موٹاپے سے ذیابیطن ،ہائی بلڈپریشر ،قلب و جگر کے امراض بڑھ رہے ہیں
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250616-01-13
کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) موٹاپے سے ذیابیطس‘ ہائی بلڈ پریشر‘ قلب و جگر کے امراض بڑھ رہے ہیں ‘ خواتین میں ہڈیوں، جوڑوں ،بریسٹ، بچہ دانی میں بیماریوں کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں‘ خون کی رگوں میں کولیسٹرول کی تہہ جم جاتی ہے‘جنک فوڈکھانے اور ورزش نہ کرنے نے مسائل کو سنگین کیا، شعبہ صحت دبائو کا شکار ہے۔ان خیالات کا اظہار انڈس اسپتال کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او) اور ہیلتھ نیٹ ورک کے صدر پروفیسر ڈاکٹر عبدالباری خان، پریمیم انٹرنیشنل اسپتال اسلام آباد کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی ای او)، گلوبل ینگ اکیڈمی کے ممبر ڈاکٹر محمد قاسم، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) سے وابستہ پبلک ہیلتھ کے ماہر ڈاکٹر ممتاز علی خان، معروف معالج پروفیسر رئوف نیازی، پمز اسلام آباد سے وابستہ ڈاکٹر محمد علی عارف اور معروف ریمیٹولوجسٹ، کنسلٹنٹ اور فزیشن ڈاکٹر ارشد علی بھٹو نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’موٹاپے کے نقصانات کیا ہیں؟ ڈاکٹر عبدالباری خان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں موٹاپے کی بڑھتی شرح ایک خطرناک صورتحال اختیار کر چکی ہے، عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں آدھی سے زیادہ آبادی موٹاپے کا شکار ہے، 72 فیصد لوگ زیادہ وزن،58 فیصد لوگ موٹاپے کا شکار ہیں اور یہ شرح روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ،جنک فوڈ کا بڑھتا ہوا رجحان، خراب طرزِ زندگی، سستی و کاہلی کے باعث موٹاپا اپنی جڑیں مضبوط کرتا جا رہا ہے ‘ بیماریوں کی شرح میں اضافے کی بنیادی وجہ یہی موٹاپا ہے‘ پاکستان میں ہر تیسرے شخص کے جگر پر چربی ہے خواتین موٹاپے کے باعث کم عمری میں ہی ہڈیوں، جوڑوں کے مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں شوگر، بلڈ پریشر، دل کے امراض، ہائی کولیسٹرول عام بیماریاں بن چکی ہیں‘ موٹاپا صرف وزن کے جمع ہونے یا آپ کے بہترین نظر آنے کے بارے میں نہیں ہے‘ یہ جسم میں چربی کے جمع ہونے کی ایک سنگین حالت ہے جس سے ذیابیطس، کولیسٹرول، بلڈ پریشر اور یہاں تک کہ کینسر جیسی دائمی بیماریوں کا خطرہ بڑھ سکتا ہے جو کھانا ہم کھاتے ہیں وہ ہمیں اپنی صحت کے لیے ضروری غذائی اجزا اور توانائی کے لیے کیلوریز فراہم کرتا ہے۔ اضافی کیلوریز، جسے ہمارا جسم جلا نہیں سکتا، چربی میں بدل جاتا ہے اور ذخیرہ ہوجاتا ہے۔ اگر آپ کا باڈی ماس انڈیکس (BMI) 30 سے زیادہ ہے تو آپ کو موٹاپا سمجھا جاتا ہے۔موٹاپے کا سبب بننے والے بہت سے عوامل ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ خوراک اور استعمال کا عدم توازن ہے، اس کے علاوہ عمر، جنس، جینز، ہارمونز، تناؤ وغیرہ جیسے عوامل موٹاپے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں‘ جدید دور کی زیادہ تر غذاوں میں فاسٹ فوڈ اور زیادہ کیلوری والے مشروبات شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمد قاسم کا کہنا ہے کہ موٹاپا انسان کی صحت کو تباہ کرتے ہوئے زندگی کو مشکل بنا دیتا ہے‘ موٹاپا شوگر کی بیماری کی سب سے بڑی وجہ ہے‘ ضرورت سے زیادہ خوراک کے استعمال اور ورزش کی کمی سے جسم کی انسولین کی ضرورت بڑھتی ہے۔ جب لبلبہ یہ بڑھی ہوئی ضرورت پوری نہیں کر پاتا تو نتیجہ شوگر کی بیماری کی صورت میں نکلتا ہے‘ آج کل تو موٹاپے کی وجہ سے جواں سال لوگوں میں بھی شوگر کی بیماری عام ہوتی جا رہی ہے‘ موٹاپے کی وجہ سے خون کی رگوں میں کولیسٹرول کی تہہ جم جاتی ہے‘ اس سے خون کی رگیں تنگ ہوتی ہیں اور ان میں خون کا پریشر بڑھ جاتا ہے۔ اس مسئلے کو عرف عام میں بلڈ پریشر کی بیماری کہا جاتا ہے۔ بلڈ پریشر کی بیماری ایک خطرناک بیماری ہے جو ہارٹ اٹیک ، فالج ، گردوں کی خرابی سمیت کئی دیگر جان لیوا چیزوں کی جڑ بن سکتی ہے چونکہ جسم اضافی خوراک کو چربی کی صورت میں ذخیرہ کرتا ہے، اس لئے خون میں بھی چربی کے مختلف اجزا بڑھ جاتے ہیں‘ انہی اجزا میں سے ایک کولیسٹرول ہے جو خون کی رگوں کے لیے بہت نقصان دہ ہے‘ کولیسٹرول کی زیادتی بھی بلڈ پریشر، ہارٹ اٹیک اور فالج جیسی چیزوں کا خطرہ بڑھا دیتی ہے‘ انسان کو انجائنا اور ہارٹ اٹیک کا خطرہ لاحق رہتا ہے‘ موٹے لوگوں میں جوڑوں پر دباؤ پڑنے سے جوڑوں کی سطح گھسنے لگتی ہے۔ اس کے نتیجے میں انسان کم عمر میں ہی جوڑوں کی بیماری یا آرتھرائٹس کا شکار ہو جاتا ہے‘ پیٹ کے آگے نکلنے سے کمر کا خم بڑھ جاتا ہے‘ اس سے مہروں پر دباؤآتا ہے اور حرام مغز سے نکلنے والے اعصاب ہڈیوں کے درمیان پچک سکتے ہیں۔ اس مسئلے کی علامات میں ٹانگوں کا سن ہونا ، ہلنے جلنے میں تکلیف اور پٹھوں کی کمزوری شامل ہیں‘ جدید ریسرچ کے مطابق موٹاپا آنتوں ، خوراک کی نالی، گردے اور لبلبے کے کینسر کے امکانات بڑھاتا ہے‘ اس کے علاوہ خواتین میں موٹاپے کے باعث بریسٹ کینسر، بچہ دانی اور بیضہ دانی کے کینسر کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں‘ موٹاپا نہ صرف ظاہری شخصیت کو تباہ کردیتا ہے بلکہ یہ امراض کی جڑ بھی ثابت ہوتا ہے‘ نوجوان نسل اور بچوں میں موٹاپے کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ غیر صحت بخش خوراک اور ورزش کی کمی ہے‘ پاکستان کی نئی نسل میں موٹاپا تیزی سے پھیل رہا ہے‘ صحت مند زندگی گزارنے اور مستقبل میں مہلک امراض سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ سادہ اور متوازن خوراک استعمال کریں‘ سادہ طرز زندگی اپنائیں‘ ہلکی پھلکی ورزش کو اپنے روزمرہ کے معمول کا حصہ بنائیں۔ ڈاکٹر ممتاز علی خان کے مطابق موٹاپے اور غیر صحت بخش عادات کی وجہ سے پاکستانی قوم عمر سے پہلے بوڑھی ہو رہی ہے۔بطور ماہر امراض اطفال انہوں نے بچوں میں بڑھتے ہوئے موٹاپے پر شدید تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس کی بڑی وجوہات میں اسکرین ایڈکشن، جنک فوڈ اور جسمانی سرگرمیوں کی کمی شامل ہیں‘ اکثر موٹے بچوں کو صحت مند سمجھتے ہیں، جو کہ ایک خطرناک سوچ ہے۔ پروفیسر رئوف نیازی کے مطابق موٹاپا پاکستان کی معیشت پر خاموشی سے ایک تباہ کن بوجھ بنتا جا رہا ہے، جو فی الوقت سالانہ 3 ارب41 کروڑ ڈالر یعنی 950 ارب روپے سے زاید کا نقصان پہنچا رہا ہے، اور اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو 2030ء تک یہ بوجھ بڑھ کر 7.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر محمد بلڈ پریشر موٹاپے سے طرز زندگی موٹاپے کا کی بیماری کی وجہ سے کے امراض کے مطابق جنک فوڈ کا خطرہ کا شکار جاتا ہے کے لیے کی کمی خون کی رہا ہے
