تمام مذاہب کا احترام مہذب معاشرے کی شناخت ہے،امدادقاضی
اشاعت کی تاریخ: 12th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر)تمام مذاہب کا احترام ہر مہذب انسان اور معاشرے کی شناخت ہوتا ہے ، ملک میں توہینِ مذہب کا قانون شاذ و نادر ہی درست طریقے سے استعمال ہوا ہے ،یہ قانون بیشتر اوقات ناجائز طور پر معصوم اور بے گناہ افراد کے خلاف استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔یہ بات کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل کامریڈ امداد قاضی نے اپنے بیان میں کہی ۔انہوں نے مزید کہا کہ اب اس قانون کی حساسیت کو مختلف مافیاز بھی اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے لگے ہیں ، پنجاب ، خصوصا لاہور میں ایک گینگ کی جانب سے کئی شہریوں کو اس قانون کے تحت پھنسانے کی کوشش کی گئی ہے ، مافیا طرز پر منظم اس گروہ کو سخت ترین سزا دی جانی چاہئے اور ججوں کو کسی خوف یا دبا ئومیں آئے بغیر قانون اور انصاف کی روشنی میں فیصلے دینے چاہئیں ۔کامریڈ قاضی نے مولانا خانزیب کے بے رحمانہ قتل پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا اس وقت دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے ، ریاست دہشت گردوں پر قابو پانے میں ناکام نظر آتی ہے لیکن پرامن سیاسی کارکنوں، اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والوں کو دہشت گردوں کی طرح پیش کیا جا رہا ہے ، اس کی ایک مثال سندھ کا گائوں بجرانی لغاری کا محاصرہ ہے ، مزید برآں ریاست خیبر پختونخوا میں امن قائم کرنے میں ناکام ہے لیکن جب وہاں کے پرامن شہری خود امن کیلئے باہر نکلتے ہیں تو انہیں تحفظ بھی فراہم نہیں کیا جاتا ، اس کے برعکس ، ملک میں زمینوں اور وسائل پر قبضے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے ، جو ناقابلِ برداشت حد تک پہنچ چکی ہے ، حتیٰ کہ ادویات ساز کمپنیوں نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی ، ملک کے عوام کو اس ظلم و زیادتی کے خلاف سڑکوں پر آنا ہوگا ورنہ وہ ریاستی سرپرستی میں کام کرنے والے مختلف مافیاز کے ہاتھوں مسلسل لٹتے رہیں گے ۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
اسرائیل کی چالاکی، غزہ جنگ بندی کے بدلے تعمیر نو کی شرائط پر قطر کو استعمال کرنے کی کوشش
اسلامی دنیا کی مسلسل مذمت، فلسطینی عوام کی قربانیاں اور عالمی سطح پر اسرائیل کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کے بعد بالآخر اسرائیل نے غزہ میں ممکنہ جنگ بندی کے دوران تعمیر نو کیلئے قطر اور دیگر ممالک کو وسائل فراہم کرنے کی مشروط اجازت دینے پر ”رضامندی“ ظاہر کی ہے۔ تاہم اسرائیلی چالاکی یہ ہے کہ وہ قطر کو تنہا فنڈنگ کی اجازت نہیں دینا چاہتا اور اس میں دیگر ممالک کو بھی شامل کرنے پر اصرار کر رہا ہے۔
حماس کی جانب سے یہ شرط واضح ہے کہ جب تک تعمیر نو اور امدادی اقدامات کی بین الاقوامی ضمانت نہیں دی جاتی، وہ کسی عارضی یا مستقل جنگ بندی کو سنجیدگی سے نہیں لے گی۔ حماس کے لیے یہ پیغام انتہائی اہم ہے کہ اہلِ غزہ کو باور کرایا جا سکے کہ جنگ ختم ہونے والی ہے۔ اسی حوالے سے قطر کے وفد نے واشنگٹن میں امریکی حکام سے بات چیت کی، جہاں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بھی یرغمالیوں کے تبادلے کے بہانے موجود تھے۔
اس سارے کھیل میں اسرائیل کی سب سے بڑی ضد ”موراغ کوریڈور“ پر کنٹرول ہے، جو خان یونس اور رفح کو جوڑتا ہے۔ اسرائیل چاہتا ہے کہ وہ یہاں اپنی فوجی موجودگی قائم رکھے تاکہ ہزاروں فلسطینیوں کی نقل و حرکت کو اپنی چیک پوسٹوں سے کنٹرول کر سکے، چاہے وہ رفح واپس آ رہے ہوں یا جبراً بےدخل کیے گئے ہوں۔
اسرائیل یہاں ایک نئی ”انسانی شہر“ تعمیر کرنے کی آڑ میں رفح کی تباہ شدہ بستیوں کو خیمہ بستیوں سے بدلنے کا منصوبہ رکھتا ہے — ایک اور انسانی جیل کی تیاری۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق مذاکرات رُکے ہوئے ہیں، لیکن اسرائیل نے قطر کو نئی تجاویز پیش کی ہیں جن میں فوجی قبضے کو نرم الفاظ میں پیش کیا گیا ہے۔
نیتن یاہو کے دورۂ امریکہ کے دوران ایک اعلیٰ اسرائیلی اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ ایک سے دو ہفتوں کے اندر جنگ بندی کا امکان ہے، لیکن اگر حماس نے ہتھیار نہ ڈالے تو اسرائیل دوبارہ حملے کرے گا۔ یہ وہی اسرائیل ہے جو خود جنگ بندی کی بھیک مانگ رہا ہے مگر ظاہر ایسے کر رہا ہے جیسے مہربانی کر رہا ہو۔
حماس کے ترجمان طاہر النونو نے الجزیرہ کو بتایا کہ تنظیم دوحہ میں ثالثوں سے بھرپور تعاون کر رہی ہے اور انسانی بنیادوں پر دس اسرائیلی یرغمالیوں کو چھوڑنے پر آمادگی ظاہر کی ہے، تاکہ امداد بہم پہنچے اور اسرائیلی جارحیت رُکے۔ النونو نے اس بات پر زور دیا کہ حماس کسی ایسے سمجھوتے کو قبول نہیں کرے گی جس سے فلسطینیوں کی عزت نفس مجروح ہو یا جبری بے دخلی کو جواز ملے۔
برطانیہ سے اسرائیل کے خلاف اقدامات، جنوبی افریقہ کی عالمی عدالت میں درخواست، ترکی و عرب دنیا کی شدید مخالفت اور اب اسرائیل کا تعمیر نو کے بدلے جنگ بندی کی کوشش کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ صہیونی ریاست عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو چکی ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی، جو ماضی میں اسرائیل کی پشت پناہی کرتے تھے، اب خود جنگ کے نتائج سے خوف زدہ دکھائی دیتے ہیں۔
Post Views: 1