بھارت کے پاس سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کا قانونی و عملی اختیار نہیں، رپورٹ
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
اسلام آباد:
الجزیرہ نے ایک جامع اور تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل کرنے کا کوئی قانونی یا عملی اختیار نہیں رکھتا۔
رپورٹ میں کہا گیا بھارت کشمیر پر قبضے کے بعد دریاؤں کے قدرتی بہاؤ پر مکمل کنٹرول چاہتا ہے تاکہ پاکستان پر دباؤ بڑھایا جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت اگرچہ ڈیم بنا رہا ہے لیکن وہ پانی کو محفوظ نہیں رکھ سکتا کیونکہ شدید بارشوں کی صورت میں سیلاب خود بھارتی آبادی کے لیے خطرہ بن جاتا ہے۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ماحولیات کے ماہر نصیر میمن نے کہا یہ بھارتی سرکار کی ایک سیاسی چالاکی ہے جو عملی طور پر پانی کا بہاؤ تبدیل کرنے کے بجائے صرف پاکستان میں خوف پھیلانا چاہتی ہے۔
کنگز کالج لندن کے جغرافیہ کے ماہر ڈاکٹر ماجد اختر کے مطابق بھارت کی جانب سے معاہدے کی معطلی ایک علامتی عمل ہے ۔ ورلڈ بینک کے صدر اجے بانگا نے کہا سندھ طاس معاہدے میں کسی بھی تبدیلی کے لیے دونوں ملکوں کی رضامندی ضروری ہے۔
نئی دہلی کی سیاسی تجزیہ کار انتمہ بینرجی نے کہا بھارت دریا کے بہاؤ کو مکمل طور پر روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔یونیورسٹی کالج لندن کے ماحولیاتی مرخ ڈین ہینز نے کہا پہلگام حملے کے بعد بھارت نے پانی کو سیاسی ہتھیار بنا کر معاہدے کو معطل کیا جو کھلی قانون شکنی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: نے کہا
پڑھیں:
بھارت کے ہمسایہ ممالک سے پانی اور سرحدی تنازعات، ایک غیر مستحکم حکمت عملی
بھارت اور سری لنکا کے درمیان کچاتیو جزیرے کا تنازع ایک بار پھر خبروں میں ہے۔ تمل ناڈو میں ہونے والے ریاستی انتخابات سے پہلے بھارتی سیاسی جماعتیں، خاص طور پر وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کی جماعت ڈی ایم کے، اس معاملے کو عوامی حمایت حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:مودی حکومت کی معاشی پالیسیوں کیخلاف لاکھوں مزدور سڑکوں پر آگئے، بھارت بھر میں ہڑتال
1974 کے ایک معاہدے کے تحت بھارت نے یہ جزیرہ قانونی طور پر سری لنکا کے حوالے کر دیا تھا، مگر اب دوبارہ اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ بعض شدت پسند گروپ تو الگ تمل ریاست بنانے کی بات بھی کر رہے ہیں۔
وزیراعظم مودی کی سری لنکا سے دفاعی معاہدے پر ڈی ایم کے ناراض ہے، اور بھارتی ماہی گیروں پر سری لنکن نیوی کی کارروائیوں کا الزام لگا رہی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بھارتی ماہی گیر اکثر سری لنکن پانیوں میں غیر قانونی طور پر داخل ہوتے ہیں۔
بھارت کے دیگر ہمسایہ ممالک سے تنازعاتنیپال
بھارت نے نیپال کی سرزمین لیپولیخ سے ایک سڑک گزار دی، جس پر نیپال نے سخت احتجاج کیا۔ بھارت نہ صرف بات چیت سے انکار کرتا رہا بلکہ اپنی فوجی طاقت سے دباؤ بھی بڑھاتا رہا۔
بنگلہ دیش
بھارت نے دریائے تیستا کے پانی کی تقسیم پر معاہدہ مسلسل تاخیر کا شکار رکھا، جس سے بنگلہ دیش کو پانی کی شدید قلت کا سامنا رہا۔ ساتھ ہی بھارت کی بارڈر فورس (BSF) کے ہاتھوں شہری ہلاکتوں نے بھی ماحول کو کشیدہ کیا۔
چین
لداخ اور اروناچل پردیش جیسے علاقوں میں بھارت نے اپنی فوجی سرگرمیاں بڑھا دیں، جس کے نتیجے میں چین سے جھڑپیں ہوئیں، جیسا کہ 2020 میں وادی گلوان کا واقعہ۔ بھارت پر یہ الزام بھی ہے کہ وہ دریائے برہم پتر پر ڈیموں کی معلومات چین سے چھپاتا ہے۔
پاکستان
بھارت دریائے کشن گنگا اور رتلے پر ڈیم بنا رہا ہے، جو سندھ طاس معاہدے (Indus Waters Treaty) کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت نہ تو بات چیت کے لیے تیار ہے، نہ ہی غیر جانبدار ثالثی کو تسلیم کرتا ہے۔
بھوٹان اور مالدیپ
بھوٹان میں بھارت کے مالی امداد سے بننے والے ہائیڈرو پاور منصوبے بھوٹان کو قرض اور سیاسی دباؤ میں ڈال رہے ہیں۔ مالدیپ میں بھارتی فوج کی موجودگی کو ’قبضے‘ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے اور مقامی لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔
بھارت ان تمام تنازعات اور سرحدی مسائل کو اپنے اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ وہ پرانے جھگڑوں کو تازہ کرتا ہے، معاہدوں کی خلاف ورزی کرتا ہے اور ہمسایہ ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔
بھارت خود کو خطے کا طاقتور ملک ثابت کرنا چاہتا ہے، مگر اس کا یہ رویہ جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کانگریس رہنما مانی شنکر آئر نے مودی کو بھارت کی تاریخ کا بدترین وزیرِاعظم قرار دیدیا
بھارت کی موجودہ پالیسی ایک ایسی حکمت عملی لگتی ہے جس میں طاقت، دباؤ اور معاہدوں کی خلاف ورزی کے ذریعے علاقائی بالادستی حاصل کی جا رہی ہے۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف پڑوسی ملکوں کی خودمختاری کے لیے خطرہ ہے، بلکہ پورے خطے میں بدامنی کا باعث بن رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بنگلہ دیش بھارت تنازعات۔ بھوٹان پاکستان چین دریا سری لنکا سندھ طاس مالدیپ