WE News:
2025-09-18@17:29:28 GMT

چین کا عالمی امن کے لیے قائدانہ کردار

اشاعت کی تاریخ: 18th, June 2025 GMT

چین کا عالمی امن کے لیے قائدانہ کردار

عالمی امن اور استحکام کے لیے چین کی کوششیں نہ صرف قابل تعریف ہیں بلکہ دنیا بھر میں ایک مثالی کردار کی حیثیت رکھتی ہیں۔

چین ہمیشہ سے پرُامن، بقائے باہمی، باہمی تعاون اور ترقی کے اصولوں پر کاربند رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ بین الاقوامی برادری میں ایک اہم ستون کے طور پر ابھرا ہے۔

پرُامن ترقی اور تعاون کی پالیسی:

چین کی خارجہ پالیسی کا بنیادی نکتہ ’پرُامن ترقی‘ ہے۔ چین نے گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے پر امن راستہ اختیار کیا ہے اور دوسرے ممالک کے ساتھ تجارت اور تعاون کو فروغ دیا ہے۔

’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘ (BRI) جیسے منصوبوں کے ذریعے چین نے نہ صرف ایشیا، افریقہ اور یورپ کے ممالک کے درمیان اقتصادی روابط کو مضبوط کیا ہے بلکہ ان خطوں میں امن اور استحکام کو بھی تقویت بخشی ہے۔

تنازعات کے پرامن حل کی حمایت:

چین ہمیشہ سے بین الاقوامی تنازعات کے پرامن حل کا حامی رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے چین نے شام، شمالی کوریا اور دیگر تنازعات میں ثالثی کی کوششیں کی ہیں۔ چین کا موقف ہے کہ جنگ اور تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں، بلکہ مذاکرات اور سفارت کاری ہی دیرپا امن کی ضامن ہو سکتی ہے۔

چین ہمیشہ سے عالمی امن اور استحکام کا حامی رہا ہے اور مختلف بین الاقوامی تنازعات میں ثالثی اور سفارتی کوششیں کرتا رہا ہے۔ پاکستان-بھارت، فلسطین اور روس-یوکرین جیسے پیچیدہ مسائل میں چین نے پرامن حل کی حمایت کی ہے اور تناؤ کو کم کرنے کے لیے اہم کردار ادا کیا ہے۔

پاکستان-بھارت تنازع میں چین کا کردار:

ویسے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازعات کی بڑی وجہ کشمیر ہے، اور مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کیلئے اب تک ایک چیلنج بنا ہوا ہے۔ مسئلہ کشمیر پر چین نے ہمیشہ مذاکرات اور بات چیت کی حمایت کی ہے۔

چین نے کشمیر کے معاملے پر اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی پاسداری پر زور دیا ہے۔ حالیہ پاک بھارت کشیدگی میں بھی چین نے پرُ امن مذاکرات کی بات کی ہے اور خطے کو کسی بڑی تباہی سے بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کیا ہے۔

چین نے بھارت اور پاکستان دونوں کے ساتھ تجارتی و دفاعی تعلقات کو برقرار رکھا ہے، جو تناؤ کو کم کرنے میں معاون ہے۔ اسکے علاوہ چین پاکستان کی ترقی میں بھی اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

چین پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے ذریعے پاکستان کی معاشی ترقی کو فروغ دے رہا ہے، جس سے خطے میں امن کا ماحول بنانے میں مدد ملتی ہے۔

مسئلہ فلسطین پر چین کا موقف:

فلسطین کا مسئلہ دہائیوں سے عالمی امن کے لیے ایک اہم چیلنج بنا ہوا ہے۔ چین نے ہمیشہ فلسطینی عوام کے حق خودارادیت اور 2 ریاستی حل کی حمایت کی ہے۔

چین نے سلامتی کونسل میں فلسطین کے حق میں ووٹ دیا ہے اور اسرائیلی قبضے کی مخالفت کی ہے۔ حالیہ جنگ میں بحی چین نے فلسطینی علاقوں تک امداد پہنچا نے میں بھرپور معاونت کی ہے۔

اس کے علاوہ چین نے ’فلسطین امن کانفرنس‘ جیسے فورمز میں فعال کردار ادا کیا ہے اور پرامن حل کی تجاویز پیش کی ہیں۔اور اسی کے ساتھ جڑی ایران – اسرائیل کی جنگ میں بھی ایران نے جنگ کے خاتمے اور مذاکرات کی بات کی ہے۔

روس-یوکرین جنگ میں چین کا امن کا ایجنڈا:

روس-یوکرین جنگ نے عالمی امن کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے۔ چین نے اس تنازعے میں غیر جانبدار رہتے ہوئے پرامن مذاکرات کی حمایت کی ہے۔چین نے نہ تو روس کی فوجی مدد کی ہے اور نہ ہی یوکرین کو اسلحہ فراہم کیا ہے، بلکہ دونوں فریقوں سے بات چیت کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ چین نے یوکرین اور روس دونوں کے ساتھ تجارتی تعلقات جاری رکھے ہیں تاکہ معاشی بحران کو مزید گہرا ہونے سے روکا جا سکے۔

چین بطور  ایک پرامن عالمی رہنما اور ثالث:

چین نے پاکستان-بھارت، فلسطین/ ایران – اسرائیل اور روس-یوکرین جیسے پیچیدہ تنازعات میں پرامن حل کی حمایت کر کے ثابت کیا ہے کہ وہ عالمی امن کا ایک اہم ستون ہے۔

چین کی خارجہ پالیسی کا بنیادی مقصد تنازعات کو مزید بڑھنے سے روکنا اور مذاکرات کے ذریعے پائیدار امن قائم کرنا ہے۔ مستقبل میں بھی چین ایک متوازن اور پرامن عالمی نظام کے قیام کے لیے کوشاں رہے گا۔

انہیں تنازعات کے پرُ امن حل کیلئے چین نے ایک عالمی ثالثی ادارے کے قیام کا بھی بیڑا اُٹھایا ہے۔ 30 مئی 2025 کو چین کے ہانگ کانگ میں 33 ممالک کے مندوبین نے ’بین الاقوامی ثالثی ادارے‘ کے کنونشن پر دستخط کیے اور اس کے بانی رکن ممالک بن گئے۔

کنونشن کے مطابق، 3 یا اس سے زائد ممالک کے داخلی قانونی طریقہ کار کے ذریعے تصدیق ہونے پر یہ ادارہ سرکاری طور پر قائم ہو جائے گا۔ اس ادارے کا ہیڈ کوارٹر ہانگ کانگ میں ہو گا اور یہ 2026 کے آغاز تک اپنا کام شروع کر دے گا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ادارہ بین الاقوامی قانون کے نفاذ  کے حوالے سے ایک انقلابی قدم ہے جو ثالثی کے میدان میں موجود خلا کو پرُ کرے گا اور عالمی حکمرانی کو بہتر بنانے کے لیے ایک اہم قانونی پلیٹ فارم مہیا کرے گا۔ یہ چین کی جانب سے عالمی امن کے فروغ کے لیے ایک اور اہم کاوش ہے۔

یہ ادارہ بین الاقوامی تنازعات کو ثالثی کے ذریعے حل کرنے والی دنیا کی پہلی بین الحکومتی قانونی تنظیم ہے، 2022 میں چین اور 18 دیگر ممالک نے مشترکہ طور پر اس کا تصور پیش کیا تھا۔ اس کے قیام کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ رضاکارانہ بنیاد پر ممالک کے درمیان، ممالک اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے درمیان، یا بین الاقوامی تجارتی میدان میں تنازعات کو ثالثی کے ذریعے نمٹایا جا سکے۔

موجودہ دور میں دنیا نئے انتشار اور تبدیلیوں کے دور سے گزر رہی ہے۔ جغرافیائی سیاسی تصادم بڑھ رہے ہیں، یکطرفہ پالیسیاں اور تحفظ پسندی عروج پر ہے۔ ایسے ماحول میں کچھ ممالک بالادستی کے رویے یا جنگی اقدامات کا سہارا لیتے ہیں۔

دوسری جانب، موجودہ بین الاقوامی تنازعات حل کرنے والے ادارے بعض مغربی ممالک کی سیاسی چال بازیوں کی وجہ سے یا تو غیر منصفانہ ہو چکے ہیں یا عملاً غیر فعال ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ کنونشن پر دستخط کرنے والے 33 ممالک میں زیادہ تر ترقی پذیر ممالک شامل ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں جب بین الاقوامی تنازعات پیدا ہوتے تھے تو عالمی جنوب کے ممالک کے مفادات کا حقیقی تحفظ نہیں ہوتا تھا۔  اس ادارہ  کا قیام  تنازعات کے حل  کیلئے ایک نیا دور ثابت ہوگا۔

ہانگ کانگ میں ہیڈکوارٹر کا انتخاب بھی ایک اہم پیغام رکھتا ہے۔ ایک طرف، ہانگ کانگ کی چین میں واپسی خود بین الاقوامی تنازعے کے پرامن حل کی ایک کامیاب مثال ہے۔

دوسری طرف، ہانگ کانگ کو جغرافیائی اور قانونی نظام کی مضبوطی کی وجہ سے بین الاقوامی ثالثی کے لیے مثالی مقام حاصل ہے۔ یہ چین کی عالمی امن کے لیے کوششوں اور قربانیوں کا ایک اور ثبوت ہے۔

امید کی جاتی ہے کہ یہ ادارہ بین الاقوامی تنازعات کے پرامن حل، ممالک کے درمیان اعتماد اور تعاون کو نئی توانائی فراہم کرے گا۔ جب یہ نوزائیدہ ادارہ ایک مضبوط درخت بن جائے گا، تو دنیا میں امن اور خوشحالی کے امکانات مزید روشن ہوں گے۔

انسانی حقوق اور ترقیاتی تعاون

چین ترقی پذیر ممالک کی مدد کے لیے سرگرم عمل ہے۔ افریقہ، لاطینی امریکہ اور ایشیا کے کئی ممالک کو چین نے بنیادی ڈھانچے، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں معاونت فراہم کی ہے۔ چین کی یہ کوششیں نہ صرف غربت کے خاتمے میں مددگار ثابت ہوئی ہیں بلکہ ان خطوں میں امن اور خوشحالی کو بھی فروغ دے رہی ہیں۔

ماحولیاتی تحفظ اور پائیدار ترقی

عالمی امن صرف تنازعات کے خاتمے تک محدود نہیں، بلکہ یہ ماحولیات اور پائیدار ترقی سے بھی جڑا ہوا ہے۔ چین نے کاربن کے اخراج میں کمی اور قابل تجدید توانائی کے استعمال کو بڑھانے کے لیے بڑے اقدامات کیے ہیں۔ بین الاقوامی ماحولیاتی معاہدوں میں چین کی فعال شرکت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی بلکہ پوری دنیا کی بہتری کے لیے کوشاں ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وقار حیدر

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی تنازعات کی حمایت کی ہے تنازعات کے پر عالمی امن کے حل کی حمایت پرامن حل کی کے پرامن حل روس یوکرین ہانگ کانگ کے درمیان ثالثی کے یہ ادارہ کے ذریعے ممالک کے میں چین ایک اہم میں بھی کے ساتھ امن اور اور اس چین کا چین کی ہے اور رہا ہے چین نے امن کا دیا ہے کے لیے کیا ہے

پڑھیں:

اوزون تہہ کی رفوگری سائنس اور کثیر الفریقی عزم کی کامیابی، گوتیرش

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) ہر سال 16 ستمبر کو اقوام متحدہ اوزون کی تہہ میں شگاف کو ختم کرنے اور کرہ ارض کو تحفظ دینے کے اقدامات پر توجہ دلانے میں عالمی برادری کی کامیابی کا دن مناتا ہے۔۔

گزشتہ صدی میں سائنس دانوں نے اس تشویشناک حقیقت کی تصدیق کی تھی کہ اوزون کی تہہ میں نمایاں کمی آ رہی ہے۔ یہ گیس کی نظر نہ آنے والی تہہ ہے جس نے زمین کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور اسے سورج کی بالائے بنفشی شعاعوں سے تحفظ دیتی ہے۔

Tweet URL

اوزون کو نقصان پہنچانے والے مادوں کے مجموعے میں 'سی ایف سی' یعنی کلورو فلورو کاربن بھی شامل ہیں جو 1980 کی دہائی کے وسط میں روزمرہ استعمال کی اشیاء جیسا کہ ایئر کنڈیشنر، فریج اور ایروسول کین میں عام پائے جاتے تھے۔

(جاری ہے)

سائنس نے اوزون گیس کی تہہ کو دوبارہ مضبوط بنانے کے لیے عالمی سطح پر اقدامات کی راہ ہموار کی۔ جب یہ احساس ہوا کہ نقصان دہ بالائے بنفشی شعاعیں ممکنہ طور پر اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچنے کے باعث فضا میں داخل ہو رہی ہیں تو رکن ممالک نے 1985 میں ویانا کنونشن کے تحت یہ عہد کیا کہ وہ لوگوں اور زمین کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات کریں گے۔

انتونیو گوتیرش نے امسال عالم یوم اوزون پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ آج اوزون کی تہہ میں شگاف پُر ہو رہے ہیں جبکہ ویانا کنونشن اور اس کا مونٹریال پروٹوکول اس معاملے میں کثیرالفریقیت کی کامیابی کی تاریخی مثال بن گئے ہیں۔

