وفاقی بجٹ عوامی امنگوں کا آئنہ دار نہیں‘ زرعی، تجارتی ، صنعتی سر گر میوں کو بر یک لگے گا
اشاعت کی تاریخ: 14th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید) وفاقی بجٹ عوامی امنگوں کا آئنہ دار نہیں‘ زرعی، تجارتی اور صنعتی سر گر میوں کو بر یک لگے گا‘ چھوٹے کسانوں کے بجائے زمینداروں اور سرمایہ دار طبقے کو نوازا گیا‘ 4.2 فیصد جی ڈی پی گروتھ اور 7.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے سابق صدر وفاقی بجٹ کے صدر
پڑھیں:
بجٹ مہنگائی کا نیا طوفان لائیگا ،عوام نان شبینہ کے محتاج ہوجائینگے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (رپورٹ: قاضی جاوید) وفاقی بجٹ مہنگائی کا نیا طوفان لائے گا، عوام نان شبینہ کے محتاج ہوجائیں گے‘ غربت نہیں غریب مٹائو بجٹ ہے، تنخواہ دار اور متوسط طبقہ مہنگائی میں پس کر رہ جائے گا‘ قابل تجدید توانائی کے شعبے پر ٹیکس کا نفاذ معاشی ترقی کے رجحان کو سست کرے گا‘ پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی اور کاربن ٹیکس میں اضافے سے روزمرہ زندگی متاثر ہوگی‘ زراعت کو بجٹ سے کچھ نہیں ملا۔ان خیالات کا اظہار مشیر خزانہ خیبر پختونخوا مزمل اسلم ، پی پی پی کے رہنما اصغر ندیم چن ،وزیر مملکت ریلوے بلال اظہر، کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر، ایف پی سی سی آئی پالیسی ایڈوائزری بورڈ کے چیئرمین اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین اور بی ایم جی کے سربراہ زبیرموتی والا نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’کیا وفاقی بجٹ عوام کے لیے مہنگائی کا نیا طوفان لارہا ہے؟‘‘ مزمل اسلم نے کہا کہ تنخوادار طبقہ وفاقی بجٹ سے پیدا ہونے والی مہنگائی میں پس کر رہ جائے گا‘ عوام کے لیے بجٹ میں مہنگائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے‘ بجٹ سے قبل ہی ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ بجٹ کچھ نہ کچھ سخت ہو گا لیکن جو کچھ سامنے آیا اس سے پتا چلتا ہے کہ عوام نان شبینہ کے محتاج ہوجائیں گے‘یہ غربت نہیں غریب مکاؤ وفاقی بجٹ ہے‘ آئندہ بجٹ میں صوبے میں کوئی نیا ٹیکس نافذ کرنے کا ارادہ نہیں‘ صوبے کا بجٹ عوام کا بجٹ ہو گا۔ اصغر ندیم چن نے کہا کہ ہر سطح پر مہنگائی کا سیلاب اُمنڈ آئے گا اور حکومت کو اس بات کا علم ہے‘ معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا مقام رکھنے والی زراعت کو اس بجٹ سے کچھ نہیں ملے گا‘ ملکی زراعت جو پہلے ہی تباہی کا شکار ہے‘ بجٹ میں کاشتکاروں کا نقصان ہی نقصان ہے‘ یہ ٹھیک ہے کہ ملک معاشی استحکام کی طرف گامزن ہیں، رواں مالی سال جی ڈی پی گروتھ 2.7 فیصد رہی ، پاکستان کی افراط زر4.6 فیصد ہے جو گزشتہ سال پالیسی ریٹ 22 فیصد تھا، جو اب 22 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد پرآگیا ہے لیکن حکومت اس بات کا جواب نہیں دے رہی ہے کہ زرعی پیداوار ہر سال کیوں کم ہو رہی ہے۔ بلال اظہر نے کہا کہ موجودہ جنگی حالات میں حکومت نے ایک اچھا وفاقی بجٹ پیش کیا ہے‘ اس بجٹ میں مہنگائی اور بے روزگاری کے سوا کچھ نہیں، بجٹ میں اب بھی بہتری کی گنجائش ہے اس کو ٹھیک کیا جائے‘ بہت عرصے سے تنخواہ دار طبقے کا بجٹ استحصال ہو رہا، وہ بہت بھاری ٹیکس ادا کر رہے ہیں اور اس جانب کسی حکومت کی توجہ نہیں گئی تھی لیکن موجودہ حکومت اس مسئلے کو حل کر نے پہلا قدم اُٹھایا ہے۔ میاں زاہد حسین نے کہا کہ اس بات سے انکار نہیں ہے مہنگائی میں اضافہ کا خدشہ ہے وفاقی بجٹ 26-2025 ء کے بارے میں ابھوں نے کہا ہے کہ اس بجٹ کا کل حجم 17 ہزار573 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ بجٹ میں دفاع، قرضوں پر سود کی ادائیگی اور محصولات بڑھانے کو اولین ترجیح دی گئی ہے جبکہ عوامی فلاحی منصوبوں پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے 3800 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے‘ بجٹ ملکی سلامتی، داخلی استحکام اورمالیاتی ذمہ داریوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش ضرور ہے تاہم اس کے کئی پہلو ایسے ہیں جو عام شہری، کاروباری طبقے اور سرمایہ کاروں کے لیے تشویش کا باعث ہیں‘ قابل تجدید توانائی جیسے اہم شعبے پر ٹیکس کا نفاذ معاشی ترقی کے رجحان کو سست کرسکتا ہے‘ سولر پینل کی درآمد پر18فیصد سیلز ٹیکس کی تجویز ایک منفی قدم ہے جس سے متبادل توانائی کا فروغ رکے گا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ بجٹ میں متعدد اشیا مہنگی کردی گئی ہیں جن میں گاڑیاں، پیٹرولیم مصنوعات، مشروبات، منرل واٹر، پالتو جانوروں کی خوراک، کافی اور چاکلیٹس شامل ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات پر لیوی اور کاربن ٹیکس میں اضافے سے روزمرہ زندگی متاثرہوگی خصوصاً متوسط اور تنخواہ دارطبقہ مزید مالی دباؤ کا شکارہوگا۔ میاں زاہد حسین نے دفاعی اخراجات میں نمایاں اضافے کو بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی اور اس کے جنگی رویے کا نتیجہ قرار دیا اور اس میں اضافے کا خیر مقدم کیا۔ ان کے مطابق ملکی سلامتی پر سرمایہ کاری ناگزیر ہے۔ عوامی فلاحی شعبوں میں امپیکٹ فنانسنگ کی حوصلہ افزائی سے تعلیم، صحت اور سماجی بہبود جیسے شعبوں میں ترقی کی رفتار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ ٹیکس اصلاحات اور ڈیجیٹل نگرانی کے نظام کے نفاذ سے محصولات میں اضافہ ممکن ہے لیکن یہ تب ہی مؤثرہوگا جب اس کے ساتھ ٹیکس دہندگان کوسہولت بھی دی جائے۔ میاں زاہد حسین نے سادہ انکم ٹیکس فارم کو ایک خوش آئند قدم قراردیا جو خاص طو پر ایس ایم ایز اور تنخواہ دار افراد کے دیرینہ مطالبات میں شامل تھا۔ رہائشی اور جائداد کے شعبے میں دی جانے والی مراعات اور مارٹگیج نظام کا ذکرکرتے ہوئے میاں زاہد حسین نے کہا کہ اس سے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کو فروغ ملے گا جس سے چھوٹے گھروں اور فلیٹوں کی قیمتوں میں معمولی کمی متوقع ہے جوعوام کے لیے ایک مثبت پہلو ہے۔ زبیرموتی والا نے کہا کہ وفاقی وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر مہنگائی میں اضافے کا باعث بنے گی، حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ مہنگائی کی شرح میں کمی ہوئی ہے اس لیے شرح سود کو7 فیصد پر ہونا چاہیے، بجلی کی قیمتوں میں سبسڈی رکھی گئی ہے لیکن دیکھا جائے گا کہ اسے کیسے اسے خرچ کریں گے۔