اعلیٰ ججوں کی تقرریوں کا معاملہ جرمن مخلوط حکومت میں تنازعہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, July 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 11 جولائی 2025ء) جرمن چانسلر فریڈرش میرس کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین (سی ڈی یو) اور باویریا میں اس کی ساتھی جماعت کرسچن سوشل یونین (سی ایس یو) سے تعلق رکھنے والے ارکان پارلیمان کی جانب سے مخلوط حکومت میں شامل جماعت ایس پی ڈی کے نامزد کردہ امیدوار کی حمایت واپس لی جانا اس صورتحال کی وجہ بنی۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اعتدال پسند بائیں بازو کی جماعت سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے قانون ساز ایک ہنگامی اجلاس منعقد کر رہے ہیں۔
ایس پی ڈی کی نامزد کردہ امیدوار، قانون کی پروفیسر فراؤکے بروسیئس گرسڈورف کو، اسقاط حمل کے بارے میں ان کے خیالات اور کووڈ 19 وبائی امراض کے دوران لازمی ویکسینیشن کی حمایت پر قدامت پسندوں کی جانب سے تنقید کا سامنا ہے۔
(جاری ہے)
سی ڈی یو/ سی ایس یو بیس میں اختلافات کے باوجود، ان کا انتخاب اس وقت مکمل طور پر محفوظ لگ رہا تھا جب میرس نے اس ہفتے کے اوائل میں ان کی نامزدگی کی حمایت کا اشارہ دیا تھا۔
لیکن آج جمعہ 11 جولائی کی صبح ایک حیران کن قدم اٹھاتے ہوئے سی ڈی یو/سی ایس یو پارلیمانی گروپ نے فیصلہ کیا کہ وہ ایس پی ڈی سے مطالبہ کرے گا کہ وہ پارلیمان کے ایوان زیریں بنڈس ٹاگ میں بروسیئس گرسڈورف کی نامزدگی کے معاملے پر ووٹنگ کو ایجنڈے سے ہٹا دے۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر ایس پی ڈی کی طرف سے انکار کی صورت میں قدامت پسندوں نے پارٹی ووٹنگ میں حصہ نہ لینے کی دھمکی دی ہے جس کی وجہ سے ایس پی ڈی کی حمایت یافتہ امیدوار مطلوبہ دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کر پائیں گی۔
دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ذرائع نے بروسیئس گرسڈورف کے خلاف پلیجرزم یا حقوق دانش کی خلاف ورزی کے الزامات کا بھی حوالہ دیا، جو جمعرات کے روز سامنے آئے تھے۔
ڈی پی اے کے مطابق پروفیسر اور ان کی یونیورسٹیوں نے ابھی تک اس معاملے پر تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا ہے۔ حکمران اتحاد کے درمیان تنازعہ، ایک روایت کا خاتمہملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں اتفاق رائے سے تقرریوں کی دیرینہ روایت کو توڑنے والے اس تنازعے کے نتیجے میں میرس کی مخلوط حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے صرف دو ماہ بعد ہی حکمران اتحاد میں دراڑوں کو واضح کیا ہے۔
کارلسروہے میں قائم آئینی عدالت، ملک کے آئین یا بنیادی قانون کی تعمیل کو یقینی بناتی ہے۔ اس عدالت کے لیے ججوں کی نامزدگی کے معاملے پر تناؤ میں حالیہ دنوں کے دوران اضافہ ہوا ہے۔
سی ڈی یو/سی ایس یو کے امیدوار گنٹر اسپنر امیگریشن مخالف متبادل برائے جرمنی (اے ایف ڈی) کے ووٹوں پر انحصار کیے بغیر اکثریت حاصل کرنے کی کوششوں میں ہیں۔
کنزرویٹو رہنما، ضروری حمایت حاصل کرنے کے لیے بائیں بازو کے ساتھ بات چیت کرنے کے لیے تیار نہیں اور انہوں نے اشارہ دیا ہے کہ وہ خفیہ رائے شماری کے لیے تیار ہیں، جس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ آیا اسپنر کے انتخاب کے لیے اے ایف ڈی کی حمایت ضروری ہے یا نہیں۔
ادارت: عاطف توقیر
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سی ایس یو ایس پی ڈی کی حمایت سی ڈی یو کے لیے
پڑھیں:
سیاسی بنیادوں پر ایف بی آر کی ہراسگی کا معاملہ سینیٹ کمیٹی اجلاس میں زیرِ بحث
—فائل فوٹوسینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس اسلام آباد میں چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی زیرصدارت ہوا، جس میں سیاسی بنیادوں پر ایف بی آر کی جانب سے ہراسگی کا معاملہ زیرِ بحث آیا۔
حکومتی سینیٹر افنان اللّٰہ نے سیاسی بنیادوں پر کیس سے متعلق معاملہ کمیٹی میں پیش کیا۔
سینیٹر افنان اللّٰہ نے کہا کہ 2019ء میں انکم ٹیکس سے متعلق مجھ پر کیس بنایا گیا، میری آئی ٹی کمپنی ہے جتنی آمدن ہوئی اتنے کا ٹیکس ادا کیا۔
سینیٹر افنان اللّٰہ کے مطابق آمدن میں دکھائے گئے اعداد و شمار سے ایک پروجیکٹ تاخیر کا شکار ہو گیا، جب وہ پروجکٹ تاخیر کا شکار ہوا تو اس پر ٹیکس نہیں بنتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایف بی آر افسر نے ابھی دو ماہ پہلے کیس بنایا کہ انکم ٹیکس ادا نہیں کیا گیا۔
چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے کہا کہ اگر ایف بی آر افسر نے زیادتی کی تو نہیں چھوڑیں گے، میں تو 21 ویں گریڈ سے نیچے کے کسی افسر کو نہیں جانتا، آپ بہت اچھی طرح جانتے ہیں، آفیسر کا نام بھی بتا دیا ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے سینٹر محسن عزیر کو معاملے سے متعلق چھان بین کی ذمے داری سونپ دی۔
قائمہ کمیٹی نے کہا کہ سینیٹر محسن عزیز کی سربراہی میں انکوائری کمیٹی معاملہ دیکھے گی۔
چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے کہا کہ ایف بی آر کے دو افسران محسن عزیز کے ساتھ مل کر افسر سے پوچھیں گے، آپ بے فکر ہو جائیں اب تو سیاسی بنیادوں پر تبادلے تک بند ہو چکے۔
سینیٹر محسن عزیر نے کہا کہ ایف بی آر کا پریشر افسران پر ہوتا ہے کہ ٹیکس کے لیے دباؤ ڈالیں۔
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ اس طرح کی جنرل گفتگو ہوتی ہے کسی حد تک درست بھی ہے۔