غزہ : اسرائیل کی بربریت جاری ،وحشیانہ بمباری سے مزید 108 فلسطینی شہید،393 زخمی ، عرب میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, June 2025 GMT
غزہ(نیوزڈیسک)اسرائیل کی غزہ پر وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جاری ہے، جس کے نتیجے میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید 108 فلسطینی شہید اور 393 سے زائد زخمی ہو گئے۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے شمالی غزہ کے علاقے جمالیہ، جنوبی شہر رفاح سمیت مختلف علاقوں میں پناہ گزین کیمپوں اور رہائشی گھروں کو نشانہ بنایا۔
بمباری کے دوران کتائب المجاہدین کے سینئر کمانڈر اسعد ابو شریعہ بھی شہید ہو گئے۔ فلسطینی وزارت صحت کے مطابق امدادی سرگرمیوں کے دوران شہریوں پر کی گئی اسرائیلی فائرنگ سے اب تک 115 افراد شہید ہو گئے ہیں۔
غزہ میں اسپتالوں پر دباؤ شدید ہے جبکہ متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں بھی خطرات سے دوچار ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے عالمی برادری سے فوری مداخلت اور سیزفائر پر زور دیا ہے۔
فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے 18 مارچ کو جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دوبارہ حملے شروع کیے، جس کے بعد سے اب تک 4,603 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ غزہ میں جاری حملوں کے نتیجے میں شہدا کی مجموعی تعداد بڑھ کر 54,880 تک پہنچ گئی ہے۔
غزہ کے ہسپتالوں پر دباؤ شدید جبکہ متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں بھی خطرات سے دوچار ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے عالمی برادری سے فوری مداخلت اور سیزفائر پر زور دیا ہے۔
پاکستان میں قابل استعمال پانی کے ذخائر نیچے جانے لگے، 3 لاکھ 62 ہزار ایکڑ فٹ کی کمی ریکارڈ
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
شام کی صورتحال شہید سید ابراہیم رئِسی کے معاون کی آنکھ سے
ایک ٹی وی پروگرام میں پروفیسر سید محمد حسینی کا کہنا تھا کہ اب بہت سی اقوام پر واضح ہو چکا ہے کہ اصل خطرہ ایران نہیں بلکہ امریکہ و اسرائیل ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ سابق ایرانی صدر شہید "سید ابراہیم رئیسی" کے معاون، پروفیسر "سید محمد حسینی" نے نیشنل ٹی وی پر شام کی صورت حال پر تبصرہ کیا۔ اس حوالے سے سید محمد حسینی نے کہا کہ آج کل شام میں اہم واقعات رونماء ہو رہے ہیں۔ اسرائیل نے جولانی گینگ جیسے دہشت گرد گروہ کے زیر استعمال صدارتی محل اور فوجی ہیڈکوارٹر کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا۔ حالانکہ شام کے پاس نہ تو کوئی جوہری پروگرام ہے، نہ ہی یورینیم افزودگی کا نظام، نہ میزائل کی صلاحیت اور نہ ہی مؤثر فضائی دفاع۔ اس ملک کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے اور یہ کسی کے لیے بھی سنگین فوجی خطرہ نہیں۔ اس کے باوجود دشمن شام پر بمباری اور مداخلت جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ حقیقت اسرائیل کے مقاصد کی نوعیت کو ظاہر کرتی ہے۔ وہ شام کو ٹکڑوں میں بانٹنا چاہتے ہیں۔ ترکیہ سے وابستہ حلب کی حکومت، امریکہ سے وابستہ کردوں کی حکومت، دروزیوں کی ایک الگ حکومت، اور دمشق یا علویوں کی حکومت کے قیام کی بات کی جا رہی ہے۔ یہ واضح طور پر شام کے حکومتی ڈھانچے کے مکمل ٹوٹنے کی منصوبہ بندی کو ظاہر کرتا ہے۔
پروفیسر سید محمد حسینی نے کہا کہ اسرائیل کا ہدف صرف شام اور لبنان تک محدود نہیں۔ اگر وہ کر سکیں تو عراق، سعودی عرب، مصر اور خطے کے دیگر ممالک کو بھی نشانہ بنائیں گے۔ وہ ایک ایسا علاقائی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں جہاں طاقت ان کے ہاتھ میں ہو اور باقی ممالک ان کے تابع۔ انہوں نے کہا کہ خوش قسمتی سے آج عالم اسلام میں وسیع پیمانے پر بیداری پیدا ہوئی ہے۔ گذشتہ دور میں، ایران کو علاقائی خطرے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا لیکن اب بہت سی اقوام پر واضح ہو چکا ہے کہ اصل خطرہ ایران نہیں بلکہ امریکہ و اسرائیل ہیں۔ یہی عوامی بیداری ہے جس کی وجہ سے قومیں اسلامی جمہوریہ ایران کے موقف کی حمایت کر رہی ہیں اور یہاں تک کہ بہت سی حکومتیں بھی ساتھ دینے پر مجبور ہو گئی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پہلی بار ہم نے دیکھا کہ اسلامی ممالک اور یہانتک کہ عرب لیگ بھی ایران کے موقف کی حمایت کر رہے ہیں۔ اس کا عالمی عوامی رائے پر مثبت اثر پڑا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہ رجحان مستقبل میں بھی جاری رہے گا اور مزید مضبوط ہوگا۔