بلوچستان کے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں عوام کے لیے کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 17th, June 2025 GMT
بلوچستان حکومت نے اپنا دوسرا مالی سال کا بجٹ آج بلوچستان اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔ بجٹ صوبائی وزیر خزانہ شعیب نوشیروانی نے پیش کیا۔ آئندہ مالی سال 26-2025 کے بجٹ کا کل حجم 1028 ارب روپے مختص کیا گیا ہے جس میں غیر ترقیاتی بجٹ کا حجم 642 جبکہ ترقیاتی بجٹ کا حجم 249 ارب روپے سے زائد رکھا گیا ہے۔
بجٹ میں نوجوانوں کے لیے خصوصی اقدامات کیے گیے ہیں جن میں ہنر مند نوجوانوں کے لیے بلا سود قرضہ اسکیم کے تحت 16 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ بے روزگار نوجوانوں کو فنی تربیت دینے کے لیے 5 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔گوگل کیرئیر سرٹیفیکیشن پروگرام کے تحت 3000 اسکالرشپس دی جائیں گی۔کالج کے طلبا کے لیے 5 ہزار اسکالر شپس فراہم کی جائیں گی۔
آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بے روزگار نوجوانوں کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے۔ بجٹ میں مجموعی طور پر 4188 کنٹریکٹ اور 1958 ریگولر آسامیاں مختلف محکموں میں تخلیق کی جائیں گی جن میں صحت کے شعبے میں 2120 کنٹریکٹ اور 37 ریگولر، اسکول ایجوکیشن میں 1170 کنٹریکٹ اور 67 ریگولر آسامیاں، ہائر ایجوکیشن میں 91 نئی آسامیاں تخلیق کی جائیں گی۔
بجٹ میں تعلیم کے شعبے کو ترجیحات میں شامل کیا گیا ہے۔ یونیورسٹیوں کے لیے 8 ارب روپے، جبکہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعے 3 ارب روپے جامعات کو دیے جائیں گے۔ سی طرح بلوچستان ایجوکیشن فنڈ کے لیے 1 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان بجٹ برائے سال 2024-25 : تنخواہوں میں 22 سے 25 فیصد، پینشن میں 15 فیصد اضافہ کی تجویز
مالی سال کے صوبائی بجٹ میں بنیادی ڈھانچہ، صفائی اور پانی کے لیے بھی رقم مختص کی گئی ہے۔ بجٹ میں 8 شہروں میں سیف سٹی منصوبہ شروع کیا جائے گا جس کے لیے 18 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ 3 ارب روپے کی لاگت سے صفائی و نکاسی آب کے نظام کی بہتری کے لیے رکھے گئے ہیں۔ کوئٹہ ویسٹ واٹر پلانٹ کی تعمیر کو مکمل کیا جائے گا۔ بجٹ میں تمام ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کیا جائے گا، لاگت 52 ارب روپے، ماشخیل میں نیا ڈیم اور دیگر اضلاع میں زیر تعمیر ڈیمز کی تکمیل تک پہنچایا جائے گا۔ چاغی اور دیگر صنعتی علاقوں میں سولر گردش منصوبے کی شروعات کی جائے گی۔
صوبے میں ریلوے کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے بھی بجٹ میں خصوصی رقم رکھی گئی ہے۔ پاکستان ریلوے کے تعاون سے پیپلز ٹرین سروس کا آغاز کیے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے ابتدائی مرحلے میں یہ سروس کوئٹہ کے نواحی علاقے سریاب اور کچلاک کے درمیان چلے گی۔ اس کے علاوہ 5 پرانے ریلوے اسٹیشنز کی بحالی اور 2 نئے ریلوے اسٹیشنز کی تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بجٹ میں زرعی اور صنعتی ترقی کے شعبے کو بھی اہمیت دی گئی ہے، حکومت نے کم بی ٹی یو گیسپر کھاد تیار کرنے کے کارخانہ بنانے کا منصوبہ شروع کرنے کی تجویز دی ہے۔ اس کے علاوہ کلائمیٹ چینج فنڈکے لیے خصوصی 50 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان بجٹ: عوام کے لیے خاص کیا ہے؟
