Express News:
2025-06-06@10:18:46 GMT

کوئی ہے جو توجہ کرے!!

اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT

اس وقت ہمارا ملک دنیا بھر میں جس چیز کے لیے بدنام ہو رہا ہے، وہ ہے گداگری۔ ملک سے باہر تو ہم نے جھنڈے گاڑ ہی دیے ہیں مگر ملک کے اندر حالت ابتر ترین ہے۔ چند دن قبل مری جانے کا اتفاق ہوا، یہ تو ہمارے لیے سیاحتی مقامات ہیں مگر ان کے لیے کمائی کا بہترین مقام ۔ ان مقامات پر غیر ملکی سیاح بھی جاتے ہیں اور وہ بھی چپے چپے پر اپنے اردگرد شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھنانے والے ان گداگروں سے تنگ پڑتے ہیں۔

ان میں مرد و زن، بچے اور بوڑھے سب شامل ہیں۔ آپ انھیں نظر انداز کریں تو وہ جیسے آپ کے ساتھ چپک ہی جاتے ہیں، آپ کو اندیشہ ہونے لگتا ہے کہ آپ کے بیگ پر ہی ہاتھ نہ مار دیں۔ اگر جواب میں یہ بھی کہہ دیں کہ معاف کریں تو انھیں یقین ہو جاتا ہے کہ آپ نے انھیں دیکھ لیا ہے اور وہ اگر ڈھٹائی سے اپنے موقف پر قائم رہے توآپ انھیں ضرور کچھ نہ کچھ دے کر ہی جائیںگے۔ غلطی سے آپ نے کسی ایک پر ترس کھا کر اپنی جیب سے جونہی کچھ رقم نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھی، آپ نے گویا اپنی شامت کو دعوت دے دی۔

یوں ہر طرف سے بھڑوںکی طرح باقی لوگ بھی نکل کر آپ کا گھیراؤ کر لیں گے اورآپ خود کو اس سچویشن میں پھنسا ہوا پائیں گے۔پٹریاٹہ سے چئیر لفٹ پر جاتے ہوئے بھی جہاں جہاں چئیر لفٹ زمین کے نزدیک ہوتی ہے وہاں وہاں پر بھی آپ کو گداگر زمین پر کھڑے ، اونچی اونچی آوازیں لگاتے نظر آتے ہیں۔ کیا شرم کا مقام ہے، کیا یہ ہمارا چہرہ ہے جو ہم دنیا کو دکھاتے ہیں؟ ملک کے باقی شہروں میں تو ان مانگنے والوں نے ایسے حلیے بنا رکھے ہیں کہ کوئی ان پر ترس کھائے مگرتفریحی مقامات پرتو ہٹے کٹے لوگ، نک سک سے ٹھیک ٹھاک نظر آتے ہوئے بھی یک لخت بھکاری کا روپ دھار لیتے ہیں۔ ایسا ہی کئی بار حرمین میں ہوا، جب بھی کبھی عمرے کے لیے گئے، ساتھ بیٹھی کسی عورت نے سلام کیا، اپنے برقعے کی نقاب اٹھا کر اپنا تعارف کروایا اور ساتھ ہی اپنا رٹا رٹایا مسئلہ بیان کرنا شروع کر دیا کہ عمرے پر آئی تھی کسی گروپ کے ساتھ، ان سے بچھڑ گئی ہوں۔

 آپ مدد کر دیں تا کہ میں کسی طرح واپس جا سکوں ۔ ظاہر ہے کہ اس کہانی پر کسے یقین آتا ہے، آپ شش و پنج میں پڑ جاتے ہیں کہ اللہ تعالی کے گھر میں بیٹھ کر کوئی آپ سے جھوٹ بول سکتا ہے نہیں۔کسی بھی انسان کے لیے کسی دوسرے کے آگے ہاتھ پھیلانا اتنا مشکل ہے کہ برے سے برے حالات میں بھی انسان بڑی مشکل سے کسی کے سامنے زبان کھول پاتا ہے۔ ان گداگروں کو دیکھ کر یہی خیال آتا ہے کہ ان میں عزت نفس اور احساس توہین ناپید ہو جاتا ہے، جب آپ گداگری کو پیشہ بنا لیں تو پھر کیسی شرم اور کیسی حیا۔ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں۔

 آپ کا اپنا ہم وطن کسی نہ کسی طرح مانگتا ہوا نظر آئے گا، اگر وہ ڈنمارک میں کسی ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر اخبار بیچ رہا ہو گا اور آپ اخبار لینے کو رک جائیں گے تو اس کی کوشش ہوگی کہ وہ اس وقت میں آپ سے اخبار کی قیمت تو لے گا ہی، ساتھ ہی کچھ انسانی ہمدردی کا واسطہ دے کر کچھ اضافی بٹورنے کو ضرور ڈرامہ کرے گا۔

ایسا کسی نے ہمیں بتایا کہ اگر کسی بھی یورپین ملک میں آپ کسی پاکستانی، بنگالی یا انڈین کھوکھے والے سے کچھ خریدیں، اخبار، پان ، سگریٹ، چپس، ٹافیاں یا کوئی ایسی ہی چھوٹی موٹی چیز تو اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کے ہاتھ میں اتنی ہی رقم دیں جتنی کہ آپ کی خریداری کی بنتی ہے ورنہ بقایا واپس دینے میں وہ متامل ہوتے ہیں اور اپنی غربت اور بے بسی کی ایسی تصویر کھینچتے ہیں کہ کچھ لوگوں سے وہ فالتو رقم اور بھی نکلوا لیتے ہیں۔

  ہمارے ہاں پٹرول پمپوں پر گاڑیوں کو صاف کرنیوالے کپڑے بیچنے والے بھی آپ کو ایک کپڑا سو روپے کے عوض بیچ کر اپنا اگلا سبق شروع کر دیتے ہیں کہ ان کے گھر میں آٹا ختم ہو گیا ہے اور انھوں نے دو دن سے کوئی کپڑا نہیں بیچا ہے اس لیے اگر انھیں راشن خریدنے کے لیے کچھ اضافی رقم مل جائے تو!!نوجوان لڑکیاں، باریک اور چست لباس پہنے جب گاڑیوں کے ساتھ لپٹ لپٹ کر، شیشوں کے ساتھ منہ چپکا چپکا کر ہمدردی سے زیادہ توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو وہ منظر بہت برا لگتا ہے۔

انھیں کوئی نصیحت کریں تو وہ بھی بے کار ہے، انھیں کچھ سمجھانا آپ کے اپنے وقت کا زیاں ہے۔جانے حکومتیں اس طرف توجہ کیوں نہیں مبذول کرتیں؟ ملک سے گداگری کا خاتمہ اس طرح نہیں ہو سکتا ہے کہ آپ گداگروں کو مفت کھانے پر لگا دیں ، اس وقت بھی وہ کھانے پینے کی فکر سے آزاد ہوجاتے ہیں اور کھانا انھیں بھیک کے ساتھ ساتھ بونس محسوس ہوتا ہے ۔ گداگری کو قابل سزا جرم قرار دیا جانا چاہیے اور اس پر سخت سزائیں مقرر ہوں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جاتے ہیں کے ساتھ کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

آج کے بعد تم سے کوئی شکوہ نہیں رہا؛ خلیل الرحمان قمر کا ماہرہ خان کو میسیج

اداکارہ ماہرہ خان اور ڈراما نگار خلیل الرحمان قمر کے درمیان تلخ ماضی سے سب ہی آگاہ ہیں لیکن حال ہی میں ایک پیشرفت نے سب کو حیران کردیا ہے۔

ڈرامہ نگار، شاعر اور مصنف خلیل الرحمان قمر نے اداکارہ ماہرہ خان کو ایک میسیج بھیجا ہے جو دراصل اداکارہ کے ایک حالیہ بیان پر لکھاری کا جواب ہے۔

خلیل الرحمان قمر نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ماہرہ خان نے پوڈ کاسٹ میں تسلیم کیا کہ میرے خلاف ٹویٹ کرنے کے بجائے ماہرہ کو مجھ سے براہ راست فون پر بات کرنا چاہیے تھا۔

ڈراما نگار نے کہا کہ یہ ماہرہ خان کا بڑا پن ہے۔ میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں۔ ہمارے درمیان ہمیشہ احترام کا رشتہ رہا ہے۔

خلیل الرحمان قمر نے مزید کہا کہ میں نے جب بھی ماہرہ خان پر تنقید کی، اُس سے خود مجھے تکلیف ہوئی تھی۔

انھوں نے مزید کہا کہ ماہرہ خان ;کی تازہ گفتگو سن کر میں نے انھیں میسیج کیا کہ آج کے بعد تم سے کوئی شکوہ نہیں رہا۔

یاد رہے کہ چند دن قبل ماہرہ خان نے پوڈکاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے ماضی کے ایک واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے خلیل الرحمان قمر پر ماضی میں جو تنقید کی تھی وہ جذباتی ردعمل تھا اور انھیں براہ راست بات کرنی چاہیے تھی۔

ماہرہ خان کا کہنا تھا اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں غلط تھی تو ہاں میں غلط تھی۔ مجھے انھیں میسج کرنا چاہیے تھا۔ وہ ٹھیک کہتے ہیں مجھے اُن سے براہ راست بات کرنی چاہیے تھی۔

یاد رہے کہ خلیل الرحمان قمر اور ماروی سرمد کے ساتھ ٹی وی پر تلخ کلامی کے بعد ماہرہ خان نے ان پر تنقید کی تھی جس پر خلیل الرحمان قمر نے اظہارِ ناراضی کیا تھا۔

 

متعلقہ مضامین

  • کوٹلی: بیوپاری گاہکوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کون سی حرکتیں کرتے ہیں؟
  • وزارت خارجہ کا میرے بیان سے کوئی تعلق نہیں ، میرا مؤقف بالکل ٹھیک ہے،چناب میں روز خود پانی کی سطح چیک کر رہا ہوں: خواجہ آصف
  • یوم عرفہ پر کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، نائب گورنر مکہ
  • بچوں کی ضد پوری نہ کریں، انھیں صبر اور برداشت سکھائیں، سلمیٰ حسن کا والدین کو مشورہ
  • خطبہ حجۃ ّ الوداع
  • بانی پی ٹی آئی کو عہدے کی کوئی ضرورت نہیں، اسد عمر
  • صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں
  • علامہ راجہ ناصر عباس نے سعودی عرب میں قید علامہ غلام حسنین وجدانی کی رہائی کیلئے سینیٹ میں آواز اٹھادی
  • آج کے بعد تم سے کوئی شکوہ نہیں رہا؛ خلیل الرحمان قمر کا ماہرہ خان کو میسیج