چین نے بھارت کو نایاب دھاتوں کی برآمد پر پابندی لگا دی
اشاعت کی تاریخ: 10th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بیجنگ (انٹرنیشنل ڈیسک) چین نے بھارت کو نایاب دھاتوں کی برآمد پر پابندی لگا دی۔ خبررساں اداروں کے مطابق چین کا اہم قدم بھارتی معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی بن گیا۔ آٹو انڈسٹری میں چین پر انحصار نے بھارت کو بے بس کر دیا ہے۔ بھارت کی الیکٹرک گاڑیوں کی تیاری متاثر ہو گئی ہے اور صنعت میں ہلچل مچ گئی ہے۔ ای وی موٹرز کے لیے درکار نایاب میگنٹس کی سپلائی معطل کر دی گئی ہے جبکہ بھارت کی روایتی گاڑیوں کی پیداوار بھی پابندی سے متاثر ہوئی ہے۔نایاب دھاتوں میں چین کی اجارہ داری ہے اور بھارت کے پاس کوئی متبادل نہیں۔ اس اقدام سے بھارتی آٹو انڈسٹری میں شور مچ گیا ہے اور حکومت سے فوری مداخلت کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ بھارتی کارخانوں کی بندش کے خدشے کے ساتھ ساتھ روزگار پر بھی منفی اثرات سامنے آ رہے ہیں۔چین کی پابندی سے مودی سرکار کے میک ان انڈیا دعوے کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔ اس اقدام سے بھارت میں گاڑیوں کی قیمتوں میں ممکنہ اضافہ متوقع ہے جبکہ بھارت کی صنعتی خودمختاری پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ ایک بار پھر بھارتی صنعت غیر ملکی رحم و کرم پر ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
بارود اور دلیل کا چراغ
(گزشتہ سے پیوستہ)
پانی صرف ایک قدرتی وسیلہ نہیں،بلکہ قومی سلامتی،زراعت،روزگاراورانسانی بقاکاِلازم جزو ہے۔ بھارت نے پانی کی راہ روکی، اورگویایہ پیغام دیاکہ ’’جنگ کے بغیربھی جنگ کی جاسکتی ہے،میں صرف جنگ سے نہیں،پانی سے بھی تمہیں زیرکر سکتا ہوں‘‘۔ اوربھارت کی آبی جارحیت اسکی ایک مثال ہے۔یہ اقدام بظاہرسادہ،مگرحقیقتاًایک معاشی و جغرافیائی حملہ ہے۔سیزفائرکے باوجود پانی روکنا بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔یہ پیغام دراصل پاکستان کوغیرعسکری طریقے سے زیرکرنے کی کوشش ہے۔قطرہ جوسمندربن جائے، وہ کبھی روکانہیں جاسکتا، مگراگربندہوجائے ،تو ساری زمین پیاسی ہوجاتی ہے۔ یہ پیغام امن کے دعوے کی نفی،اورجارحیت کاعملی مظاہرہ ہے۔
بھارت نے گنگاکشن ڈیم سےپانی روک کرنہ صرف سندھ طاس معاہدے کی روح کومجروح کیا بلکہ ایک خاموش جنگ چھیڑدی۔ بھارت کی طرف سے گنگاکشن ڈیم سے دریاؤں کا پانی روکنا گویا اعلانِ جنگ کے مترادف ہے،اگرچہ الفاظ میں امن کالبادہ اوڑھ رکھاہے۔اس عمل کا مقصد پاکستان کے زرعی خطوں کوبنجربنانا،معاشی وماحولیاتی دباؤپیداکرنا،سندھ طاس معاہدے کوایک بے معنی دستاویز بنادینااس کی مکروہ منزل کاپتہ دیتی ہے۔یاد رکھیں کہ وہ جودریابہتاہے،وہ خون کی مانندہےاورجواسے روکتا ہےوہ خنجرتھامے ہوئے ہے۔ اس سے یہ بھارتی روش کاپتہ چلتاہے کہ بھارت کی عسکری تیاری اورآبی جارحیت میں مکمل مطابقت ہے۔جس ہاتھ میں میزائل ہے،اسی ہاتھ میں پانی کاکنٹرول، اوریہ دونوں خطرناک ہیں۔
1960ء میں سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ضمانت سے طے پایاتھاکہ بھارت تین مشرقی دریاؤں(بیاس،راوی،ستلج)کامالک ہےاور پاکستان تین مغربی (سندھ،جہلم، چناب) کا،لیکن اب بھارت مغربی دریاؤں میں بھی رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔یہ اقدام واضح طورپر پاکستان کی زرعی معیشت کونشانہ بناناہے۔یادرہے کہ دریاجو روکا جائے،توزخم صرف زمین کونہیں لگتا،قوم کی روح بھی سسکتی ہے۔پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ عالمی بینک سے فوری رابطہ کرکےاسے ملوث کیاجائے اوربھارت کی ہٹ دھرمی کے خلاف بین الاقوامی عدالتِ انصاف میں مقدمہ دائر کیا جائے۔اقوام متحدہ میں سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کے ممکنہ نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے ان کوبتایاجائے کہ یہ پاکستان کی حیات وموت کاسوال ہے اوراس پرکسی بھی قسم کے انحراف کی اجازت نہیں دی جاسکتی اوراس عمل پرپاکستان اپنافوری ردعمل کااظہار کرنےکاپابند ہے۔علاوہ ازیں فوری طورپرنئے متبادل آبی ذخائر کی منصوبہ بندی کی جائے اورکالاڈیم کی مخالفت کرنے والوں کی بھی اب آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ انہوں نے نہ صرف ملک بلکہ اپنے علاقوں کی زرعی ترقی پرکس ظالمانہ طریقے سے کاری وارکئے ہیں۔
جنوبی ایشیا،خصوصاًپاکستان،پچھلی کئی دہائیوں سے دہشت گردی کے شدیدخطرے کا سامنا کر رہا ہے، مگرحالیہ برسوں میں بھارت کی جانب سے پاکستان کے اندردہشتگردانہ کارروائیوں میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔بھارتی خفیہ ایجنسی رانہ صرف پاکستان کے اندر حملوں کی منصوبہ بندی میں ملوث ہے بلکہ بلوچستان میں علیحدگی پسندگروپوں کی مالی اورعسکری معاونت بھی کررہی ہے۔اس کا مقصدپاکستان کواندرونی طورپرغیرمستحکم کرنا ہے۔ بھارت بلوچستان میں کئی دہائیوں سے بدامنی کو ہوا دے رہاہے۔بھارتی پراکسیزکی کارروائیوں میں معصوم شہریوں اور سکولوں کے بچوں پرحملے، مساجد، مارکیٹوں اورریل گاڑیوں کونشانہ بنایاگیا ہے۔حالیہ واقعہ جعفرایکسپریس پرحملہ بھی انڈین دہشت گردی کا شاخسانہ ہے،جس میں متعددبے گناہ مسافر شہید ہوئے۔یہ واقعہ ریاستی دہشت گردی کی ایک سفاک مثال ہے،جس میں عام شہریوں کو دانستہ نشانہ بنایاگیا۔
پاکستان نے متعددبارعالمی اداروں کے سامنے یہ شواہدرکھے کہ بھارت کس طرح سے علیحدگی پسند تنظیموں کواسلحہ،رقم،اور تربیت فراہم کررہاہے۔ بھارتی نیوی کے حاضرسروس افسر کل بھوشن یادیوکی گرفتاری اس ریاستی مداخلت کاواضح ثبوت ہے۔یادیو نے اعتراف کیاکہ وہ ایران کے راستے بلوچستان آیااورمختلف گروپوں کومسلح بغاوت پراکسارہاتھا۔ابھی حال ہی میں ایک مرتبہ پھرانڈین’’را‘‘کی سازش کے تحت بلوچستان کی بس میں شہیدہونے والے چھ معصوم بچے دنیاکے ضمیرپرایک سوالیہ نشان ہیں۔ معصوم بچوں کی شہادت ایک ایسازخم ہے جوصرف ایک علاقے کانہیں،پوری انسانیت کا ہے۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے عالمی میڈیاکے سامنے بھارتی دہشت گردی کے ثبوت پیش کئے، جن میں گرفتاردہشت گردوں کے اعترافی بیانات، اسلحہ،نقشے، بھارتی کرنسی،اوردیگر موادشامل ہیں۔ یہ ثبوت اقوام متحدہ سمیت دیگرعالمی اداروں کوبھی فراہم کئے جاچکے ہیں۔پاکستان نے جوشواہدپیش کیے،وہ محض الزامات نہیں،حقائق کی وہ شمعیں ہیں جوظلم کی تاریکی کوچیرسکتی ہیں۔اب امریکااور برطانیہ کی غیر جانبداری کا امتحان ہے۔
پاکستان نے جوشواہدعالمی برادری کوپیش کئے، ان پراب تذبذب نہیں،اقدام کی ضرورت ہے۔اگر اقوامِ عالم اب بھی خاموش ہیں تویہ خاموشی مجرمانہ ہے۔بلوچستان میں بین الاقوامی قوانین کی روح اس بات کی متقاضی ہے کہ سٹیٹ اسپانسرڈ ٹیررزم کے خلاف فوری اورمؤثراقدامات کیے جائیں۔بھارت کی پراکسیزکے ذریعے اندرونی عدم استحکام کی کوششیں عالمی قانون کی صریح خلاف ورزی ہیں۔اقوامِ متحدہ کی خاموشی ایک مجرمانہ چشم پوشی بن چکی ہے۔امریکااور برطانیہ،جوسیزفائرکے داعی ہیں، اگربھارت کے خلاف کوئی مؤثرقدم نہیں اٹھاتے توان کی غیرجانبداری پرسوالیہ نشان اور انصاف ایک عالمی مذاق بن جائے گا۔بھارت کی دہشتگردانہ سازشیں محض عسکری نوعیت کی نہیں بلکہ ایک منظم ہائبرڈ وارہے جس میں میڈیا پروپیگنڈہ، سائبرحملے، معاشی دبا، سفارتی محاذپرپاکستان کوتنہا کرنے کی کوشش شامل ہیں۔اس کا مقصدپاکستان کوعالمی سطح پرکمزورکرنااوراندرونی خلفشار پیداکرنا ہے۔
( جاری ہے )