بجٹ میں سرکاری ملازمین و پنشینرز کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں۔ وفاقی حکومت کی طرز پر گریڈ 1 تا 22 کے ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ جبکہ پنشنرز کی تنخواہوں میں 7 فیصداضافہ کیا گیا ہے اس کے علاوہ ہیلتھ کیئر کارڈ اسکیم کی تجویز دی گئی ہے۔ بجٹ میں بلوچستان پنشن فنڈ کے لیے ایک ارب روپے مختص کیا گیا۔
حکومت نے عوامی ریلیف کو مد نظر رکھتے ہوئے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان بجٹ 2025 26 تنخواہوں میں اضافہ تیکس ریلیف مالی سال.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان بجٹ 2025 26 تنخواہوں میں اضافہ تیکس ریلیف مالی سال ارب روپے مختص تنخواہوں میں کے لیے خصوصی کیے گئے ہیں کیا گیا ہے مالی سال جائیں گی جائے گا مختص کی گئی ہے
پڑھیں:
کراچی: سیلاب، کرپشن اور جعلی ترقی کے منصوبے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
250917-03-6
میر بابر مشتاق
کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب، ہمیشہ سے اپنے مسائل کی وجہ سے شہ سرخیوں میں رہا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جو ملک کے ریونیو کا 65 فی صد اور صوبہ سندھ کے ریونیو کا تقریباً 95 فی صد دیتا ہے، لیکن بدلے میں اسے جو سہولتیں ملنی چاہییں وہ آج بھی خواب ہیں۔ اس شہر کو چلانے والے ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے رہے کہ وہ کراچی کو روشنیوں کا شہر بنائیں گے، جدید انفرا اسٹرکچر فراہم کریں گے اور عوام کو معیاری سہولتیں دیں گے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ کراچی آج بھی بارش کے چند قطروں سے مفلوج ہو جانے والا شہر ہے۔ بارش اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ یہ زمین کو شاداب کرتی ہے، کھیتوں کو سیراب کرتی ہے اور زندگی کو تازگی بخشتی ہے، لیکن بدقسمتی سے کراچی کے عوام کے لیے بارش کسی عذاب سے کم نہیں۔ یہاں بارش کا مطلب ہے گھنٹوں کا ٹریفک جام، پانی میں ڈوبی سڑکیں، گھروں میں داخل ہوتا ہوا گندا پانی، بیماریاں، کاروبار کی بندش اور ناقص منصوبہ بندی کا کھلا تماشا۔ حالیہ بارشوں نے ایک بار پھر یہ حقیقت آشکار کر دی کہ ہمارے حکمران صرف دکھاوے کے منصوبے بناتے ہیں، جن پر اربوں روپے خرچ کر کے عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں، لیکن جیسے ہی بارش کا پہلا ریلا آتا ہے، یہ منصوبے زمین بوس ہو جاتے ہیں۔