ویانا کنونشن کیا ہے؟

سیکرٹری جنرل نے کہا کہ چالیس سال پہلے رکن ممالک نے سائنس کی رہنمائی میں اور مشترکہ طور پر کام کرتے ہوئے اوزون کی تہہ کے تحفظ کی جانب پہلا قدم اٹھایا۔

اوزون کی تہہ کے تحفظ کے لیے منظور کردہ ویانا کنونشن اس معاملے میں عالمگیر تعاون کو باضابطہ شکل دیتا ہے۔ یہ کنونشن 22 مارچ 1985 کو 28 ممالک کی جانب سے منظور کیا گیا تھا۔

یہ پہلا معاہدہ ہے جس پر دنیا کے تمام ممالک نے دستخط کیے اور اسی کے نتیجے میں مونٹریال پروٹوکول بنایا گیا ہے۔

مونٹریال پروٹوکول کا مقصد ان مادّوں کی عالمی سطح پر پیداوار اور استعمال کی نگرانی کرنا ہے جو اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

کثیر الفریقی تعاون کی بہترین مثال

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام(یونیپ) کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر انگر اینڈرسن نے اس دن پر اپنے ویڈیو پیغام میں بتایا ہے کہ کنونشن کے تحت کیے گئے اقدامات کے نتیجے میں اوزون کو نقصان پہنچانے والے مادے اب تقریباً ختم ہو چکے ہیں اور اس کی تہہ میں موجود سوراخ بند ہو رہا ہے۔

جب سائنسدانوں نے اس معاملے میں خطرے کی گھنٹی بجائی تو رکن ممالک اور کاروباری ادارے اکٹھے ہوئے اور زمین کی حفاظت کے لیے عملی قدم اٹھایا جو کہ کثیرالملکی تعاون کی بہترین مثال ہے۔

مونٹریال پروٹوکول کی بدولت ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک میں اوزون کی تہہ کو مضبوط بنانے کے معاملے میں اچھی پیش رفت ہوئی ہے اور زیادہ تر ممالک نے نقصان دہ مادّوں کی پیداوار بند کرنے کے لیے مقرر کردہ وقت میں ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔

سیکرٹری جنرل کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی یاد دلاتی ہے کہ جب رکن ممالک سائنس کے انتباہات پر دھیان دیتے ہیں تو ترقی ممکن ہوتی ہے۔

کیگالی ترامیم کی اہمیت

سیکرٹری جنرل نے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ مونٹریال پروٹوکول میں شامل کیگالی ترمیم کی توثیق اور اس پر عملدرآمد کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ کیگالی ترمیم پر عملدرآمد اس صدی کے آخر تک عالمی حدت میں 0.5 ڈگری سیلسیئس تک اضافے سے بچا سکتا ہے۔

اگر اسے توانائی کی بچت کرنے والی کولنگ ٹیکنالوجی کے ساتھ جوڑا جائے تو ان فوائد کو دوگنا بڑھایا جا سکتا ہے۔

جیسا کہ پیرس معاہدے میں واضح کیا گیا ہے، رکن ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ عالمی حدت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ اوزون کے اس عالمی دن پر سبھی کو یہ گیس محفوظ رکھنے اور انسانوں اور زمین کے تحفظ کے عزم کو دہرانا ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • قطر کا اسرائیل کیخلاف بین الاقوامی فوجداری عدالت سے رجوع کرنیکا اعلان
  • نیو یارک ڈیکلریشن: اسرائیل کی سفارتی تنہائی؟؟
  • پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی دفاعی معاہدے میں فیلڈ مارشل کا کلیدی کردار
  • قطر پر اسرائیلی حملہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی، وولکر ترک
  • عالمی تنازعات میں اموات کا بڑا سبب کلسٹر بم، یو این رپورٹ
  • اوزون تہہ کی رفوگری سائنس اور کثیر الفریقی عزم کی کامیابی، گوتیرش
  • پاکستان سمیت 16 ممالک کا غزہ جانے والے گلوبل صمود فلوٹیلا کی سلامتی پر تشویش کا اظہار
  • ’گلوبل صمود فلوٹیلا‘ کے خلاف کسی پرتشدد اقدام سے گریز کیا جائے، پاکستان سمیت 16 مسلم ممالک کا انتباہ
  • قطر اور دیگر ممالک کی پالیسیوں نے اسرائیل کو عالمی طور پر تنہا کردیا، نیتن یاہو 
  • فلسطینیوں کی نسل کشی میں کردار ادا کرنیوالی بین الاقوامی کمپنیاں (2)