Jasarat News:
2025-06-13@19:50:52 GMT

افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ

اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اللہ تعالیٰ کیسے وجود میں آیا؟
جس طرح عقل یہ چاہتی ہے کہ کسی وجود کے لیے ایک موجد ہو، اسی طرح عقل یہ بھی چاہتا ہے کہ تمام کائنات کا موجد کوئی ایسا وجود ہو جو کسی موجد کے بغیر آپ سے آپ موجود ہو، ورنہ ہر موجود کے لیے ایک موجد درکار ہوگا اور یہ سلسلہ کہیں جا کر نہ رکے گا۔ خدا تو کہتے ہی اس کو ہیں جو سب کا خالق ہو اور خود کسی کا مخلوق نہ ہو۔ اگر وہ مخلوق ہو تو وہ خدا نہ ہوگا، بلکہ جس نے اس کو خلق کیا ہو وہی خدا ہوگا۔ (ترجمان القرآن، نومبر 1965ء)
٭…٭…٭

اللہ تعالیٰ کہاں سے آیا؟
آپ کے ذہن کو جس سوال نے پریشان کر رکھا ہے، اس کا حل تو کسی طرح ممکن نہیں ہے، البتہ آپ کی پریشانی کا حل ضرور ممکن ہے، اور اس کی صورت یہ ہے کہ آپ اس قسم کے مسائل پر سوچنے کی تکلیف اٹھانے سے پہلے اپنے علم کی حدود (Limitations) کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ جب آپ یہ جان لیں گے کہ انسان کیا کچھ جان سکتا ہے اور کیا کچھ نہیں جان سکتا تو پھر آپ خواہ مخواہ ایسے امور کو جاننے کی کوشش میں نہیں پڑیں گے جن کو جاننا آپ کے بس میں نہیں ہے۔ خدا کی ہستی کے متعلق زیادہ سے زیادہ جو کچھ آدمی کے امکان میں ہے، وہ صرف اس قدر ہے کہ آثار کائنات پر غور کرکے ایک نتیجہ اخذ کرسکے کہ خدا ہے، اور اس کے کام شہادت دیتے ہیں کہ اس کے اندر یہ اور یہ صفات ہونی چاہییں۔ یہ نتیجہ بھی ’’علم‘‘ کی نوعیت نہیں رکھتا، بلکہ صرف ایک عقلی قیاس اور گمان غالب کی نوعیت رکھتا ہے۔ اس قیاس اور گمان کو جو چیز پختہ کرتی ہے، وہ یقین اور ایمان ہے۔ لیکن کوئی ذریعہ ہمارے پاس ایسا نہیں ہے جو اس کو ’’علم‘‘ کی حد تک پہنچا سکے۔ اب آپ خود سوچ لیجیے کہ جب خدا کی ہستی کے بارے میں بھی ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ہم کو اس کے ہونے کا ’’علم‘‘ حاصل ہے تو آخر اس کی حقیقت کا تفصیلی علم کیوں کر ممکن ہے۔ خدا کی ذات تو خیر بہت بلند و برتر ہے، ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ’’زندگی‘‘ کی حقیقت اور اس کی اصل (Origin) کیا ہے۔ یہ توانائی (Energy) جس کے متعلق ہمارے سائنس داں کہتے ہیں کہ اسی نے مادے کی شکل اختیار کی ہے اور اس سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے، اس کی حقیقت ہمیں معلوم نہیں، اور نہ ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ کہاں سے آئی اور کس طرح اس نے مادے کی گوناگوں شکلیں اختیار کیں۔ اس قسم کے معاملات میں ’’کیوں‘‘ اور ’’کیسے‘‘ کے سوالات پر غور کرنا اپنے ذہن کو اس کام کی تکلیف دینا ہے جن کے انجام دینے کی طاقت اور ذرائع اس کو حاصل ہی نہیں ہیں۔ اس لیے یہ غور و فکر نہ پہلے کبھی انسان کو کسی نتیجے پر پہنچا سکا ہے نہ اب آپ کو پہنچا سکتا ہے۔ اس کا حاصل بجز حیرانی کے اور کچھ نہیں۔ اس کی بجائے اپنے ذہن کو ان سوالات پر مرکوز کیجیے جن کا آپ کی زندگی سے تعلق ہے اور جن کا حل ممکن ہے۔یہ سوال تو بیشک ہماری زندگی سے تعلق رکھتا ہے کہ خدا ہے یا نہیں اور ہے تو اس کی صفات کیا ہیں اور اس کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت کیا ہے۔ اس معاملے میں کوئی نہ کوئی رائے اختیار کرنا ضروری ہے۔ کیوں کہ بغیر اس کے ہم خود اپنی زندگی کی راہ متعین نہیں کرسکتے اور اس معاملے میں ایک رائے قائم کرنے کے لیے کافی ذرائع بھی ہمیں حاصل ہیں۔ لیکن یہ سوال کہ ’’خدا کہاں سے آیا‘‘ نہ ہماری زندگی کے مسائل سے کوئی تعلق رکھتا ہے اور نہ اس کے متعلق کسی نتیجے پر پہنچنے کے ذرائع ہم کو حاصل ہیں۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر 1950ء)

