افکار سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اللہ تعالیٰ کیسے وجود میں آیا؟
جس طرح عقل یہ چاہتی ہے کہ کسی وجود کے لیے ایک موجد ہو، اسی طرح عقل یہ بھی چاہتا ہے کہ تمام کائنات کا موجد کوئی ایسا وجود ہو جو کسی موجد کے بغیر آپ سے آپ موجود ہو، ورنہ ہر موجود کے لیے ایک موجد درکار ہوگا اور یہ سلسلہ کہیں جا کر نہ رکے گا۔ خدا تو کہتے ہی اس کو ہیں جو سب کا خالق ہو اور خود کسی کا مخلوق نہ ہو۔ اگر وہ مخلوق ہو تو وہ خدا نہ ہوگا، بلکہ جس نے اس کو خلق کیا ہو وہی خدا ہوگا۔ (ترجمان القرآن، نومبر 1965ء)
٭…٭…٭
اللہ تعالیٰ کہاں سے آیا؟
آپ کے ذہن کو جس سوال نے پریشان کر رکھا ہے، اس کا حل تو کسی طرح ممکن نہیں ہے، البتہ آپ کی پریشانی کا حل ضرور ممکن ہے، اور اس کی صورت یہ ہے کہ آپ اس قسم کے مسائل پر سوچنے کی تکلیف اٹھانے سے پہلے اپنے علم کی حدود (Limitations) کو اچھی طرح سمجھ لیں۔ جب آپ یہ جان لیں گے کہ انسان کیا کچھ جان سکتا ہے اور کیا کچھ نہیں جان سکتا تو پھر آپ خواہ مخواہ ایسے امور کو جاننے کی کوشش میں نہیں پڑیں گے جن کو جاننا آپ کے بس میں نہیں ہے۔ خدا کی ہستی کے متعلق زیادہ سے زیادہ جو کچھ آدمی کے امکان میں ہے، وہ صرف اس قدر ہے کہ آثار کائنات پر غور کرکے ایک نتیجہ اخذ کرسکے کہ خدا ہے، اور اس کے کام شہادت دیتے ہیں کہ اس کے اندر یہ اور یہ صفات ہونی چاہییں۔ یہ نتیجہ بھی ’’علم‘‘ کی نوعیت نہیں رکھتا، بلکہ صرف ایک عقلی قیاس اور گمان غالب کی نوعیت رکھتا ہے۔ اس قیاس اور گمان کو جو چیز پختہ کرتی ہے، وہ یقین اور ایمان ہے۔ لیکن کوئی ذریعہ ہمارے پاس ایسا نہیں ہے جو اس کو ’’علم‘‘ کی حد تک پہنچا سکے۔ اب آپ خود سوچ لیجیے کہ جب خدا کی ہستی کے بارے میں بھی ہم یہ دعویٰ نہیں کرسکتے کہ ہم کو اس کے ہونے کا ’’علم‘‘ حاصل ہے تو آخر اس کی حقیقت کا تفصیلی علم کیوں کر ممکن ہے۔ خدا کی ذات تو خیر بہت بلند و برتر ہے، ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ ’’زندگی‘‘ کی حقیقت اور اس کی اصل (Origin) کیا ہے۔ یہ توانائی (Energy) جس کے متعلق ہمارے سائنس داں کہتے ہیں کہ اسی نے مادے کی شکل اختیار کی ہے اور اس سے یہ کائنات وجود میں آئی ہے، اس کی حقیقت ہمیں معلوم نہیں، اور نہ ہم یہ جانتے ہیں کہ یہ کہاں سے آئی اور کس طرح اس نے مادے کی گوناگوں شکلیں اختیار کیں۔ اس قسم کے معاملات میں ’’کیوں‘‘ اور ’’کیسے‘‘ کے سوالات پر غور کرنا اپنے ذہن کو اس کام کی تکلیف دینا ہے جن کے انجام دینے کی طاقت اور ذرائع اس کو حاصل ہی نہیں ہیں۔ اس لیے یہ غور و فکر نہ پہلے کبھی انسان کو کسی نتیجے پر پہنچا سکا ہے نہ اب آپ کو پہنچا سکتا ہے۔ اس کا حاصل بجز حیرانی کے اور کچھ نہیں۔ اس کی بجائے اپنے ذہن کو ان سوالات پر مرکوز کیجیے جن کا آپ کی زندگی سے تعلق ہے اور جن کا حل ممکن ہے۔یہ سوال تو بیشک ہماری زندگی سے تعلق رکھتا ہے کہ خدا ہے یا نہیں اور ہے تو اس کی صفات کیا ہیں اور اس کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت کیا ہے۔ اس معاملے میں کوئی نہ کوئی رائے اختیار کرنا ضروری ہے۔ کیوں کہ بغیر اس کے ہم خود اپنی زندگی کی راہ متعین نہیں کرسکتے اور اس معاملے میں ایک رائے قائم کرنے کے لیے کافی ذرائع بھی ہمیں حاصل ہیں۔ لیکن یہ سوال کہ ’’خدا کہاں سے آیا‘‘ نہ ہماری زندگی کے مسائل سے کوئی تعلق رکھتا ہے اور نہ اس کے متعلق کسی نتیجے پر پہنچنے کے ذرائع ہم کو حاصل ہیں۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر 1950ء)
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
کیا واقعی کوئی ٹوٹے دل سے مر سکتا ہے؟ سائنس کا دلچسپ انکشاف
حالیہ سائنسی تحقیق کے مطابق، شدید اور طویل غم انسان کی زندگی کم کرسکتا ہے، یہاں تک کہ کسی عزیز کی موت کے 10 سال بعد بھی۔
ڈنمارک میں کی گئی اس تحقیق میں 1,700 سے زائد افراد کو شامل کیا گیا، جنہوں نے حال ہی میں کسی قریبی رشتہ دار (شریکِ حیات، والدین وغیرہ) کو کھویا تھا۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ جن لوگوں میں غم کے شدید اور دیرپا آثار پائے گئے، ان کی اموات کی شرح 88 فیصد زیادہ تھی، ان لوگوں کے مقابلے میں جن کا غم کم تھا۔
غم کی شدت سے دل کی بیماریاں، ذہنی دباؤ، خودکشی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ایسے افراد عام طور پر ذہنی کمزوری یا ذہنی ادویات کے استعمال کی تاریخ رکھتے تھے، جو ان کے غم کو مزید گہرا بنا سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: روزانہ 7 ہزار قدم پیدل چلنا بیماریوں کو دور رکھتا ہے، تحقیق میں انکشاف
یہ کیفیت بعض اوقات ٹوٹے دل کا سنڈروم (Takotsubo Cardiomyopathy) کا سبب بھی بنتی ہے، جس میں دل کا فعل عارضی طور پر متاثر ہوتا ہے۔
مردوں میں اس کیفیت سے موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے، جبکہ عورتیں زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔
محققین کہتے ہیں کہ ڈاکٹرز کو ایسے مریضوں پر خاص توجہ دینی چاہیے جو شدید صدمے سے گزر رہے ہوں، تاکہ انہیں بروقت ذہنی علاج یا مدد فراہم کی جا سکے۔ سائنس بتاتی ہے کہ دل واقعی ٹوٹ سکتا ہے اور بعض اوقات جان لے بھی سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انسان کی زندگی ٹوٹا دل دل تو ہے دل ڈنمارک سائنسی تحقیق طویل غم