کراچی میں 55 ارب روپے کی شاہراہ بھٹو اور 12 ارب روپے کی حب کنال صرف چند دن کی بارش میں بہہ گئیں۔ یہ وہی منصوبے تھے جن کے افتتاحی تقاریب پر حکومت نے کروڑوں روپے لٹائے، میڈیا پر اشتہارات چلائے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی، لیکن چند دن بعد ہی یہ سب فراڈ بے نقاب ہو گیا۔ شاہراہ بھٹو کا ڈھانچہ بیٹھ گیا، حب کنال ٹوٹ گئی، اور عوام کے اربوں روپے مٹی میں مل گئے۔ یہ کسی ایک منصوبے کی بات نہیں، پورے شہر کا انفرا اسٹرکچر انہی خامیوں کا شکار ہے۔سندھ حکومت نے ہمیشہ کراچی کے وسائل کو لوٹا اور شہر کو نظرانداز کیا۔ پچھلے پندرہ سال میں صوبائی فنانس کمیشن (PFC) کا اجلاس تک نہیں ہوا۔ کراچی کو اس کے جائز حق کے 3360 ارب روپے نہیں دیے گئے۔ صوبائی ترقیاتی پروگرام میں کراچی کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا اور جو منصوبے دیے بھی گئے، ان کا حال وہی ہوا جو شاہراہ بھٹو اور حب کنال کا ہوا۔ کراچی میں بارش کے بعد سب سے زیادہ ناکامی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے نظام کی سامنے آئی۔ نکاسی آب کا نظام مفلوج ہو گیا۔ ندی نالے قبضہ مافیا اور کچرے سے بھرے پڑے ہیں۔ اورنگی نالہ، ناظم آباد، گلشن، گلبہار اور نارتھ ناظم آباد کے شہری بدترین اذیت میں رہے۔ پانی گھروں میں داخل ہو گیا، گاڑیاں ڈوب گئیں، کاروبار بند ہو گئے اور بیماریاں پھیلنے لگیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بیچارہ مرتضیٰ وہاب چند لاکھ کی نوکری کے بدلے میں کبھی حب کینال پر وزیراعلیٰ کی گندگی صاف کرتا ہے تو کبھی شاہراہ بھٹو پر زرداری کا داغدار چہرہ دھوتا ہے۔ یقین کریں، پیپلز پارٹی کے وڈیرے اپنی نجی محفلوں میں ہنستے ہیں کہ کراچی والو کیسا دیا؟ کتنے سستے میں ہمیں یہ چغد مل گیا جو ہمارے کرپشن، تعصب اور بدمعاشی سے لتھڑے گندے چہرے کو صاف کرتا رہتا ہے۔ یہ بیچارا بے اختیار ہوتے ہوئے بھی مجبور ہے کہ کہے کہ میں با اختیار ہوں، حالانکہ نہ بلڈنگ کنٹرول میں اس کی بات چلتی ہے، نہ واٹر بورڈ میں، نہ سالڈ ویسٹ میں، نہ سڑکیں بنانے کے کلک میں۔ کراچی کے ووٹ کی پیپلز پارٹی کو ضرورت نہیں، بس کراچی کے وسائل کی ضرورت ہے جو وہ سامنے رکھ کر دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے۔ بیچارہ میئر نہ لیپنے کا نہ پوتنے کا…
کراچی کی تباہی کا دوسرا بڑا سبب سیاسی قبضہ ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے ہمیشہ کراچی کو اپنے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھایا۔ ایم کیو ایم نے شہری حکومت کے نام پر لوٹ مار کی اور پیپلز پارٹی نے صوبائی حکومت کے ذریعے وسائل پر قبضہ کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کے حصے میں محرومیاں، تباہ حال سڑکیں، کچرا کنڈیاں اور بیماریاں آئیں۔ یہ کہاں کی ترقی ہے کہ اربوں روپے کے منصوبے بارش کے چند قطروں میں بہہ جائیں؟ کہاں کی حکمرانی ہے کہ شہری بارش کے پانی میں ڈوب کر بیماریاں برداشت کریں جبکہ حکمران افتتاحی تقریبات اور پریس کانفرنسوں میں خود کو کامیاب قرار دیتے رہیں؟ یہ دراصل جعلی ترقی کے منصوبے ہیں جن کا مقصد صرف کمیشن خوری اور سیاسی تشہیر ہے۔ ایسے حالات میں واحد جماعت جس نے عوام کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھا، وہ جماعت اسلامی ہے۔ ’’حق دو کراچی تحریک‘‘ نے کراچی کے عوام کو آواز دی اور ان کے مسائل کو قومی سطح پر اجاگر کیا۔ یہ تحریک محض احتجاج نہیں بلکہ عوامی حقوق کی جنگ ہے۔ جماعت اسلامی نے ثابت کیا کہ اگر نیت صاف ہو تو محدود اختیارات میں بھی بڑے کام کیے جا سکتے ہیں۔