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہے اور اور اس

پڑھیں:

ہم دل و جان سے ممنون ہیں

چائنا کے چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ’’میری نظر میں کرپشن قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے کیونکہ قاتل صرف ایک شخص یا چند افراد کو قتل کرتا ہے لیکن ایک کرپٹ شخص پورے ملک کے معاشی نظام کو کھوکھلا کردیتا ہے اور یہ عمل پورے ملک کو قتل کردینے کے مترادف ہے اور کسی بلند مقام پر فائز ایک طاقتور شخص کو سرے عام سزا دینے عمل ہزاروں افراد کو کرپشن سے باز رکھتا ہے اور یہ عمل ملک کی ترقی اور بقا ء کے لئے بہت ضروری ہے ‘‘
میں جب یہ اقتباس پڑھ رہا تھاتو خبر نشر ہورہی تھی کہ ’’اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ کی تنخواہ دو لاکھ پانچ ہزار روپے سے بڑھا کر13لاکھ رو پے مقرر کردی گئی ہے ،جبکہ مراعات اس کے علاوہ ہیں اور تنخواہ کا اضافہ موثر بہ ماضی ہوگا اور جنوری سے ادا کیا جائے گا‘‘۔ کیا یہ قومی خزانے پر ڈاکہ نہیں ہے ،اور یہ بدعنوانی کے زمرے میں نہیں آتا ؟ اور یہ سب صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز کے حق میں بھی ہوگا اور وہ تنخواہ کے نام پر قومی خزانے پر ڈاکہ ہوگا اور وہ لاکھوں ملازمین جو حال ہی میں ریٹائرڈ ہوئے اور جو مستقبل میں ہوں گے ان کا صریحاً قتل ہے کہ کٹوتیاں ہی کٹوتیاں ہیں جو ان کے مقدر میں لکھی جارہی ہیں اور یہ سب کرپٹ آفیسرز کی بدعنوانی ہی کا شاخسانہ ہے جو اپنے مفادات و مراعات کی خاطر کر رہے ہیں ۔اس کے پیچھے کرپٹ حکمرانوں کی بدعنوانی ہے ۔
صوبائی حکومتیں شاہراہوں کی ترقی کے منصوبوں کے نام پر جو کچھ ہوبرہا ہے وہ بھی محل نظر ہے کہ تقریبا ًہر سڑک بائیں جانب کئی کئی فٹ جگہ چھوڑ دی گئی ہے جس کا زر ٹھیکیداروں اور ان کی وساطت سے حکمرانوں کی جیبوں میں جائے گا ۔یہ کرپشن کتنے بڑے گھروں میں گھی کے دیئے جلائے گی ۔یہ وہ قتل عام ہے جس پر کسی کی توجہ نہیں نہ عدلیہ کی نہ مقننہ کی ۔ملک کے نام نہاد وزیر اعظم کا اپنی سرکاری رہائش کے لئے 86 کروڑ رکھنا، ان کو بے گھر لوگوں سے کیا واسطہ جو انہیں ووٹ دینا ہی گوارہ نہیں کرتے اور ان سے انتقام کی صورت ہی یہی ہے کہ انہیں بے گھر رکھا جائے اور جن کے پاس چند مرلوں کا بوسیدہ مکان سے اس پر اتنا ٹیکس لگا دیا جائے کہ وہ گھر بیچ کر خیمہ بستیوں کے باسی جا بنیں ۔
کتنی ہمدرد حکومت ہے کہ عوام پر پانچ فیصد سک ٹیکس لگانے کی اجازت آئی ایم ایف سے مانگتی ہے اور اپنے عشرت کدوں کی رونق اور اپنے فارم 47کے رفقا کی غربت مٹانے کے لئے کسی اجازت کی ضرورت نہیں رکھتی اور آئی ایم ایف کی بے حمیتی کی انتہا یہ ہے کہ وہ اس بارے کوئی سوال نہیں کرتی، زندگی کی بنیادی ضروریات کو ترستی عوام پر نئے بجٹ میں دو ہزار ارب کے لگ بھگ ٹیکس لگا دیا ہے انسانی ہمدردی کی کسی تنظیم نے اُف تک نہیں کی اور ہمارے سیاستکاروں نےاف تک نہیں کی ،رہے عوام وہ سڑکوں پر کیسے آئیں کہ پیٹ پر بندھے پتھر انہیں چلنے ہی نہیں دیتے۔
دوزخ کی آگ جیسی حدت میں عام آدمی پنکھا اس لئے نہیں چلاتا کہ بجلی کا بل ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتا اور ایوانوں میں قہقہے لگاتے کار کنوں کو مفت بجلی اور دیگرسہولیات زندگی، یہ سب کیا ہے ۔دفاتر کے ملازمین کے منہ میں بجٹ سے استفادے کی فقط چوسنیاں اور اراکین اسمبلی کو تاحیات پنشن کی سہولت ،کتنی کس حساب سے کس گریڈ کے تحت اس کا کوئی علم نہیں ،یہ ہے شریفوں کی حکومت اور یہ شریف نہ ہوتے تو قوم کا کیا بنتا حکمرا نی کے یہ طور طریقے نہ جانے اور کیا رنگ لائیں گے ،آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ؟
حکمرانوں کی اس دیدہ لیری کے ساتھ کی جانے والی واردات پرعدلیہ چپ ہے کہ اسے اپنی مراعات کے چھن جانے کا خوف ہے،اسٹیبلشمنٹ کے اپنے مفادات،ارکان اسمبلی کو عوام سے کیا غرض کہ وہ تو فارم 47 کی معجزہ نمائی ٹھہرے ، رہی مقتدرہ اسے چائنا کے چیف جسٹس کے قواعد و ضوابط اور اقوال سے کیا واسطہ کہ ہماری مقتدرہ کواس کی دفاعی کمک سے تعلق ہوتا ہے یوں بھی شریفوں کی شرافت کا بھرم ہے ان بے چاروں کا کیا کہ یہ عوام کے سامنے سے ویسے ہی منہ چھپا کر گزرتے ہیں ، مقتدرہ کی مہربانی ہے کہ اس نے شریفوں کو اس اوج ثریا پر لا کھڑا کیا ہے کہ ان کا اگلا مقام تحت الثری ہی ہوگا۔ان شااللہ۔اس لئے پوری قوم مقتدرہ کی عزت اور احترام کرتی ہے ۔ہم بھی مقتدرہ کے دل و جان سے ممنون ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • خون کے سرطان کے نئے طریقہ علاج کا آغاز، حیرت انگیز نتائج برآمد
  • ہم دل و جان سے ممنون ہیں
  • یاسر حسین کی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی کیا ہے؟ اداکار کا اعتراف
  • شادی سے مایوس چینی شخص نے نوکری اور گھر بار چھوڑ کرپہاڑوں کا رخ کرلیا، غار میں پناہ لے لی
  • شہری نے بیٹے کے اعضاء عطیہ کردیئے، 5 افراد کو نئی زندگی مل گئی
  • شادی اور نوکری سے فرار: برسوں سے غار نشین شخص کی انوکھی زندگی
  • فلسطینی ریاست ہماری زندگی میں ممکن نہیں، امریکی سفیر ہکابی
  • یہ ظلم کب تک ؟
  • سوچنے کی ضرورت ہے