اس وقت ہمارا ملک دنیا بھر میں جس چیز کے لیے بدنام ہو رہا ہے، وہ ہے گداگری۔ ملک سے باہر تو ہم نے جھنڈے گاڑ ہی دیے ہیں مگر ملک کے اندر حالت ابتر ترین ہے۔ چند دن قبل مری جانے کا اتفاق ہوا، یہ تو ہمارے لیے سیاحتی مقامات ہیں مگر ان کے لیے کمائی کا بہترین مقام ۔ ان مقامات پر غیر ملکی سیاح بھی جاتے ہیں اور وہ بھی چپے چپے پر اپنے اردگرد شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھنانے والے ان گداگروں سے تنگ پڑتے ہیں۔
ان میں مرد و زن، بچے اور بوڑھے سب شامل ہیں۔ آپ انھیں نظر انداز کریں تو وہ جیسے آپ کے ساتھ چپک ہی جاتے ہیں، آپ کو اندیشہ ہونے لگتا ہے کہ آپ کے بیگ پر ہی ہاتھ نہ مار دیں۔ اگر جواب میں یہ بھی کہہ دیں کہ معاف کریں تو انھیں یقین ہو جاتا ہے کہ آپ نے انھیں دیکھ لیا ہے اور وہ اگر ڈھٹائی سے اپنے موقف پر قائم رہے توآپ انھیں ضرور کچھ نہ کچھ دے کر ہی جائیںگے۔ غلطی سے آپ نے کسی ایک پر ترس کھا کر اپنی جیب سے جونہی کچھ رقم نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھی، آپ نے گویا اپنی شامت کو دعوت دے دی۔
یوں ہر طرف سے بھڑوںکی طرح باقی لوگ بھی نکل کر آپ کا گھیراؤ کر لیں گے اورآپ خود کو اس سچویشن میں پھنسا ہوا پائیں گے۔پٹریاٹہ سے چئیر لفٹ پر جاتے ہوئے بھی جہاں جہاں چئیر لفٹ زمین کے نزدیک ہوتی ہے وہاں وہاں پر بھی آپ کو گداگر زمین پر کھڑے ، اونچی اونچی آوازیں لگاتے نظر آتے ہیں۔ کیا شرم کا مقام ہے، کیا یہ ہمارا چہرہ ہے جو ہم دنیا کو دکھاتے ہیں؟ ملک کے باقی شہروں میں تو ان مانگنے والوں نے ایسے حلیے بنا رکھے ہیں کہ کوئی ان پر ترس کھائے مگرتفریحی مقامات پرتو ہٹے کٹے لوگ، نک سک سے ٹھیک ٹھاک نظر آتے ہوئے بھی یک لخت بھکاری کا روپ دھار لیتے ہیں۔ ایسا ہی کئی بار حرمین میں ہوا، جب بھی کبھی عمرے کے لیے گئے، ساتھ بیٹھی کسی عورت نے سلام کیا، اپنے برقعے کی نقاب اٹھا کر اپنا تعارف کروایا اور ساتھ ہی اپنا رٹا رٹایا مسئلہ بیان کرنا شروع کر دیا کہ عمرے پر آئی تھی کسی گروپ کے ساتھ، ان سے بچھڑ گئی ہوں۔
آپ مدد کر دیں تا کہ میں کسی طرح واپس جا سکوں ۔ ظاہر ہے کہ اس کہانی پر کسے یقین آتا ہے، آپ شش و پنج میں پڑ جاتے ہیں کہ اللہ تعالی کے گھر میں بیٹھ کر کوئی آپ سے جھوٹ بول سکتا ہے نہیں۔کسی بھی انسان کے لیے کسی دوسرے کے آگے ہاتھ پھیلانا اتنا مشکل ہے کہ برے سے برے حالات میں بھی انسان بڑی مشکل سے کسی کے سامنے زبان کھول پاتا ہے۔ ان گداگروں کو دیکھ کر یہی خیال آتا ہے کہ ان میں عزت نفس اور احساس توہین ناپید ہو جاتا ہے، جب آپ گداگری کو پیشہ بنا لیں تو پھر کیسی شرم اور کیسی حیا۔ دنیا میں کہیں بھی چلے جائیں۔
آپ کا اپنا ہم وطن کسی نہ کسی طرح مانگتا ہوا نظر آئے گا، اگر وہ ڈنمارک میں کسی ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر اخبار بیچ رہا ہو گا اور آپ اخبار لینے کو رک جائیں گے تو اس کی کوشش ہوگی کہ وہ اس وقت میں آپ سے اخبار کی قیمت تو لے گا ہی، ساتھ ہی کچھ انسانی ہمدردی کا واسطہ دے کر کچھ اضافی بٹورنے کو ضرور ڈرامہ کرے گا۔
ایسا کسی نے ہمیں بتایا کہ اگر کسی بھی یورپین ملک میں آپ کسی پاکستانی، بنگالی یا انڈین کھوکھے والے سے کچھ خریدیں، اخبار، پان ، سگریٹ، چپس، ٹافیاں یا کوئی ایسی ہی چھوٹی موٹی چیز تو اس بات کا خیال رکھیں کہ ان کے ہاتھ میں اتنی ہی رقم دیں جتنی کہ آپ کی خریداری کی بنتی ہے ورنہ بقایا واپس دینے میں وہ متامل ہوتے ہیں اور اپنی غربت اور بے بسی کی ایسی تصویر کھینچتے ہیں کہ کچھ لوگوں سے وہ فالتو رقم اور بھی نکلوا لیتے ہیں۔
ہمارے ہاں پٹرول پمپوں پر گاڑیوں کو صاف کرنیوالے کپڑے بیچنے والے بھی آپ کو ایک کپڑا سو روپے کے عوض بیچ کر اپنا اگلا سبق شروع کر دیتے ہیں کہ ان کے گھر میں آٹا ختم ہو گیا ہے اور انھوں نے دو دن سے کوئی کپڑا نہیں بیچا ہے اس لیے اگر انھیں راشن خریدنے کے لیے کچھ اضافی رقم مل جائے تو!!نوجوان لڑکیاں، باریک اور چست لباس پہنے جب گاڑیوں کے ساتھ لپٹ لپٹ کر، شیشوں کے ساتھ منہ چپکا چپکا کر ہمدردی سے زیادہ توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو وہ منظر بہت برا لگتا ہے۔
انھیں کوئی نصیحت کریں تو وہ بھی بے کار ہے، انھیں کچھ سمجھانا آپ کے اپنے وقت کا زیاں ہے۔جانے حکومتیں اس طرف توجہ کیوں نہیں مبذول کرتیں؟ ملک سے گداگری کا خاتمہ اس طرح نہیں ہو سکتا ہے کہ آپ گداگروں کو مفت کھانے پر لگا دیں ، اس وقت بھی وہ کھانے پینے کی فکر سے آزاد ہوجاتے ہیں اور کھانا انھیں بھیک کے ساتھ ساتھ بونس محسوس ہوتا ہے ۔ گداگری کو قابل سزا جرم قرار دیا جانا چاہیے اور اس پر سخت سزائیں مقرر ہوں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جاتے ہیں کے ساتھ کے لیے ہیں کہ
پڑھیں:
معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!
بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں حوا کی ایک اور بیٹی معاشرتی سختیوں کی نظر ہوگئی، اگر وہ بالغ اور عاقل ہے تو کیوں اسے اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، کیوں ہم معاشرے کے باپ بن جاتے ہیں، اگر واقعی طور پر انہوں نے کوئی جرم کیا تھا تو کیا عدالتیں، پولیس، قانون موجود نہیں۔
کوئی جرگہ، کوئی پنچائت، کوئی مولوی، کوئی سیانہ، کچھ تو ہوگا نا، کیوں ان کی زندگی کا فیصلہ اس طرح سے کرنے دیا گیا؟
کیوں درندگی کا نشانہ بنایا گیا، گولی کھا کے نیچے گر جانے کے باوجود ظالم اپنے انجام سے بے خبرگولیاں برساتے رہے ، جیسے کے کوئی دشمن کے ساتھ بھی نہ کرے۔
کوئٹہ کی ایک مقامی عدالت نے ڈیگاری دہرے قتل پر قبر کشائی کا تو حکم دے دیا، مگر اس سے فرق کیا پڑے گا ؟ کیا ایسے واقعات کی روک تھام ہوسکے گی؟
اس جرم میں شریک 11 افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا، جسمانی ریمانڈ اور پتہ نہیں کیا کیا، مگر وہ 2 لوگ جو اپنی جان سے گئے اس کا جواب کون دے گا؟
یہ ایک واقعہ ہے جس پر سب نوحہ کناں ہیں، ناچیز نے عرق ریزی کی تو پتہ چلا کے پچھلے 2 سال میں صرف صوبہ بلوچستان میں ایسے درجنون واقعات رونما ہوچکے ہیں، جہاں غیرت کے نام پر قتل، پسند کی شادی پر قتل یا جبری رسم و رواج پر قتل، کیا انسانوں کی یہی قدر ہے؟ اس کومذہب سے دوری کہیں یا پسماندگی کہیں، کیا کہیں !
بحیثیت معاشرہ ہم کس طرف جا رہے ہیں ؟ کہیں کوئی تازہ ہوا کا جھونکا نہیں آرہا، ہر طرف پستی ہی پستی ہے، آج ہم اپنے گھروں میں موجود اپنی جوان تو دور کی بات چھوٹی بچیوں یا بچوں کو گھروں سے نکالتے وقت کیوں خوفزدہ ہوتے ہیں، کہ کہیں وہ معاشرے کی سختیوں یا کسی درندے کی درندگی کا نشانہ نہ بن جائیں۔
قصور کی زینب کس کو یاد نہیں، کیا دوش تھا اسی ننی معصوم کا، وہ پھول جو بن کھلے ہی مرجھا گیا، کسی درندے کی ہوس کا نشانہ بن گیا، ایسے ہزاروں کیس اگر گننے بیٹھ جائیں تو سامنے آجائیں گے، جس معاشرے میں اس قد ر برائی اور شدت پسندی پیدا ہوجائے ایسے میں شعور کو پھیلانا، اسلامی تعلیمات کا پرچارکرنا بہت ضروری ہوجاتا ہے۔
میڈیا پر اہم ذمہ داری آتی ہے، استاد پر، مسجد و ممبر پر، غرض ہر اس شخص اور شعبے کی ذمہ داری دوگنی ہوجاتی ہے، جہاں سے معاشرے میں شعور کی کرنیں پھیلیں، اور اصلاح کی جاسکے، قانون نافذ کرنے والوں پر بھی بھاری ذمہ عائد ہوتا ہے کہ مجرموں کو قرار واقعی نہ صرف سزا ہو بلکہ وہ عبرت کا نشان بنیں۔
تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسی حرکت کرنے سے پہلے متعدد بار اپنے انجام کے بارے میں بھی سوچے، کیونکہ وہ وقت دور نہیں اگر آج کسی کے گھر کو آگ لگی ہے تو کل ہمارا گھر بھی اس آگ کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔
افسوس کے ساتھ اس ملک میں بھلے وہ کوئی صوبہ ہو یہاں طاقتور جرائم کر کےضمانتیں حاصل کرلیتے ہیں اور غریب صرف عدالتوں میں جوتے چٹخاتے رہ جاتے ہیں۔
نور مقدم کیس میں ہم نے کیا دیکھا، وہ باپ جس کی بیٹی جان سے گئی، وہ اپنی بیٹی کے قاتل کو دیکھتا ہوگا تو اس کے کیا احساسات ہوتے ہونگے؟
یہاں سزائے موت دیتے وقت ہزاروں رحم کی اپیلیں، حیلے بہانے کرلئے جاتے ہیں، قرار واقعی سزا ملنے کے بعد ہی کسی قاتل کو قتل کرتے وقت اپنے انجام کا خوف ہوگا، ورنہ ایسےجرائم پر ہم صرف افسوس کرتے رہیں گے اور مجھ جیسے لکھ لکھ کر آہ و بقا کرتے رہیں گے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں