UrduPoint:
2025-11-03@17:56:20 GMT

شنگریلا ڈائیلاگ کے بعد امریکہ اور چین کس طرف جا رہے ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT

شنگریلا ڈائیلاگ کے بعد امریکہ اور چین کس طرف جا رہے ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 جون 2025ء) ایشیا کا سب سے بڑا دفاعی اور سکیورٹی فورم، شنگریلا ڈائیلاگ ہر سال سنگاپور میں منعقد ہوتا ہے۔ امسالہ اس فورم کا اختتام ایک واضح پیغام کے ساتھ گذشتہ ویک اینڈ پر ہوا۔ '' ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ہند بحرالکاہل اولین ترجیح ہے جبکہ امریکہ چین کے انداز کو جارحانہ سمجھتا ہے۔‘‘

امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ، جو اس بار شنگریلا ڈائیلاگ میں پہلی بار تقریر کر رہے تھے، نے ایشیائی اتحادیوں پر زور دیا کہ وہ تائیوان کے قریب چین کی فوجی موجودگی میں اضافے کے جواب میں اپنے دفاع کو تیز اور مضبوط تر کریں۔

تائیوان ایک خود مختار جزیرہ ہے، جس پر بیجنگ اپنا دعویٰ جتاتا ہے۔ اپنی تقریر میں امریکی وزیر دفاع نے چین کا نام 20 مرتبہ سے زیادہ لیا۔

(جاری ہے)

ساتھ ہی انہوں نے چین کو تائیوان پر قبضہ کرنے کے اس کے ممکنہ منصوبے سے اجنتاب برتنے کے بارے میں براہ راست انتباہ کیا۔

گزشتہ ہفتے کے روز اپنی تقریر میں ہیگستھ نے کہا،''کمیونسٹ چین کی طرف سے طاقت کے ذریعے تائیوان کو فتح کرنے کی کسی بھی کوشش کے ہند بحرالکاہل اور دنیا کے لیے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے اور اس اہم مسئلے کو بظاہر خوش آئند بنا کر پیش کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ چین سے حقیقی خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا،''ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو لیکن یہ یقینی طور پر ہو سکتا ہے۔‘‘

اُدھر چینی رئیر ایڈمرل ہو گینگ فینگ، جو ''نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی آف دی پیپلز لبریشن آرمی‘‘ کے وفد کی قیادت کر رہے تھے، نے ان ریمارکس کو ''بے بنیاد الزامات‘‘ قرار دیا۔

اگلے روز چین کی وزارت خارجہ نے بھی امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ کے ریمارکس پر احتجاج کرتے ہوئے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ ایشیا پیسیفک میں امریکی فوجی موجودگی خطے کو ''بارود کے ڈھیر میں تبدیل کر رہی ہے۔‘‘

چین کے وزیر دفاع نے دوری کیوں اختیار کی؟

شنگریلا ڈائیلاگ میں چین حسب معمول ہر سال اپنی ''انڈو پیسیفک‘‘ ہند بحرالکاہل حکمت عملی کا خاکہ پیش کرتا تھا اس سال اسے منسوخ کر دیا گیا اور اس بارے میں بھی قیاس آرائیاں کی گئیں کہ بیجنگ نے چینی وزیر دفاع ڈونگ جون کو سنگاپور نہ بھیجنے کا انتخاب تین روزہ سربراہی اجلاس کے دوران کیوں کیا۔

سنگھوا یونیورسٹی کے سنٹر فار انٹرنیشنل سکیورٹی اینڈ اسٹریٹیجی کے سینئر فیلو ژو بو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چینی وزیر کسی اسٹریٹجک وجہ سے نہیں بلکہ سفری شیڈول کے انتظامات کی وجہ سے غیر حاضر تھے۔

دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ چین کی اپنی سکیورٹی کے معاملات پر سخت سوالات سے بچنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ ایک اور ممکنہ عنصر یہ ہے کہ شنگریلا ڈائیلاگ میں واشنگٹن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دور میں پہلی بار عالمی سطح پر اپنی انڈو پیسیفک پالیسی کو پیش کر رہا تھا۔

چین امریکہ تعلقات کا مستقبل

چین، جس کے پاس جنگی جہازوں کی تعداد کے لحاظ سے اب دنیا کی سب سے بڑی بحریہ ہے، نے مبینہ طور پر مئی کے اوائل سے مشرقی ایشیائی پانیوں میں بحری اور ساحلی محافظ جہازوں کی تعیناتی میں اضافہ کر دیا ہے۔

چین کے عسکری ماہر ژاؤ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ امریکی وزیر دفاع ہیگستھ نے جو لہجہ امریکہ اور چین کے مابین مقابلے کے ضمن میں اپنے خطاب میں اختیار کیا وہ بائیڈن انتظامیہ کے مقابلے میں ''تقریباً 180 ڈگری تبدیلی‘‘ کو ظاہر کرتا ہے۔

گذشتہ سال اسی اجلاس میں پوڈیم پر کھڑے ہو کر، سابق امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اس بات پر زور دیا تھا کہ چین کے ساتھ جنگ ​​کے آثار نہ تو نمایاں ہیں اور نہ ہی یہ ناگزیر ہے۔ انہوں نے کسی غلط اندازے یا حساب سے بچنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان نئے سرے سے مذاکرات کی اہمیت پر زور دیا تھا۔

اس بار شنگریلا ڈائیلاگ میں چین کے رویے کے بارے میں تائیوان کی تمکانگ یونیورسٹی کے گریجویٹ انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز اینڈ اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر لن ینگ یو نے کہا،''مجھے ایسا لگتا ہے کہ چین نے اس بار زیادہ محتاط اور دفاعی انداز اختیار کیا ہے۔

وہ امریکہ کی طرف سے قدم اٹھانے کا انتظار کر رہا تھا۔‘‘

سنگھوا یونیورسٹی میں سینٹر فار انٹرنیشنل سکیورٹی اینڈ اسٹریٹیجی (CISS) کے ڈائریکٹر ڈا وائی سے چینی امریکی تعلقات کے مستقبل کے بارے میں پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا انہیں ''دونوں طرف سے روزانہ کی دفاعی کارروائیاں میں اضافہ کی توقع ہے، اس کا مقصد دوطرفہ تعلقات کو مزید کشیدہ کرنا نہیں ہوگا بلکہ دونوں'' زیادہ متصادم دکھائی دینے کی کوشش کریں گے۔

‘‘

فرانسیسی صدرکا عالمی تقسیم سے خبردار

اس بار کے شنگریلا ڈائیلاگ میں شریک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی تقسیم کو اس وقت دنیا کو درپیش سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ ماکروں کا کہنا تھا،''دوسروں کو دی گئی ہدایات کے دوران اگر ہم اپنی سائیڈ کا انتخاب اپنے حساب سے کریں گے تو ہم عالمی نظام کو ختم کر دیں گے اور ہم ان تمام اداروں کو تباہ کر دیں گے جنہیں ہم نے دوسری عالمی جنگ کے بعد بنایا تھا۔‘‘

ادارت: عاطف توقیر

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکی وزیر دفاع انہوں نے کہ چین نے کہا چین کے چین کی نے چین

پڑھیں:

مشرقی محاذ پر بھارت کو جوتے پڑے تو مودی کو چپ لگ گئی: خواجہ آصف

وزیرِ دفاع خواجہ آصف—فائل فوٹو

وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ بھارت ہمیں مشرقی اور مغربی محاذوں پر مصروف رکھنا چاہتا ہے، مشرقی محاذ پر تو بھارت کو جوتے پڑے ہیں تو مودی چپ ہی کر گیا ہے۔

سیالکوٹ میں ’جیو نیوز‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس محاذ پر پُرامید ہیں کہ دونوں ممالک کی ثالثی کے مثبت نتائج آئیں گے۔

وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ طورخم بارڈر غیر قانونی مقیم افغانیوں کی بے دخلی کےلیے کھولی گئی ہے، طورخم بارڈر پر کسی قسم کی تجارت نہیں ہو گی، بے دخلی کا عمل جاری رہنا چاہیے تاکہ اس بہانے یہ لوگ دوبارہ نہ ٹک سکیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس وقت ہر چیز معطل ہے، ویزا پراسس بھی بند ہے، جب تک گفت و شنید مکمل نہیں ہو جاتی یہ پراسس معطل رہے گا، افغان باشندوں کا معاملہ پہلی دفعہ بین الاقوامی سطح پر آیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے بھارت افغان سرزمین سے پاکستان کیخلاف کم شدت کی جنگ چھیڑ رہا ہے، خواجہ آصف سرحدی حدود کی خلاف ورزی پر افغانستان کے اندر بھی جاکر جواب دینا پڑا تو دیں گے: خواجہ آصف

وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ترکیہ اور قطر خوش اسلوبی سے ثالث کا کردار ادا کر رہے ہیں، پہلے تو غیر قانونی مقیم افغانیوں کا مسئلہ افغانستان تسلیم نہیں کرتا تھا، اس کا مؤقف تھا کہ یہ مسئلہ پاکستان کا ہے، اب اس کی بین الاقوامی سطح پر اونر شپ سامنے آ گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ترکیہ میں ہوئی گفتگو میں یہ شق بھی شامل ہے کہ اگر افغانستان سے کوئی غیر قانونی سرگرمی ہوتی ہے تو اس کا ہرجانہ دینا ہو گا، ہماری طرف سے تو کسی قسم کی حرکت نہیں ہو رہی، سیز فائر کی خلاف ورزی ہم تو نہیں کر رہے، افغانستان کر رہا ہے۔

وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان تاثر دے رہا ہے کہ ان سب میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہے، اس ثالثی میں چاروں ملکوں کے اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے گفتگو کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ساری قوم خصوصاً کے پی کے عوام میں سخت غصہ ہے، اس مسلئے کی وجہ سے کے پی صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے، قوم سمیت سیاستدان اور تمام ادارے آن بورڈ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کے مسئلے کا فوری حل ہو، حل صرف واحد ہے کہ افغان سر زمین سے دہشت گردی بند ہو۔

وزیرِ دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ اگر دونوں ریاستیں سویلائزڈ تعلقات بہتر رکھ سکیں تو یہ قابلِ ترجیح ہو گا، افغانستان کی طرف سے جو تفریق کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اسے پوری دنیا سمجھتی ہے، جو نقصانات 5 دہائیوں میں پاکستان نے اٹھائے ہیں وہ ہمارے مشترکہ نقصانات ہیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت کی جانب سے پراکسی وار کے ثبوت اشرف غنی کے دور سے ہیں، اب تو ثبوت کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ سب اس بات پر یقین کر رہے ہیں، اگر ضرورت پڑی تو ثبوت دیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • جامعہ ملیہ اسلامیہ میں "کلچرل کنیکٹس اور ڈپلومیٹک ڈائیلاگ" پر ورکشاپ منعقد
  • پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک نئے مرحلے میں داخل ہوچکی، وزیر دفاع
  • دعا ہے کہ کراچی اپنی پرانی عظمت کو بحال کر سکے: احسن اقبال
  • پاک افغان مذاکرات پر بھارت کی پریشانی بڑھنے لگی ہے: وزیر دفاع
  • عراق میں نیا خونریز کھیل۔۔۔ امریکہ، جولانی اتحاد۔۔۔ حزبِ اللہ کیخلاف عالمی منصوبے
  • امریکا، 4 لاکھ 55 ہزار خواتین رواں سال ملازمتیں چھوڑ گئیں
  • امریکا بھارت معاہدہ پاکستان کی سفارتی ناکامی ہے،صاحبزادہ ابوالخیر زبیر
  • اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کے خیالات
  • وینیزویلا پر حملہ کر کے مجھے اقتدار دیں، نوبل امن انعام یافتہ خاتون کی امریکہ کو دعوت
  • مشرقی محاذ پر بھارت کو جوتے پڑے تو مودی کو چپ لگ گئی: خواجہ آصف