data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

حیدرآباد(اسٹاف رپورٹر) ایم کیو ایم حیدر آباد کے اراکین قومی اسمبلی سید وسیم حسین اور پروفیسر انجینئر عبدالعلیم خانزادہ نے کہا ہے کہ مون سون کی آمد ہے حیدرآباد کے شہریوں کے لیے میئر حیدرآباد و ایچ ڈی اے، واسا بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں، ایچ ڈی اے کے کارپوریشن بننے کے بعد حیدرآباد کے عوام کو یہ امید ہو چلی تھی کہ حیدرآباد کے مسائل بلدیہ،ٹائون،واسا ملکر حل کریں گے لیکن آج حیدرآباد میں نالوں کی ڈی سلٹنگ نہیں کی گئی ویج مشین کے ذریعے مین ہولز کی صفائی ناپید ہے پمپنگ اسٹیشنز پر طویل لوڈ شیڈنگ کے باعث کوئی متبادل انتظامات نہیں کیے گئے ہیں سینٹری ورکرز کی تعداد انتہائی کم اور وہ بھی ملی بھگت کے ذریعے ڈیوٹی سے غیر حاضر، شہر بھر میں نالوں کی دیواریں اور مین ہولز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جس کی وجہ سے اموات و حادثات میں اضافہ ہے شہر بھر کے ٹیل کے علاقوں میں پانی نایاب ہے وہاں کی عوام بورنگ اور پینے کا پانی خرید کر استعمال کرتی ہے ۔میئر حیدرآباد،ٹاؤن چیئرمین ، واسا حکام کو حیدرآباد کی عوام و مسائل سے کوئی غرض نہیں ہے وہ صرف سرکاری وسائل کی لوٹ مار میں مصروف ہیں ۔ اراکین قومی اسمبلی نے مزید کہا کہ حیدرآباد کے منتخب نمائندوں کو انتظامیہ و بلدیہ حکام کسی سرکاری اجلاسوں میں مشاورت کے لیے مدعو نہیں کرتے اور ہم اگر انہیں حیدرآباد کو درپیش مسائل کے حل کے لیے تحریری یاداشت بھی دیتے ہیں اسے پڑھنا بھی گوارا نہیں کیا جاتا لگتا ہے کہ حیدرآباد کی عوام کو ایم کیو ایم کا ساتھ دینے کی سزا دی جا رہی ہے، حیدرآباد کے بلدیاتی میئر، ٹائون چیئرمین، یو سی چیئرمین کو روڈز پر گڑھوں، مین ہولز کے کھلے ڈھکن، بچوں کی آئے دن کی اموات کے بعد بھی انکا ضمیر انہیں ملامت نہیں کرتا کہ ترجیحی بنیادوں پر ان مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ اراکین قومی اسمبلی نے حکومت سندھ سے میئر حیدرآباد اور واسا حکام کی غفلت و متعصبانہ رویہ کا جائزہ لینے اور حیدرآباد کے عوام کو درپیش مسائل کے حل کے لیے فوری اقدامات کرنے مطالبہ کیا ہے ۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: حیدرآباد کے نہیں کی

پڑھیں:

وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء

متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے۔ اسلام ٹائمز۔ غیرقانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں مختلف سیاسی، سماجی اور مذہبی تنظیموں کے مشترکہ پلیٹ فارم متحدہ مجلس علماء نے بھارتی سپریم کورٹ کی طرف سے وقف ترمیمی قانون پر عبوری حکم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگرچہ بعض دفعات کو معطل کیا گیا ہے تاہم اس حوالے سے آئینی اور مذہبی خدشات جوں کے توں برقرار ہیں، جس نے ملت کو اضطراب اور بے چینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق متحدہ مجلس علماء نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں کہا کہ وقف محض جائیداد کا معاملہ نہیں بلکہ ایک دینی امانت اور اللہ کی راہ میں خدمت خلق کا ذریعہ ہے، مسلمانوں کے ان مقدس اوقاف پر ان کا حق انتظام و اختیار کمزور کرنا یا ان کی تاریخی حیثیت کو زائل کرنا ملت کے لیے ناقابلِ قبول ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ یہ آئین میں درج ان اصولوں کے منافی ہے جو ہر مذہبی گروہ کو اپنے دینی معاملات خود چلانے کا حق دیتے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ عدالت نے کچھ عبوری راحت فراہم کی ہے جو ایک مثبت قدم ہے لیکن یہ اقدامات ناکافی ہیں اور بنیادی خدشات کو دور نہ کرتے، قانون کی متعدد دفعات بدستور شدید تشویش کا باعث ہیں، زیر استعمال وقف املاک کے طویل عرصے سے مسلمہ اصول کا خاتمہ صدیوں پرانی مساجد، زیارت گاہوں، قبرستانوں اور دیگر اداروں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے جو مسلسل عوامی استعمال کے سبب وقف تسلیم کیے جاتے رہے ہیں، چاہے ان کے پاس تحریری دستاویزات موجود نہ ہوں۔ وقف نامہ کی لازمی شرط تاریخی حقائق کو نظرانداز کرتی ہے جہاں اکثر دستاویزات یا تو ضائع ہو چکی ہیں یا کبھی بنی ہی نہیں تھیں اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان جائیدادوں کی مسلمہ حیثیت چھین لی جائے گی۔اسی طرح سروے کے اختیارات کو آزاد کمشنروں سے منتقل کر کے ضلع کلکٹروں کو دینا غیرجانبداری کو متاثر کرتا ہے اور ریاستی مداخلت کو بڑھاتا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ مجلس علماء سمجھتی ہے کہ یہ ترمیم دراصل اوقاف کو کمزور کرنے اور انہیں ہتھیانے کی دانستہ کوشش ہے جس کے نتیجے میں ناجائز قابضین کو قانونی جواز مل سکتا ہے اور اس سے حقیقی دینی و سماجی اداروں کو نقصان ہو گا۔ یہ اقدامات امتیازی ہیں کیونکہ کسی اور مذہبی برادری کے معاملات میں ایسی مداخلت نہیں کی جاتی۔مجلس علماء نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ جلد از جلد اس معاملے کی حتمی سماعت کرے اور مسلمانوں کے آئینی و مذہبی حقوق کا تحفظ یقینی بنائے کیونکہ موجودہ صورت میں یہ قانون تشویشناک ہے اور پرانے وقف ایکٹ کو بحال کیا جانا چاہیے، حکومت کو چاہیے کہ وہ وقف کی حرمت کو پامال کرنے کے بجائے ان مقدس اوقاف کے تحفظ، بقا اور ترقی کے لئے عملی اقدامات کرے تاکہ یہ آنے والی نسلوں کے دینی و سماجی مفاد میں کام کرتے رہیں۔

متعلقہ مضامین

  • چیئرمین گلبرگ ٹاؤن نصرت اللہ کا محمدی کالونی عزیز آباد کا دورہ
  • اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں، انہیں عوامی مسائل کا علم ہونا چاہیے. جسٹس حسن اظہر رضوی
  • اراکین پارلیمنٹ عوام کے ووٹ سے آتے ہیں، انہیں عوامی مسائل کا علم ہونا چاہیے، جج سپریم کورٹ
  • حیدرآباد: نکاسی آب کے ناقص نظام کے باعث باچا خان چوک سے متصل سڑک زیر آب ہے
  • مشاہد حسین سید کا پاکستان کو بھارت کے ساتھ نہ کھیلنے کا مشورہ
  • وقف ترمیمی قانون پر عبوری ریلیف بنیادی مسائل کا حل نہیں ہے، علماء
  • رضی دادا کی غیر مشروط معافی مسترد، کمیٹی کا چینل بند کرنے کا فیصلہ، وائرل ویڈیو پر عمر چیمہ کے بعد وسیم عباسی نے بھی رد عمل جاری کر دیا 
  • میئر کراچی کی گھن گرج!
  • گوادر میں پانی اور بجلی کے مسائل کے حل کے لیے وزیراعلیٰ بلوچستان کے اہم اقدامات
  • مہسا امینی کی تیسری برسی پر ایران کے خلاف بین الاقوامی اقدامات کا مطالبہ