پاکستان اور افغانستان کا فطری اتحاد
اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT
علاقائی پیچیدگیوں اور سیاسی تغیرات کے باوجود، پاکستان نے ہمیشہ ایک پرامن اور خوشحال افغانستان کے لئے تعاون کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ مستحکم، متحد اور خوشحال افغانستان کو نہ صرف ایک ہمسایہ ذمہ داری بلکہ علاقائی امن کے لیے ایک تزویراتی ضرورت سمجھتا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ پاکستان اور افغانستان کا رشتہ صدیوں پرانا ہے، جو مشترکہ تاریخ اور جغرافیہ میں جڑا ہوا ہے۔ یہ قدرتی وابستگیاں دونوں ممالک کے عوام کے درمیان برادرانہ تعلقات کو فروغ دیتی ہیں۔ قدیم ادوار میں افغانستان وسطی ایشیائی ریاستوں سے برصغیر تک تجارت کے لیے قدرتی گیٹ وے کے طور پر کام کرتا رہا۔ ان تجارتی راستوں نے ثقافتی، مذہبی اور تجارتی تبادلوں کو ممکن بنایا، جس سے دونوں خطوں کے درمیان ایک گہرا تعلق قائم ہوا۔ پاکستان آج بھی ان تاریخی تجارتی روابط کی بحالی کے لیے پرعزم ہے۔
پاکستان اور افغانستان معیشت، سلامتی اور سماجی روابط کے اعتبار سے تاریخی طور پر ایک دوسرے پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ ایک ملک میں امن دوسرے کی سلامتی پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے، جس سے دونوں کی تقدیریں جڑی ہوئی ہیں۔ ایک مستحکم افغانستان سرحد پار جرائم، دہشت گردی اور مہاجرین کی آمد میں کمی کو یقینی بناتا ہے، جس سے پاکستان کی سیکورٹی کو فائدہ ہوتا ہے۔ اسی لئے پاکستان افغان قیادت پر مبنی امن عمل کا پرزور حامی رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں امن تجارت، علاقائی ربط اور سرحد پار تعاون کو فروغ دیتا ہے، جو افغانستان کے لیے فائدہ مند ہے۔ پاکستان کے تعمیراتی منصوبے اور تجارتی مواقع افغانستان کی علاقائی بحالی کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ پاکستان کی علاقائی پالیسی کا بنیادی مقصد ایک پرامن، محفوظ اور اقتصادی طور پر مستحکم افغانستان ہے۔ عالمی مفادات کی عارضی نوعیت کے برخلاف، پاکستان کی حکمت عملی دیرپا اور علاقائی امن پر مبنی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان 2,600کلومیٹر طویل سرحد ہے۔ اس سرحد کے دونوں جانب ایک ہی مذہب (اسلام)اور ایک جیسے نسلی پس منظر کے لوگ آباد ہیں جیسے پشتون، تاجک، اور ہزارہ۔ ان قبائلی، نسلی اور خاندانی رشتوں نے ایک انوکھا انسانی ربط پیدا کیا ہے، جو پاکستان اور افغانستان کو صرف ہمسائے نہیں بلکہ باہم جڑی ہوئی معاشرتیں بناتا ہے۔ یہ سماجی ہم آہنگی مشکل وقت میں عوامی سفارت کاری کی بنیاد بن جاتی ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ ہر افغان حکومت کے ساتھ خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی ہے، چاہے کابل میں کون برسرِاقتدار ہو۔ پاکستان کی پالیسی کبھی بھی افغانستان مخالف نہیں رہی، بلکہ ہمیشہ باہمی فائدے کی کوشش کی ہے۔ ہر حکومت کی تبدیلی کے بعد پاکستان نے خیرسگالی اور احترام پر مبنی رویہ اپنایا ہے۔ بدقسمتی سے کئی افغان حکومتیں بھارت کے اثر میں رہی ہیں، جس نے پاکستان کے خلاف بداعتمادی کو ہوا دی۔ اس بھارتی اثر و رسوخ نے پاک،افغان تعلقات کی مکمل صلاحیت کو حاصل نہیں ہونے دیا۔ اس کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ گفت و شنید کو ترجیح دی ہے۔ پاکستان کا موقف ہمیشہ ایک ہی رہا ہے افغانستان کا امن، استحکام اور ترقی۔ پاکستان کی افغان پالیسی قومی مفاد اور علاقائی استحکام پر مبنی ہے۔ پاکستان کی بے مثال فراخدلی کا اظہار اس بات سے ہوتا ہے کہ اس نے چار دہائیوں سے زائد عرصے تک 40لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پناہ دی۔ یہ دنیا کی سب سے بڑی اور طویل ترین مہاجر میزبانی میں سے ایک ہے۔
15اگست 2021ء کے بعد جب دنیا کی اکثر ریاستیں نیٹو کے ساتھ کام کرنے والے افغانوں کو قبول کرنے میں ناکام رہیں، پاکستان نے ایک بار پھر انسانیت کی خدمت کو ترجیح دی اور مزید 10لاکھ قانونی/غیر قانونی مہاجرین کو پناہ دی۔ مغربی طاقتوں کے وعدے ابھی تک پورے نہیں ہو سکے، لیکن پاکستان نے عالمی ذمہ داری کو وقار اور ہمدردی کے ساتھ نبھایا۔ 12 صوبوں کے لئے45 ایمبولینسز فراہم کی گئیں۔ طبی کیمپس کے ذریعے 30,000 سے زائد مفت آنکھوں کی سرجریاں کی گئیں۔ پاکستان کی طبی خدمات نے ہزاروں افغانوں کی جانیں بچائیں۔۔ چمن،سپین بولدک اور پشاور،جلال آباد ریلوے منصوبوں کے لئے پاکستان کی طرف سے فزیبلٹی مکمل کی جا چکی ہے۔۔ ان منصوبوں کا مقصد تجارت اور نقل و حرکت کو بہتر بنا کر افغانستان کو خطے کی معیشت میں شامل کرنا ہے۔ پاک-افغان تعاون فورم کے تحت کل انسانی امداد کا تخمینہ 30 ملین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ قدرتی آفات میں 15,000 ٹن امداد فراہم کی گئی۔
پاکستان نے ہر حال میں امداد جاری رکھی، جب دنیا کی توجہ ہٹ گئی تو بھی پاکستان نے اپنی ذمہ داری نبھائی۔ قندھار کے لیے ٹی وی ٹرانسمیٹر، سیکیورٹی آلات اور کمپیوٹرز، کابل کے دیہات میں 15 دیپ ویل ہینڈ پمپ ، کابل چڑیا گھر اور دہ مزنگ پارک کی بحالی قابل ذکر ہیں۔ یہ خدمات عام شہری زندگی میں بہتری، ثقافتی ورثے کی بحالی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی میں معاون ہیں۔ پاکستان کی دہائیوں پر محیط خدمات نے اسے افغانستان کا واحد قابلِ بھروسہ اور مستقل ساتھی بنایا ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے مستحکم مستقبل کی خاطر ہمیشہ دست تعاون دراز کیا ہے۔ یہ رشتہ لین دین پر مبنی نہیں بلکہ برادرانہ، آزمودہ اور مشترکہ مفادات سے منسلک ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کا پاکستان کی کے لیے
پڑھیں:
طالبان بے روزگاری کم کرنے کے لیے افغان کارکنوں کو قطر بھیجیں گے
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جولائی 2025ء) اس نئے پروگرام کے تحت 2000 ہنرمند افراد کے لیے رجسٹریشن کا آغاز اسی ہفتے منگل کے روز کیا گیا، جن میں مہمان نوازی، خوراک و مشروبات اور انجینئرنگ جیسے شعبوں کے ماہر افراد شامل ہیں۔ افغانستان کے 34 صوبوں سے تعلق رکھنے والے درخواست دہندگان اپنے تجربے اور اسناد جمع کرا سکتے ہیں، جن کی اہلیت کا جائزہ لیا جائے گا۔
یہ رجسٹریشن پروگرام ایک ایسے وقت پر شروع کیا گیا ہے، جب پڑوسی ممالک خاص طور پر ایران اور پاکستان سے کم از کم 15 لاکھ افغان باشندوں کو زبردستی واپس بھیجا گیا ہے۔ یہ وطن واپسی ایسے حالات میں ہوئی ہے، جب افغانستان کو معاشی اور انسانی بحران کا سامنا ہے۔
