فنانس بل سے سخت ٹیکس اقدامات کوواپس لیا جا ئے‘ایف پی سی سی آئی
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (کامرس رپورٹر) صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے پاکستان کی پوری کاروباری، صنعتی اور تاجر برادری کی نمائندگی کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت پارلیمنٹ سے فنانس بل کی منظوری سے قبل اس میں شامل سخت اور کاروبار مخالف ٹیکس اقدامات کو واپس لے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ معاشی استحکام کے پیش نظر، ملک کو ایک کاروبار دوست، سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرنے والا اور معاشی ترقی پر مبنی مالیاتی پالیسی فریم ورک کی ضرورت ہے۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس ہدف کا حصول صرف اسی صورت ممکن ہے کہ جب صنعتکاروں اور برآمدکنندگان کو مشاورت کے عمل میں شامل کیا جائے۔ تاہم انہوں نے اپنے اس افسوس کا اظہار کیا کہ بجٹ میں وہ اقدامات شامل نہیں ہیں کہ جو کاروباری برادری کو وزیراعظم کے وژن کے مطابق برآمدات پر مبنی معاشی ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے قابل بناسکیں۔صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ ٹیکس حکام کو دیے گئے وسیع اختیارات بز نس کمیونٹی اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو نقصان پہنچائیں گے اور ان ضرورت سے زیادہ اختیارات کی وجہ سے ہراسانی، کرپشن اور بدانتظامی کو فروغ ملے گا۔انہوں نے وضاحت کی کہ دنیا بھر میں یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جتنا زیادہ ٹیکس افسران کو ٹیکس دہندہ کے ساتھ براہ راست مداخلت یا رابطے کی اجازت دی جائے، اتنا ہی شفافیت، غیرجانبداری اور منصفانہ ٹیکس نظام کو نقصان پہنچتا ہے، کیونکہ انسانی مداخلت اور فیصلہ سازی کے باعث مسائل جنم لیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اس معاملے میں غیر ضروری تجربات سے گریز کرنا چاہیے۔صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے وفاقی بجٹ میں سپر ٹیکس میں کمی، تنخواہ دار افراد کے لیے ٹیکس سلیبز میں نرمی، تنخواہ دار طبقے اور ایس ایم ایز کے لیے انکم ٹیکس ریٹرن فارم کو آسان بنانے اور دفاعی اخراجات میں اضافے کو سراہا۔ صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے کہا کہ یہ اقدامات فیڈریشن کے دیرینہ مطالبات میں شامل تھے ۔دفاعی بجٹ میں اضافہ ملک کی جیو اکنامک، تجارتی راستوں، سپلائی لائنز اور جیو اسٹریٹجک سیکورٹی کے تحفظ کے لیے ناگزیر تھا۔ایف پی سی سی آئی کے سینئر نائب صدر ثاقب فیاض مگوں نے مطالبہ کیا کہ برآمدکنندگان کے لیے فکسڈ ٹیکس ریجیم (FTR) کو اس کی اصل شکل میں طویل مدت کے لیے بحال کیا جائے، تاکہ ٹیکس پالیسیوں میں کلیئریٹی اور تسلسل کو یقینی بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اسی صورت میں ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کو پاکستان کی جانب راغب کر سکتے ہیں کہ جب ہم بطور ملک مسابقتی ماحول قائم رکھیں۔سینئر نائب صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے اس بات پر تشویش ظاہر کی کہ حکومت نے ایکسپورٹ فیسلیٹیشن اسکیم (EFS) کے دائرہ کار میں مقامی مینوفیکچررز کو شامل کرنے کے بجائے خام مال پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عاید کر دیا ہے، جو کہ ایف پی سی سی آئی کے پلیٹ فارم سے تمام شعبہ جات اور صنعتوں کی اجتماعی رائے کے برخلاف اقدام ہے۔ اس اقدام سے پیداواری لاگت میں اضافہ، سپلائی لائنز میں خلل اور پاکستانی مصنوعات کی علاقائی و عالمی منڈیوں میں مسابقت میں کمی واقع ہوگی۔سینئر نائب صدر ایف پی سی سی آئی ثاقب فیاض مگوں نے اس بات پر بھی اپنے افسوس کا اظہار کیا کہ وفاقی بجٹ 2025 – 26 میں ایف پی سی سی آئی کی آئی ٹی اور آئی ٹی پر مبنی خدمات، مائنز و منرلز اور فشریز کی انڈسٹریز کے لیے خصوصی مراعاتی پیکیجز کی سفارشات کو نظر انداز کر دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایسے شعبہ جات ہیں کہ جن میں برق رفتار ترقی کی صلاحیت موجود ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: صدر ایف پی سی سی ا ئی عاطف اکرام شیخ نے انہوں نے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، جج سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت جاری ہے، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔
حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔
حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔
اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکیل حافظ احسان کے دلائل مکمل ہوگئے اور اشتر اوصاف نے دلائل شروع کردیے۔