data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کھیلوں کی دنیا میں پاکستان کے لیے ایک اور تاریخی لمحہ اُس وقت آیا جب عالمی شہرت یافتہ جریدے ’’فوربز‘‘نے پاکستان کے نامور ایتھلیٹ اور اولمپک گولڈ میڈلسٹ ارشد ندیم کو ایشیا کی 30 انڈر 30 بااثر شخصیات کی فہرست میں شامل کر لیا ہے۔

اس اعلان نے جہاں ارشد ندیم کے کیریئر میں ایک اور شاندار سنگِ میل کا اضافہ کیا ہے، وہیں پاکستان کے کھیلوں کے شعبے کو بھی بین الاقوامی سطح پر ایک بار پھر روشن الفاظ سے ت حریر کردیا ہے۔

ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس 2024 میں تاریخ رقم کی، جب انہوں نے جیولین تھرو (نیزہ بازی) کے فائنل میں 92.

97 میٹر کی ناقابلِ یقین تھرو کرتے ہوئے نہ صرف گولڈ میڈل جیتا بلکہ پاکستان کی اولمپک تاریخ کا سب سے بڑا اعزاز اپنے نام کیا۔

فوربز نے اپنی رپورٹ میں ارشد کی اس پرفارمنس کو “اسٹننگ شو” یعنی حیرت انگیز مظاہرہ قرار دیا، اور اسے ایشیائی کھیلوں میں غیر معمولی کارکردگی کی ایک مثال قرار دیا۔

یہ پہلا موقع ہے جب کسی پاکستانی ایتھلیٹ نے انفرادی اسپورٹس میں اولمپک گولڈ میڈل حاصل کیا اور یہ کارنامہ تقریباً 3 دہائیوں کے بعد کسی پاکستانی کی جانب سے اولمپک پوڈیم پر سب سے اونچی جگہ پر پہنچنے کا باعث بنا۔ ارشد ندیم کی اس جیت نے نہ صرف پاکستان کے کھیلوں کی تقدیر بدلنے کی امید جگائی بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک نیا پیغام دیا کہ پاکستان میں بھی ٹیلنٹ کسی سے کم نہیں۔

ارشد ندیم کی جیت پر نہ صرف عوام نے بے پناہ خوشی کا اظہار کیا بلکہ حکومتی سطح پر بھی ان کے اعزاز میں بڑے پیمانے پر پذیرائی کی گئی۔ پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے مجموعی طور پر انہیں 15 کروڑ 30 لاکھ روپے کے انعامات سے نوازا۔ انعامی رقوم کے ساتھ ساتھ انہیں زندگی بھر کے لیے متعدد سہولیات بھی دی گئیں جن میں رہائش، تعلیمی وظائف اور کوچنگ سپورٹ شامل ہے۔

علاوہ ازیں وفاقی حکومت نے ان کے اعزاز میں اسلام آباد کی ایک مرکزی سڑک کا نام ’’ارشد ندیم روڈ‘‘رکھنے کا اعلان کیا، جو ان کی تاریخی کامیابی کو مستقل یادگار بنائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان پوسٹ نے بھی 14 اگست کے موقع پر ایک خصوصی یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا، جو اُن کی خدمات کو قومی سطح پر سراہنے کی ایک شاندار مثال ہے۔

یاد رہے کہ فوربز کی سالانہ ’’30 انڈر 30 ایشیا‘‘فہرست اُن نوجوانوں پر مشتمل ہوتی ہے جنہوں نے مختلف شعبہ جات میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہو اور جو اپنی فیلڈ میں تبدیلی کا سبب بنے ہوں۔

ارشد ندیم کا اس فہرست میں آنا نہ صرف ان کی ذاتی کامیابی ہے بلکہ یہ پاکستان کے نوجوان کھلاڑیوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ اگر وہ محنت، لگن اور صبر سے کام کریں تو دنیا کی کوئی بھی چوٹی ان کے لیے ناقابلِ تسخیر نہیں۔

