WE News:
2025-09-18@13:13:15 GMT

نو سرنڈر

اشاعت کی تاریخ: 15th, June 2025 GMT

تو وہ جنگ چھڑ ہی گئی جس کے لیے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو سال بھر سے کوشاں تھے، وجہ وہی ہے جو پہلے بھی تھی۔ موصوف بڑے فخر سے چلے تھے حماس کو ختم کرنے مگر تاحال حماس سے اپنے فوجی مرواتے نظر آرہے ہیں۔ یوں یہ اس کوشش میں پڑ گئے کہ اگر امریکا کی شراکت سے ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کردی جائیں یا وہاں رجیم چینج کی کوئی صورت بن جائے تو لوگ غزہ والی ناکامی بھول جائیں گے، مگر سر توڑ کوشش کے بعد اب جاکر جب یہ جنگ شروع ہوئی ہے تو امریکا ساتھ نظر نہیں آرہا، اسرائیل کو تنہا میدان میں اترنا پڑا ہے۔

ہرچند کہ باور کیا جا رہا ہے کہ امریکا ساتھ دے رہا ہے مگر پس پردہ، لیکن یہ فی الحال مفروضہ ہی ہے۔ اگر مفروضہ نہیں بھی ہے تو سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ وہ کھل کر ساتھ کیوں نہیں آیا؟ اس کی ممکنہ وجہ یمنی حوثی نظر آتے ہیں۔ اگر آپ نے فالو کیا ہو تو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپریل سے یمنی حوثیوں کے خلاف ایک آپریشن لانچ کر رکھا تھا، لگ بھگ 500 فضائی حملے کرنے کے بعد ایک دن اچانک انہوں نے عجیب و غریب سا ارشاد فرما دیا۔

’حوثی بہت اچھے لوگ ہیں، ان سے معاہدہ ہوگیا ہے کہ وہ اب کوئی حملہ نہیں کریں گے۔‘

حوثیوں کی طرف سے جواب آیا

’ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا، بحیرہ احمر سے اسرائیل جانے والے بحری جہاز اب بھی نہیں گزرنے دیں گے اور اسرائیل پر حملے بھی بند نہیں ہوں گے۔‘

ٹرمپ کو یہ گستاخی پسند نہ آئی، اور یوں حوثیوں پر پھر سے حملے شروع ہوگئے، جواباً حوثیوں نے امریکی ایئرکرافٹ کیریئر یو ایس ایس ہیری ٹرومین کو نشانے پر رکھ لیا۔ بحری بیڑہ تو کسی میزائل کا براہ راست نشانہ نہ بنا مگر نشانہ بننے سے بچنے کی کوشش میں اس کے ڈیک سے تین طیارے سمندر میں ضرور جاگرے۔ یوں امریکا کو اپنی تاریخ میں پہلی بار ایک ایسی قوت سے نیول شکست تسلیم کرکے بحیرہ احمر سے پیچھے ہٹنا پڑا جس کی سرے سے کوئی نیوی ہی نہیں ہے۔

نتیجہ یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسی کیفیت سے دوچار ہوگئے جس میں ہمارے ہاں کہا جاتا ہے، بڑے میاں تو بڑے میاں، چھوٹے میاں سبحان اللہ۔ اب یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ اس کیس میں بڑے میاں والا ٹائٹل ایران کے پاس ہے۔ خود سوچیے، جو حوثیوں کے ہاتھوں رسوا ہوا وہ ایران کا سامنا کرنے کا رسک لے سکتا ہے؟

نیتن یاہو کی ایران پر پہلی اسٹرائیک اس لحاظ سے مہلک ثابت ہوئی کہ ایران کی لگ بھگ پوری چین آف کمانڈ ہی نشانہ بن گئی۔ بالخصوص انقلابی گارڈ جو آج بھی انقلاب کی محافظ ہے، مگر یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ نیتن یاہو کا اعلان کردہ ہدف نہیں، لہٰذا نیتن یاہو کی فتح یا شکست کا فیصلہ اس کی بنیاد پر نہیں بلکہ اس ہدف کی بنیاد پر ہوگا جو اس نے بیان کر رکھا ہے۔ ایران پر کیے جانے والے حملے کا اعلان کردہ ہدف یہ ہے کہ نیتن یاہو نے ایران کی جوہری صلاحیت ختم کرنی ہے اور وہ بھی اس حد تک کہ ایران ایک فیصد انرچمنٹ کے بھی قابل نہ رہ سکے۔ سو اگر یہ اعلان کردہ ہدف حاصل نہ ہوسکا تو محض ایرانی کمانڈ کا قتل اس کی ’فتح‘ نہیں بن سکے گا۔

