data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید) وفاقی بجٹ عوامی امنگوں کا آئنہ دار نہیں‘ زرعی، تجارتی اور صنعتی سر گر میوں کو بر یک لگے گا‘ چھوٹے کسانوں کے بجائے زمینداروں اور سرمایہ دار طبقے کو نوازا گیا‘ 4.2 فیصد جی ڈی پی گروتھ اور 7.

5 فیصد مہنگائی کی شرح کے اہداف غیر حقیقت پسندانہ ہیں‘ زراعت پر ٹیکس عاید نہ کرنے سے معیشت پر دبائو بڑھ رہا ہے‘ دفاعی بجٹ میں اضافہ ناگزیر تھا۔ ان خیالات کا اظہارمرکزی کسان لیگ کے صدر اشفاق ورک ،ایف پی پی سی آئی کے سابق صدر خالد تواب، یو بی جی کے صدر زبیر طفیل اور کورکمیٹی ممبر ملک خدا بخش ، ماہر تعمیرات حنیف گوہر اورتاجر رہنما اور اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر شاہد رشید بٹ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’کیا وفاقی بجٹ ملک سے زرعی، تجارتی اور صنعتی سر گر میوں کو بر یک لگا دے گا؟‘‘مرکزی کسان لیگ کے صدر اشفاق ورک نے کہا کہ بجٹ 2025-26ء بہت سخت ہے جس سے ملک کی زراعت کو بریک لگانے کی کو شش کی جا رہی ہے‘ اس سے زرعی شعبے میں جمود کی کیفیت پیدا ہوجائے گی‘ حکومت نے زرعی شعبے کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے اپنی کسان دشمنی کا کھلا ثبوت دیا ہے‘ وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر محض زبانی جمع خرچ پر مبنی تھی اور حقیقی مسائل کو مکمل طور پر نظر انداز کیا گیا‘ حکومت کے متعارف کردہ ’’ پاکستان انیشیٹو پروگرام‘‘ کے ذریعے صرف بڑے زمینداروں اور سرمایہ دار طبقے کو نوازا گیا ہے، جبکہ چھوٹے کسانوں کو جو ملک میں زرعی پیداوار کا 80 فیصد بوجھ اٹھاتے ہیں ، کے مفادات کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے‘ حکومت نے فصلوں کی امدادی قیمتیں مقرر نہ کر کے کسانوں کو کھربوں روپے کے نقصان سے دوچار کر دیا ہے، جس کے باعث کسانوں کو اپنی محنت سے اگائی گئی فصلیں کوڑیوں کے بھاؤ فروخت کرنی پڑی ہیں‘ زرعی شعبے پر سپر ٹیکس میں صرف 0.5 فیصد کمی کو آٹے میں نمک کے برابر قرار دیا جا سکتا ہے، جو کسی طور پر قابل قبول نہیں۔ بجٹ میں پیٹرولیم مصنوعات پر ڈھائی روپے فی لیٹر کاربن لیوی عاید کی گئی ہے جس سے نہ صرف ڈیزل مہنگا ہوگا بلکہ بیج، کھاد، زرعی ادویات اور دیگر زرعی مداخل کی قیمتیں بھی بڑھ جائیں گی اور کسان مزید معاشی دبائو کا شکار ہو گا۔ایف پی پی سی آئی کے سابق صدر خالد تواب، یو بی جی کے صدر زبیر طفیل اور کورکمیٹی ممبر ملک خدا بخش نے کہا کہ نئے مالی سال کا وفاقی بجٹ صنعتی شعبے کے لیے فائدہ مند نہیں، اس سے صنعتی شعبے کو مکمل بریک لگ سکتا ہے‘ حکومت نے نئے مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کا اہم موقع ضائع کیا‘ خصوصاً 9 ٹریلین روپے کی غیر دستاویزی نقدی پر مبنی معیشت کو رسمی طور پر دستاویزی شکل دینے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی پیش نہیں کی گئیجس کا تجارتی وصنعتی نمائندہ ادارے مطالبہ کررہے تھے‘ ٹیکس اصلاحات اور ڈیجیٹل نگرانی کے نظام کے نفاذ سے محصولات میں اضافہ ممکن ہے لیکن یہ تب ہی مؤثرہوگا جب اس کے ساتھ ٹیکس دہندگان کو سہولت بھی دی جائے۔ ماہر تعمیرات حنیف گوہر نے کہا کہ نئے وفاقی بجٹ نے مایوس کیا‘ نئے مالی سال کا وفاقی بجٹ صنعتی شعبے کی ترقی کے لیے کے لیے نا قابلِ قبول ہے اور نہ ہی عوامی امنگوں کا آئنہ دار ہے، بجٹ ملکی سلامتی، داخلی استحکام اور مالیاتی ذمہ داریوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش ضرور ہے لیکن کاروباری طبقے اور سرمایہ کاروں کے لیے تشویش کا باعث ہیں‘ 4.2 فیصد جی ڈی پی گروتھ اور 7.5 فیصد مہنگائی کی شرح کے اہداف غیر حقیقت پسندانہ ہیں‘ زرعی شعبہ، جو قومی آمدنی میں 26 فیصد کا ایک بڑا حصہ رکھتا ہے، بدستور ٹیکس نیٹ سے باہر ہے اور اس کی قومی ٹیکس نیٹ میں شراکت ایک فیصد سے بھی کم ہے جس سے دوسرے شعبوں پر دبائو پڑ رہا ہے‘ اس سے ایسا محسوس رہا ہے کہ ملک میں معاشی ترقی ختم کر نے کی کوشش کی جارہی ہے۔ تاجر رہنما اور اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر شاہد رشید بٹ نے کہا کہ بجٹ 2025-26ء وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہے‘ اس تجارتی صنعتی اور زرعی شعبے کو بریک نہیں لگے گا تاہم ان کا کہنا ہے کہ بجٹ میں عوام اور تنخواہ دار طبقے کو جو ریلیف ملنا چاہیے تھا، وہ نہیں دیا گیا‘ معیشت کو درپیش غیر معمولی دباؤ، آئی ایم ایف کی سخت شرائط، بڑھتی ہوئی عالمی کشیدگی اور پاک بھارت تناؤ کے تناظر میں پیش کیا گیا بجٹ دفاعی، مالیاتی اور اسٹریٹجک تقاضوں کو پورا کرتا ہے‘ دفاعی بجٹ میں اضافہ ایک ناگزیر امر تھا کیونکہ علاقائی صورتحال دہشت گردی میں حالیہ اضافہ، بھارت کی آبی جارحیت اور غیر روایتی خطرات کے تناظر میں ملک کی سلامتی کو اولین ترجیح دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ان کے مطابق 2550 ارب روپے کے دفاعی بجٹ میں21 فیصد اضافہ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ ریاست اپنی بقا اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے سنجیدہ ہے۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے سابق صدر وفاقی بجٹ کے صدر

پڑھیں:

شنگھائی سے مصنوعی ذہانت کی عالمی حکمرانی کے لئے ایک نئے پل کی تعمیر

بیجنگ : چینی وزیر اعظم لی چھیانگ نے شنگھائی میں 2025 کی عالمی مصنوعی ذہانت کانفرنس اور مصنوعی ذہانت کی عالمی حکمرانی پر اعلیٰ سطحی کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں اعلان کیا کہ چینی حکومت نے ورلڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کوآپریشن آرگنائزیشن (ڈبلیو اے آئی سی او) کے قیام کی تجویز پیش کی ہے، جس کا صدر دفتر شنگھائی میں رکھنے کا منصوبہ ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی تیزی سے پھیل رہی ہے اور عالمی حکمرانی کے قواعد و ضوابط میں سخت مقابلہ درپیش ہے، اس اقدام نے وسیع تر اسٹریٹجک وژن اور بین الاقوامی ذمہ داری کے ساتھ مصنوعی ذہانت کی وسیع بھلائی کی جانب ترقی کے لئے ایک نیا راستہ کھول دیا ہے، جسے فوری طور پر عالمی توجہ ملی ہے.جب کچھ ترقی یافتہ ممالک خصوصی “چھوٹے گروہوں’’ کی تشکیل میں مصروف ہیں، چین کی جانب سے تجویز کردہ ڈبلیو اے آئی سی او کا قیام براہ راست عالمی ترقی کے ایک مشکل پہلو کے لئے حل فراہم کرتا ہے یعنی‘‘مصنوعی ذہانت کی خلیج کو ختم کیا جائے اور کسی بھی ملک کو پیچھے نہ چھوڑا جائے”۔ چین “مصنوعی ذہانت کی صلاحیت سازی کے جامع پروگرام” کے ذریعے گلوبل ساؤتھ کے ممالک کو استعداد کار بڑھانے میں مدد فراہم کرئےگا اور ان ممالک کے مقامی حالات کے مطابق جدت طرازی کےنئے نظام کو فروغ دےگا۔ اس وقت، ویسٹرن ٹیک جائنٹ اے آئی میگا ماڈلز لاکھوں جی پی یو کلسٹرز کا آسانی سے استعمال کر رہے ہیں جبکہ بہت سے ترقی پذیر ممالک کی بنیادی کمپیوٹنگ پاور بدستور انتہائی کمزور ہے. ورلڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کوآپریشن آرگنائزیشن کا وسیع بھلائی کے حوالے سےپختہ عزم ،عدم توازن کی صورتحال کو درست کرنا ہے ، تاکہ گلوبل ساؤتھ کے ممالک مصنوعی ذہانت کی لہر میں صحیح معنوں میں مساوی رسائی حاصل کرسکیں۔قواعد کے معاملے میں ، ورلڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کوآپریشن آرگنائزیشن زیرو سم گیمز کے بجائے’’مشاورت ،مشترکہ تعمیر اور اشتراک‘‘ کو سنگ بنیاد کے طور پر لیتی ہے ، جو مختلف ممالک کی ترقیاتی حکمت عملیوں ، گورننس رولز اور تکنیکی معیارات کی ہم آہنگی کو فروغ دے گی ، اور پالیسیوں اور طرز عمل میں فرق کے احترام کی بنیاد پر وسیع اتفاق رائے پر مبنی ایک عالمی گورننس فریم ورک بتدریج تشکیل دے گی۔ اس اقدام کے تحت عالمی مصنوعی ذہانت کی حکمرانی میں تقسیم اور گروہ بندی کے موجودہ خطرے کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ جب یورپی یونین کا مصنوعی ذہانت ایکٹ ایک ہی معیار کے ساتھ دنیا کو نظم و ضبط میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے ، اور کچھ ممالک سیکیورٹی کے نام پر تکنیکی ناکہ بندیاں عائد کرتے ہیں ، تو ڈبلیو اے آئی سی او کی جانب سے پیش کردہ جامع راستے کی خصوصی قدر مزید عیاں ہوئی ہے۔ یہ دنیا میں ایک ہی آواز کی بالادستی کے لئے کوشاں نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں عالمگیر شرکت کا حامل ایک ایسا بین الاقوامی اسٹیج تشکیل دیتا ہے جہاں ترقی کے مختلف مراحل سے گزرنے والے اور مختلف تہذیبوں کےحامل ممالک بھی حکمرانی کے حوالے سے اپنی آوازیں بلند کرسکتے ہیں۔چین کا فارمولہ مصنوعی ذہانت کی عالمی حکمرانی کا کلیدی’’اسٹیبلائزر‘‘ بن رہا ہے۔ 2023 میں گلوبل آرٹیفیشل انٹیلی جنس گورننس انیشی ایٹو کی پیشکش سے لے کر گزشتہ سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں چین کی پیش کردہ ’’مصنوعی ذہانت کی استعداد کار بڑھانے میں بین الاقوامی تعاون کو مضبوط بنانے” سے متعلق قرارداد کی منظوری تک، پھر اس سال ورلڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کوآپریشن آرگنائزیشن (ڈبلیو اے آئی سی او)کے قیام تک، چین نے ہمیشہ اقدامات کےذریعے”ذہانت بھلائی کے لئے” کے منظم فلسفے پر عمل کیا ہے۔ یہ کوئی اتفاقیہ امر نہیں ہے ۔کیونکہ چین نے قابل تجدید توانائی کے میدان میں دنیا کا سب سے بڑا اور تیزی سے بڑھتا ہوا نظام تعمیر کیا ہے ، جس کے باعث چینی کمپنیاں دنیا کی تقریباً 60فیصد ونڈ ٹربائن ، تقریباً 80فیصد شمسی پینلز ، اور تقریباً 70فیصد برقی گاڑیوں کی بیٹریاں تیار کرتی ہیں۔ سبز مینوفیکچرنگ کی صلاحیتوں کو گلوبل پبلک گڈز میں تبدیل کرنے کا یہ تجربہ اب مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ڈالا جا رہا ہے۔ ورلڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کوآپریشن آرگنائزیشن کا قیام، چین کی جانب سے مصنوعی ذہانت کے اطلاق کے منظرنامے، مارکیٹ کےپیمانے اور حکمرانی کے عمل میں اپنی اول برتریوں کو عالمی حکمرانی کی محرک قوت میں تبدیل کرنے میں ایک تزویراتی اقدام ہے، جس سے دنیا کو اختلافات دور کرنے اور تعاون بڑھانے کے لیے ایک نیا پلیٹ فارم فراہم ہوگا۔مصنوعی ذہانت کی لہر میں کوئی بھی ملک تنہا کھڑا نہیں رہ سکتا۔ “ڈی رسکنگ” کے نام سے کسی ایک ملک کی جانب سے ڈی کپلنگ اور دیواروں کی تعمیر کے سخت اقدامات سے دنیا صرف شکوک وشبہات اور محاذ آرائی میں تاریخی مواقع سے محروم ہوجائے گی. تجویز کردہ ورلڈ آرٹیفیشل انٹیلی جنس کوآپریشن آرگنائزیشن کے صدر دفتر کے لئے منتخب شدہ شہر ” شنگھائی” ہی بیرونی دنیاکے لئے چین کے کھلے پن کی فرنٹ لائن اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی ہائی لینڈ ہے جس کا مقصد تمام انسانیت کی فلاح و بہبود کو فروغ دینا ہے، اور یہ مغربی مسدود بالادستی کے افسانے کا بھی ایک طاقتور جواب ہے۔جیسا کہ چینی رہنما نے فرمایا ہے کہ مصنوعی ذہانت کو “پورے بنی نوع انسان کے فائدے کے لئےانٹرنیشنل پبلک گڈز” بننا چاہئے۔ اگر ڈبلیو اے آئی سی او تمام ممالک کے خلوص اور دانشمندی کو یکجا کر سکتی ہے اور مشترکہ مفادات کے “کیک” کو وسعت دے سکتی ہے تو یہ نہ صرف ایک دوسرے کو کامیاب بنائےگا بلکہ ذہین دور کی جانب ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر انسانیت کے مستقبل کو بھی روشن کرے گا۔ مصنوعی ذہانت کی حکمرانی کے اس کلیدی موڑ پر، چین کےاس اقدام نے صبح کی کرن کی طرح اس غیر یقینی دنیا میں قیمتی یقین پیدا کیا ہے -یہ روشنی ، دنیا کی توجہ کی مستحق ہے۔گزشتہ پانچ سال سے چین میں ٹیکس اور فیس کی کٹوتی کی کل مالیت 10.5 ٹریلین یوآن تک پہنچنے کی توقع 28 جولائی کو چین کے قومی محکمہ محصولات کے سربراہ حو جن لین  نےچین کی ریاستی کونسل کے دفتر اطلاعات کے زیر اہتمام پریس کانفرنس میں بتایا  کہ چین کی “14 ویں پانچ سالہ منصوبہ بندی” کی مدت کے دوران  ٹیکس اور فیس میں کمی کی پالیسیوں کے ایک سلسلے کی بدولت ملک کی معاشی ترقی اور لوگوں کے ذریعہ معاش کی بہتری کو مضبوط حمایت ملی ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں سے ملک میں  ٹیکس اور فیس کی کٹوتی کی کل مالیت  10.5 ٹریلین یوآن تک پہنچنے کی توقع ہے  اور برآمدی ٹیکس ریفنڈ 9 ٹریلین یوآن سے تجاوز کرنے کی بھی توقع ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی مدت کے دوران چین کے محکمہ محصولات کی جانب سے جمع کردہ  ٹیکس اور فیس کا کل حجم  155 ٹریلین یوآن سے تجاوز کرنے کی توقع ہے جس میں سے ٹیکس ریونیو 85 ٹریلین یوآن سے تجاوز کرے گا، جو ملک کی 13 ویں پنج سالہ منصوبہ بندی کی مدت کے مقابلے میں 13 ٹریلین یوآن کا اضافہ ہوگا۔ اس کے نتیجے میں چین کی معاشی و سماجی ترقی اور لوگوں کے ذریعہ معاش میں بہتری کے لئے مالی بنیاد کو مسلسل مضبوط بنایا گیا ہے۔ حو جن لین نے کہا کہ چین میں  محکمہ ٹیکس کی جانب سے متعدد اقدامات کی بدولت اب 97 فیصد ٹیکس معاملات اور 99 فیصد ٹیکس اعلانات آن لائن یاموبائل ایپلی کیشنز کے ذریعے کئے جاسکتے ہیں۔ ورلڈ بینک کے 2024 کے ڈوئنگ بزنس اسسمنٹ کے نتائج کے مطابق 2019 میں پچھلے تخمینے کے مقابلے میں چین کے سالانہ ٹیکس ادائیگی کے وقت  کو 78.2 فیصد  کم  کیا گیا ہے۔چین میں کاروباری ماحول کی مارکیٹائزیشن، قانون کی حکمرانی اور بین الاقوامیت میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔

Post Views: 7

متعلقہ مضامین

  • بھارت کو ٹرمپ کی نئی وارننگ، تجارتی معاہدہ نہ کیا تو 25 فیصد ٹیرف دینا ہو گا
  • زرعی ٹیکس، چھوٹا کسان اور طاقتور طبقہ
  • مثبت ضمیر کے ساتھ چیئرمین ایچ ای سی کا عہدہ چھوڑ رہا ہوں، ڈاکٹر مختار
  • ہنزہ: سوست میں تاجروں کا دھرنا آٹھویں روز میں داخل، پاک چین سرحدی تجارت معطل
  • امریکہ اور یورپی یونین کے درمیان تجارتی معاہدہ‘ تمام تجارتی اشیا پر 15 فیصد ٹیرف عائد ہو گا
  • پاکستان اور آسٹریلیا معدنیات کے شعبے میں تاریخی شراکت داری پر رضامند
  • شنگھائی سے مصنوعی ذہانت کی عالمی حکمرانی کے لئے ایک نئے پل کی تعمیر
  • ٹرمپ کا یورپی یونین کے ساتھ بڑا تجارتی معاہدہ طے، محصولات میں نرمی کا عندیہ
  • یورپی یونین اور امریکا کے درمیان تجارتی معاہدہ، 15 فیصد ٹیرف پر اتفاق
  • یورپی یونین 30 فیصد امریکی ٹیرف سے بچ گیا، امریکا کے ساتھ تجارتی معاہدہ طے گیا