خواتین میں دل کی صحت بہتر بنانے کا سستا نسخہ
اشاعت کی تاریخ: 13th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
قدرتی پھل نہ صرف ذائقے کے اعتبار سے پرکشش ہوتے ہیں بلکہ ان کے اندر پوشیدہ غذائی خزانے انسانی صحت پر دیرپا اور مثبت اثرات ڈال سکتے ہیں۔
اسی حوالے سے آم جو گرمیوں کا بادشاہ کہلاتا ہے، اب ایک سادہ سا ذائقہ دار پھل نہیں رہا بلکہ جدید سائنسی تحقیق نے اسے دل کی صحت کے لیے مؤثر اور طاقتور قدرتی معاون قرار دے دیا ہے۔
حال ہی میں امریکا میں شائع ہونے والی ایک طبی تحقیق میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ درمیانی عمر کی خواتین اگر روزانہ مناسب مقدار میں آم کا استعمال کریں تو ان کی دل کی مجموعی صحت میں نمایاں بہتری دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ تحقیق معروف سائنسی جریدے جرنل آف دی امریکن نیوٹریشن ایسوسی ایشن میں شائع ہوئی، جس نے طب و تغذیہ کے ماہرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی ہے۔
تحقیق کے دوران 50 سے 70 سال کے درمیان عمر کی 24 خواتین کو شامل کیا گیا، جن کا وزن اوسط سے زیادہ یا مٹاپے کی حد کو چھو رہا تھا۔ ان خواتین کو روزانہ تقریباً 330 گرام آم کھانے کو دیا گیا، جو اندازاً ڈیڑھ کپ آموں کے برابر مقدار ہے۔ تحقیق کا دورانیہ 2ہفتوں پر محیط تھا اور اس دوران بار بار خواتین کی جسمانی کیفیت بشمول بلڈ پریشر، کولیسٹرول کی سطح، اور انسولین کے ردعمل کو لیبارٹری میں جانچا گیا۔
حاصل کردہ ڈیٹا کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی کہ آم کھانے کے صرف 2گھنٹے بعد ہی خواتین کے بلڈ پریشر میں واضح کمی نوٹ کی گئی۔ اس کے علاوہ شریانوں پر دباؤ میں کمی اور خون میں کولیسٹرول کی سطح میں اوسطاً 13 پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی۔ یہ وہ نتائج ہیں جو دل کے امراض سے بچاؤ کے لیے نہایت اہم اور حوصلہ افزا سمجھے جاتے ہیں۔
محققین کے مطابق آم کو تحقیق کے لیے اس لیے منتخب کیا گیا کیونکہ یہ پھل قدرتی فائبر، اینٹی آکسیڈنٹس اور مخصوص بائیو ایکٹیو کمپاؤنڈز سے بھرپور ہوتا ہے جو دل کی شریانوں کو تقویت دینے، خون میں چکنائی کی سطح کو متوازن رکھنے اور بلڈ پریشر میں کمی لانے میں کردار ادا کرتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ تحقیق کے دوران خواتین کو صرف آم ہی نہیں بلکہ بعض اوقات سفید ڈبل روٹی بھی کھلائی گئی تاکہ مختلف کاربوہائیڈریٹس کا انسانی جسم پر اثر موازنہ کیا جا سکے، جس سے یہ ثابت ہوا کہ اگرچہ دونوں اشیا خون میں شکر کی مقدار بڑھاتی ہیں، مگر آم کے اثرات نرم اور قلیل مدتی ہوتے ہیں، جب کہ ڈبل روٹی خون میں انسولین کی سطح کو طویل عرصے تک بلند رکھتی ہے، جو ذیابیطس کے مریضوں یا اس کے خطرے سے دوچار افراد کے لیے مضر ہو سکتا ہے۔
آم کھانے کے بعد انسولین کی سطح میں کمی یا اضافے کی رفتار متوازن رہی، جو اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ یہ پھل بلڈ شوگر کو تیزی سے بلند نہیں کرتا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ امر انتہائی اہم ہے کیونکہ اکثر پھلوں سے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ شوگر لیول میں اچانک اضافہ کرتے ہیں، جو خطرناک ہو سکتا ہے۔
تحقیق میں شامل ماہرین نے زور دیا کہ آم جیسے پھل اگر اعتدال کے ساتھ کھائے جائیں تو نہ صرف مٹھاس کی خواہش کو صحت مند انداز میں پورا کیا جا سکتا ہے بلکہ دل کی صحت کو بہتر بنانے، بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنے اور شریانوں کو نقصان سے بچانے میں بھی مدد حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ نتائج خاص طور پر ان خواتین کے لیے نہایت مفید ہیں جو درمیانی عمر میں داخل ہو چکی ہیں اور دل کے امراض کے خطرے سے دوچار ہو سکتی ہیں۔
اگرچہ یہ تحقیق محدود تعداد میں شرکا پر کی گئی اور اس کا دورانیہ بھی مختصر تھا، مگر اس کے نتائج اتنے حوصلہ افزا ہیں کہ ماہرین نے اس موضوع پر بڑے پیمانے پر مزید تحقیق کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ اس بات کی مکمل تصدیق ہو سکے کہ آم کے صحت پر یہ اثرات مستقل اور عالمگیر ہیں۔
ایک اور دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ آم کو عموماً ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ممنوع سمجھا جاتا ہے، مگر اس تحقیق نے اس تصور کو چیلنج کیا ہے۔ محققین کا کہنا ہے کہ تمام کاربوہائیڈریٹس ایک جیسے نہیں ہوتے اور آم جیسے قدرتی ذرائع سے حاصل کردہ کاربوہائیڈریٹس کا جسم پر اثر بالکل مختلف ہو سکتا ہے۔
یہ تمام باتیں ہمیں اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ اگر ہم قدرتی غذاؤں کو سائنسی بنیادوں پر پرکھیں، تو نہ صرف بیماریوں سے بچاؤ ممکن ہے بلکہ روزمرہ زندگی میں بہتر غذائی انتخاب کے ذریعے ہم صحت مند، متوازن اور خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر آپ آئندہ آم کھاتے وقت اس پھل کو صرف گرمیوں کی لذت یا مٹھاس کا ذریعہ سمجھتے تھے تو اب اس میں دل کی صحت کا راز بھی چھپا ہوا سمجھیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: بلڈ پریشر دل کی صحت سکتا ہے کے لیے کی سطح
پڑھیں:
پیپلز پارٹی کی سب سے بہتر سیاسی پوزیشن
پیپلز پارٹی ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں اس لیے سب سے بہتر پوزیشن میں ہے کہ اقتدار پر اقتدار اسے حاصل ہو رہا ہے مگر اس کے مطابق وہ وفاقی حکومت میں شامل نہیں، مگر ملک کے دو بڑے اور دو چھوٹے وفاقی عہدے اور دو صوبوں کی حکومتیں اس کے پاس تو تھیں ہی مگر اس نے حصول اقتدار میں اضافے کے لیے 8 ماہ کی بچی ہوئی آزاد کشمیرکی حکومت بھی حاصل کر لی مگر پھر بھی مطمئن نہیں، کیونکہ اسے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے اقتدار میں حصہ نہیں مل رہا۔
صوبہ سندھ میں اس کی واضح اکثریت ہے کہ جہاں اس نے اپنے تمام بڑے لیڈروں کو وزارتوں سے نواز رکھا ہے اور تھوک کے حساب سے سندھ حکومت کے ترجمان مقرر کر رکھے ہیں بلکہ بعض کو کئی کئی عہدوں اور محکموں سے نواز رکھا ہے جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اس نے سکھر کے میئر کو سندھ حکومت کا ترجمان بھی بنا رکھا ہے۔ سندھ حکومت نے پی پی سے باہر صرف ایک عہدہ مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور کراچی کے سابق ڈپٹی ناظم کو دیا ہے۔ سندھ کی تمام میونسپل کارپوریشنوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ سندھ حکومت نے ان شہروں میں بھی اپنے میئر منتخب کرا رکھے ہیں، جہاں پہلے ایم کیو ایم کے میئر منتخب ہوا کرتے تھے۔
پہلی بار سندھ کابینہ کی تشکیل میں بلاول بھٹو ہی کا اہم کردار ہے مگر نہ جانے کیوں انھوں نے لاڑکانہ ڈویژن کو نظرانداز کیا اور وہاں سے سندھ کابینہ میں کوئی وزیر شامل نہیں کیا۔ مرحوم آغا سراج درانی پیپلز پارٹی کی سندھ کی پانچ حکومتوں میں اہم وزارتوں اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر رہے مگر پہلی بار انھیں موجودہ سندھ حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دیا گیا تھا جن کا تعلق شکارپور ضلع سے تھا اور اس بار آغا سراج پہلی بار کسی عہدے سے محروم رہے اور بلاول بھٹو ان کی وفات پر تعزیت کے لیے ان کے آبائی گھر گڑھی یاسین ضرور گئے ہیں۔
بھٹو صاحب سے بے نظیر بھٹو تک سندھ میں پیپلز پارٹی کی مختلف سالوں میں تین حکومتیں رہیں مگر پی پی کی سربراہی آصف زرداری کو ملنے کے بعد 2008 سے 2024 تک سندھ میں مسلسل پیپلز پارٹی کو اقتدار ملتا رہا اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو اتنی بڑی کامیابی بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کے دور میں نہیں ملی، جتنی آصف زرداری نے دلوائی اور انھوں نے سندھ کے تمام بڑے سرداروں، پیروں اور وڈیروں کو پیپلز پارٹی میں شامل کرا رکھا ہے۔ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا صفایا ہی ہو چکا ہے اور پیپلز پارٹی اپنے ارکان اسمبلی ان علاقوں سے بھی پہلی بار منتخب کرانے میں کامیاب رہی جہاں سے پہلے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل کامیاب ہوا کرتی تھی۔ اس وقت سندھ کے اقتدار پر پیپلز پارٹی کا مکمل کنٹرول ہے اور اندرون سندھ تو پی پی کا مکمل گڑھ ہے۔
سندھ کے قریب بلوچستان کا صوبہ ہے جہاں کئی بار پیپلز پارٹی کا وزیر اعلیٰ رہا۔ بلوچستان سے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کو ایک جیسی نشستیں ملی تھیں مگر 2024کے (ن) لیگ سے انتخابی معاہدے میں آصف زرداری نے بلوچستان کا وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا بنوایا اور پنجاب و کے پی کے گورنروں، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر، قومی اسمبلی کے عہدے جو آئینی ہیں پیپلز پارٹی نے حاصل کر رکھے ہیں۔پیپلز پارٹی کی طرف سے حکومت کی حمایت ترک کرنے اور اپوزیشن میں بیٹھنے کے بیانات اس لیے آئے دن آتے ہیں کہ پی پی چاہے تو حکومت کی حمایت ترک کر کے (ن) لیگی حکومت ختم کرا سکتی ہے مگر (ن) لیگ پیپلز پارٹی کو کوئی نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی کوئی آئینی عہدہ مسلم لیگ (ن) پی پی سے لے سکتی ہے اور پی پی رہنماؤں کے مطابق دونوں پارٹیوں کا اتحاد مجبوری کا اتحاد ہے جو کسی وجہ سے اب تک قائم ہے مگر مسلم لیگ پر پیپلز پارٹی کو سبقت حاصل ہے۔
اس لیے پی پی دھمکیاں بھی دیتی رہتی ہے مگر (ن) لیگ پی پی کو دھمکی دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے اس لیے پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) سے زیادہ بہتر سیاسی پوزیشن میں ہے۔ پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کو دھمکیاں دے کر اپنے کئی مطالبے منوائے ہیں جن میں دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کا اہم مسئلہ بھی شامل تھا جو تسلیم نہ کیے جانے سے سندھ میں پی پی کو سیاسی نقصانات پہنچا سکتا تھا۔
پیپلز پارٹی اپنی سیاسی برتری کے باعث اب تک پنجاب میں ہوئے پاور شیئرنگ معاہدے پر (ن) لیگ سے عمل نہیں کرا سکی، کیونکہ (ن) لیگ کو پنجاب اسمبلی میں برتری حاصل ہے اور وہ پی پی کی محتاج تو نہیں مگر دونوں پارٹیوں کے درمیان معاہدے میں پنجاب حکومت میں پی پی رہنماؤں کو شامل کرنے کا معاہدہ موجود ہے جس پر عمل نہیں ہو رہا جس پر پی پی رہنما کہتے ہیں کہ اس سے وفاقی حکومت خطرے میں ڈالی جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق وفاق میں مسلم لیگ (ن) کے پاس اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے واضح اکثریت موجود ہے اور وہ اب پیپلز پارٹی کی محتاج نہیں ہے اور بلوچستان حکومت سے الگ ہو کر وہاں پی پی کی حکومت ضرور ختم کرا سکتی ہے مگر 27 ویں ترمیم منظور کرانے کے لیے اسے پی پی کی ضرورت ہے اس لیے بلاول بھٹو مولانا سے ملنے گئے تھے۔