’کرپٹو کڈنیپنگز‘، ڈیجیٹل کرنسی کا تاریک پہلو
اشاعت کی تاریخ: 7th, June 2025 GMT
دنیا بھر میں کرپٹو کرنسی کی مقبولیت کے ساتھ ہی ایک خطرناک رجحان’ کرپٹو کڈنیپنگز‘ سامنے آیا ہے۔ اس میں مجرم افراد یا گروہ کرپٹو سرمایہ کاروں کو اغوا کر کے ان سے ڈیجیٹل اثاثے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:کرپٹو کرنسیوں پر کوئی پابندی نہیں، اسٹیٹ بینک کی وضاحت
حال ہی میں نیویارک میں ایک واقعے میں، ایک کرپٹو سرمایہ کار کو 17 دن تک قید میں رکھ کر اس کے بٹ کوائن والٹ تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔
اسی طرح فرانس میں بھی کرپٹو کاروباری افراد اور ان کے خاندانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جن میں اغوا اور تشدد کے واقعات شامل ہیں۔
بین الاقوامی نیوز پلیٹ فارم الجزیرہ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بھی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ کراچی میں ایک کرپٹو تاجر کو اغوا کر کے اس سے 340,000 امریکی ڈالر مالیت کے ڈیجیٹل اثاثے چھین لیے گئے۔ تحقیقات کے دوران پولیس اہلکاروں کی ملوث ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آئیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کرپٹو سرمایہ کاروں کو اپنی آن لائن موجودگی محدود رکھنی چاہیے اور سیکیورٹی کے جدید طریقے اپنانے چاہئیں، جیسے کہ ملٹی سگنیچر یا کولڈ والٹس کا استعمال۔
یہ بھی پڑھیں:کیا پاکستان کرپٹو کرنسی میں واقعی بھارت کے مقابلے میں آگے نکل گیا ہے؟
اس کے علاوہ اپنی دولت کا دکھاوا کرنے سے گریز کرنا بھی ضروری ہے تاکہ مجرموں کی توجہ نہ مبذول ہو۔
کرپٹو کڈنیپنگز کا بڑھتا ہوا رجحان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی کے ساتھ ساتھ جسمانی سیکیورٹی کے خطرات بھی بڑھ رہے ہیں، جن سے بچاؤ کے لیے محتاط رہنا ناگزیر ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اغوا الجزیرہ ڈیجیٹل کرنسی کرپٹو کڈنیپنگز کرپٹو کرنسی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اغوا الجزیرہ ڈیجیٹل کرنسی کرپٹو کرنسی کرپٹو کرنسی
پڑھیں:
اصلی اور اے آئی جنریٹڈ ویڈیوز میں فرق کس طرح کیا جائے، جانیے اہم طریقے
سوشل میڈیا پر آج کل آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) سے بنائی گئی ویڈیوز کا سیلاب آ گیا ہے لیکن ان جعلی ویڈیوز کو پہچاننے کا ایک اہم اشارہ ہے کہ کیا ویڈیو کی کوالٹی اتنی خراب ہے جیسے یہ کسی پرانے موبائل یا کمزور کیمرے سے بنائی گئی ہو؟
’یہ تو اصلی لگ رہی تھی‘ماہرین کے مطابق پچھلے 6 ماہ میں اے آئی ویڈیو بنانے والے ٹولز اتنے ترقی یافتہ ہو گئے ہیں کہ اب ہمیں حقیقت اور نقل میں فرق کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روسی صدر پیوٹن کی پاکستان کے خلاف جعلی ویڈیو بے نقاب، یہ ویڈیوز کیسے پھیلائی جاتی ہیں؟
کیلیفورنیا یونیورسٹی برکلے کے کمپیوٹر سائنسدان اور ڈیجیٹل فرانزکس کے ماہر ہینی فرید کہتے ہیں کہ سب سے پہلے ہم ویڈیو کی کوالٹی پر نظر ڈالتے ہیں۔ اگر تصویر دھندلی یا دانے دار ہے تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔
دھندلی ویڈیوز زیادہ خطرناک کیوں ہیں؟ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت جو اے آئی ویڈیوز ہمیں دھوکہ دے رہی ہیں وہ عموماً کم معیار کی ہوتی ہیں۔
وجہ یہ ہے کہ جب ویڈیو کو جان بوجھ کر دھندلا یا کم ریزولوشن میں رکھا جائے تو اس میں موجود چھوٹے نقائص جیسے عجیب حرکات، غیر فطری چہرے کے تاثرات یا پس منظر کی غلطیاں چھپ جاتی ہیں۔
مثال کے طور پر خرگوشوں کے ٹرامپولین پر اچھلنے والی جعلی ویڈیو کو ٹک ٹاک پر 24 کروڑ سے زیادہ بار دیکھا گیا۔
نیویارک سب وے میں 2 افراد کے ’محبت میں مبتلا‘ ہونے والی ویڈیو بھی لاکھوں لوگوں کو دھوکا دے گئی۔
اور ایک جعلی پادری کی ویڈیو، جس میں وہ دولت مند طبقے کے خلاف تقریر کر رہا تھا، لاکھوں لوگوں کو اصلی لگی۔
ان سب ویڈیوز میں ایک بات مشترک تھی جو یہ تھی کہ وہ سب کم معیار کی فوٹیجز تھیں۔
ویڈیوز اتنی مختصر کیوں ہوتی ہیں؟فرید کے مطابق جعلی ویڈیوز کی ایک اور پہچان ان کی لمبائی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اکثر ویڈیوز صرف 6 سے 10 سیکنڈ کی ہوتی ہیں کیونکہ طویل ویڈیو بنانا مہنگا اور مشکل ہے۔
مزید پڑھیے: ٹک ٹاک نے پاکستان میں مزید ڈھائی کروڑ ویڈیوز ڈیلیٹ کردیں
اسی طرح کم ریزولوشن اور زیادہ کمپریشن بھی ایک نشانی ہو سکتی ہے کیونکہ دھوکہ دینے والے اکثر ویڈیو کو جان بوجھ کر دھندلا کرتے ہیں تاکہ نقائص چھپ جائیں۔
اب آگے کیا ہوگا؟ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ مشورہ ہمیشہ کام نہیں کرے گا کیونکہ اے آئی تیزی سے بہتر ہو رہا ہے۔
ڈریکسل یونیورسٹی کے پروفیسر میتھیو اسٹام کہتے ہیں کہ 2 سال کے اندر یہ ظاہری نشانات ختم ہو جائیں گے اور ہم اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں کر سکیں گے تاہم امید ابھی باقی ہے۔
ڈیجیٹل فورینسک کے ماہرین ایسے ڈیجیٹل فنگر پرنٹس پر کام کر رہے ہیں جن سے ویڈیو کے اصلی یا جعلی ہونے کا پتا لگایا جا سکے۔ مستقبل میں ممکن ہے کیمرے خود ویڈیو میں تصدیقی ڈیٹا (میٹا ڈیٹا) شامل کریں تاکہ اس کی اصلیت ثابت ہو سکے۔
ڈیجیٹل لٹریسی ماہر مائیک کولفیلڈ کے مطابق مسئلے کا حل ٹیکنالوجی نہیں بلکہ ہمارا رویہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں سیکھنا ہوگا کہ ویڈیوز کو بھی تحریر کی طرح دیکھیں صرف دیکھنے سے یقین نہ کریں بلکہ اس کا ماخذ، سیاق و سباق اور پوسٹ کرنے والے شخص کو پرکھیں۔
مائیک کولفیلڈ نے کہا کہ اب کسی ویڈیو کو صرف دیکھ کر اصلی سمجھنا خطرناک ہو گیا ہے اور حقیقت جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ پوچھیں کہ یہ ویڈیو کہاں سے آئی؟
مزید پڑھیں: ڈیپ فیک چہرے کے ساتھ پہلی سرٹیفائیڈ جعلی ویڈیو جاری کر دی گئی
انہوں نے کہا کہ یہ دیکھیں کہ یہ ویڈیو کس نے اپلوڈ کی ہے اور کیا کسی معتبر ذریعے نے اس کی تصدیق کی ہے؟
جیسا کہ پروفیسر اسٹام کہتے ہیں یہ 21ویں صدی کا سب سے بڑا انفارمیشن سیکیورٹی چیلنج ہے لیکن ہم ابھی ہار ماننے کے لیے تیار نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اصلی اور نقلی ویڈیو میں پہچان اے آئی ویڈیو ڈیپ فیک