انسانی امدادی سرگرمیوں کے لیے جنگی اخراجات کا صرف ایک فیصد درکار، فلیچر
اشاعت کی تاریخ: 16th, June 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 16 جون 2025ء) امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کے اعلیٰ سطحی رابطہ کار ٹام فلیچر نے دنیا بھر میں 114 ملین لوگوں کی زندگی کو تحفظ دینے کے لیے رواں سال 29 ارب ڈالر کے امدادی وسائل مہیا کرنے کی اپیل کی ہے جو گزشتہ سال دنیا بھر میں جنگوں پر خرچ کیے جانے والے وسائل کا صرف ایک فیصد ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ حالیہ عرصہ کے دوران امدادی وسائل میں آنے والی کمی دنیا کے طول و عرض میں بہت سے لوگوں کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔
ان حالات میں لوگوں کی بڑی تعداد ضروری مدد سے محروم رہ جائے گی لیکن امدادی برادری دستیاب وسائل میں زیادہ سے زیادہ زندگیوں کو تحفظ دینے کی کوشش کرے گی۔ Tweet URLدسمبر 2024 میں رواں سال کے لیے جاری کردہ عالمگیر امدادی جائزے (جی ایچ او) میں بتایا گیا تھا کہ 70 سے زیادہ ممالک میں پناہ گزینوں سمیت تقریباً 180 ملین لوگوں کو مدد کی ضرورت ہے۔
(جاری ہے)
اس مقصد کے لیے مجموعی طور پر 44 ارب ڈالر درکار ہیں جن میں سے اب تک 5.6 ارب ڈالر یا 13 فیصد سے بھی کم وسائل مہیا ہو سکے ہیں۔امدادی اقدامات کی ترجیح نو
ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ امدادی امور کے لیے اقوام متحدہ کا رابطہ دفتر (اوچا) ہر ملک کے حوالے سے امدادی منصوبوں کی نئے سرے سے ترجیح بندی کر رہا ہے۔ اس میں سب سے پہلے ان لوگوں تک پہنچا جائے گا جن کی ضروریات سب سے زیادہ اور ہنگامی نوعیت کی ہیں۔
اس مقصد کے لیے ایسا پیمانہ استعمال کیا جانا ہے جس سے انسانی ضروریات سے آگاہی ملے گی اور اندازہ ہو سکے گا کہ یہ ضروریات کس قدر شدید ہیں۔اس کے بعد 2025 میں امدادی اقدامات کے حوالے سے کی گئی منصوبہ بندی کی بنیاد پر ضروری مدد کی فراہمی کو ترجیح دی جائے گی۔ اس میں یہ یقینی بنایا جائے گا کہ محدود وسائل جلد از جل وہیں مہیا کیے جائیں جہاں ان کا سب سے زیادہ فائدہ ہو۔
وسائل میں ظالمانہ کمیانہوں نے بتایا کہ امدادی شراکت داروں نے لوگوں کو مدد پہنچانے کے منصوبوں میں تحفظ کو مرکزی جگہ دی ہے۔ ضروری امداد کی فراہمی کو کسی مخصوص فہرست تک محدود کرنے کے بجائے ایسے انداز میں انتہائی ہنگامی ضروریات کو پورا کیا جائے گا جس سے لوگوں کا وقار متاثر نہ ہو۔ اس میں جہاں ممکن ہو نقد امداد کی فراہمی اور لوگوں کو اپنی فوری ضروریات کے حوالے سے فیصلے کا اختیار دینا بھی شامل ہے۔
ٹام فلیچر کا کہنا ہے کہ امدادی وسائل میں ظالمانہ انداز میں کی جانے والی کمی کے باعث امداد کی فراہمی کے حوالے سے بھی سخت فیصلے کرنا پڑے ہیں۔ یہ محض رقم کے لیے کی جانے والی اپیل نہیں بلکہ عالمگیر ذمہ داری، انسانی یکجہتی اور لوگوں کے مصائب کو ختم کرنے کے لیے کیے جانے والے عزم کی یاد دہانی بھی ہے۔
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے حوالے سے کی فراہمی سے زیادہ کے لیے
پڑھیں:
بانی چیئرمین کے بچے پاکستان آئے تو پرجوش استقبال کریں گے، چیئرمین پی ٹی آئی
راولپنڈی:پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے کہا ہے کہ ابھی وقت ہے ایک دوسرے کے گریبانوں سے ہاتھ نکالا جائے اور اگر بانی پی ٹی آئی کے بچے اگر پاکستان آئے تو پرجوش استقبال کریں گے۔
اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن وضاحتیں دینے کے بجائے آئین اور قانون کی پیروی کرے، جمہوریت میں اپوزیشن کا کردار ختم ہو جائے تو وہ شہنشاہیت ہے۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہمیں دیوار پر لکھا نظر آرہا تھا کہ ہمارے لوگوں کو نا اہل کیا جائے گا، عدالتیں ہمیں مرضی کا وکیل کرنے کا وقت ہی نہیں دے رہیں، کہا گیا کیس کو ختم کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا آئینی حق ہے ہمارا کیس ہماری مرضی کا وکیل لڑے، فیصل آباد میں جج صاحب سے کہا گیا ہمیں وکیل کرنا ہے تو انہوں نے اسٹیٹ کونسل مقرر کر دیا، فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے نہیں کیے جارہے ہیں۔
بیرسٹر گوہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے نوٹس کرکے فریقین کو سننا تھا، الیکشن کمیشن نے جلدی دکھائی ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ آرٹیکل 63 میں واضح ہے نااہلی سے قبل فریق کو سنا جائے گا، الیکشن کمیشن کے پاس ایسے کیسز میں 90 دن کا وقت ہوتا ہے، 10 سال کی سزائیں کیا اگر عمر قید بھی ہو تو الیکشن کمیشن کو سننا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کو نا اہل کرنے سے بہتر ہے یہ لوگ ہوش کے ناخن لیں، جن لوگوں کو سزائیں ہوئیں، وثوق سے کہتا ہوں یہ لوگ سیاست میں انتشار نہیں چاہتے جو کچھ بھی ہو رہا ہے یہ بڑی بدقسمتی ہے۔
بیرسٹرگوہر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی کے بچوں سے ہمارا براہ راستہ رابطہ نہیں ہوتا، اپنے والد کے لیے آنا ان کا حق ہے، اگر آئے تو پر جوش استقبال کریں گے۔
چیئرمین پی ٹی آئی نے بتایا کہ ہر کیس میں آپ سزائیں نہیں دیتے، جمہوری لوگوں کے رویے کچھ اور ہوتے ہیں، اب ان لوگوں کو سوچنا ہوگا جو پورے سسٹم کے رکھوالے ہیں۔