ہدف کے تعین میں نیتن یاہو ہمیشہ ہی رسوا ہوا ہے، خواہ وہ 1997 کا وہ خفیہ موساد آپریشن ہو جس کے ذریعے اردن میں موجود حماس رہنما خالد مشعل کے قتل کی کوشش اس بری طرح ناکام ہوئی کہ اپنے دو موساد ایجنٹ رہا کروانے کے بدلے نیتن یاہو کو حماس کے بانی شیخ احمد یاسین سمیت 50 فلسطینی کمانڈروں کو بھی رہا کرنا پڑا۔ یا پھر 2011 کا وہ موقع جب اسی نیتن یاہو کو اپنے ایک فوجی گیلاد شالت کے بدلے ایک ہزار 27 فلسطینی رہا کرنے پڑے تھے۔

ایرانی چین آف کمانڈ کا اس بڑے پیمانے پر صفایا نیتن یاہو کا اعلان کردہ ہدف بیشک نہ ہو مگر واقعہ تو یہ غیر معمولی ہے، اس واقعے نے یہ بات یقینی بنادی ہے کہ ایران کا عسکری نظام عالمی معیار سے بہت کمتر درجے کی چیز ہے۔ اگر کھل کر بات کی جائے تو حقیقت یہ ہے کہ اسماعیل ہانیہ اور حسن نصراللہ کی شہادت نے اس تاثر کو جنم دیا تھا کہ کہیں ایرانی قیادت خود ہی کسی اور راہ پر تو نہیں چل پڑی؟ یہ تاثر لبنان میں بھی تھا اور قطر میں بھی، مگر دو روز قبل جس طرح ایرانی ہائی کمانڈ نشانہ بنی ہے اس سے واضح ہوگیا ہے کہ ایرانی قیادت کسی اور راہ پر نہیں بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ایران کا عسکری نظام ہی فرسودہ و بوسیدہ ہے۔

ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر کی افواج محض یہ نہیں کرتیں کہ اچھی سی ملٹری اکیڈمی بنالی، وہاں کیڈٹس کو اعلیٰ معیار کی تربیت فراہم کرکے یونٹس میں بھیج دیا اور چل سو چل۔ بلکہ ہر ملک کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی فوج دیگر ممالک کے ساتھ مستقل بنیاد فوجی مشقوں میں بھی شریک ہوتی رہے۔ ہر ملک کی تینوں مسلح افواج ہی نہیں بلکہ خصوصی دستے بھی پورے اہتمام کے ساتھ فوجی مشقوں میں شریک ہوتے ہیں۔

ان مشقوں کے دو فائدے ہوتے ہیں، ایک یہ کہ اپنے تربیتی نظام میں اگر کوئی نقص موجود ہو تو وہ سامنے آجاتا ہے، دوسرا یہ کہ ان مشقوں میں شریک مختلف ممالک کی افواج ایک دوسرے کے تجربات سے کچھ نہ کچھ مسلسل نیا سیکھ رہی ہوتی ہیں۔ اس طرح کی مشقیں عام طور پر دوست ممالک کے مابین ون آن ون بھی ہوتی ہیں اور بسا اوقات درجن بھر یا اس سے زیادہ ممالک بھی ان میں شرکت کرتے نظر آتے ہیں۔ بالخصوص نیول اور ایئر ایکسرسائزز میں درجن بھر ممالک کی شرکت بکثرت نظر آتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ایران نے مارچ 2023 سے قبل روس، چین اور انڈیا کے علاوہ کسی کو دوست بنانے کی کبھی کوشش تک کی ہے؟ وہ تو انقلاب کے والے سال سے ہی اس راہ پر چل پڑا کہ دوستیاں نہیں کرنیں بلکہ انقلاب ایکسپورٹ کرنے کی ناکام کوششوں کے ذریعے دشمن بھی بنانے ہیں اور لگ بھگ 50 سال بھی برباد کرنے ہیں۔

آپ نے ایران کے تین دوستوں پر غور کیا؟ ان میں سے دو وہ ہیں جو مسلمہ سپر طاقتیں ہیں، اور تیسرا وہ جس کا خود کو ریجنل پاور سمجھنے والا بھوت ابھی 10 مئی کو ہی ہم نے اتارا ہے۔ ان تین دوستوں کے انتخاب کے پیچھے یہی تکبر کارفرما نظر آتا ہے کہ بھئی ہم آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل سپر طاقت تھے۔ سو ہمارے دوست صرف وہ ممالک ہوں گے جو سپر طاقت ہوں یا بننے کا امکان رکھتے ہوں۔ گویا رسی کو جلے ڈیڑھ ہزار سال ہوگئے مگر بل اب تک باقی ہیں۔ ہم یہ بات پوری بدلحاظی سے اس لیے کہہ رہے ہیں کہ انہیں یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ ان کی کمانڈ کا یوں ترنوالہ بننا ان کے اسی تکبر کا نتیجہ ہے، اگر یہ انقلاب کے بعد نارمل ملک کی طرح چلتے اور دنیا کے ساتھ بنا کر رکھتے تو عسکری لحاظ سے ایک ماڈرن ملک ہوتے، اور جب یہ دیکھتے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ سے اپنے شہریوں کو نکلنے کا کہہ دیا ہے تو اس کے کمانڈر گھروں پر نہ مارے جاتے، بلکہ وہ محفوظ مقامات پر ہوتے۔

اچھی بات یہ ہے کہ جتنا بڑا ایران میں بلنڈر ہوا اتنا ہی اس نے خوشگوار حیرت میں بھی مبتلا کردیا ہے۔ اس کی ملٹری کمانڈ کو پہنچنے والا دھچکا اتنا بدتر تھا کہ دنیا بھر کے سینیئر ریٹائرڈ ملٹری کمانڈر یہ توقع ہی نہیں کر رہے تھے کہ یہ اس بحران سے نکل پائے گا۔ پاک فضائیہ کے ایک ریٹائرڈ ایئرمارشل کا کہنا تھا کہ ایران کو اب سمجھوتہ کر لینا چاہیے کیونکہ یہ اب اسرائیل سے لڑنے کے قابل نہیں رہا۔ خود ہماری پریشانی یہ تھی کہ نئے کمانڈرز کی تعیناتی، پھر ان کی میٹنگز، پلاننگزاور اوپر سے نیچے تک نئے آرڈرز جانے میں کم از کم بھی 4 سے 5 دن لگ جائیں گے، اور اس دوران اسرائیل بڑے پیمانے پر مزید تباہی مچا چکا ہوگا۔ یوں پتا نہیں یہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں آ بھی سکیں گے یا نہیں؟ لیکن اتنے بڑے سانحے کے صرف 20 گھنٹے بعد ایران نے اسرائیل پر جوابی اسٹرائیک کرکے پوری دنیا کو چونکا دیا۔

صرف یہی نہیں کہ اس نے اسرائیل پر بڑا جوابی وار کیا بلکہ اس کا ایئر ڈیفنس سسٹم بھی بحال ہوگیا جس نے ایرانی دعوے کے مطابق تین اسرائیلی ایف 35 طیارے بھی مار گرائے ہیں۔ اگرچہ اسرائیل اس کی تردید کر رہا ہے مگر جنگوں میں جھوٹ یہ نہیں بولے جاتے کہ ہم نے فلاں قلعہ فتح کرلیا ہے بلکہ جنگی جھوٹ ہمیشہ اپنا نقصان کم بتانے کے لیے بولے جاتے ہیں۔ سو بظاہر ایسی کوئی وجہ نہیں کہ ایرانی دعوے پر شک کیا جائے، ایرانی فورسز نے اسرائیل پر اپنی پہلی یلغار کے ساتھ ساتھ ایرانی سرزمین کے دفاع کی بھی بھرپور کوششیں کیں کی ہیں، اور اگلی رات دوبارہ اسرائیل کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ سب بہت حوصلہ افزا ہے، اور کوئی شک نہیں اس سے ایرانی شہریوں کا اعتماد بھی بحال ہوا ہوگا۔

ایک بہت ہی اچھی خبر یہ بھی ہے کہ ایران کی ایٹمی تنصیبات میں سے اب تک ایک بھی ایسی نہیں جو تباہ ہوئی ہو۔ ان تنصیبات کے بالائی حصوں کو نقصان ضرور پہنچا ہے مگر شنید یہی ہے کہ ان تنصیبات کا مرکزی حصہ زمین کی بہت گہرائی میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حملے کے نتیجے میں تابکاری کے کوئی ٹھوس ثبوت بھی تاحال موجود نہیں ہیں، ایران کو اپنے مؤقف پر جم کر کھڑے رہنا چاہیے، اور اپنا ایٹمی پروگرام کسی صورت سرنڈر نہیں کرنا چاہیے۔ تنصیبات کی تباہی اتنا بڑا نقصان نہ ہوگا جتنا بڑا نقصان سرنڈر کرنے کی صورت ہوگا۔ جب کوئی قوم ایک بار سرنڈر کردے تو یہ سلسلہ اسی پر رکتا نہیں بلکہ اسے پھر قدم قدم پر سرنڈر کرنا پڑتا ہے، سو ایران کا مؤقف نو سرنڈر ہی رہنا چاہیے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

wenews اسرائیلی وزیراعظم امریکا ایٹمی پروگرام ایران اسرائیل جنگ ڈونلڈ ٹرمپ نو سرنڈر نیتن یاہو وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیراعظم امریکا ایٹمی پروگرام ایران اسرائیل جنگ ڈونلڈ ٹرمپ نیتن یاہو وی نیوز اعلان کردہ ہدف ہے کہ ایران اسرائیل پر ڈونلڈ ٹرمپ نیتن یاہو نہیں بلکہ ایران کا ایران کی یہ ہے کہ کے ساتھ ہی نہیں نہیں کر میں بھی

پڑھیں:

پاکستان کا صنعتی شعبہ بہتر ہو رہا ہے، آئی ٹی اور سروسز میں ترقی ہو رہی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کررہے ہیں ، جام کمال خان

تہران (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 ستمبر2025ء) وفاقی وزیرِ تجارت جام کمال خان نے پاکستان اور ایران کے درمیان ’’مشترکہ خوشحالی کے نئے باب‘‘ کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا صنعتی شعبہ بہتر ہو رہا ہے، آئی ٹی اور سروسز میں ترقی ہو رہی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کررہے ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاک ایران بزنس فورم 2025 سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

یہ فورم تہران میں پاکستان۔ایران مشترکہ اقتصادی کمیشن (JEC) کے 22ویں اجلاس کے موقع پر منعقد ہوا جس میں بڑی تعداد میں ایرانی اور پاکستانی کاروباری رہنماؤں، حکام اور سفارت کاروں نے شرکت کی۔ منگل کوتہران سے جاری پریس ریلیز کے مطابق وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان نے فورم سے خطاب میں کہا کہ بزنس فورم کا اتنے بڑے پیمانے پر پہلی مرتبہ انعقاد اس امر کا مظہر ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت اور عوام دوستی کو ٹھوس معاشی نتائج میں ڈھالنے کے لیے پرعزم ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے دوطرفہ تجارت کو نئی بلندیوں تک لے جانے کے لیے متعدد اقدامات کا خاکہ پیش کیا، جن میں بینکنگ، لاجسٹکس، شپنگ، ایوی ایشن، فری زونز، ہائی اینڈ مینوفیکچرنگ، زراعت اور سرمایہ کاری کے فروغ پر 17 نئے پروٹوکولز پر مذاکرات، بارڈر مارکیٹس اور خصوصی اقتصادی زونز کو فعال بنانا ہے تاکہ سرحدی علاقوں میں روزگار اور کاروبار کے مواقع بڑھیں، حکومتِ پاکستان کے پانچ سالہ معاشی منصوبہ ’’اُڑان پاکستان‘‘ کے تحت توانائی، معدنیات، زراعت اور مینوفیکچرنگ میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا فروغ، کسٹمز، ٹیرف اور ریگولیٹری رکاوٹوں کے خاتمے کے لیے پاکستانی اور ایرانی ٹیموں کے درمیان قریبی تکنیکی تعاون شامل ہے ۔

