اسرائیلی فورسز کے زیر حراست ترک شہری کی رہائی کا امکان
اشاعت کی تاریخ: 11th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انقرہ: اسرائیلی فورسز کے ہاتھوں حراست میں لیے گئے ترک شہری سُعَیب اردُو کی جمعرات کے روز رہائی اور اسرائیل سے واپسی کا امکان ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق سفارتی ذرائع نے کہا ہےکہ تل ابیب میں ترک سفارتخانے کے اہلکار سُعیب اردُو اور ان کے وکلاء سے مسلسل رابطے میں ہیں جبکہ اسی بحری قافلے میں شریک جرمن شہری یاسمین آکار کے معاملے کو بھی ترکی قریبی طور پر مانیٹر کر رہا ہے، دونوں افراد کے اہل خانہ کو پیش رفت سے باقاعدگی سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ مدلین نامی امدادی جہاز، جو کہ فریڈم فلوٹیلا کولیشن کا حصہ تھا،امدادی جہاز کو پیر کی صبح اسرائیلی بحریہ نے بین الاقوامی پانیوں میں زبردستی روک کر اشدود کی بندرگاہ پر منتقل کر دیا تھا۔
جہاز پر کل 12 افراد سوار تھے جن میں معروف سویڈش ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ، فرانسیسی کارکنان بابتیست آندرے، پاسکل موریئر، یانس مہمدی اور ریوا ویارد، برازیل سے تھییاگو آویلا، اسپین سے سرجیو توریبیو، نیدرلینڈز سے مارکو وان رینس، اور فرانسیسی صحافی عمر فیاض (الجزیرہ مباشر) شامل تھے۔
اس امدادی مشن کا مقصد غزہ کے محصور عوام کو انسانی امداد پہنچانا تھا، تاہم اسرائیل نے مارچ 2025 سے اب تک تمام سرحدی راستے بند کر رکھے ہیں، جس کے باعث خوراک، پانی اور طبی سامان کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ عالمی اداروں نے بارہا خبردار کیا ہے کہ غزہ کی 24 لاکھ آبادی قحط کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔
اسرائیل کی غزہ میں مسلسل بمباری اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث نومبر 2024 میں انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآف گیلنٹ کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں گرفتاری وارنٹ جاری کیے تھے۔
اس کے علاوہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (ICJ) میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی (Genocide) کا مقدمہ بھی زیر سماعت ہے، جس میں اسرائیلی فوج کے اقدامات کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا جا رہا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
اسرائیلیوں کی انتہاپسندانہ سوچ میں خطرناک اضافہ: غزہ میں کوئی معصوم نہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تل ابیب: اسرائیلیوں کی انتہاپسندانہ سوچ میں خطرناک حد تک اضافہ ہواہے، اسرائیل میں ایک سروے صیہونیوں کاماننا ہےکہ غزہ میں کوئی معصوم نہیں ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق ایک تازہ ترین سروے سے معلوم ہوا ہےکہ 64 فیصد اسرائیلیوں کا ماننا ہے کہ غزہ میں “کوئی معصوم شہری موجود نہیں، جو اسرائیلی معاشرے میں انتہاپسند خیالات میں تیزی سے اضافے کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ سروے عبرانی یونیورسٹی کے “اے کورڈ سینٹر” کی جانب سے کیا گیا، جس میں اسرائیلی عوام کی غزہ جنگ، میڈیا کوریج اور عالمی رائے عامہ سے متعلق سوچ کو جانچا گیا، حکومتی اتحاد کے حامیوں میں یہ شرح 87 فیصد تک جا پہنچی ہے، جو غزہ کے تمام شہریوں کو دہشت گرد سمجھنے کے نظریے کی تصدیق کرتی ہے۔
خیال رہےکہ اسرائیل کی جانب سے غزہ پر جاری سفاکانہ بمباری اور محاصرے کے نتیجے میں شہداء کی تعداد 55 ہزار 100 سے تجاوز کر گئی ہے، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے، اسرائیلی جارحیت کے سبب غزہ کا بیشتر انفرااسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے، اسپتالوں کی عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں، اور شدید زخمیوں کو طبی امداد تک دستیاب نہیں۔
اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی امدادی ادارے مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ اسرائیل نے مارچ سے اب تک غزہ کے تمام بارڈر کراسنگز بند کر رکھی ہیں، جس کے باعث انسانی امداد کی فراہمی مکمل طور پر معطل ہے، 24 لاکھ سے زائد آبادی پر مشتمل غزہ شدید قحط، بیماریوں اور صاف پانی کی قلت جیسے خطرناک انسانی بحران سے دوچار ہے۔
اسرائیل کی بڑھتی ہوئی وحشیانہ کارروائیوں کے تناظر میں عالمی برادری کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے، نومبر 2024 میں انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) نے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآف گیلنٹ کے خلاف جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات میں باقاعدہ گرفتاری وارنٹ جاری کیے تھے۔
اس کے علاوہ، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (ICJ) میں جنوبی افریقہ کی جانب سے دائر کردہ مقدمے پر کارروائی کے بعد اسرائیل پر نسل کشی (Genocide) کے الزامات بھی عائد کیے جا چکے ہیں اور عدالت نے ابتدائی فیصلے میں کہا ہے کہ اسرائیل کو غزہ میں شہریوں کو تحفظ دینے میں سنگین ناکامی کا سامنا ہے۔