں پوچھتا کہ یہ ’’ ہیرو ‘‘ اس سے پہلے کیوں چپ تھا،ویلوایشن سے قبل کیوں یہ یاد آیا،اسی طرح محمد رضوان کو اب اگر ون ڈے میں کپتانی سے ہٹایا گیا تو یہ خبریں پھیلا دی گئیں کہ چونکہ اس نے 2 سال پہلے پی ایس ایل میں سیروگیٹ کمپنیز کی تشہیر سے انکار کیا تو انتقامی کارروائی کی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا والوں نے اسے سچ بھی مان لیا، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ بھائی واقعہ تو برسوں پہلے ہوا تھا اب کیوں سزا دی گئی اور اسے ٹیم سے تونکالا بھی نہیں گیا، یا اب تو پی ایس ایل نہ ہی پاکستانی کرکٹ کی کوئی سیروگیٹ کمپنی اسپانسر ہے، پھر کیوں کسی کو رضوان سے مسئلہ ہے؟

پی سی بی والے میرے چاچا یا ماما نہیں لگتے، میں کسی کی حمایت نہیں کر رہا لیکن آپ ہی بتائیں کہ گولیمار کراچی میں اگر ایک سابق کپتان کا سیروگیٹ کمپنی کی تشہیر والا بل بورڈ لگا ہے تو اس سے پی سی بی کا کیا تعلق۔ 

خیر کہنے کا مقصد یہ ہے کہ چیئرمین محسن نقوی ہوں یا نجم سیٹھی، کپتان سلمان علی آغا ہو یا بابر اعظم اس سے فرق نہیں پڑتا، اصل بات پاکستان اور پاکستان کرکٹ ٹیم ہے، اسے دیکھیں، شخصیات کی پسند نا پسندیدگی کو چھوڑ کر جو خامیاں ہیں انھیں ٹھیک کرنے میں مدد دیں۔

میں بھی اکثر جوش میں آ کر سخت باتیں کر جاتا ہوں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ اس کھیل کی وجہ سے ہی میں نے دنیا دیکھی، میرا ذریعہ معاش بھی یہی ہے، اگر کبھی اس پر برا وقت آیا تو مجھے ساتھ چھوڑنا چاہیے یا اپنے طور پر جو مدد ہو وہ کرنی چاہیے؟

ہم سب کو بھی ایسا ہی سوچنے کی ضرورت ہے، ابھی ہم ایک سیریز جیت گئے، ممکن ہے کل پھر کوئی ہار جائیں لیکن اس سے ملک میں کرکٹ ختم تو نہیں ہو گی، ٹیلنٹ کم کیوں مل رہا ہے؟ بہتری کیسے آئے گی؟

ہمیں ان امور پر سوچنا چاہیے، اگر ایسا کیا اور بورڈ نے بھی ساتھ دیا تو یقین مانیے مسائل حل ہو جائیں گے لیکن ہم جذباتی قوم ہیں، یادداشت بھی کمزور ہے، دوسروں کو کیا کہیں ہو سکتا ہے میں خود کل کوئی میچ ہارنے پر ڈنڈا (قلم یا مائیک) لے کر کھلاڑیوں اور بورڈ کے پیچھے پڑ جاؤں، یہ اجتماعی مسئلہ ہے جس دن حل ہوا یقینی طور پر معاملات درست ہونے لگیں گے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

متعلقہ مضامین

  • ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے‘ چیئرمین راشد لنگڑیال
  • پاکستان کی پہلی ہانگور کلاس آبدوز آئندہ سال لانچ ہونے کا امکان
  • ایف بی آر کو مزید ٹیکس لگانے کی ضرورت نہیں ہے: چیئرمین ایف بی آر
  • چین میں تیار پہلی ہنگور کلاس آبدوز 2026ء میں پاک بحریہ کے بیڑے میں شامل ہو جائے گی: نیول چیف
  • سیاسی درجہ حرارت میں تخفیف کی کوشش؟
  • پاکستان کرکٹ زندہ باد
  • جو کام حکومت نہ کر سکی
  • پاکستان کو تصادم نہیں، مفاہمت کی سیاست کی ضرورت ہے، محمود مولوی
  • بانی پی ٹی آئی کے نامزد اپوزیشن لیڈر محمود اچکزئی کی تقرری مشکلات کا شکار
  • دہشت گردی پاکستان کےلیے ریڈ لائن ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، بیرسٹر دانیال چوہدری