جام کمال خان نے کہا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف کی قیادت میں حکومتِ پاکستان نے ایران کے ساتھ تجارت اور روابط کو اعلیٰ ترین اسٹریٹجک ترجیح دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا صنعتی شعبہ بہتر ہو رہا ہے، آئی ٹی اور سروسز میں ترقی ہو رہی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کاری پاکستان کا رخ کر رہی ہے۔ وفاقی وزیر نے ایرانی کمپنیوں کو نومبر 2025 میں پاکستان میں ہونے والے ایگریکلچر ایکسپو میں شرکت کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ یہ موقع مینوفیکچرنگ ہبز دیکھنے اور نئی منڈیوں کو دریافت کرنے کے لیے ایک گیٹ وے ثابت ہوگا۔

انہوں نے اعلان کیا کہ پاکستان جلد 23ویں مشترکہ اقتصادی کمیشن کا اجلاس پاکستان میں منعقد کرے گا تاکہ تہران میں طے پانے والے معاہدوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جا سکے۔ فورم سے خطاب کرتے ہوئے ایرانی وزیر فرزانہ صادق نے گزشتہ برسوں میں دوطرفہ تجارت میں قابلِ ذکر اضافے کو سراہا اور کہا کہ تجارت گزشتہ سال 3.1 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئی ہے ۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی قیادت کی رہنمائی میں تجارتی ہدف 10 ارب ڈالر تک پہنچنے کے لیے پیش رفت جاری ہے۔ فرزانہ صادق نےدواسازی، سیرامکس اور دیگر شعبوں میں مشترکہ سرمایہ کاری کے منصوبوں پر دلچسپی ظاہر کی۔ فرزانہ صادق نے کہا کہ پاکستان۔ایران بزنس فورم دونوں ممالک کے لیے عملی پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے جس سے تعاون میں تیزی اور دونوں قوموں کے لیے ٹھوس نتائج حاصل ہوں گے۔

ایرانی وزیر نے پاکستان میں آنے والے حالیہ سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے قیمتی جانی و مالی نقصان پر افسوس کا اظہار بھی کیا ۔ جام کمال نے ایران کی حکومت، ایرانی وزیر برائے سڑک و شہری ترقی فرزانہ صادق اور ایرانی ٹریڈ پروموشن آرگنائزیشن کا شاندار انتظامات اور میزبانی پر شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ہماری اقتصادی شراکت داری کو بھی اتنا ہی گہرا اور پائیدار ہونا چاہیے جتنا کہ ہمارے مذہبی، ثقافتی اور تاریخی تعلقات ہیں جو صدیوں پر محیط ہیں۔فورم کے اختتام پر دونوں وزراء نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاک۔ایران تاریخی تعلقات کو پائیدار اور جدید اقتصادی شراکت داری میں ڈھال کر علاقائی خوشحالی اور عالمی مسابقت کی راہ ہموار کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • ایران: رہائشی عمارت میں گیس دھماکے سے 6 افراد جاں بحق
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں، ایران
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
  • امریکا نے ایران پر مزید پابندیاں لگا دیں،افراد اور کمپنیوں کی فہرست جاری
  • ہنگامی عرب اسلامی سربراہی اجلاس؛ وزیراعظم کی ایرانی صدر سے ملاقات، امت مسلمہ کے اتحاد پر زور
  • شہباز شریف کی ایرانی صدر سے ملاقات
  • ایرانی صدر فیلڈ مارشل کو پہچانے بغیر آگے بڑھ گئے، نشاندہی پر دلچسپ ردعمل اور معذرت
  • وزیراعظم شہباز شریف کی ایرانی صدر سے ملاقات، قطر سے مکمل یکجہتی کا اعادہ
  • وزیراعظم شہباز شریف کی ایرانی صدر مسعود پزشکیان سے ملاقات، قطر سے یکجہتی کا اظہار
  • پاکستان کا صنعتی شعبہ بہتر ہو رہا ہے، آئی ٹی اور سروسز میں ترقی ہو رہی ہے اور غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کا رخ کررہے ہیں ، جام کمال خان