WE News:
2025-11-03@11:52:29 GMT

چین کا عالمی امن کے لیے قائدانہ کردار

اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT

چین کا عالمی امن کے لیے قائدانہ کردار

عالمی امن اور استحکام کے لیے چین کی کوششیں نہ صرف قابل تعریف ہیں بلکہ دنیا بھر میں ایک مثالی کردار کی حیثیت رکھتی ہیں۔

چین ہمیشہ سے پرُامن، بقائے باہمی، باہمی تعاون اور ترقی کے اصولوں پر کاربند رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ بین الاقوامی برادری میں ایک اہم ستون کے طور پر ابھرا ہے۔

پرُامن ترقی اور تعاون کی پالیسی:

چین کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ ’پرُامن ترقی‘ ہے۔ چین نے گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے پر امن راستہ اختیار کیا ہے اور دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت اور تعاون کو فروغ دیا ہے۔

’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘ (BRI) جیسے منصوبوں کے ذریعے چین نے نہ صرف ایشیا، افریقہ اور یورپ کے ممالک کے درمیان اقتصادی روابط کو مضبوط کیا ہے بلکہ ان خطوں میں امن اور استحکام کو بھی تقویت بخشی ہے۔

تنازعات کے پرامن حل کی حمایت:

چین ہمیشہ سے بین الاقوامی تنازعات کے پرامن حل کا حامی رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے چین نے شام، شمالی کوریا اور دیگر تنازعات میں ثالثی کی کوششیں کی ہیں۔ چین کا موقف ہے کہ جنگ اور تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ مذاکرات اور سفارت کاری ہی دیرپا امن کی ضامن ہو سکتی ہے۔

چین ہمیشہ سے عالمی امن اور استحکام کا حامی رہا ہے اور مختلف بین الاقوامی تنازعات میں ثالثی اور سفارتی کوششیں کرتا رہا ہے۔ پاکستان-بھارت، فلسطین اور روس-یوکرین جیسے پیچیدہ مسائل میں چین نے پرامن حل کی حمایت کی ہے اور تناؤ کو کم کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان-بھارت تنازع میں چین کا کردار:

ویسے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی بڑی وجہ کشمیر ہے، اور مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کیلئے اب تک ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر چین نے ہمیشہ مذاکرات اور بات چیت کی حمایت کی ہے۔

چین نے کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری پر زور دیا ہے۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں بھی چین نے پرُ امن مذاکرات کی بات کی ہے اور خطے کو کسی بڑی تباہی سے بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کیا ہے۔

چین نے بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ تجارتی و دفاعی تعلقات کو برقرار رکھا ہے، جو تناؤ کو کم کرنے میں معاون ہے۔ اسکے علاوہ چین پاکستان کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے ذریعے پاکستان کی معاشی ترقی کو فروغ دے رہا ہے، جس سے خطے میں امن کا ماحول بنانے میں مدد ملتی ہے۔

مسئلہ فلسطین پر چین کا موقف:

فلسطین کا مسئلہ دہائیوں سے عالمی امن کے لیے ایک اہم چیلنج بنا ہوا ہے۔ چین نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے حق خودارادیت اور 2 ریاستی حل کی حمایت کی ہے۔

چین نے سلامتی کونسل میں فلسطین کے حق میں ووٹ دیا ہے اور اسرائیلی قبضے کی مخالفت کی ہے۔ حالیہ جنگ میں بحی چین نے فلسطینی علاقوں تک امداد پہنچا نے میں بھرپور معاونت کی ہے۔

اس کے علاوہ چین نے ’فلسطین امن کانفرنس‘ جیسے فورمز میں فعال کردار ادا کیا ہے اور پرامن حل کی تجاویز پیش کی ہیں۔اور اسی کے ساتھ جڑی ایران – اسرائیل کی جنگ میں بھی ایران نے جنگ کے خاتمے اور مذاکرات کی بات کی ہے۔

روس-یوکرین جنگ میں چین کا امن کا ایجنڈا:

روس-یوکرین جنگ نے عالمی امن کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ چین نے اس تنازعے میں غیر جانبدار رہتے ہوئے پرامن مذاکرات کی حمایت کی ہے۔چین نے نہ تو روس کی فوجی مدد کی ہے اور نہ ہی یوکرین کو اسلحہ فراہم کیا ہے، بلکہ دونوں فریقوں سے بات چیت کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ چین نے یوکرین اور روس دونوں کے ساتھ تجارتی تعلقات جاری رکھے ہیں تاکہ معاشی بحران کو مزید گہرا ہونے سے روکا جا سکے۔

چین بطور  ایک پرامن عالمی رہنما اور ثالث:

چین نے پاکستان-بھارت، فلسطین/ ایران – اسرائیل اور روس-یوکرین جیسے پیچیدہ تنازعات میں پرامن حل کی حمایت کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ عالمی امن کا ایک اہم ستون ہے۔

چین کی خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد تنازعات کو مزید بڑھنے سے روکنا اور مذاکرات کے ذریعے پائیدار امن قائم کرنا ہے۔ مستقبل میں بھی چین ایک متوازن اور پرامن عالمی نظام کے قیام کے لیے کوشاں رہے گا۔

انہیں تنازعات کے پرُ امن حل کیلئے چین نے ایک عالمی ثالثی ادارے کے قیام کا بھی بیڑا اُٹھایا ہے۔ 30 مئی 2025 کو چین کے ہانگ کانگ میں 33 ممالک کے مندوبین نے ’بین الاقوامی ثالثی ادارے‘ کے کنونشن پر دستخط کیے اور اس کے بانی رکن ممالک بن گئے۔

کنونشن کے مطابق، 3 یا اس سے زائد ممالک کے داخلی قانونی طریقہ کار کے ذریعے تصدیق ہونے پر یہ ادارہ سرکاری طور پر قائم ہو جائے گا۔ اس ادارے کا ہیڈ کوارٹر ہانگ کانگ میں ہو گا اور یہ 2026 کے آغاز تک اپنا کام شروع کر دے گا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ بین الاقوامی قانون کے نفاذ  کے حوالے سے ایک انقلابی قدم ہے جو ثالثی کے میدان میں موجود خلا کو پرُ کرے گا اور عالمی حکمرانی کو بہتر بنانے کے لیے ایک اہم قانونی پلیٹ فارم مہیا کرے گا۔ یہ چین کی جانب سے عالمی امن کے فروغ کے لیے ایک اور اہم کاوش ہے۔

یہ ادارہ بین الاقوامی تنازعات کو ثالثی کے ذریعے حل کرنے والی دنیا کی پہلی بین الحکومتی قانونی تنظیم ہے، 2022 میں چین اور 18 دیگر ممالک نے مشترکہ طور پر اس کا تصور پیش کیا تھا۔ اس کے قیام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ رضاکارانہ بنیاد پر ممالک کے درمیان، ممالک اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے درمیان، یا بین الاقوامی تجارتی میدان میں تنازعات کو ثالثی کے ذریعے نمٹایا جا سکے۔

موجودہ دور میں دنیا نئے انتشار اور تبدیلیوں کے دور سے گزر رہی ہے۔ جغرافیائی سیاسی تصادم بڑھ رہے ہیں، یکطرفہ پالیسیاں اور تحفظ پسندی عروج پر ہے۔ ایسے ماحول میں کچھ ممالک بالادستی کے رویے یا جنگی اقدامات کا سہارا لیتے ہیں۔

دوسری جانب، موجودہ بین الاقوامی تنازعات حل کرنے والے ادارے بعض مغربی ممالک کی سیاسی چال بازیوں کی وجہ سے یا تو غیر منصفانہ ہو چکے ہیں یا عملاً غیر فعال ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کنونشن پر دستخط کرنے والے 33 ممالک میں زیادہ تر ترقی پذیر ممالک شامل ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں جب بین الاقوامی تنازعات پیدا ہوتے تھے تو عالمی جنوب کے ممالک کے مفادات کا حقیقی تحفظ نہیں ہوتا تھا۔  اس ادارہ  کا قیام  تنازعات کے حل  کیلئے ایک نیا دور ثابت ہوگا۔

ہانگ کانگ میں ہیڈکوارٹر کا انتخاب بھی ایک اہم پیغام رکھتا ہے۔ ایک طرف، ہانگ کانگ کی چین میں واپسی خود بین الاقوامی تنازعے کے پرامن حل کی ایک کامیاب مثال ہے۔

دوسری طرف، ہانگ کانگ کو جغرافیائی اور قانونی نظام کی مضبوطی کی وجہ سے بین الاقوامی ثالثی کے لیے مثالی مقام حاصل ہے۔ یہ چین کی عالمی امن کے لیے کوششوں اور قربانیوں کا ایک اور ثبوت ہے۔

امید کی جاتی ہے کہ یہ ادارہ بین الاقوامی تنازعات کے پرامن حل، ممالک کے درمیان اعتماد اور تعاون کو نئی توانائی فراہم کرے گا۔ جب یہ نوزائیدہ ادارہ ایک مضبوط درخت بن جائے گا، تو دنیا میں امن اور خوشحالی کے امکانات مزید روشن ہوں گے۔

انسانی حقوق اور ترقیاتی تعاون

چین ترقی پذیر ممالک کی مدد کے لیے سرگرم عمل ہے۔ افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیا کے کئی ممالک کو چین نے بنیادی ڈھانچے، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں معاونت فراہم کی ہے۔ چین کی یہ کوششیں نہ صرف غربت کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوئی ہیں بلکہ ان خطوں میں امن اور خوشحالی کو بھی فروغ دے رہی ہیں۔

ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار ترقی

عالمی امن صرف تنازعات کے خاتمے تک محدود نہیں، بلکہ یہ ماحولیات اور پائیدار ترقی سے بھی جڑا ہوا ہے۔ چین نے کاربن کے اخراج میں کمی اور قابل تجدید توانائی کے استعمال کو بڑھانے کے لیے بڑے اقدامات کیے ہیں۔ بین الاقوامی ماحولیاتی معاہدوں میں چین کی فعال شرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی بلکہ پوری دنیا کی بہتری کے لیے کوشاں ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وقار حیدر

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی تنازعات کی حمایت کی ہے تنازعات کے پر عالمی امن کے حل کی حمایت پرامن حل کی کے پرامن حل روس یوکرین ہانگ کانگ کے درمیان ثالثی کے یہ ادارہ کے ذریعے ممالک کے میں چین ایک اہم میں بھی کے ساتھ امن اور اور اس چین کا چین کی ہے اور رہا ہے چین نے امن کا دیا ہے کے لیے کیا ہے

پڑھیں:

مبلغ کو علم کے میدان میں مضبوط ہونا چاہیے، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

صدر منہاج القرآن نے کہا کہ دعوت کا مقصد صرف تبلیغ نہیں بلکہ دلوں کو نرم کرنا، نفرتوں کو مٹانا اور محبتِ مصطفیٰ ﷺ کے رنگ میں معاشرے کو ڈھالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان کو دلیل، فہم اور کردار کے ساتھ متاثر کیا جا سکتا ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ جیسے سوشل میڈیا، ویڈیوز، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تاکہ دین کا پیغام وسیع پیمانے پر اور جدید انداز میں عام ہو۔ اسلام ٹائمز۔ تحریکِ منہاج القرآن کی مرکزی نظامتِ دعوت کے اسکالرز کے وفد نے نائب ناظمِ اعلیٰ علامہ رانا محمد ادریس قادری کی قیادت میں صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری سے ملاقات کی۔ پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مبلغ کو کردار اور علم کے میدان میں مضبوط ہونا چاہئے۔ جدید ذرائع ابلاغ کو اصلاح معاشرہ کیلئے استعمال کیا جائے۔ استاد، مبلغ یا داعی ہر معاشرہ کے رول ماڈل افراد ہوتے ہیں۔ داعی کی تربیت پر سخت محنت ناگزیر ہے۔موجودہ دور کا داعیِ اسلام صرف علم ہی نہیں بلکہ کردار اور ابلاغ کے میدان میں بھی مضبوط ہونا چاہیے۔ علم کے بغیر دعوت گہرائی کھو دیتی ہے، کردار کے بغیر اثر ختم ہو جاتا ہے، اور ابلاغ کے بغیر پیغام نہیں پہنچتا۔

انہوں نے کہا کہ دعوت کا مقصد صرف تبلیغ نہیں بلکہ دلوں کو نرم کرنا، نفرتوں کو مٹانا اور محبتِ مصطفیٰ ﷺ کے رنگ میں معاشرے کو ڈھالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان کو دلیل، فہم اور کردار کے ساتھ متاثر کیا جا سکتا ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ جیسے سوشل میڈیا، ویڈیوز، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تاکہ دین کا پیغام وسیع پیمانے پر اور جدید انداز میں عام ہو۔ انہوں نے کہا کہ علمائے کرام اور اسکالرز کو چاہیے کہ وہ نوجوان نسل کے ذہنی و فکری رجحانات کو سمجھ کر دین کو اُن کی زبان میں پیش کریں۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ تحریکِ منہاج القرآن علم و کردار کے حسین امتزاج کی نمائندہ تحریک ہے جس کا مقصد معاشرے میں علمی بیداری، فکری تطہیر اور عملی تبدیلی لانا ہے۔

انہوں نے نظامتِ دعوت کے اسکالرز کو ہدایت کی کہ وہ اپنے خطابات، دروس، اور تحریروں میں دین کے اخلاقی و روحانی پہلو کو اجاگر کریں تاکہ نئی نسل اسلام کی اصل روح سے روشناس ہو سکے۔ اس موقع پر مرکزی ناظمِ دعوت علامہ جمیل احمد زاہد، قاری ریاست علی چدھڑ اور دیگر اسکالرز بھی ملاقات میں شریک تھے۔ 

متعلقہ مضامین

  • مذاکرات پاکستان کی کمزوری نہیں، خواہش ہے...افغانستان کو سنجیدہ کردار ادا کرنا ہوگا!!
  • ممکنہ تنازعات سے بچنے کے لیے امریکا اور چین کے درمیان عسکری رابطوں کی بحالی پر اتفاق
  • ہمیں فورتھ شیڈول میں ڈالنے کی دھمکی، مدارس کا کردار ختم کیا جا رہا: فضل الرحمن
  • ریاض سیزن میں بین الاقوامی ہم آہنگی کا رنگ، سویدی پارک میں مختلف ممالک کے ثقافتی ویک کا آغاز
  • غزہ نسل کشی میں اسرائیل سمیت 63 ممالک ملوث
  • غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف
  • مبلغ کو علم کے میدان میں مضبوط ہونا چاہیے، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
  • غزہ میں 20 ہزار ناکارہ بم موجود ہیں
  • سوڈان، امریکی ایجنڈا و عرب امارات کا کردار؟ تجزیہ کار سید راشد احد کا خصوصی انٹرویو
  • کرسٹیانو رونالڈو کے بیٹے نے بین الاقوامی میچ کھیل کر فٹبال کی دنیا میں باضابطہ قدم رکھ لیا