کراچی کی آبادی 2 کروڑ 30 لاکھ سے بڑھ گئی
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
پاکستان کے سب سے بڑے شہر معاشی حب کراچی کی آبادی اب 2 کروڑ 30 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے جس میں ہر سال 5 لاکھ سے زائد افراد کا اضافہ ہو رہا ہے، یہ اضافہ صرف پیدائش سے نہیں بلکہ ملک کے دیگر علاقوں سے ہجرت کی ایک بڑی لہر کی وجہ سے بھی ہے۔
کراچی میں بڑھتی آبادی نا صرف پانی جیسی بنیادی زندگی کی ضرورت کی فراہمی میں مسائل پیدا کر رہی ہے بلکہ ٹرانسپورٹ کی سہولت اور روزگار کی فراہمی بھی بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔
روزگار، تعلیم اور علاج کی تلاش میں سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا سے ہزاروں افراد کراچی آتے ہیں، صرف 2022ء کے سیلاب کے بعد یہاں 50 ہزار لوگ منتقل ہوئے، کہا جارہا ہے کہ 2050ء تک موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہجرت مزید بڑھ کر 23 لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔
آبادی میں یہ بے تحاشا اضافہ صحت، تعلیم، پانی، صفائی اور ٹرانسپورٹ جیسے بنیادی شعبوں پر شدید دباؤ ڈال رہا ہے جس کے پیشِ نظر بجلی چوری، پانی کی قلت اور ٹریفک جام روزمرہ کا معمول بن چکا ہے
کراچی اب مشرق میں سپر ہائی وے سے لے کر مغرب میں حب تک پھیل چکا ہے لیکن یہ پھیلاؤ بغیر منصوبہ بندی، بغیر انفرا اسٹرکچر اور بغیر سہولتوں کے ہو رہا ہے۔
کراچی کو دوبارہ قابلِ رہائش بنانے کا پہلا قدم ہے ایک عملی، ڈیجیٹل اور ڈیٹا بیسڈ ماسٹر پلان، ہر نئی آبادی، کمرشل زون یا انڈسٹریل ایریا کی اجازت صرف شہری انفرا اسٹرکچر کی گنجائش دیکھ کر دی جائے۔
کراچی ماسٹر پلان 2047ء کو فائلوں سے نکال کر زمین پر لانا ہوگا اور اس پر ہر حکومت کو تسلسل سے عمل کرنا ہوگا
.ذریعہ: Nawaiwaqt
پڑھیں:
کراچی میں آشوب چشم کی وبا پھیل گئی، مریضوں میں اضافہ
کراچی میں آشوب چشم کی وبا پھیلنا شروع ہوگئی۔ سرکاری و نجی اسپتالوں میں روزانہ درجنوں مریض آنکھوں کی سرخی، درد اور سوجن جیسی علامات کے ساتھ رپورٹ ہو رہے ہیں۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہوا میں نمی، ناقص صفائی ستھرائی اور ایڈینو وائرس اس وبا کے تیزی سے پھیلنے کی وجوہ ہیں۔
تفصیلات کے مطابق کراچی میں ریڈ آئی (پنگ آئی) انفیکشن کے کیسز میں نمایاں اضافہ ہوگیا ہے۔ نجی و سرکاری اسپتالوں میں روزانہ درجنوں مریض آنکھوں کی سرخی، درد، سوجن، روشنی سے چبھن اور آنکھ کے پانی جیسی علامات کے ساتھ رپورٹ ہورہے ہیں۔
طبی ماہرین کے مطابق برساتی موسم، ہوا میں زیادہ نمی اور ناقص صفائی ستھرائی کے باعث ایڈینو وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ ہلکے انفیکشن والے مریض برف کی سکائی سے تقریباً ایک ہفتے میں صحت یاب ہوجاتے ہیں، جبکہ درمیانے اور شدید انفیکشن میں یہ دورانیہ 15 سے 20 دن تک بڑھ سکتا ہے۔ کچھ شدید کیسز میں دو ماہ تک روشنی سے چبھن اور دھندلا نظر آنے کی شکایت برقرار رہ سکتی ہے، اس لیے متاثرہ افراد کو فوری طور پر ماہر چشم سے رجوع کرنا چاہیے۔
اس حوالے سے جناح اسپتال کراچی کے سربراہ امراض چشم پروفیسر اسرار احمد بھٹو نے بتایا کہ بارشوں اور ہوا میں نمی زیادہ ہونے کی وجہ سے پنگ آئی یا ریڈ آئی انفیکشن کے کیسز میں اضافہ ہوگیا ہے۔ صفائی متاثر ہونے اور ہجوم والی جگہوں پر قریبی میل جول کے باعث یہ انفیکشن ایک شخص سے دوسرے کو منتقل ہورہا ہے۔ اکثر لوگ متاثرہ آنکھ مسلنے کے بعد کسی سے ہاتھ ملا لیتے ہیں، جس سے یہ پھیلتا ہے۔ بعض اوقات پہلے ایک آنکھ متاثر ہوتی ہے اور صفائی کا خیال نہ رکھنے سے دوسری آنکھ بھی انفیکشن کا شکار ہو جاتی ہے۔
پروفیسر اسرار کا کہنا تھا کہ بارشوں سے پہلے جناح اسپتال میں ایسے کیسز تقریباً نہیں آ رہے تھے، مگر اب روزانہ 15 سے 20 مریض آ رہے ہیں۔ کچھ مریضوں میں ہلکی، کچھ میں درمیانی اور کچھ میں شدید علامات ہیں۔ یہ انفیکشن زیادہ تر ایڈینو وائرس سے ہوتا ہے۔ اس کی ابتدا میں ایسا لگتا ہے جیسے آنکھ میں کچھ چبھ رہا ہے یا کچھ آگیا ہے، پھر آنکھ کی باریک نسیں (کیپلریز) سوج جاتی ہیں اور سفید حصہ سرخ یا گلابی ہوجاتا ہے۔
علامات میں کھجلی، درد، پانی آنا اور روشنی سے چبھن شامل ہیں۔ ہلکے کیسز میں ٹھنڈے پانی سے سکائی کافی ہوتی ہے، مگر درمیانے اور شدید انفیکشن میں مصنوعی آنسو والے ڈراپس بھی تجویز کیے جاتے ہیں۔ یہ ڈراپس آنسوؤں جیسے ہوتے ہیں اور ان کے سائیڈ ایفیکٹس نہیں ہوتے۔ شدید کیسز میں کبھی کبھی قرنیہ متاثر ہوتا ہے جس سے دھندلا دیکھنا، روشنی سے چبھن اور شدید درد ہوسکتا ہے۔ درمیانے اور شدید انفیکشن 15 سے 20 دن میں ٹھیک ہوجاتے ہیں۔ ریڈ آئی بھی 20 دن میں ٹھیک ہوجاتی ہے مگر روشنی سے چبھن اور دھندلی نظر ایک سے دو ماہ تک جاری رہ سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگ اکثر خود ہی بیٹناسول جیسی اسٹیرائیڈ ڈراپس استعمال کرلیتے ہیں، جو وقتی آرام تو دیتی ہیں لیکن طویل مدتی نقصان کرسکتی ہیں۔ کچھ لوگ عرقِ گلاب بھی ڈالتے ہیں، مگر یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ خالص ہے یا نہیں۔ بہتر ہے مصنوعی آنسو استعمال کیے جائیں، کیونکہ وہ محفوظ ہیں۔ روشنی چبھنے پر سن گلاسز پہنیں، آنکھ نہ کھجائیں، متاثرہ آنکھ کو چھونے کے بعد ہاتھ دھوئیں اور اپنا تکیہ یا تولیہ علیحدہ رکھیں۔
سول اسپتال کراچی کی ماہر امراض چشم ڈاکٹر خالدہ کے مطابق روزانہ 10 سے 12 مریض ریڈ آئی انفیکشن کے ساتھ آرہے ہیں، جن کا تعلق قائد آباد، کیماڑی، بلدیہ ٹاؤن اور لیاقت آباد سمیت مختلف علاقوں سے ہے۔ نجی کلینکس کے ڈاکٹروں نے بھی تصدیق کی ہے کہ ریڈ آئی انفیکشن کے کیسز بڑھ گئے ہیں۔