پڑھیں:
ڈاکٹر کون سا؟(دوسرا حصہ)
ڈگریوں سے متعلق بات رہی تھی سو آگے بڑھنے سے پہلے بہتر ہو گا کہ آپ کو مغربی ڈگریوں کے بارے میں بھی بتاتے چلیں۔
انگلستان کی کالونی رہنے کی وجہ سے ہمارا نظام انہی کا بنایا ہوا ہے۔ تربیتی کورس، کتابیں سب کچھ وہیں سے لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز کے بننے سے پہلے لوگ انگلستان جا کر تربیت حاصل کرتے تھے اور وہیں سے امتحان پاس کرتے تھے۔ ہر مضمون کے امتحان کے لیے ایک کالج ہے جس کا نام اس مضمون کی مناسبت سے رکھا گیا ہے۔ جیسے گائنی والوں کے لیے رائل کالج آف گائناکالوجی اینڈ آبسٹیٹرکس۔ سرجری کے لیے رائل کالج آف سرجنز، اینستھیسیا کے لیے رائل کالج آف اینستھزیویالوجی۔
ڈگریوں کے نام بھی رائل کالج کی مناسبت سے رکھے گئے ہیں جیسے اگر کوئی گائنی کا امتحان پاس کرے گا تو اسے ایم آر سی او جی MRCOG کی ڈگری ملے گی جو مخفف ہے Member of Royal College of gynaecology andObstetrics.
ایم آر سی اوجی MRCOG ڈگری متبادل ہے پاکستانی ڈگری ایف سی پی ایس FCPS کے۔
ایم آر سی او جی ڈگری کے بعد ایف آر سی او جی کی ڈگری دی جاتی ہے اور اس کا انحصار کسی امتحان پر نہیں بلکہ ریسرچ اور تجربے پر ہوتا ہے۔
کسی زمانے میں انگلستانی ڈگریاں بہت اہم اور مقدم قرار دی جاتی تھیں کہ حاصل کرنے والا ڈاکٹر کڑے مراحل سے گزرتا تھا۔ تربیتی پروگرام انتہائی کٹھن اور طویل، پروفیسرز کی کڑی نگہداشت اور مشکل امتحان۔ اس کا ثبوت وہ پروفیسرز حضرات ہیں جو ہماری پیڑھی سے قبل انگلستان سے بڑے ڈاکٹرز بن کر آئے اور ہماری پیڑھی کو تربیت دی۔ پروفیسر ڈاکٹر عطا اللہ خان، ہیڈ آف گائنی ڈیپارٹمنٹ نشتر ہسپتال اس کی اعلیٰ مثال ہیں۔ طویل عرصہ انگلستان میں کام کر کے واپس لوٹے اور ڈاکٹرز کو تربیت دینے پہ کمر کس لی۔ ان کی سمجھائی ہوئی باتیں آج بھی دل پہ لکھی ہیں۔
مگر پھر وہ سنہرا دور خواب ہوا۔ انگلستان میں بھی پیسے کمانے کی ہوا چلی اور انہوں نے اپنی ڈگری کا وہ حال کیا کہ ٹکے کے بھاؤ سیر ملنے لگیں۔
اس بات کا اندازہ اس سے لگا لیجیے کہ ایم آر سی او جی کا امتحان کوئی بھی ایسا ڈاکٹر دے سکتا ہے جس نے باقاعدہ طور پہ تربیتی پروگرام میں حصہ نہ لیا ہو۔ مرکز صحت پہ او پی ڈی کرنے والے ڈاکٹر بھی کسی نہ کسی سینئیر ڈاکٹر سے درخواست پہ دستخط کروا کر امتحان میں بیٹھ سکتے ہیں۔ امتحان بہت سی کتابوں کا رٹا مار کر پاس کیا جا سکتا ہے، عملی امتحان بھی ریہرسل کر کے پاس کیا جاتا ہے بلکہ مارکیٹ میں ایسے بہت سے کورسز موجود ہیں، جو یہ امتحان پاس کروانے کی تیاری کرواتے ہیں۔
امتحان پاس ہو گیا ، ڈاکٹر کے پاس ڈگری بھی آ گئی مگر کیاڈاکٹر کے پاس قابلیت بھی ہے؟
ہمارا جواب نفی میں ہے۔
