چین کا مارکو روبیو کو سخت جواب: تیانانمن واقعے پر بیان داخلی معاملات میں مداخلت قرار
اشاعت کی تاریخ: 5th, June 2025 GMT
بیجنگ: چین نے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مارکو روبیو کے 1989 کے تیانانمن اسکوائر واقعے پر دیے گئے بیان کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ روبیو نے "تاریخ کو مسخ" کیا اور "چین کے داخلی معاملات میں مداخلت" کی ہے۔
1989 میں 4 جون کو بیجنگ کے تیانانمن اسکوائر میں سیاسی اصلاحات کے لیے ہزاروں افراد نے مظاہرے کیے، جنہیں چینی فوج اور ٹینکوں نے سختی سے کچلا۔ اس کارروائی میں سینکڑوں افراد جاں بحق ہوئے، جبکہ بعض اندازوں کے مطابق ہلاکتیں 1,000 سے زائد تھیں۔
مارکو روبیو نے بیان میں کہا کہ دنیا تیانانمن واقعے کو کبھی نہیں بھولے گی، چاہے چین حقائق کو چھپانے کی کتنی ہی کوشش کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ان بہادر افراد کو یاد رکھتے ہیں جنہوں نے بنیادی آزادیوں کے لیے جانیں قربان کیں۔
چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے روبیو کے بیان پر "سخت احتجاج" کیا اور کہا کہ ایسی باتیں چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہیں۔
تائیوان کے صدر لائی چنگ تے نے بھی مظاہرین کی قربانیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ جمہوری معاشرے تاریخ کو یاد رکھتے ہیں، آمریت اسے بھولنے کی کوشش کرتی ہے۔
ہانگ کانگ میں جیل میں قید انسانی حقوق کی کارکن چو ہانگ ٹنگ نے تیانانمن واقعے کی یاد میں 36 گھنٹے کی بھوک ہڑتال کا اعلان کیا۔ یاد رہے کہ ہانگ کانگ واحد جگہ تھی جہاں تیانانمن کی یاد میں بڑے عوامی اجتماعات ہوتے تھے، لیکن 2019 کے مظاہروں کے بعد وہاں سخت سیکیورٹی قوانین نافذ کیے گئے۔
ادھر بیجنگ میں کئی علاقوں کو پولیس نے گھیرے میں لے رکھا ہے تاکہ کوئی عوامی اجتماع یا خراجِ عقیدت پیش نہ کیا جا سکے۔ اسی دوران بعض شہریوں کو سفید پھول لیے خاموشی سے خراج عقیدت پیش کرتے دیکھا گیا، جنہیں فوراً حراست میں لے لیا گیا۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
’اداکار نہیں بن سکتے‘ کہنے والوں کو قہقہوں سے جواب دینے والے ورسٹائل ایکٹر محمود
بھارتی فلم انڈسٹری کے لیجنڈ اداکار اور مزاح کے بادشاہ محمود نے وہ مقام حاصل کیا جو صرف مسلسل جدوجہد، بے پناہ صبر اور خالص جذبے سے ممکن ہوتا ہے۔ جنہیں کبھی کہا گیا کہ یہ اداکار بننے کے قابل نہیں، وہی محمود ایک دن سینما اسکرین پر قہقہوں کا راج لے کر آئے اور تقریباً 300 فلموں میں اپنی موجودگی سے لوگوں کو ہنسانے والا ’کنگ آف کامیڈی‘ بن گیا۔
29 ستمبر 1932 کو ممبئی میں پیدا ہونے والے محمود علی کے والد ممتاز علی بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے مگر گھر کے حالات نہایت خراب تھے۔ کم عمری میں ہی محمود کو لوکل ٹرینوں میں ٹافیاں بیچنی پڑیں۔ مگر دل میں اداکار بننے کا خواب پوری شدت سے زندہ تھا۔
ابتدائی موقع فلم ’قسمت‘ (1943) میں اشوک کمار کے بچپن کا کردار ادا کرنے کی صورت میں ملا۔ مگر یہ صرف آغاز تھا، اصل جدوجہد ابھی باقی تھی۔
ڈرائیور سے اداکار تکمحمود نے مختلف فلمی شخصیات کے لیے بطور ڈرائیور کام کیا، صرف اس لیے کہ اسٹوڈیوز تک رسائی ہو جائے۔ ایک دن فلم ’نادان‘ کے سیٹ پر قسمت نے دروازہ کھٹکھٹایا جب ایک جونیئر آرٹسٹ ڈائیلاگ بولنے میں ناکام رہا تو ہدایت کار نے وہ مکالمہ محمود کو دیا۔
انہوں نے پہلی کوشش میں ایسا ادا کیا کہ سب دنگ رہ گئے۔ انعام میں 300 روپے ملے جو اس وقت ان کی مہینے بھر کی تنخواہ سے بھی 4 گنا زیادہ تھے۔ وہیں سے فلمی سفر نے نیا رخ لیا۔
ناکامی کا سامنا اور پھر کامیابیوں کے انبارمحمود نے چھوٹے موٹے کرداروں سے شروعات کی ’دو بیگھہ زمین‘، ’سی آئی ڈی‘، ’پیاسا‘ جیسی فلموں میں نظر آئے، مگر کوئی خاص پہچان نہ بنا سکے۔ اس دوران انہیں فلم ’مس میری‘ کے لیے اسکرین ٹیسٹ سے مسترد کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ کمال امروہی جیسے فلمساز نے کہا کہ ’تم میں اداکاری کی صلاحیت نہیں ہے، اداکار کا بیٹا ہونا کافی نہیں‘۔
مگر محمود نے ہار نہیں مانی۔ ایک فلم میں اپنی سالی مینا کماری کی سفارش پر کام مل رہا تھا مگر انہوں نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ’میں اپنی پہچان سفارش سے نہیں، محنت سے بناؤں گا‘۔
سنہ1958 میں فلم ’پرورش‘ میں انہیں راج کپور کے بھائی کا کردار ملا، جس کے بعد ’چھوٹی بہن‘ نے ان کے لیے فلمی دروازے کھول دیے۔ ٹائمز آف انڈیا نے ان کی اداکاری کو سراہا۔ ان کو معاوضہ 6000 روپے ملا تھا جو ان وقتوں میں کسی خواب سے کم نہ تھا۔
سال1961 کی فلم ’سسرال‘ میں شوبھا کھوٹے کے ساتھ ان کی جوڑی مقبول ہوئی اور اسی سال انہوں نے بطور ہدایت کار اپنی پہلی فلم ’چھوٹے نواب‘ بنائی، جس سے آر ڈی برمن (پنچم دا) نے بطور موسیقار ڈیبیو کیا۔
اداکاری میں جدت، کرداروں میں رنگینیمحمود نے خود کو ایک جیسے کرداروں میں محدود نہیں رکھا۔ فلم ’پڑوسن‘ (1968) میں جنوبی ہند کے موسیقار کا کردار ان کی ورسٹائل اداکاری کا شاہکار تھا۔
سنہ 1970 کی فلم ’ہمجولی‘ میں انہوں نے ٹرپل رول ادا کر کے اپنی وسعت فن کا لوہا منوایا۔
محمود، صرف اداکار نہیں بلکہ ایک ادارہانہوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ کئی فلموں کی ہدایت کاری، پروڈکشن اور گلوکاری بھی کی۔ فلمی کیریئر میں تقریباً 300 فلمیں کیں اور 3 فلم فیئر ایوارڈز جیتے۔ محمود نہ صرف ہنسانے والا اداکار تھا بلکہ ایک پورا عہد تھا۔
23 جولائی 2004 کو محمود دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن ان کی مسکراہٹ، منفرد انداز اور ناقابلِ فراموش مزاح آج بھی ہر نسل کے دلوں میں زندہ ہے۔
وہ ہر اس شخص کے لیے مثال بن گئے جو بار بار یہ سنتا ہے کہ ’تم یہ نہیں کر سکتے‘ اور پھر اپنے وہ اپنی صلاحیتیوں کا کمال دکھا کر دنیا کو غلط ثابت کر دیتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اداکار محمود بھارتی اداکار محمود لکی علی