اسلام آباد(نیوز ڈیسک)دنیا بھر میں سیاحت ایک اہم معاشی اور ثقافتی سرگرمی ہے، لیکن بعض ممالک میں یہ شعبہ شدید زوال کا شکار ہے۔

جغرافیائی سیاسی کشیدگی، سیکیورٹی خطرات، اور سخت گیر حکومتی پالیسیوں نے ایسے کئی ممالک کو متاثر کیا ہے جو کبھی اپنی تاریخی ورثے، قدرتی مناظر اور تہذیبی تنوع کی بدولت دنیا بھر کے سیاحوں کواپنی جانب کھینچتے تھے۔

یہ رپورٹ اُن سات ممالک پر روشنی ڈالتی ہے جہاں حالیہ برسوں میں سیاحوں کی آمد میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

وجوہات میں جنگی تنازعات، انسانی حقوق کی پامالیاں، داخلی بدامنی، سفری پابندیاں، اور عالمی سطح پر منفی تاثر شامل ہیں۔ اس فہرست کا مقصد صرف اعداد و شمار پیش کرنا نہیں، بلکہ ان پیچیدہ عوامل کو اجاگر کرنا ہے جو کسی ملک کے پرکشش سیاحتی مقام سے تنہائی کی طرف سفر کی نشاندہی کرتے ہیں۔

افغانستان: خوبصورتی، مگر رسائی نہیں

ایک وقت تھا جب افغانستان بہادر اور مہم جو سیاحوں کے لیے ایک پُرکشش منزل ہوا کرتا تھا۔ مگر طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ملک میں حالات شدید بگڑ چکے ہیں۔ اب سیاحت میں 90 فیصد سے زائد کمی واقع ہو چکی ہے۔

ملک میں ہر طرف سیکیورٹی چوکیاں، متنازع علاقے اور عدم تحفظ کا ماحول ہے۔ یہاں تک کہ بامیان کے تاریخی بدھ مجسمے جیسے مقامات بھی سیاحوں کے لیے بند ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ نے افغانستان کے لیے سخت ترین سفری وارننگ (لیول 4) جاری کرتے ہوئے، تمام سفر سے گریز کا مشورہ دیا ہے۔

انسانی بحران، تباہ حال انفراسٹرکچر اور صحت کی سہولیات کی کمی نے اسے مزید خطرناک بنا دیا ہے۔

وینزویلا: قدرتی خوبصورتی کے باوجود بے یقینی کا راج

کبھی اینجل فالس اور قدرتی عجائبات کے لیے مشہور وینزویلا آج معاشی بحران، جرائم میں اضافے اور بدامنی کا شکار ہے۔

ملک میں سڑکوں پر لوٹ مار، صحت کی ناکافی سہولیات، اور سیاسی عدم استحکام نے سیاحوں کی آمد تقریباً بند کر دی ہے۔

امریکہ سمیت کئی ممالک نے وینزویلا کے لیے لیول 4 سفری انتباہ جاری کیا ہے، جبکہ بین الاقوامی ایئرلائنز نے پروازیں بند کر دی ہیں۔

ٹریول انشورنس کمپنیاں بھی اب اس ملک کے لیے کوریج نہیں دیتیں، جس کے باعث غیر ملکی سیاحوں کے لیے وینزویلا عملی طور پر ناقابل رسائی بن چکا ہے۔

شام: تاریخ کی سرزمین، جنگ کا میدان

شام، جو کبھی پالمیرا، حلب اور دمشق جیسے قدیم اور تاریخی شہروں کے لیے مشہور تھا، اب جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار ہو چکا ہے۔

طویل خانہ جنگی نے ملک کا سیاحتی ڈھانچہ تباہ کر دیا ہے۔ بیشتر تاریخی مقامات یا تو مٹی میں مل چکے ہیں یا مکمل طور پر بند ہیں۔

2024 میں صرف 10,000 سے بھی کم سیاح شام پہنچ سکے، جبکہ جنگ سے پہلے یہ تعداد لاکھوں میں تھی۔

ملک میں اغوا، بم دھماکوں اور دہشت گردی کے مسلسل خطرات کے باعث سیاحتی کمپنیاں بھی کام بند کر چکی ہیں، اور بیشتر علاقے سڑکوں سے کٹ چکے ہیں۔

