اب اگر پاک بھارت جنگ ہوئی تو ٹرمپ کے پاس مداخلت کرنے کا وقت بھی نہیں ہوگا، بلاول بھٹو
اشاعت کی تاریخ: 6th, June 2025 GMT
پاکستانی سفارتی مشن کے سربراہ کے سربراہ اور سابق وفاقی وزیر خارجہ و چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ اگر اب پاک بھارت جنگ ہوئی تو پھر ٹرمپ کے پاس مداخلت کر کے اسے رکوانے کا وقت نہیں ہوگا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق بلاول بھٹو نے پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے اعلی سطح کے ملکی پارلیمانی سفارتی وفد کے اعزاز میں استقبالیہ دیا جس میں بلاول بھٹو زرداری نے خصوصی شرکت کی۔
استقبالیے میں پورے امریکا سے پاکستانی کمیونٹی کے اہم اور بااثر اراکین شریک ہوئے۔ شرکا سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے امریکا میں مقیم پاکستانیوں کو اپنی سفارتی مہم سے متعلق اعتماد میں لیا۔
انہوں نے کہا کہ امریکا میں مقیم پاکستانی امن اور خوشحالی کے مشترکہ مقصد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ بلاول کا کہنا تھا کہ پاکستان نے حالیہ کشیدگی کے دوران ایک ذمہ دار فریق کے طور پر کردار ادا کیا ہے، ہمارا مشن واضح ہے، ہم مکالمے اور سفارتکاری کے ذریعے امن کا حصول چاہتے ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ ہم عالمی برادری سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ قیام امن کی کوشش میں ہمارا ساتھ دے، جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا انحصار جامع مکالمے پر منحصر ہے۔ ایک پرامن جنوبی ایشیا، جہاں بھارت اور پاکستان کے درمیان تجارت معمول پر آئے، تمام متعلقہ ممالک کے لیے فوائد کا باعث بنے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری فوجی قیادت نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار قربانیاں دی ہیں۔
قبل ازیں پاکستان کے اعلیٰ سطح کے پارلیمانی وفد اور مشن نے معروف امریکی تھنک ٹینک مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے منعقد کردہ مکالمے میں شرکت کی اور پاک بھارت حالیہ تنازعے اور پاک امریکہ تعاون کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔
وفد کے سربراہ بلاول بھٹو نے پاک بھارت جنگ بندی میں امریکا اور صدر ٹرمپ کے کردار کا اعتراف کیا تاہم انہوں نے واضح کیا کہ بھارت نے جارحیت ترک نہیں کی جبکہ پاکستان مسلسل امن کیلیے اقدامات کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر بھارت نے جارحیت کی تو پاکستان اُس کا جواب دینے کا حق رکھتا ہے اور ہم ایسے ہی کریں گے۔ بلاول نے واضح کیا کہ اب اگر پاک بھارت جنگ ہوئی تو ٹرمپ کے پاس مداخلت کر کے رکوانے کا وقت نہیں ہوگا۔
بلاول بھٹو نے شرکا کو بھارت کی بلوچستان میں جاری اسپانسرڈ دہشت گردی، بی ایل اے اور ٹی ٹی پی کی سپورٹ کے حوالے سے آگاہ کیا۔
انہوں نے سوال کیا کہ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر دہشت گردی کے بعد ہم بھارت سے جنگ کریں کیونکہ مودی سرکار نے یہی طریقہ اپنایا ہوا ہے، پاکستان امن چاہتا ہے اور یہ ہی دونوں ممالک کے حق میں ہے۔
بلاول بھٹو زرداری وفد کے ہمراہ امریکی سینٹ کی سیلیکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر ٹام کاٹن، اراکین رکن کانگریس لیو کورا سے بھی ملاقاتکی۔
پاکستانی اعلیٰ سطحی وفد نے امریکی کانگریس کی امور خارجہ کی کمیٹی کے سربراہ برائن ماسٹ اور رینکنگ ممبر گیگوری میکس سے اہم ملاقات جس کی جس میں امور خارجہ کی کمیٹی کے دیگر اراکین بھی شریک تھے۔
اس کے علاوہ بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں وفد نے امریکی محکمہ داخلہ کے حکام سے بھی اہم ملاقاتیں کیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: بلاول بھٹو زرداری بلاول بھٹو نے پاک بھارت جنگ کے سربراہ انہوں نے ٹرمپ کے نے کہا
پڑھیں:
اسرائیل اور غزہ کا معاملہ پیچیدہ ہے مگر حل ہوجائے گا، افغانستان سے بگرام ایئربیس واپس لینا چاہتے ہیں، ٹرمپ
اسرائیل اور غزہ کا معاملہ پیچیدہ ہے مگر حل ہوجائے گا، افغانستان سے بگرام ایئربیس واپس لینا چاہتے ہیں، ٹرمپ WhatsAppFacebookTwitter 0 18 September, 2025 سب نیوز
لندن (آئی پی ایس )امریکی صدر اور برطانوی وزیراعظم نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ مشرقِ وسطی میں انسانی بحران ختم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں، پیوٹن نے بہت مایوس کیا ہے، اسرائیل اور غزہ کا معاملہ پیچیدہ ہے مگر حل ہوجائے گا۔قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق بکنگھم شائر میں اپنی رہائش گاہ ( چیکرز ) میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ہمراہ نیوز کانفرنس کے دوران برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے کہاکہ ہم مل کر مشرقِ وسطی میں انسانی بحران ختم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ وہاں امداد پہنچائیں، یرغمالیوں کو رہا کرائیں اور بالآخر اسرائیل اور خطے کو ایک جامع منصوبے کی طرف واپس لے آئیں جو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں دونوں کے لیے امن اور سلامتی لا سکے۔
مشرقِ وسطی کا ذکر کرنے کے بعد اسٹارمر نے کہا کہ برطانیہ اور امریکا یوکرین میں قتل و غارت کو ختم کرنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں میں پیوٹن نے اپنا اصل چہرہ دکھا دیا ہے، اس نے یوکرین جنگ میں اب تک کا سب سے بڑا حملہ کیا، مزید خونریزی اور مزید معصوموں کا قتل کیا اور نیٹو کی فضائی حدود کی بے مثال خلاف ورزیاں کیں، یہ کسی ایسے شخص کے اقدامات نہیں ہیں جو امن چاہتا ہو۔نیوز کانفرنس کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ امریکا نیٹو کو بہت سے ہتھیار بھیج رہا ہے، نیٹو ان ہتھیاروں کی پوری قیمت ادا کر رہا ہے، لیکن ہم انہیں بھیج رہے ہیں اور ہم انہیں وہ چیزیں مہیا کرنے کا شاندار کام کر رہے ہیں جو انہیں درکار ہیں۔
انہوں نے اتحاد ( نیٹو) کو سراہا کہ اس نے رکن ممالک کے دفاعی اخراجات کا ہدف 2 فیصد سے بڑھا کر 5 فیصد کر دیا ہے۔روس کے حوالے سے ٹرمپ نے کہا کہ پیوٹن نے مجھے واقعی مایوس کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا نے سات جنگوں کو اختتام تک پہنچایا ہے، وہ جنگیں جو ناقابلِ حل تھیں، جنہیں نہ مذاکرات سے نمٹایا جا سکتا تھا نہ ختم کیا جا سکتا تھا۔انہوں نے کہا کہ وہ ایک جنگ جو میں نے سوچا تھا سب سے آسان ہوگی روس اور یوکرین کی تھی کیونکہ روس کے صدر پیوٹن سے میرا تعلق تھا، لیکن اس نے مجھے مایوس کر دیا، واقعی مایوس کر دیا۔
امریکی صدر نے کہا کہ ہم اسرائیل اور غزہ پر بہت محنت کر رہے ہیں، یہ ( معاملہ ) پیچیدہ ہے ، لیکن یہ حل ہوجائے گا۔برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے فلسطین کو تسلیم کرنے کے سوال پر کہا کہ ہم امن اور ایک روڈ میپ کی ضرورت پر بالکل متفق ہیں کیونکہ غزہ کی صورتحال ناقابلِ برداشت ہے۔
انہوں نے کہا کہ یرغمالیوں کو بہت زیادہ عرصے سے رکھا گیا ہے اور انہیں آزاد کرانا ضروری ہے۔ ہمیں غزہ میں تیزی سے امداد پہنچانے کی ضرورت ہے۔ اور امن کے منصوبے کے تناظر میں تسلیم کرنے کا سوال دیکھا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ یہ اسی مجموعی پیکیج کا حصہ ہے جو ہمیں امید ہے کہ ہمیں اس بھیانک صورتحال سے نکال کر ایک محفوظ اور پرامن اسرائیل اور ایک قابلِ عمل فلسطینی ریاست کی طرف لے جائے گا۔تاہم ٹرمپ نے کہا کہ اس نکتے پر میرا اختلاف ہیامریکی صدر سے پوچھا گیا کہ برطانیہ درجنوں دیگر ممالک کے ساتھ مل کر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
ابتدا میں ٹرمپ نے ایک طویل جواب دیا، جس میں غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کا سہرا اپنے سر باندھا اور اسرائیل کی جنگ جاری رکھنے کی حمایت کی۔انہوں نے کہا کہ ہمیں 7 اکتوبر یاد رکھنا ہوگا، دنیا کی تاریخ کے بدترین اور سب سے پرتشدد دنوں میں سے ایک، صرف وہاں نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں۔ مگر انہوں نے غزہ میں فلسطینیوں کی مشکلات کا ذکر نہیں کیا۔تاہم آخرکار انہوں نے برطانیہ کے منصوبے پر جواب دیا کہ اس نکتے پر میرا وزیراعظم سے اختلاف ہے، دراصل یہ چند اختلافات میں سے ایک ہے۔
نیوز کانفرنس کے دوران امریکی صدر نے افغانستان سے بگرام ایئربیس واپس لینے کی کوششوں کا بھی ذکر کیا۔ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ وہ معاہدہ کیا تھا جس کے نتیجے میں امریکا افغانستان سے نکلا، یہ انخلا اگست 2021 میں بائیڈن انتظامیہ کے تحت ایک انتشار کے ساتھ مکمل ہوا۔لیکن اب ٹرمپ کہتے ہیں کہ وہ بگرام ایئربیس، جو ملک میں امریکی دو دہائیوں کی موجودگی کا مرکز تھا، واپس چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اسے واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ انہیں ہم سے چیزیں درکار ہیں۔ اور ہم وہ بیس واپس چاہتے ہیں، اس بیس کو واپس لینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ، یہ اس جگہ سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے جہاں چین اپنے ایٹمی ہتھیار بناتا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبروزیراعظم شہباز شریف برطانیہ کے 4 روزہ دورے پر لندن پہنچ گئے وزیراعظم شہباز شریف برطانیہ کے 4 روزہ دورے پر لندن پہنچ گئے پیپلزپارٹی کا پنجاب میں زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے اور عالمی برادری سے مدد لینے کا مطالبہ چمن میں پاک افغان بارڈر ٹیکسی اسٹینڈ پر دھماکا، 5 افراد جاں بحق پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ: کیا سعودی عرب کے بعد دیگر عرب ممالک بھی حصہ بنیں گے؟ ریکوڈک منصوبے سے طویل المدتی سماجی و اقتصادی خوشحالی آئے گی، وفاقی وزیرخزانہ پاکستان اور چین کی دوستی وقت کی آزمائش پر پوری اتری: صدر آصف علی زرداریCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم