لاہور ہائیکورٹ کا رات 12 بجے کے بعد ریسٹورنٹس کھلے رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
لاہور:
لاہور ہائیکورٹ نے رات بارہ بجے کے بعد ریسٹورنٹس کھلے رکھنے والوں کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔
جسٹس شاہد کریم نے ہارون فاروق سمیت دیگر کی درخواستوں پر سماعت کی جس میں محکمہ ماحولیات سمیت دیگر محکموں کے افسران پیش ہوئے۔
سماعت کے دوران عدالت نے حکم دیا کہ ریسٹورنٹس رات بارہ بجے کے بعد کھلے رکھنے والوں کے خلاف کارروائیاں کی جائیں، کینال روڈ سے درخت عدالت کی اجازت کے بغیر نہ کاٹے جائیں۔
وکیل پی ایچ اے نے مؤقف اختیار کیا کہ درختوں سے متعلق ڈی جی پی ایچ اے کی جانب سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔ اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ڈی جی کو اپنے بیان پر معذرت کرنی چاہیے۔
عدالت نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر پی ایچ اے نے درخت کاٹے تو آپ کا لائسنس کینسل ہوگا۔
عدالت نے کہا کہ یلو پروجیکٹ کے منصوبے کے خلاف نہیں، یلو لائن منصوبے پر انڈیپنڈنٹ کنسلٹنٹ کا آرڈر کردیا ہے۔ کینال کو تو ویسے ہی ورثہ ڈکلیئر کیا ہوا ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے بھی ہیں۔
عدالت نے ہدایت کی کہ میاواکی طرز پر جوہر ٹاؤن کے علاقے میں درخت لگائے جائیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ اسموگ ایمیشن اینالائزر مشین کا افتتاح ہونا تھا اس کا کیا بنا؟ سرکاری وکیل نے جواب دیا کہ جی، افتتاح ہونا تھا لیکن بعض وجوہات کی بنا پر تاخیر ہوئی۔
ممبر کمیشن نے کہا کہ اسلام آباد جاتے ہوئے شیخوپورہ کالا سیاہ دھواں دیکھا، جب رپورٹ منگوائی تو اس میں کچھ بھی نہیں تھا۔
عدالت نے حکم دیا کہ ہرن مینار کے قریب دھواں چھوڑنے والے بھٹے کو فوری بھاری جرمانہ کریں، پندرہ لاکھ روپے جرمانہ کریں اور بیان حلفی لیں۔
عدالت نے مزید حکم دیا کہ شیخوپورہ میں تمام بھٹہ مالکان کو آگاہ کر دیں، خلاف ورزی ہوئی تو بھٹہ گرا دیا جائے گا۔
عدالت نے شیخوپورہ کے محکمہ ماحولیات کے سربراہ کو فوری تبدیل کرنے کا حکم بھی دے دیا۔
Tagsپاکستان.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان عدالت نے کے خلاف دیا کہ
پڑھیں:
ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے لاپتا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا، سماعت میں حیران کن انکشافات
اسلام آ باد:این سی سی آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی بازیابی کا کیس نیا رُخ اختیار کرگیا۔ا س سلسلے میں آج ہونے والی سماعت میں حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔
لاپتا ڈپٹی ڈائریکٹر این سی سی آئی اے عثمان کی بازیابی سے متعلق ان کی اہلیہ کی درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوئی، جس میں ڈی ایس پی لیگل ساجد چیمہ نے عدالت کو بتایا کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان کے خلاف کرپشن کیس کا مقدمہ درج، گرفتاری ، جسمانی ریمانڈ اور 161کا بیان بھی قلمبند ہوچکا ہے ۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت کو بتایا کہ عثمان کا تحریری بیان بھی آچکا ہے کہ وہ خود انکوائری کی وجہ سے روپوش تھا ۔ ڈپٹی ڈائریکٹر عثمان پر الزام ہے کہ اس نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے رشوت لی۔ عثمان کا 161 کا بیان بھی آچکا ہے، جس میں اس نے کہا وہ خود روپوش تھا ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ بازیابی کی درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل رضوان عباسی نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ اتنا آسان نہیں ہوتا درخواست کو نمٹانا ۔ 15 روز غائب رکھا گیا ۔ اس عدالت نے بازیابی کا حکم دیا تو ان کے پر جل گئے اور ایف آئی آر درج کرکے لاہور پیش کردیا گیا ۔ انہوں نے عثمان کو ہائی کورٹ میں پیش کرنے اور ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔
جسٹس اعظم خان نے ریمارکس دیے کہ کیسے طلب کریں؟ اب تو ایف آئی آر ہوچکی ہے، بندہ جسمانی ریمانڈ پر ہے۔ عثمان ہے بھی لاہور کا رہائشی، یہاں کیسے طلب کریں ؟۔
وکیل نے بتایا کہ اس عدالت کے دائرہ اختیار سے انہیں اغوا کیا گیا ہے۔ اغوا کاروں کی ویڈیو بھی اسلام آباد کی موجود ہے۔ درخواست گزار کی اہلیہ بھی ڈر سے تاحال غائب ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار سے بندہ اغوا ہوتا ہے۔ 15 دنوں بعد گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 20 منٹ میں انکوائری کو ایف آئی آر میں تبدیل کیا گیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے مزید مؤقف اختیار کیا کہ پولیس حقائق جانتی تھی لیکن عدالت کے سامنے جھوٹ بولتے رہے۔ اگر اس نے جرم کیا تھا تو پھر اس کو اغوا کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔ صاف کاغذ پر پہلے عثمان کے دستخط کروائے گئے پھر بیان خود لکھا گیا۔ جو بیان ہاتھ سے لکھا گیا وہ عثمان کی ہینڈ رائٹنگ ہی نہیں ہے۔ اگر اس کا بیان لکھا گیا تو پھر اس کے اغوا کا مقدمہ کیوں درج کیا تھا ۔ ویڈیوز موجود ہیں جس میں 4 لوگوں نے عثمان کو اسلام آباد سے اغوا کیا۔
وکیل نے کہا کہ یہ کوئی نیا طریقہ کار نہیں ہے۔ بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ بندہ اٹھا لیا جاتا ہے پھر گرفتاری ڈالی جاتی ہے۔ 15 دن غیر قانونی طور پر کسٹڈی میں رکھنے کے بعد گرفتاری ڈالی گئی۔ ڈی جی ایف آئی اے کے پاس کون سی اتھارٹی ہے کہ وہ کسی کو اغوا کروائیں۔
ڈی ایس پی لیگل نے عدالت میں کہا کہ عثمان نے ایک ٹک ٹاکر سے 15 کروڑ روپے لیے ہیں، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ عثمان نے 15 کروڑ رشوت لی یا 50 کروڑ ۔ پھانسی دے دیں لیکن قانون کے مطابق کارروائی کریں ۔
پولیس نے عدالت سے استدعا کی کہ عثمان کے خلاف انکوائری بھی چل رہی ہے۔ ہماری استدعا ہے کہ اس درخواست کو نمٹا دیا جائے۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل سننے کے بعد کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا۔