Express News:
2025-09-22@15:32:05 GMT

خاندانی حکیم اور خاندانی لیڈر

اشاعت کی تاریخ: 19th, June 2025 GMT

جب پاکستان، جسے ’’مہمان نواز عالم‘‘ کہنا چاہیے،میں مرد حق حضرت ضیاء الحق اور امریکا کے مہمانان خصوصی افغان مہاجر آنا شروع ہوگئے تو ان میں سکھ ’’خاندانی حکیم‘‘ بھی ٹڈی دل کی طرح آکر پورے صوبے خیبر پختون خوا میں پھیل گئے۔

یہ خاندانی حکیم اتنے زیادہ تھے کہ چھوٹے چھوٹے دیہات میں بھی جگہ جگہ خاندانی حکیم کے بورڈ لگ گئے، ان میں اکثر دکانوں میں ایک حکیم کی جگہ دو خاندانی حکیم ہوتے تھے، دونوں ایک جیسے ہوتے تھے، دونوں ہر لحاظ سے جڑواں لگتے تھے، ایک ہی رنگ اور قسم کی پگڑیاں ایک ہی رنگ اور ناپ کا لباس،جوتے،داڑھی، مونچھیں سب ایک ہی جیسے ہوتے تھے، گویا دونوں ایک دوسرے کے آئینے ہوتے تھے اکثر نام بھی دونوں کے ایک ہوتے تھے، دونوں پرمیت سنگھ،اجیت سنگھ،من جیت سنگھ یا دل جیت من جیت سنگھ ہوتے تھے۔مجھے طب سے دل چسپی ہے، اس لیے سوچا ان سے آئیوویدک طب کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کروں، اس لیے ان سے تعلقات استوار کیے۔

پہلے دن جب میں گیا تو چاروں طرف الماریوں میں شیشے کے ایک جیسے جار دیکھے جن میں رنگ برنگے سفوف تھے۔پوچھا آپ آئیوویدک طب کرتے ہیں؟ وہ کیا ہوتا ہے جی۔  بڑے پرمیت نے پوچھا۔پوچھا آئیوویدک طریقہ علاج؟ ہم خاندانی حکیم ہیں جی۔اس بار چھوٹے پرمیت نے کہا جو نیچے زمین پر کچھ کوٹ رہا تھا۔عرض کیا وہ تو ٹھیک ہے آپ خاندانی حکیم ہیں لیکن طریقہ علاج تو آئیو ویدک ہوگا نا۔طریقہ ’’علاج کی ہوندا ہے؟بڑا پرمیت بولا میرا مطلب ہے۔کوئی ایلوپیتھک ، کوئی ہومیوپتھک، کوئی یونانی۔ہم یونانی شونانی نہیں جانتے، ہم خاندانی حکیم ہیں خاندانی تو ہیں لیکن طب کے کئی طریقے ہیں۔

وہ ہم نہیں جانتے طب شب۔ہم خاندانی حکیم ہیں۔کافی مغز کھپائی کے باوجود ہم کچھ بھی معلوم نہیں کرپائے کیونکہ ہمارے سوال کا جواب خاندانی حکیم ہوتا تھا۔اور ہماری سمجھ میں بھی آگیا کہ وہ کسی بھی طب شب اور طریقے شریکے کے بارے میں نہیں جانتے اور ان کے خاندان پشتہاپشت سے جو دوائیں اور نسخے مروج ہیں وہی چلارہے اور ان دواؤں کے نام بھی خاندانی ہیں۔مثلاً ایک مرتبہ جب بیٹھے تھے بڑے پرمیت نے چھوٹے پرمیت سے پوچھا۔پاجی آکاش گھنگرو کیا ختم ہوگیا ہے۔

چھوٹے نے کہا ہاں جی۔میں نے پوچھا یہ آکاش گھنگرو کیا ہوتا ہے بڑا پرمیت بولا۔یہ بکائیں کے پیڑ میں جو دانے ہوتے ہیں وہ ہوتے ہیں ہاضمے شازمے کے لیے ہمارا خاندانی نسخہ ہے۔وہ کوئی چھ سات مہینے وہاں رہے، میں روزانہ ان سے ملتا بات چیت کرتا تھا اور یہ معلومات حاصل ہوئیں کہ وہ خاندانی حکیم ہیں اور وہی نسخے استعمال کررہے ہیں جو ان کے خاندان میں کئی پیڑیوں سے مروج ہیں۔

صرف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے

ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں

یہ خاندانی سلسلہ تو ہمارے ہاں بھی رائج ہے لیکن وہاں ’’سرداروں‘‘میں’’ خاندانی حکیم‘‘ ہوتے ہیں اور یہاں’’سرکاروں‘‘ میں ’’خاندانی لیڈر‘‘ ہوتے ہیں بلکہ اگر ان کو جمہوری خاندان کہا جائے تو بہتر ہوگا بطرز حکیمی خاندان۔جو دن رات جمہوریت جمہوریت الاپتے ہیں بلکہ جمہوریت ان کا تکیہ کلام بن گیا۔لیکن اپنے گھروں کے دروازوں پر سخت پہرے لگائے ہوتے ہیں کہ سب کچھ اندر آئے کتے بلیاں، مرغا مرغیاں، چیل کوے لیکن جمہوریت کو قریب بھی پٹخنے نہ دیا جائے کہ یہاں صرف ابن ابن ابن کا سلسلہ چل رہا ہے۔

قائد عوام فخر ایشیا کے خاندان کی بھی جمہوریت کی چوتھی پشت چل رہی ہے، اے این پی کی بھی ماشااللہ چوتھی پشت آن ائیر ہوگئی ہے، مولانا کی پارٹی میں بھی لیکن یہاں مولانا خود ہی کئی پشتوں کے برابر ہیں۔اور مسلم لیگ تو ہے ہی مدرخاندانی پارٹی، گجرات میں ابھی صرف تین پشت ہوئے ہیں اور شریف خاندان میں تیسری پشت آن ائیر ہوچکی ہے، بانی تو ابھی باقی ہے یعنی

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا؟

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟

لیکن ان کی پشتیں بھی برطانیہ میں تیار ہورہی ہیں، بانی ابھی اس خاندان کی بنیاد کے لیے پس منظر تیار کررہے ہیں۔ایسے میں بخدا اپنے شیخ رشید کے لیے دل بہت کڑھتا ہے اور قبرستانوں کا مشہور شعر ذہن میں آجاتا ہے

’’حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھاگئے‘‘

اور آج کل تو ان پر بہت ترس آتا ہے کہ ان کے بیانات کو بھی وہ مقام نہیں مل رہا ہے جو ملنا چاہیے اور جن کے لیے وہ چاردانگ عالم میں مشہور ہیں کیونکہ جس پارٹی سے انھوں نے امیدیں وابستہ کی تھیں وہاں’’بیانات‘‘ کے لیے خصوصی رکھے جانے لگے جو سنگل کالم سے سہ کالمی اور چارکالمی ہوگئے ہیں، ٹوکیو میں زلزلے کی طرح یا آج موسم ابرآلود رہے گا۔کی طرح ؎

رہتے تھے کبھی جن کے دل میں جان سے بھی پیاروں کی طرح

بیٹھے ہیں ان کے کوچے میں ہم آج گناہ گاروں کی طرح

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: خاندانی حکیم ہیں ہوتے ہیں ہیں اور کی طرح کے لیے

پڑھیں:

غیرملکی خواتین کو بلیک میل کرنے والا ملزم افغانستان فرار ہوتے ہوئے گرفتار

 نیشنل سائبر کرائم ایجنسی  نے ایک اہم کارروائی کے دوران افغانستان فرار ہونے کی کوشش کرنے والے ملزم کو اپر دیر سے گرفتار کر لیا، جو غیرملکی خواتین کو سوشل میڈیا کے ذریعے ہراساں اور بلیک میل کرنے میں ملوث تھا۔
ملزم مصطفیٰ خان سوشل میڈیا پر مختلف طریقوں سے خواتین، خاص طور پر عراقی خواتین سے رابطہ کرتا، ان سے دوستی بڑھاتا اور شادی کا جھانسہ دے کر ویڈیو کالز پر ان کی تصاویر اور اسکرین شاٹس حاصل کرتا تھا۔ ان تصاویر کو وہ بعد میں بلیک میلنگ اور ہراسانی کے لیے استعمال کرتا۔
عراقی حکومت کی خصوصی درخواست پر کارروائی
نجی ٹی وی کے مطابق عراقی وزارتِ خارجہ نے پاکستان کی نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کو ایک خصوصی مراسلہ بھیجا، جس میں مذکورہ ملزم کی سرگرمیوں اور متاثرہ خواتین کے حوالے سے تفصیلات فراہم کی گئیں۔ اس مراسلے کے بعد NCCIA پشاور سرکل نے فوری ردعمل دیتے ہوئے اپر دیر میں ایک کامیاب کارروائی کی اور ملزم کو گرفتار کر لیا۔

ملزم کی سنگین حرکات
تحقیقات کے مطابق مصطفیٰ خان نے ایک عراقی خاندان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو ہیک کیا۔
اس نے ان کے ذاتی ڈیٹا تک رسائی حاصل کی اور رقوم بٹورنے کے لیے ڈیٹا لیک کرنے کی دھمکیاں دیں۔
ملزم نے ایک کمسن بچی کے نام سے جعلی اکاؤنٹ بنا کر کچھ حساس معلومات سوشل میڈیا پر بھی جاری کیں، جس سے متاثرہ خاندان کو شدید ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔
افغان سرحد سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر گرفتاری
مصطفیٰ خان کو جس مقام سے گرفتار کیا گیا، وہ افغان سرحد سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ اگر گرفتاری میں تاخیر ہوتی تو ملزم ممکنہ طور پر سرحد پار کر کے فرار ہو جاتا۔
 سائبر کرائم ایجنسی کی پیشہ ورانہ کامیابی
نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کی یہ بروقت کارروائی نہ صرف پاکستان میں قانون کی عملداری کا مظہر ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک مثبت پیغام ہے کہ پاکستان ایسے جرائم پر خاموش نہیں بیٹھے گا۔
مزید یہ کہ یہ واقعہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال اور آن لائن ہراسانی جیسے جرائم کے خلاف ایک مثالی کارروائی کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔

Post Views: 1

متعلقہ مضامین

  • ڈرگ کورٹ نے بغیرلائسنس ادویات بیچنے کے الزام میں حکیم شہزادکو گرفتار کرنے کا حکم دیدیا
  • بغیر لائسنس دوائیں بیچنے کا الزام، حکیم شہزاد گرفتاری کی زد میں آگئے
  • غیرملکی خواتین کو بلیک میل کرنے والا ملزم افغانستان فرار ہوتے ہوئے گرفتار
  • یحییٰ السنوار قبر سے اپنے خواب پورے ہوتے دیکھ رہے ہیں، صیہونی تجزیہ کار
  • جرمنی میں زندگی کتنی محفوظ ہے؟
  • آبِ حیات
  • بڑھتی عمر میں طلاق: بالغ بچوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