امدادی ایجنسیوں نے خبردار کیا ہے کہ مقامی خدمات پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور بیرون ملک کام کرنے والے افراد کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر میں نمایاں کمی آئی ہے، جو ملک میں سرمائے کے بہاؤ کو متاثر کر رہی ہے۔
(جاری ہے)
قائم مقام وزیر محنت عبدالمنان عمری نے اس لیبر ایکسپورٹ پروگرام کو ایک ''اہم اور بنیادی قدم‘‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، عمان، ترکی اور روس کے ساتھ بھی مذاکرات جاری ہیں۔
طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے نصف ملین افغان بے روزگار
عمری نے سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ایکس پر لکھا، ''ہم مستقبل میں ہنرمند، نیم ہنرمند اور پیشہ ور کارکنوں کو ان ممالک میں بھیجنے کے لیے پرعزم ہیں۔
‘‘انہوں نے مزید کہا، ''ہم افغان کارکنوں کے قانونی حقوق اور بیرون ملک ان کی حفاظت کے لیے پرعزم ہیں۔ ہمارا مقصد غیر قانونی نقل مکانی کو روکنا اور افغان کارکنوں کی عزت و وقار کو برقرار رکھنا ہے۔‘‘
اگرچہ صرف روس نے ہی کابل میں طالبان انتظامیہ کو افغانستان کی حکومت کے طور پر تسلیم کیا ہے لیکن کئی دیگر ممالک کے کابل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔
سن2021ء میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد سے قطر طالبان سے فرار ہونے والوں کے لیے ایک اہم مرکز رہا ہے۔قطر نے طالبان کے لیے ایک سفارتی پوسٹ کی میزبانی بھی کی اور سن 2019 اور 2020 میں طالبان اور اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے درمیان امن مذاکرات کی میزبانی بھی۔
طالبان کے نائب وزیر اعظم برائے اقتصادی امور عبدالغنی برادر نے کہا ہے کہ ''قطر کا لیبر اقدام‘‘ ملک میں بے روزگاری کو کم کرنے اور معیشت کو بہتر بنانے میں مدد سے گا اور ترسیلات زر میں بھی اضافہ ہو گا۔
بہت سے افغان باشندے اپنی بقا کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ملنے والی امداد پر انحصار کرتے ہیں لیکن فنڈنگ میں بہت زیادہ کٹوتیوں نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے، جس کی وجہ سے امدادی ایجنسیوں اور غیر سرکاری تنظیموں نے اس ملک میں اپنے تعلیم اور صحت کے پروگراموں میں کمی کر دی ہے۔
عبدالغنی برادر نے اس پروگرام کے آغاز پر کہا، ''ہنرمند اور پیشہ ور افغان کارکنوں کو قانونی طور پر بیرون ملک بھیجنے کا عمل قومی معیشت پر مثبت اثر ڈالے گا اور بے روزگاری کو کم کرنے میں بھی مدد کرے گا۔
‘‘انہوں نے کہا کہ حکومت چار سال سے بے روزگاری کی شرح کو کم کرنے کے لیے غیر ملکی و ملکی سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر منصوبوں پر بھی کام کر رہی ہے۔
قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے انگلش چینل کی ایک رپورٹ کے مطابق سن 2023 میں طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ نے قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی سے افغانستان کے جنوبی شہر قندھار میں ایک ملاقات کی تھی۔ یہ اخوندزادہ اور کسی غیر ملکی حکومتی عہدیدار کے درمیان عوامی طور پر معلوم پہلی ملاقات تھی۔
ادارت: مقبول ملک