ارشد ندیم کا تعلق پنجاب کے ایک متوسط گھرانے سے ہے۔ وسائل کی کمی، سہولیات کی عدم دستیابی اور محدود مواقع کے باوجود انہوں نے محنت اور استقامت کے ذریعے خود کو نہ صرف قومی سطح پر منوایا بلکہ عالمی سطح پر بھی پاکستان کا نام روشن کیا۔ ان کی کہانی اُن نوجوانوں کے لیے مشعل راہ ہے جو پسماندہ علاقوں میں رہتے ہوئے بھی بڑے خواب دیکھتے ہیں۔

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پاکستان کے کے لیے

پڑھیں:

ایرانی مزاحمت میں شیعہ سیاسی تاریخ اور کربلا کے اثرات

اسلام ٹائمز: ایران عراق جنگ کے دوران ایک خاتون اپنے چار فرزند شہید کروانے کے بعد کہتی ہے کہ کاش میرے مزید بیٹے ہوتے تو میں انھیں بھی اسلام پر قربان کر دیتی۔ 13 جون 2025ء کو جو ایرانی جرنیل اور سائنسدان اسرائیل نے شہید کیے، تقریباً سبھی ایران عراق کی جنگ کے دوران شہادت کا شوق لیے میدان میں اترے تھے، تاہم خدا نے انکو بعد کیلئے محفوظ رکھا۔ یہ جرنیل ایک ہی خواہش رکھتے تھے کہ خداوند کریم ہمیں ہمارے ساتھیوں سے ملا دے۔ خدا نے انکی آرزو پوری کر دی۔ اب بھی ایران میں ایسے لاکھوں افراد موجود ہیں، جو اسی جذبے کے ساتھ زندہ ہیں، حتی کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای بھی انہی افراد میں سے ایک ہیں، جو ایران عراق جنگ کی باقیات ہیں۔ تحریر: سید اسد عباس

کسی بھی دستیاب ذریعے سے اپنے اہداف کو حاصل کرنا، اس کے لیے ظلم کرنا، کسی کو قتل کرنا، غصب کرنا، لوٹ مار کرنا اور اس کے برعکس اہداف کے حصول کے ذریعے ظلم سے اجتناب، یہ انسان کی فکری بنیادوں سے متعلق چیزیں ہیں۔ اگر کوئی شخص ظلم کر رہا ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ وہ جس بھی نظری یا فکری سسٹم سے متعلق ہے، اس میں یا تو ظلم بری چیز نہیں یا وہ درحقیقت اس سسٹم پر عمل پیرا ہی نہیں ہے۔ ظلم دنیا کے کسی بھی مذہب میں روا نہیں ہے۔ یہودیت، مسیحیت، اسلام، بدھ مت، ہندو مت کسی بھی مذہب کی تعلیمات کو اٹھا لیجیے، ظلم ہر مذہب میں مذموم ہے۔ اس کے باوجود ان کے مذاہب کے ظاہراً نام لیوا ظلم کرتے دکھائی دیتے ہیں، جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ یا تو مذہب کی تشریح میں کوئی مسئلہ ہے یا پھر ظالم درحقیقت کسی اور فکری و عقیدتی نظام کی پیروی کر رہا ہے۔

ظلم نہ کرنا اور ظلم کے خلاف قیام کرنا بھی ایسا ہی ہے، اس کا تعلق بھی انسان کے فکری نظام سے ہے۔ آج دنیا میں ظلم کے خلاف قیام کرنے والے افراد کسی نہ کسی فکری سلسلے سے وابستہ ہیں۔ اسلام مسلمانوں کو ظلم کے خلاف قیام اور مظلومین کی مدد کے لیے جہاد کی دعوت دیتا ہے اور اس کی سب سے برتر یا کامل ترین مثال واقعہ عاشورہ ہے۔ "مثلی لا یبایع مثله" (میرے جیسا کبھی اس (یزید) جیسے کی بیعت نہیں کرسکتا)۔ "ھیھات من الذلۃ" (ذلت ہم سے دور ہے)۔ کربلا ظلم کے خلاف قیام، عدل کی طلب اور طاغوتی قوتوں سے نفرت جیسے نظریات کی عملی تفسیر ہے۔ یہ وہ درسگاہ ہے، جو انسان کو سکھاتی ہے کہ دینی اقدار کے لیے کیا بچایا اور کیا قربان کیا جانا چاہیئے۔

ہم جانتے ہیں کہ ایران ایک شیعہ اکثریتی ملک ہے، جہاں کے مرد و زن دنیا میں آمد سے لے کر لحد میں اترنے تک کربلا سے جڑے رہتے ہیں۔ مجالس، عزاداری، تعزیہ داری، نیاز و سبیل، تاریخ تشیع اور سب سے بڑھ کر کربلا ایرانی معاشرے کی ذہنی ساخت، افکار اور اعمال کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ شیعہ آئمہ کی تاریخ ان کی مختلف مظالم کے مقابل مزاحمت شیعی فکر اور سوچ کا حصہ ہے۔ شیعہ بچہ یہ سنتے ہوئے جوان ہو جاتا ہے کہ ہمارے آئمہ نے ہر ظالم و جابر کے خلاف قیام کیا اور جان کی پروا نہ کرتے ہوئے ہمیشہ کلمہ حق کو بلند رکھا۔ شیعہ جن شخصیات کی پیروی کرتے ہیں، وہ سب کے سب یا زندانوں میں زہر سے قتل ہوئے یا میدان جنگ میں اپنے خون سے نہائے۔

یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ مجالس و عزاداری تو دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہے، مگر وہاں کے اجتماعی رویوں پر اس کے اثرات کیوں نہیں۔ یہ درست نہیں ہے کہ مجلس و عزاداری انسانی فکر کو ضرور متاثر کرتی ہے، مجلس و عزاداری سے جڑا ہوا شخص کبھی بھی ظلم کو پسند نہیں کرے گا، ظلم کرنے سے اجتناب کرے گا، اگر وہ کوئی غلطی انجام دیتا بھی ہے تو احساس ندامت اسے جینے نہیں دیتا۔ یہ ذکر حسین ؑ کے معجزات میں سے ایک ہے، جو صدیوں سے ہر لمحہ ظہور کرتا ہے۔ اہل فارس کا ایک تاریخی پس منظر ہے، یہ ایک بڑی تہذیب تھی، قومی افتخار پر مرمٹنے والے، تشیع اور عزاداری نے اس قوم کے فکری نظام کو جلا بخشی، امام خمینی نے اس قوم کے سامنے کربلا کی تشریح کچھ اس انداز سے کی کہ یہ قوم ایک ناقابل تسلیم قوت کے روپ میں سامنے آئی۔

ایران کے روحانی پیشوا، رہبر انقلاب امام خمینی نے اپنے انقلاب کو متعدد مقامات پر کربلا کا فیض قرار دیا۔ امام خمینی نے فرمایا "ما ملت حسینیم" (ہم امام حسین ؑ کی قوم ہیں)، "کل یوم عاشورا، کل ارض کربلا" (ہر دن عاشورا ہے اور ہر زمین کربلا کی سرزمین ہے)، "نہضت ما، پرتوی از نہضت امام حسین است" (ہماری یہ تحریک امام حسین ؑ کی تحریک کا ایک کرن ہے)،" امام حسین به ما آموخت که در برابر ظلم و ستم باید ایستادگی کرد، ولو آنکه جمعیت ما کم باشد" (امام حسین ؑ نے ہمیں سکھایا کہ ہم ظلم کے مقابل کھڑے رہیں، خواہ ہماری تعداد کم ہو)، "ہمارا رہبر وہ 13 سالہ بچہ ہے، جو اپنے چھوٹے سے دل کے ساتھ، جس کی قدر ہماری سینکڑوں زبانوں اور قلموں سے زیادہ ہے، اپنے جسم سے بم باندھ کر ٹینک کے نیچے چلا جاتا ہے"، "محرم وہ مہینہ ہے، جس میں عدل نے ظلم کے مقابل قیام کیا اور حق باطل کے سامنے ڈٹ گیا۔"

انقلاب اسلامی ایران کی تاریخ سے آگاہ لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ شاہ ایران کی مخالفت کی بنیادی وجہ ایران میں معاشی اور معاشرتی مسائل کے ساتھ ساتھ شاہ ایران کا ایرانی ثقافت اور مذہبی رسوم کے ساتھ کھلواڑ تھا۔ ایسے میں ایران کی روحانی قیادت نے قیام کیا اور شاہ ایران کا تختہ پلٹ دیا۔ ایرانی قوم نے انقلاب ایران کے فوراً بعد عراق کی جانب سے مسلط کردہ جنگ کو آٹھ برس لڑا اور لاکھوں قربانیاں پیش کیں، جن کے پیچھے بھی کربلا ہی نظر آتی ہے۔ ایران عراق جنگ کے دوران ایک خاتون اپنے چار فرزند شہید کروانے کے بعد کہتی ہے کہ کاش میرے مزید بیٹے ہوتے تو میں انھیں بھی اسلام پر قربان کر دیتی۔ 13 جون 2025ء کو جو ایرانی جرنیل اور سائنسدان اسرائیل نے شہید کیے، تقریباً سبھی ایران عراق کی جنگ کے دوران شہادت کا شوق لیے میدان میں اترے تھے، تاہم خدا نے ان کو بعد کے لیے محفوظ رکھا۔

یہ جرنیل ایک ہی خواہش رکھتے تھے کہ خداوند کریم ہمیں ہمارے ساتھیوں سے ملا دے۔ خدا نے ان کی آرزو پوری کردی۔ اب بھی ایران میں ایسے لاکھوں افراد موجود ہیں، جو اسی جذبے کے ساتھ زندہ ہیں، حتی کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای بھی انہی افراد میں سے ایک ہیں، جو ایران عراق جنگ کی باقیات ہیں۔ یہاں ایک بات قابل ذکر ہے، ہم ایک قوم کے فکری سسٹم کی بات کر رہے ہیں، یہاں ہمارا مقصد کسی قوم، شخصیت کے ہر اقدام کو حق کی سند عطا کرنا نہیں ہے۔ اقوام اور شخصیات غیر معصوم ہیں، ان سے غلطی ہوسکتی ہے اور ایرانی قوم اس اصول سے مبرا نہیں۔ آج پوری مسلم دنیا میں ایران کی مزاحمت کی تعریفیں ہو رہی ہیں، عالم اسلام میں ہر شخص خوش ہے کہ ایران نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا غرور خاک میں ملا دیا۔

اسرائیل کے شہر جن کو وہ ناقابل تسخیر اور ناقابل رسائی سمجھتا تھا، وہاں ایرانی میزائلوں کی گھن گرج آج پوری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ آئرن ڈوم، تھاڈ، سب سے بہترین فضائی آلات، جدید ترین طیارے سب ناکام ہوگئے۔ ایرانی میزائل جو ہائپر سانک ٹیکنالوجی کے حامل ہیں، اسرائیلی ائیر ڈیفنس سسٹم کو پچھاڑ کر اپنے اہداف کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ آج پاکستانی کالم نگاروں کی ایک بڑی تعداد نے ایران اسرائیل جنگ کو حق و باطل کا معرکہ قرار دیا، کچھ نے اسے مظلومین کی چنگھاڑ قرار دیا۔ بعض لکھتے ہیں کہ ایران پر حملہ عالم اسلام پر حملہ ہے۔ ایرانی ناکامی عالم اسلام کی ناکامی ہوگی اور اس کے بعد عالم اسلام کا کوئی ملک محفوظ نہیں ہوگا۔

خورشید ندیم نے درست لکھا کہ آج فقط مذمتی بیانات سے کام نہیں چلے گا۔ عالم اسلام کو عملی طور پر ایران کے ساتھ کھڑا ہونا ہوگا، تاکہ اسرائیل اور اس کے پشت پناہ امریکہ کی پیشرفت کو روکا جا سکے۔ انھوں نے درست لکھا کہ ایران اس وقت تنہا ظالموں اور جابروں کے خلاف کھڑا ہے۔ عالم اسلام اگرچہ زبانی طور پر اس کی حمایت کر رہا ہے، تاہم عملاً کسی جانب سے کوئی مدد موصول نہیں ہو رہی۔ شنید ہے کہ قطر، اردن اور عرب امارات ایرانی میزائلوں کو روکنے میں اسرائیل کی مدد کر رہے ہیں۔ کچھ کالم نویس پریشان ہیں کہ نہیں معلوم ایران کب تک اپنا دفاع کرسکے گا۔ ایران جب تک اپنا دفاع کرے، اس نے عالم اسلام پر حجت تمام کر دی ہے کہ عزت کا راستہ جرات و بہادری کا راستہ ہے۔

اگر اکیلا ایران کم وسائل کے باوجود اسرائیل پر قیامت بن کر نازل ہوسکتا ہے تو عالم اسلام کے دیگر ممالک جو اسلام کے رو سے رشتہ اخوت میں بندھے ہوئے ہیں، مل کر اسرائیل اور اس سرپرستوں کو کس مشکل سے درپیش کرسکتے ہیں، تاہم اس کے لیے اسلام کی آفاقی تعلیمات پر ایمان درکار ہے۔ اس کے لیے آپ کا فکری نظام درست ہونا چاہیئے، آپ کے رول ماڈلز ایسے ہونے چاہییں، جو اسلام کی تعلیمات کا عملی نمونہ ہوں۔ اسماعیل ہنیہ، یحییٰ سنوار، اہل غزہ بھی تو اسی عالم اسلام کا حصہ ہیں، ہماری تاریخ ایسے جری اور باعمل مسلمانوں سے پر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان حکمران اپنی فکری بنیادوں کو اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کریں اور اپنی مسئولیت کو نتائج جانے بغیر انجام دیں۔ اگر آج ایران کی مزاحمت کمزور ہوئی تو پھر ترکی، سعودیہ، امارات، ملائشیا، پاکستان بلکہ کوئی بھی اسلامی ملک آزاد اور خود مختار نہیں رہے گا۔ کل غزہ ہماری فرنٹ لائن تھا، آج ایران اسلام کی فرنٹ لائن ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اولمپک چیمپئن ارشد ندیم کیلیے عالمی جریدے فوربز کا بڑا اعزاز
  • ایرانی مزاحمت میں شیعہ سیاسی تاریخ اور کربلا کے اثرات
  • ٹی20 کرکٹ میں بدترین بولنگ کا نیا ریکارڈ، یہ اعزاز کس بولر کو ملا؟
  • ڈاکٹر افضل جاوید کو ’’ آرڈر آف دی برٹش ایمپائر ‘‘ کا اعلیٰ اعزاز مل گیا
  • امریکہ کی مدد کے بغیر اسرائیل کی بربریت ناممکن ہے، مولانا ارشد مدنی
  • گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم کنڈی سے سابق طالبعلم رہنما اور کراچی میں پختون کمیونٹی کے فعال راہنماء ملک ارشد کنڈی کی ملاقات
  • سیاسی خواب،تاریخی زخم
  • ‘دعا کے پاپا’ نے سوشل میڈیا سے آمدنی کی حیران کُن تفصیلات بتادیں
  • ثنا میر نے ایک اور اعزاز حاصل کرلیا،آئی سی سی ہاف فیم میں شامل