شنگریلا ڈائیلاگ کے بعد امریکہ اور چین کس طرف جا رہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 3rd, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 جون 2025ء) ایشیا کا سب سے بڑا دفاعی اور سکیورٹی فورم، شنگریلا ڈائیلاگ ہر سال سنگاپور میں منعقد ہوتا ہے۔ امسالہ اس فورم کا اختتام ایک واضح پیغام کے ساتھ گذشتہ ویک اینڈ پر ہوا۔ '' ٹرمپ انتظامیہ کے لیے ہند بحرالکاہل اولین ترجیح ہے جبکہ امریکہ چین کے انداز کو جارحانہ سمجھتا ہے۔‘‘
امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ، جو اس بار شنگریلا ڈائیلاگ میں پہلی بار تقریر کر رہے تھے، نے ایشیائی اتحادیوں پر زور دیا کہ وہ تائیوان کے قریب چین کی فوجی موجودگی میں اضافے کے جواب میں اپنے دفاع کو تیز اور مضبوط تر کریں۔
تائیوان ایک خود مختار جزیرہ ہے، جس پر بیجنگ اپنا دعویٰ جتاتا ہے۔ اپنی تقریر میں امریکی وزیر دفاع نے چین کا نام 20 مرتبہ سے زیادہ لیا۔(جاری ہے)
ساتھ ہی انہوں نے چین کو تائیوان پر قبضہ کرنے کے اس کے ممکنہ منصوبے سے اجنتاب برتنے کے بارے میں براہ راست انتباہ کیا۔
گزشتہ ہفتے کے روز اپنی تقریر میں ہیگستھ نے کہا،''کمیونسٹ چین کی طرف سے طاقت کے ذریعے تائیوان کو فتح کرنے کی کسی بھی کوشش کے ہند بحرالکاہل اور دنیا کے لیے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے اور اس اہم مسئلے کو بظاہر خوش آئند بنا کر پیش کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ چین سے حقیقی خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا،''ہم امید کرتے ہیں کہ ایسا نہ ہو لیکن یہ یقینی طور پر ہو سکتا ہے۔‘‘اُدھر چینی رئیر ایڈمرل ہو گینگ فینگ، جو ''نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی آف دی پیپلز لبریشن آرمی‘‘ کے وفد کی قیادت کر رہے تھے، نے ان ریمارکس کو ''بے بنیاد الزامات‘‘ قرار دیا۔
اگلے روز چین کی وزارت خارجہ نے بھی امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ کے ریمارکس پر احتجاج کرتے ہوئے ایک بیان میں دعویٰ کیا کہ ایشیا پیسیفک میں امریکی فوجی موجودگی خطے کو ''بارود کے ڈھیر میں تبدیل کر رہی ہے۔‘‘
چین کے وزیر دفاع نے دوری کیوں اختیار کی؟
شنگریلا ڈائیلاگ میں چین حسب معمول ہر سال اپنی ''انڈو پیسیفک‘‘ ہند بحرالکاہل حکمت عملی کا خاکہ پیش کرتا تھا اس سال اسے منسوخ کر دیا گیا اور اس بارے میں بھی قیاس آرائیاں کی گئیں کہ بیجنگ نے چینی وزیر دفاع ڈونگ جون کو سنگاپور نہ بھیجنے کا انتخاب تین روزہ سربراہی اجلاس کے دوران کیوں کیا۔
سنگھوا یونیورسٹی کے سنٹر فار انٹرنیشنل سکیورٹی اینڈ اسٹریٹیجی کے سینئر فیلو ژو بو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چینی وزیر کسی اسٹریٹجک وجہ سے نہیں بلکہ سفری شیڈول کے انتظامات کی وجہ سے غیر حاضر تھے۔
دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ چین کی اپنی سکیورٹی کے معاملات پر سخت سوالات سے بچنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔ ایک اور ممکنہ عنصر یہ ہے کہ شنگریلا ڈائیلاگ میں واشنگٹن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دور میں پہلی بار عالمی سطح پر اپنی انڈو پیسیفک پالیسی کو پیش کر رہا تھا۔
چین امریکہ تعلقات کا مستقبل
چین، جس کے پاس جنگی جہازوں کی تعداد کے لحاظ سے اب دنیا کی سب سے بڑی بحریہ ہے، نے مبینہ طور پر مئی کے اوائل سے مشرقی ایشیائی پانیوں میں بحری اور ساحلی محافظ جہازوں کی تعیناتی میں اضافہ کر دیا ہے۔
چین کے عسکری ماہر ژاؤ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ امریکی وزیر دفاع ہیگستھ نے جو لہجہ امریکہ اور چین کے مابین مقابلے کے ضمن میں اپنے خطاب میں اختیار کیا وہ بائیڈن انتظامیہ کے مقابلے میں ''تقریباً 180 ڈگری تبدیلی‘‘ کو ظاہر کرتا ہے۔
گذشتہ سال اسی اجلاس میں پوڈیم پر کھڑے ہو کر، سابق امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اس بات پر زور دیا تھا کہ چین کے ساتھ جنگ کے آثار نہ تو نمایاں ہیں اور نہ ہی یہ ناگزیر ہے۔ انہوں نے کسی غلط اندازے یا حساب سے بچنے کے لیے دونوں ممالک کے درمیان نئے سرے سے مذاکرات کی اہمیت پر زور دیا تھا۔
اس بار شنگریلا ڈائیلاگ میں چین کے رویے کے بارے میں تائیوان کی تمکانگ یونیورسٹی کے گریجویٹ انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز اینڈ اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر لن ینگ یو نے کہا،''مجھے ایسا لگتا ہے کہ چین نے اس بار زیادہ محتاط اور دفاعی انداز اختیار کیا ہے۔
وہ امریکہ کی طرف سے قدم اٹھانے کا انتظار کر رہا تھا۔‘‘سنگھوا یونیورسٹی میں سینٹر فار انٹرنیشنل سکیورٹی اینڈ اسٹریٹیجی (CISS) کے ڈائریکٹر ڈا وائی سے چینی امریکی تعلقات کے مستقبل کے بارے میں پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا انہیں ''دونوں طرف سے روزانہ کی دفاعی کارروائیاں میں اضافہ کی توقع ہے، اس کا مقصد دوطرفہ تعلقات کو مزید کشیدہ کرنا نہیں ہوگا بلکہ دونوں'' زیادہ متصادم دکھائی دینے کی کوشش کریں گے۔
‘‘فرانسیسی صدرکا عالمی تقسیم سے خبردار
اس بار کے شنگریلا ڈائیلاگ میں شریک فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی تقسیم کو اس وقت دنیا کو درپیش سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ ماکروں کا کہنا تھا،''دوسروں کو دی گئی ہدایات کے دوران اگر ہم اپنی سائیڈ کا انتخاب اپنے حساب سے کریں گے تو ہم عالمی نظام کو ختم کر دیں گے اور ہم ان تمام اداروں کو تباہ کر دیں گے جنہیں ہم نے دوسری عالمی جنگ کے بعد بنایا تھا۔‘‘
ادارت: عاطف توقیر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے امریکی وزیر دفاع انہوں نے کہ چین نے کہا چین کے چین کی نے چین
پڑھیں:
ٹرمپ کی ایران اور افغانستان سمیت بارہ ممالک پر مکمل سفری پابندیاں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 جون 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک درجن ممالک کے افراد کے سفر پر مکمل پابندی کے اعلان پر دستخط کر دیے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے اس کا مقصد 12 ممالک کے شہریوں کا امریکہ میں داخلے کو مکمل طور پر بند کرنا یا اسے محدود کرنا ہے۔
اس فہرست میں ایران، افغانستان، یمن، لیبیا، صومالیہ اور سوڈان سمیت چاڈ، جمہوریہ کانگو، استوائی گنی، اریٹیریا، ہیٹی اور میانمار شامل ہیں۔
خبر رساں ایجنسیوں نے اطلاع دی ہے کہ اس پابندی کا اطلاق آئندہ پیر یعنی نو جون کو واشنگٹن کے وقت کے مطابق رات 12:01 بجے سے ہو گا۔
نئے اعلان کے مطابق اب برونڈی، کیوبا، لاؤس، سیرا لیون، ٹوگو، ترکمانستان اور وینزویلا سے امریکہ آنے والے افراد کو بھی سخت پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
(جاری ہے)
ٹرمپ نے اپنے اعلان میں کہا، ''مجھے امریکہ اور اس کے عوام کی قومی سلامتی اور قومی مفاد کے تحفظ کے لیے کام کرنا چاہیے۔
"اس حوالے سے وائٹ ہاؤس نے حقائق سے متعلق جو فہرست جاری کی ہے، اس کے مطابق اس میں سے، "کچھ نامزد ممالک میں اسکریننگ اور جانچ کے ناکافی عمل ہیں، جو امریکہ میں داخلے سے پہلے ممکنہ سکیورٹی خطرات کی نشاندہی کرنے کی صلاحیت میں رکاوٹ بنتے ہیں۔"
سفری پابندیاں: کیا پاکستانی بچوں پر امریکی تعلیم کے دروازے بند ہونے جا رہے ہیں؟
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ بعض دوسرے ممالک کے افراد "ویزا کی مدت سے زائد قیام کرتے ہیں" یا ایسے ملک شناخت اور خطرے کی معلومات کے اشتراک میں تعاون نہیں کرتے ہیں۔
کولوراڈو حملے کے سبب پابندی پر دستخط کیے، ٹرمپامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انہوں نے 12 ممالک پر نئی سفری پابندی کو نافذ کرنے کا فیصلہ غزہ میں حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کی حمایت میں کولوراڈو میں ہونے والی ریلی پر حملے کی وجہ سے کیا ہے۔
حکام نے اس حملے کا الزام ایک مصری شہری پر لگایا، جو ان کے بقول ملک میں غیر قانونی طور پر موجود تھا۔
ٹرمپ نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ "بولڈر، کولوراڈو میں حالیہ دہشت گردی کے حملے نے ہمارے ملک کو ایسے غیر ملکی شہریوں کے داخلے سے لاحق خطرات کو واضح کر دیا ہے، جن کی صحیح جانچ نہیں کی گئی۔"
انہوں نے مزید کہا "ہم انہیں (ایسے لوگوں کو) نہیں چاہتے"۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ دنیا بھر میں خطرات سامنے آنے کے بعد اس فہرست میں مزید توسیع کی جا سکتی ہے۔
افغان اور پاکستانی شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی؟
امریکہ کی جزوی سفری پابندیوں کا مطلب کیا ہے؟سات ممالک کے شہریوں پر جزوی سفری پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں، جس میں برونڈی، کیوبا، لاؤس، سیرا لیون، ٹوگو، ترکمانستان اور وینزویلا شامل ہیں۔
جزوی سفری پابندی ان لوگوں کو متاثر کرتی ہے جو عارضی طور پر کاروبار یعنی ( بی ون یا بی ٹو ویزا) کاروبار یا سیاحتی ویزا کے تحت امریکہ میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔
امریکی پابندیاں باہمی تعلقات کے قیام میں رکاوٹ، طالبان
نئی پابندیاں ان لوگوں پر بھی لاگو ہوتی ہیں، جو تعلیمی یا پیشہ ورانہ مطالعہ کے لیے ایف ون ویزا یا جے ون ویزا کے تحت امریکہ جانا چاہتے ہیں۔
ٹرمپ کی 'سفری پابندیاں تعصب اور اسلامو فوبک' ہیںمختلف نظریاتی حلقوں کی طرف سے ٹرمپ کے سفری پابندیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
کیلیفورنیا کی نمائندگی کرنے والی ڈیموکریٹ کانگریس کی خاتون جوڈی چو نے ایکس پر ایک پوسٹ میں ٹرمپ کی سفری پابندی کو 'متعصب اور اسلامو فوبک' قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ "یہ ہماری بنیادی امریکی اقدار کے خلاف ہے، جبکہ ہمیں محفوظ بنانے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔"
جو بائیڈن نے مسلم ممالک پرعائد سفری پابندیاں ختم کردیں
واشنگٹن میں قائم آزادی پسند تھنک ٹینک کیٹو انسٹیٹیوٹ میں امیگریشن کے تجزیہ کار الیکس نوراستہ کا کہنا ہے کہ جن 12 ممالک پر پابندی عائد کی ہے، اس کے دہشت گردوں نے سن 1975 سے اب تک امریکی سرزمین پر صرف ایک شخص کو قتل کیا ہے۔
ایکس پر ایک پوسٹ میں انہوں نے لکھا، "ان ممالک میں سے کسی ایک سے دہشت گردی کے سبب مارے جانے کا سالانہ امکان: 13.9 بلین میں سے صرف ایک کا ہے۔"
آکسفیم امریکہ نے ایک بیان میں خبردار کیا کہ یہ نئی سفری پابندی "خوف، تفریقی سلوک اور تقسیم کی پالیسیوں کی طرف واپسی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔"
چینی حکام پر امریکی پابندیاں، امریکا غلطی درست کرے، بیجنگ
ادارے نے کہا کہ یہ پابندی ایک بار پھر مسلم اکثریتی ممالک اور زیادہ تر سیاہ اور بھوری آبادی والے ممالک کے افراد کو نشانہ بناتی ہے۔
اس نے مزید کہا کہ یہ اقدام، "عدم مساوات کو مزید گہرا کرتا ہے اور نقصان دہ دقیانوسی تصورات، نسل پرستی اور مذہبی عدم برداشت کو برقرار رکھنے کا کام کرتا ہے۔" ورلڈ کپ کے کھلاڑیوں کے لیے استثنیامریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس نیوز سے بات کرنے والے امریکی حکام نے بتایا کہ ٹرمپ کی نئی سفری پابندیوں میں کئی رعایات بھی شامل ہیں۔
اس میں واضح طور پر کھلاڑیوں یا ایتھلیٹک ٹیموں کے ارکان، بشمول کوچز اور معاون عملہ، اور ورلڈ کپ، اولمپکس یا دیگر کھیلوں کے مقابلوں کے لیے سفر کرنے والے کھلاڑیوں کو امریکہ سفر کرنے کی اجازت ہو گی۔
کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ مل کر امریکہ 2026 میں فیفا فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے والا ہے۔ گرچہ پابندی والے ممالک کی بیشتر ٹیموں نے ابھی تک ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی نہیں کیا ہے، تاہم ایران پہلے ہی 2026 کے ٹورنامنٹ میں جگہ بنا چکا ہے۔
پانچ مسلم ممالک سے آنے والوں پر پابندیاں، ٹرمپ کی ’قانونی فتح‘
سوڈان کی قومی فٹ بال ٹیم بھی کوالیفائرز کے لیے اپنے گروپ میں سرفہرست ہے، یعنی وہ بھی ورلڈ کپ ٹورنامنٹ میں کھیل سکتی ہے۔
لیکن ایران اور سوڈان کے شہریوں کے امریکہ میں داخلے پر مکمل پابندی کی وجہ سے ان ٹیموں کے مداح امریکہ میں کھیلنے کے دوران اپنی ٹیموں کی حوصلہ افزائی کے لیے نہیں پہنچ سکیں گے۔
ادارت: جاوید اختر