بجٹ میں تنخواہ دار طبقہ کو ریلیف کیساتھ کاروباری افراد کو ٹیکس چھوٹ دی: مصطفیٰ کمال
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
اسلام آباد (ویب ڈیسک) وفاقی وزیر قومی صحت سید مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ بجٹ اچھی خبروں کے ساتھ آیا، تنخواہ دار طبقہ کیلئے ریلیف کے ساتھ کاروباری طبقہ کو ٹیکس چھوٹ دی گئی۔
وفاقی وزیر مصطفیٰ کمال نے بجٹ اجلاس کے بعد پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ مہنگائی کی شرح 30 فیصد سے کم ہو کر 6 فیصد پر آنا بھی خوش آئند ہے، موجودہ حالات میں حکومت نے متوازن بجٹ پیش کیا ہے اور وفاقی بجٹ اچھی خبروں کے ساتھ آیا ہے۔
مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ اور ٹیکس میں کمی کے ذریعے ریلیف دیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ کاروباری طبقہ کیلئے بھی ٹیکسوں پر چھوٹ دینے سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا۔
انہوں نے مزید کہاکہ حالات کے مطابق بہترین بجٹ دینے کی کوشش کی گئی ہے، قومی اسمبلی اور سینیٹ میں جب بجٹ تجاویز پر بحث ہوگی تو اس میں مزید بہتری آئے گی۔
Post Views: 2.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
وفاقی حکومت کا بڑا فیصلہ: سرکاری ملازمین کے ہاؤس رینٹ سیلنگ میں 85 فیصد اضافہ منظور
وفاقی حکومت نے سرکاری ملازمین کے لیے ایک بڑا ریلیف پیکج منظور کرتے ہوئے ہاؤس رینٹ سیلنگ میں 85 فیصد اضافہ کر دیا ہے۔
نجی میڈیا کے مطابق، وفاقی کابینہ نے وزارتِ ہاؤسنگ اینڈ ورکس کی جانب سے پیش کی گئی سمری کی منظوری دے دی، جس کے تحت گریڈ 1 سے 22 تک کے تمام وفاقی ملازمین کو اس اضافے کا یکساں فائدہ حاصل ہوگا۔
یہ اضافہ سرکاری ملازمین کی بڑھتی ہوئی رہائشی مشکلات اور کرایوں میں اضافے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ حکومت کے مطابق، اس فیصلے سے وفاقی اداروں میں تعینات سیکڑوں سرکاری اہلکاروں کو براہِ راست فائدہ پہنچے گا، تاہم اس سے قومی خزانے پر تقریباً 12 ارب روپے سالانہ کا اضافی بوجھ بھی پڑے گا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کئی سالوں سے ہاؤس رینٹ سیلنگ میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کیا گیا تھا، جبکہ حالیہ معاشی صورتحال میں رہائش کے اخراجات مسلسل بڑھ رہے تھے۔ ملازمین کی جانب سے اس اضافے کا مطالبہ عرصے سے کیا جا رہا تھا، جسے اب حکومت نے تسلیم کر لیا ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ فیصلہ اگرچہ ملازمین کے لیے ریلیف کا باعث ہے، لیکن وفاقی بجٹ پر اس کے اثرات نمایاں ہوں گے۔ اس اضافے سے ایک طرف سرکاری عملے کی فلاح یقینی بنے گی تو دوسری طرف مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھنا وزارتِ خزانہ کے لیے ایک نیا چیلنج ہوگا۔