صرف دو سال کے اندر جماعت اسلامی نے کراچی میں وہ کام کیے جو پچھلے پندرہ سال میں صوبائی اور شہری حکومتیں مل کر بھی نہ کر سکیں۔ 86 ہزار سے زائد گھروں تک پانی پہنچایا گیا، جس سے 6 لاکھ افراد مستفید ہوئے۔ 9 ٹاؤنز میں سیکڑوں ماڈل اسٹریٹس بنائی گئیں۔ رین واٹر ہارویسٹنگ کے کئی منصوبے شروع کیے گئے۔ 171 تباہ حال پارکس بحال کیے گئے۔ 42 اسکول اپ گریڈ کیے گئے اور ریکارڈ نئے داخلے ہوئے۔ ایک لاکھ سے زائد اسٹریٹ لائٹس نصب ہوئیں، جس سے ہزاروں گلیاں روشن ہوئیں۔ 30 ہزار سے زائد گٹر کے ڈھکن اور رنگز نصب کیے گئے۔ بورنگ کا پانی جو صرف 10 منٹ آتا تھا، اب ایک گھنٹے تک مستقل آنے لگا۔ نارتھ ناظم آباد میں بارش کے پانی کو جمع کرنے کا جدید نظام کامیاب ہوا۔ یہ تمام کام اس بات کا ثبوت ہیں کہ جماعت اسلامی نے سیاست نہیں بلکہ خدمت کی۔ اسی خدمت کی وجہ سے قابض میئر مرتضیٰ وہاب جماعت اسلامی پر تنقید کر کے حقیقت سے فرار اختیار کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں اور عوامی ردعمل کے دباؤ سے پریشان ہیں۔ کراچی کے عوام سب دیکھ رہے ہیں کہ کس نے خدمت کی اور کس نے صرف بیانات دیے۔ میئر کے عہدے کا ادب اور آداب یہی ہے کہ وہ عوامی مسائل کو ترجیح دیں، لیکن افسوس کہ موجودہ میئر نے اس منصب کو بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ کراچی کے مسائل کے حل کے لیے صرف تنقید کافی نہیں، بلکہ عملی اقدامات ضروری ہیں۔ سب سے پہلے تو شہر کے ندی نالوں کو مستقل بنیادوں پر صاف کرنا ہوگا اور قبضہ مافیا کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی۔ واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کی مکمل اصلاح ناگزیر ہے۔ نکاسی آب کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا۔ ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت اور معیار کو یقینی بنانا ہوگا۔ کراچی کو اس کا جائز مالی حصہ دینا ہوگا اور صوبائی فنانس کمیشن کو فوری طور پر بحال کرنا ہوگا۔
کراچی کے لیے کم از کم 500 ارب روپے کا ہنگامی ترقیاتی فنڈ فوری جاری ہونا چاہیے، اور اس میں سے ہر ٹاؤن کو 2 ارب روپے ملنے چاہئیں تاکہ مقامی سطح پر ریلیف فراہم کیا جا سکے۔ منصوبوں کی تکمیل میں عوام کی شراکت داری اور نگرانی ضروری ہے تاکہ کرپشن اور ناقص کام کی گنجائش نہ رہے۔ کراچی کی موجودہ صورتحال نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ حکمران عوامی مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ ہر بارش کے بعد وہی اذیت، وہی بیماریاں اور وہی وعدے دہرا دیے جاتے ہیں۔ لیکن اب کراچی کے عوام مزید دھوکا کھانے کے لیے تیار نہیں۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ساتھ ہر بار ان کی محنت کی کمائی کرپشن کے نذرانے میں ضائع کی جاتی ہے۔ اب فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے۔ وہ چاہیں تو جعلی ترقی اور کرپشن کے ایجنڈے کو مزید سہنے کے بجائے ایسی قیادت کا انتخاب کریں جو اختیار سے بڑھ کر خدمت کرے۔ جماعت اسلامی نے عملی مثال دے دی ہے کہ دیانت داری اور اخلاص کے ساتھ عوام کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ اب یہ کراچی کے عوام پر ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کیسے کرتے ہیں۔