بیلاروس: سیاسی کشیدگی کا شکار ملک، سیاحوں سے دور

بیلاروس میں 2020 کے متنازع صدارتی انتخابات کے بعد سے ملک شدید سیاسی دباؤ اور عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے۔

2023میں یہاں آنے والے غیر ملکی سیاحوں کی تعداد میں 60 فیصد سے زائد کمی دیکھی گئی۔

ملک میں ویزا حاصل کرنے میں دشواریاں، غیر ملکیوں پر شکوک، اور سخت نگرانی نے سفر کو خطرناک اور غیر آرام دہ بنا دیا ہے۔

مغربی ممالک کی اقتصادی پابندیوں نے نہ صرف فضائی سفر اور مالیاتی خدمات کو متاثر کیا ہے بلکہ بنیادی سفری سہولیات تک رسائی بھی محدود کر دی ہے۔

ایران: ثقافتی دولت کے باوجود سیاحت کی زوال پذیری

ایران، جو کبھی اپنے تاریخی مقامات، بازاروں اور اسلامی فنِ تعمیر کے لیے مشہور تھا، اب سیاحوں کے نقشِ قدم سے خالی ہوتا جا رہا ہے۔

2019 کے بعد سے سیاحوں کی آمد میں 50 فیصد سے زیادہ کمی ہو چکی ہے۔

مغربی دنیا اور ایران کے درمیان بڑھتی کشیدگی نے ویزا کے حصول کو مشکل بنا دیا ہے، جبکہ من مانی گرفتاریوں کا خوف بھی غیر ملکیوں کو روک رہا ہے۔

امریکی حکومت نے اپنے شہریوں کے لیے سفر نہ کرنے کی سخت تنبیہ جاری کر رکھی ہے، جبکہ ایران کے اندر بڑھتی سماجی پابندیاں اور ریاستی نگرانی سیاحتی تجربات کو مزید محدود کر رہی ہیں۔

میانمار: قدرتی حسن، لیکن سناٹا

میانمار، جو کبھی باغان کے مندروں اور انلے جھیل کی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور تھا، آج فوجی بغاوت اور سیاسی عدم استحکام کی لپیٹ میں ہے۔

فوجی قبضے کے بعد ملک میں سیاحت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ ملک بھر میں سفری پابندیاں، بجلی کی بار بار بندش، اور بنیادی ڈھانچے کی بگڑتی حالت نے سیاحوں کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔

امریکہ سمیت دیگر ممالک نے لیول 4 سفری وارننگ جاری کر دی ہے، اور بیشتر بین الاقوامی ایئرلائنز نے پروازیں منسوخ کر دی ہیں۔ سیاحت پر انحصار کرنے والے مقامی کاروبار اب خود غیر ملکیوں کو سفر ملتوی کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں، تاوقتیکہ امن بحال نہ ہو جائے۔

یہ مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ امن، سہولت، اور اعتماد کے بغیر کوئی ملک اپنی قدرتی یا ثقافتی خوبصورتی سے سیاحت کو فروغ نہیں دے سکتا۔

جب تک ان ممالک میں سیاسی، سماجی اور معاشی استحکام واپس نہیں آتا، وہاں سیاحت صرف ایک دور کا خواب ہی رہے گی۔
مزیدپڑھیں:سلیم نے شادی کیلئے کئی سال تک منایا: ماہرہ کا انکشاف

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: سیاحوں کے لیے سیاحوں کی جو کبھی کا شکار ملک میں دیا ہے کے بعد

پڑھیں:

یہ جنگ مرد و عورت کی نہیں!

مان لیجیے جو ہم نے عنوان میں کہا کہ مرد و عورت کی جنگ نہیں، سمجھ لیں کہ جنسی تلذذ کی بھی بات نہیں نہ ہی خود ساختہ عزت وغیرت کا قصہ ہے۔۔۔ یہ بھی سمجھ لیں کہ انا کو ٹھیس، غصہ، مایوسی وغیرہ وغیرہ بھی ایک ایسا پردہ ہے جس کی آڑ میں اصل بات کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

پھر اصل بات کیا ہے؟

جناب عالی، اصل کہانی یہ ہے کہ یہ سب طاقت اور کمزور کا کھیل ہے، زندگی کی بساط پہ کمزور مہرہ محکوم ہے اور اس کی کیا مجال کہ وہ طاقتور کو ٹیڑھی نظر سے دیکھے ۔ پچھلے 50 برس میں یہ پیغام معاشرے کے ہر طبقے اور سطح پر پہنچا ہے اور معاشرے کے ہر فرد نے اسے حصہ بقدر جثہ کے طور پہ قبول کرتے ہوئے اس پہ عمل بھی کیا ہے۔

ہم ماتم کرتے ہیں، نوحے لکھتے ہیں، چیختے چلاتے ہیں اور ابھی آنسو خشک نہیں ہوئے ہوتے کہ ایک اور خبر آ جاتی ہے۔ ایک اور کمزور پکڑا جاتا ہے چاہے بچہ ہو یا عورت، بوڑھا، مزدور، غریب یا کوئی اور؟

سوال یہ ہے کہ گزرے واقعات طاقتور کو کسی بھی ڈر، سزا کے خوف میں مبتلا کیوں نہیں کرتے؟ ظلم کرتے ہوئے ان کا ہاتھ رکتا کیوں نہیں؟

شاید اس لیے کہ لاشعور انہیں یہ تسلیم کروا چکا ہے کہ اول تو وہ پکڑے نہیں جائیں گے اور اگر ایسا بھی ہو گیا تو ان جیسے بے شمار پشت پناہی کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں گے۔ ہر جگہ خیر خواہ مل جائیں  گے چاہے وہ جیل ہو یا عدالت … پھر کیسا ڈر اور کیسا خوف؟

صاحب ، طاقت کا استعمال ایک نشہ ہے انتہائی خوفناک نشہ۔ جب یہ علم ہو کہ سامنے والا کچھ نہیں کر سکتا اورمنہ سے نکلنے والے الفاظ اور ہاتھ پاؤں کی ٹھوکروں کو روکنے والا کوئی نہیں تو طاقتور جنگل میں رہنے والا درندہ بن جاتا ہے جس کے منہ کو انسانی خون کی لت لگ جاتی ہے اور وہ شکار کرنے کے لیے ہر وقت بے تاب رہتا ہے۔

لیکن بربریت کے اس کھیل میں ذرا طاقتور اور کمزور کی جگہ بدل کر دیکھیے :

کیا ہوتا اگر شانتی نے لوہے کی راڈ اپنے شوہر کے مقعد میں گھسائی ہوتی؟

کیا ہوتا اگر بلوچستان کی ہر عورت کے ہاتھ میں کلاشنکوف ہوتی اور وہ کچھ مردوں کو گھیرے میں لے کر گولیاں برسا رہی ہوتیں؟

کیا ہوتا اگر سوات کے مدرسے میں شاگردوں نے مل کر استاد کو اسی طرح پیٹا ہوتا اور وہ موت کے گھاٹ اتر جاتا؟

کیا ہوتا اگر ڈاکٹر سدرہ کے پاس پستول ہوتا اور وہ بھی مقابلے پہ اتر آتی؟

کیا ہوتا اگر اپنی بچیوں کو نہر میں پھینک دینے والے مرد کو 4 عورتیں ہاتھ پاؤں باندھ  کر اسی نہر میں پھینک دیتیں؟

کیا ہوتا اگر کنزی نے کزن کو زہریلی گولیاں کھلا کر سڑک کے کنارے پھینکا ہوتا؟

یا ہوتا اگر مانانوالہ کی اقری شوہر کو مار مار کے موت کے گھاٹ اتار دیتی؟

کیا ہوتا جو سندھ میں فرزانہ کلہاڑی سے اپنے شوہر علی نواز کے ٹکڑے کرتی؟

کیا ہوتا عورتیں باپ کی وراثت پہ قابض ہوتیں اور بھائیوں کو حصہ دینے سے انکار کر دیتیں؟

کیا ہوتا اگر حمیرااصغر کے بھائی کی لاش ملتی اور گھر کی عورتیں لینے سے انکار کر دیتیں؟

کیا ہوتا اگر سیالکوٹ میں ارم اپنے 3 بچوں کے باپ عمران کو قتل کرتی؟

کیا ہوتا اگر اسلام آباد کی بچی ثنا یوسف لڑکے کے جسم میں گولیاں مارتی؟

کیا ہوتا اگر ماریہ اور اس کی ماں مل کر اپنے بیٹے کا گلا دباتیں اور دوسری بہن وڈیو بناتی؟

کیا ہوتا اگر سارہ انعام شاہنواز کے سر پہ ڈمبل مار کر ہلاک کرتی؟

کیا ہوتا اگر نور مقدم ظاہر جعفر کی گردن اتار دیتی؟

کیا ہوتا اگر عورتیں قبریں کھود کر مردہ مردوں سے کھیلتیں؟

کیا ہوتا اگر جگہ جگہ مرد ریپ ہوتے؟ ( شانتی قتل کیس نے یہ سجھا دیا ہے کہ عورتیں بھی لوہے کی راڈ استعمال کر سکتی ہیں)

کیا ہوتا اگر راولپنڈی کے قاری صاحب کے جنسی اعضا پر ان کی بیوی کرنٹ چھوڑتی اور قاری کو تڑپتے دیکھ کر خوش ہوتی؟

ہمیں لگتا ہے کہ طاقتور کے وحشیانہ پن کو قابو کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ کمزور مقابلہ کرنا سیکھے کیونکہ طاقتور سے کسی بھی قسم کے رحم کی توقع عبث ہے، اب تک یہ سب نے دیکھ ہی لیا ہے۔

ایک اور اہم بات جو کسی زہر کی طرح معاشرے میں سرایت کر گئی ہے وہ، وہ کلچر ہے جس کی بنا پہ گھریلو اکائی میں طاقتور یہ ماننے پہ تیار نہیں کہ وہ اپنی حدود پار کرتے ہوئے اپنے سے کمزور پہ تشدد کر رہا ہے۔ یہاں یہ بھی یاد رکھیں کہ صرف جسمانی طور پہ مضروب ہونا ہی تشدد نہیں، ذہنی، جذباتی، معاشی تشدد بھی انسان کو بری طرح مضروب کرتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ مارے گئے تھپڑ وں کے نتیجے میں نیلو نیل جسم سب کو نظر آ جائے گا مگر نیلو نیل دماغ، روح اور دل کسی کھاتے میں نہیں گنا جاتا۔ جسم کا زخم اگر داغ چھوڑ سکتا ہے تو سوچیے دماغ اور روح پہ لگے گھاؤ کے داغ بھی تو ہوں گے نا ۔۔۔ جو کمزور کو ساری عمر کے لیے نہ کم ہونے والی تکلیف اور درد میں مبتلا رکھیں گے۔

سو صاحب، آپ کو بس اتنا کرنا ہے کہ جہاں بھی کمزور نظر آئے، اس کا ساتھ دینے کی کوشش کریں، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔ اور یہ یاد رکھیے کہ کمزور اور طاقتور کے درمیان فرق صرف جسمانی نہیں بلکہ معاشی، معاشرتی، ذہنی، طبقاتی، مالی فرق بھی اہمیت رکھے گا۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی

بلوچستان دہرا قتل عورت اور مرد کراچی کی شانتی کمزور اور طاقتور

متعلقہ مضامین

  • وہ وقت ضرور آئے گا جب آپ لوگ چُھپیں گے اور ہم آپ کو گھسیٹیں گے، جنید اکبر کا ورکرز کنونشن سے خطاب
  • عمان میں موجود پاکستانیوں کیلئے اہم خبر، 31 جولائی تک یہ کام ضرور کر لیں
  • عمان میں موجود پاکستانیوں کیلیے اہم خبر، 31 جولائی تک یہ کام ضرور کر لیں
  • بانی پی ٹی آئی سیاست میں آنے سے پہلے چندے کیلئے میرے پاس آتے تھے: اسحاق ڈار
  • خیبرپختونخوا میں سیاحتی مقامات اور سیاحوں سے متعلق ایڈوائزری جاری
  • فیری میڈوز روڈ سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے باعث بند، سیاح ریسکیو کیے جانے کے منتظر
  • جب بارشیں بے رحم ہو جاتی ہیں
  • یہ جنگ مرد و عورت کی نہیں!
  • خیبرپختونخواہ انتظامیہ نے کاغان میں 500 سیاحوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچا لیا
  • وزیرِ اعظم آزاد کشمیر چوہدری انوار الحق سے سردار یاسر الیاس کی ملاقات ، سیاحت کے فروغ اور سرمایہ کاری کے مواقع پر تفصیلی تبادلہ خیال