گلف میں رہنے والے مختلف ممالک کے ڈاکٹر ایم آر سی او جی MRCOG پاس کرتے ہیں کہ یہاں رہتے ہوئے نہ فیس بھرنا مشکل ہے، نہ امتحان میں بیٹھنا۔ دو چار بار میں ڈگری مل ہی جاتی ہے مگر اس کے بعد … اس کے بعد وہ مقام آتا ہے جہاں پہ پر جلتے ہیں۔
ہم نے عمان میں رہتے ہوئے جتنے بھی اسپتالوں میں کام کیا ہے، وہاں پہ موجود بیشتر جونئیر ڈاکٹروں نے ہمارے سامنے ایم آر سی او جی کا امتحان پاس کیا۔ کتابی علم بہت آتا تھا مگر مریض کے ساتھ کرنا کیا ہے، وہ زیرو۔ اس لیے کہ عمان میں دوسرے ملکوں سے آنے والے سروس ڈاکٹرز کو ٹریننگ میں جانے کی اجازت نہیں۔ جو کچھ سیکھنا ہے، اپنے ملک سے سیکھ کر آؤ، عمانی تربیتی پروگرام صرف عمانی ڈاکٹرز کے لیے ہے۔
انہیں دیکھ کر ہم اکثر سوچتے تھے کہ جب یہ سب اپنے اپنے ملک جائیں گے اور نام کے ساتھ انگلستانی ڈگری کا پھندنا ٹکا ہو گا، تب مریض کس قدر Impressed ہوں اور جوق در جوق علاج کے لیے آئیں گے تب ڈگری کا بھرم کیسے رکھا جائے گا، شاید ان مریضوں کے سر پہ جنہیں میڈیکل کی اے بی سی نہیں آتی۔
آج کل ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں ایک ایم آر سی او جی ڈاکٹر ایسی بھی ہیں کہ جن پہ ہم نے پابندی لگا رکھی ہے کہ وہ آپریشن تھیٹر میں نہیں گھسیں گی۔ ان کو ایک بار مریض کا آپریشن کرتے دیکھا تھا اور وہ انسانی جسم کے جس قدر ’پرخچے‘ اُڑا رہی تھیں وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ ہم بے ہوش ہوتے ہوتے بچے تھے۔
اسی تناظر میں پاکستانی ڈاکٹر بھی دیکھ لیجیے۔ ہم ہر گز یہ نہیں کہتے کہ سب کو کام نہیں آتا ہو گا، لیکن جو کہانیاں ہم مریضوں سے سنتے ہیں اس کے بعد ہمیں تشویش سی ہونے لگتی ہے کہ اسپیشلائزیشن میں ہونے والی تربیت کا معیار کیا ہے؟
علاج کے لیے آنے والے مریض دو طرح کے ہوتے ہیں، بلیک اینڈ وائٹ اور گرے۔ بلیک اینڈ وائٹ مریض میں سب علامات چیخ چیخ کر بتا رہی ہوتی ہیں کہ بیماری کیا ہے؟ ان کی تشخیص کوئی نابینا بھی کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر کا امتحان ہوتا ہے گرے کیس، جہاں کچھ علامات ہوتی ہیں، کچھ نہیں، روایتی کیس سے ہٹ کر بہت کچھ ہو گا۔ یوں بھی ہو سکتا ہے کہ دو تین بیماریوں کی کچھ علامات سامنے آئیں جو عام طور پہ دیکھنے میں نہ آتی ہوں۔
ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا مریض ڈاکٹر نے کبھی دیکھا ہی نہ ہو مگر ڈاکٹر کی پرابلم سولونگ سکل اس قدر کمال پہ ہونی چاہیے کہ وہ کسی بھی معمے کو کامیابی سے حل کرے۔
سرجری میں بھی یہی اصول سامنے آتا ہے۔ آسان کیسسز حلوہ ہوتے ہیں جنہیں ہر کوئی خوشی خوشی کھا لیتا ہے لیکن دانتوں چنے چبوانے والے کیسسز کو کوئی نہیں کرنا چاہتا، سب جان چھڑوانے کی پالیسی پہ چلتے ہوئے مریض کے ساتھ پنگ پانگ کرتے رہتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کی تربیت اس نہج پہ کیوں نہیں ہوتی؟
مریض کسی وقت بھی آسان سے مشکل حالت میں جا سکتا ہے، کسی کے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹری ایک مشکل میدان ہے سو اس میں صرف ان کو آنا چاہیے جو اپنے مریض سے محبت کریں، نہ کہ فائل کی طرح اسے کبھی ادھر پٹخیں، کبھی اُدھر۔
آج کے لیے اتنا ہی۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں